جن کے کارن

پاکستان تحریک انصاف میں شامل لوگ سمجھ لیں، یہاں حکمرانی نہیں چلے گی

یا قرض لے لو یا آدھی کھا لو۔ قرض کی تو اب گنجائش نہیں رہی۔ اب تو بھیک کے کشکول کو توڑ کر آدھی روٹی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ ملک بچانا ہے اور ملک وہی بچائیں گے جن کا ملک ہے۔ یہ امیر کبیر زمینوں والے، جاگیروں والے، کارخانوں والے ملک نہیں بچائیں گے، اگر انھیں ملک عزیز ہوتا تو یہ قرضے کیوں لیتے۔ ان لٹیروں نے قرض لے کر ملک داؤ پر لگا دیا اور بیرون ملک اپنی جائیدادیں بنا لیں، باہر کے بینکوں میں لوٹا ہوا پیسہ رکھا ہوا ہے۔ یہ ملک کو تباہی کے آخر تک پہنچانے والے، اتنے بے حس اور ظالم ہیں، سنگدل ہیں کہ یہ ادھ موئے ملک کی آخری سانسوں کی بھی پرواہ نہیں کر رہے، اور اپنی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بہت سے ڈاکو، چور لٹیرے، موجودہ حکومت میں بھی گھس آئے ہیں۔ منشا بم اور اس کے چار بیٹے لاہور کا بہت بڑا قبضہ گروپ ہے۔ جیسے ہی یہ نام سامنے آیا وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز ہی جوہر ٹاؤن جیسی سونا زمین جو ''بم'' کی بنی ہوئی بڑی مارکیٹ کو بلڈوزر کے ذریعے زمین بوس کر دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ''بم'' اور اس کے چار بیٹوں ''راکٹ'' کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے ہیں۔ ان ''بم'' اور ''راکٹوں'' کی تصویریں عمران خان کے ساتھ بیٹھے دکھائی جا رہی ہیں۔ ان تصاویر کا کوئی مطلب نہیں، عمران خان عام سا انسان ہے، اسے غیب کا علم نہیں۔ تحریک انصاف میں بہت سے ظالم، چور لٹیرے گھس آئے ہیں۔ جیسے جیسے ان ظالموں لٹیروں کا اصل کردار سامنے آ رہا ہے، یہ اپنے انجام کو پہنچتے رہیں گے۔ ڈاکٹر عمران شاہ نے ایک شہری پر ظلم کیا، اس کو اس کی سزا دی گئی، اسلام الدین شیخ کا بیٹا اپنے دوستوں سمیت کلفٹن کراچی میں پولیس کانسٹیبل کو زدوکوب کرنے کے جرم میں پکڑا گیا، اس کے دوستوں سمیت دہشت گردی کی دفعات پر مشتمل ایف آئی آر درج ہو چکی۔

لاہور میں محمودالرشید کا بیٹا دوستوں سمیت رنگ رلیاں مناتا پکڑا گیا، اس واقعے کی ایف آئی آر بھی کٹ چکی۔ حیدرآباد میں تحریک انصاف کا علی ہنگورو پولیس تھانے میں رعب اور دبدبے کا مظاہرہ کرتا ہوا پایا گیا۔ تحریک انصاف سندھ کے صدر نے ہنگورو کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے اسے معطل کر دیا ہے۔ بابر اعوان کو نیب نے بلایا تو عمران خان نے اپنے وزیر قانون سے استعفیٰ لے لیا، اگر تحریک انصاف میں غلط لوگ گھس آئے ہیں تو یہ بچ نہیں پائیں گے۔ جب عمران خان محل نما وزیراعظم ہاؤس کو چھوڑ کر چھوٹے سے گھر میں رہ رہا ہے، صرف دو گاڑیاں اس کے زیر استعمال ہیں، دو نوکر ہیں، تمام گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس عوام کے کام میں، مصرف میں لائے جائیں گے، پھر بھلا کون انسان کا بچہ بن کر نہیں چلے گا۔

پاکستان تحریک انصاف میں شامل لوگ سمجھ لیں، یہاں حکمرانی نہیں چلے گی، یہاں عوام کا خادم بن کر کام کرنا پڑے گا۔ یہ محمودالرشید کے بیٹے ٹائپ منہ زور نوجوان اپنی اصلاح کر لیں۔ اب وزیروں، مشیروں، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے رعب دبدبے نہیں چلیں گے۔ وہ زمانے لد گئے۔ اب تبدیلی آ چکی ہے، اگر کسی ''لاڈلے'' کو تبدیلی کی خبر نہیں ملی، تو وہ اپنی بے خبری کی بہت بڑی سزا کا حق دار ٹھہرایا جائے گا۔

ذرا سوچو ملک کس حال کو پہنچ چکا ہے کہ عمران خان کو گیس مہنگی کرنا پڑی، یہ مہنگی گیس اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی برداشت کر کے عوام کو ملک بچانے کی خاطر اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ خصوصاً مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس عوام کو اپنی زندگیوں میں سادگی لانا پڑے گی۔ اور عمران خان کو ظالموں، لٹیروں کے گرد شکنجہ مزید سخت کرنا ہو گا۔ ان ظالموں لٹیروں سے غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس لینا ہو گی۔ حکومت جتنا ظالموں لٹیروں کے خلاف اقدامات اٹھائے گی، غریب عوام خوشی خوشی مہنگائی برداشت کرتے ہوئے ایک وقت کھانا کھانے لگیں گے۔ ان ظالموں لٹیروں نے چاروں طرف سے گھیر کر غریبوں کو لوٹا ہے۔ ان کا خون چوسا ہے، غریبوں کی عزتیں لوٹی ہیں۔ یہ ظالم، کالے بگے، چور لٹیرے مزید کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔

عمران خان نے سہمے ہوئے عوام کو اذن کلام دے کر جہاں پہنچا دیا ہے وہاں سے عوام کی واپسی ممکن نہیں، اب تو ''مرجاؤ'' یا ''مار دو'' والی صورتحال ہے، اب تو کچھ بچا ہی نہیں۔ ہمارا سب کچھ یہ ڈاکو، لٹیرے لوٹ کر دبئی، لندن اور دوسرے ملکوں میں لے گئے ہیں۔ اب ان سے کسی ''ڈیل'' کی گنجائش باقی نہیں رہی اور نہ ہی ان ملک دشمنوں کو کسی قسم کی کوئی ''ڈھیل'' دینا ہے۔ یہ ظالم ہیں، انھوں نے مظلوموں کا حق مارا ہے۔ یہ ظالم و مظلوم کی جنگ ہے اور اسے آخری انجام تک جانا ہے، اب ظالم نہیں بچیں گے اور ظالموں کے حاشیہ بردار بھی نہیں رہیں گے۔ ظلم اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا، بقول فیضؔ


''اور کیا دیکھنے کو باقی ہے''

سبھی طرح کے ظلم تو ہو چکے، اب اور کیا رہ گیا ہے اور ظلم کی انتہا سے آگے ''انقلاب'' ہوتا ہے۔ ابھی تو دیکھتے جاؤ ''آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا'' ابھی تو بڑے بڑے کام باقی ہیں۔ سات لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں جب کہ یہ تعداد کم ازکم ستر لاکھ ہونا چاہیے تھی۔ بڑے کام ہونا ہیں۔

دنیا گواہ ہے، جن ملکوں کی قوموں نے خود کو کھڑا کیا ہے، انھوں نے اپنے بل بوتے پر کامیابی حاصل کی ہے، جالبؔ کہتا ہے:

بھیک سے ملک بھی چلے ہیں کبھی

زندہ قوموں کا یہ شعار نہیں

ایک منزل آتی ہے، ایک مقام آتا ہے کہ جب قومیں زندہ شعار اختیار کر لیتی ہیں، یقیناً وہ منزل، وہ مقام آ چکا ہے۔
Load Next Story