سندھ کا مستقبل

عجب اتفاق ہے کہ جس دن میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا،اسی روزمتحدہ قومی موومنٹ کے3 کارکنوں کوقتل کردیاگیا۔

muqtidakhan@hotmail.com

عجب اتفاق ہے کہ جس دن میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا، اسی روز متحدہ قومی موومنٹ کے تین کارکنوں کو قتل کردیا گیا۔ یوںجمعرات کو ایک طرف ملک کے کچھ حصوں میں اقتدار کی منتقلی کا جشن منایاجا رہا تھا،جب کہ دوسری طرف سندھ کے شہر سوگ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ایسا محسوس ہورہا ہے،جیسے کوئی نادیدہ قوت دانستہ سندھ اور وفاق کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرکے حالات کوایک بار پھر1992 کی طرف لے کر جانا چاہتی ہے۔اس حکمت عملی کے کیا نتائج نکلیں گے ؟یہ تو وقت بتائے گا،لیکن اس پورے عمل کانقصان سندھ کو پہنچ رہاہے ۔

ماضی کی آمرانہ حکومتوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک غلط تصور(Myth)قائم کررکھا ہے کہ سندھ کے مستقل باسیوں کاایک دوسرے کے قریب آنا سیکیورٹی رسک ہے۔لہذا انھیںمتصادم رکھنا قومی سلامتی اور صوبے پر وفاق کے کنٹرول کے لیے ضروری ہے۔ ان حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سندھ میں شہری اور دیہی آبادیوں کی نمایندگی کرنے والی سیاسی جماعتیں اگر کسی مرحلے پر صوبائی حکومت میں شراکت داربن بھی جائیں،تو ان کے درمیان مکمل مفاہمت اور ہم آہنگی پیدا نہ ہونے پائے۔جس کا ثبوت گزشتہ مخلوط حکومت تھی، جس میںپیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی شراکت دار تھیں۔لیکن پانچ برسوں کے دوران وہ دست وگریباں رہیں۔

اگر کسی مسئلے پر ان کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونے کاامکان پیدا ہونے لگا تو بعض بیرونی عوامل کے ذریعے اس اتفاق رائے کو سبوتاژ کرانے کی کوشش کی گئی۔جس کی سب سے واضح مثال مقامی حکومتی نظام ہے،جس کے نفاذ میں اول تو خود پیپلز پارٹی غیر سنجیدہ رہی۔لیکن ایک مرحلے پرجب وہ رضامند ہوئی تو بعض دیگرسیاسی قوتوں کے ذریعے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔مقصد صرف ایک تھا کہ شہری اور دیہی آبادی کی نمایندگی کرنے والی جماعتوںکوایکPageپرنہ آنے دیاجائے۔ سندھ کے اردو اور سندھی بولنے والے دانشور اس کھیل کے مقاصد کو سمجھنے کے باوجود بعض مصلحتوں کے باعث اس کے خلاف مشترکہ آواز اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔

نئے انتخابات کے بعدسندھ میںایک بار پھر منقسم مینڈیٹ آیا ہے۔سندھ میں پیپلزپارٹی جب کہ وفاق میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت قائم ہوئی ہے۔لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ صوبے اور وفاق کی حکومت سازی میں ایم کیوایم کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس طرح وفاق اور صوبے میں اربن سندھ کی کوئی نمایندگی نہیں ہے۔ جمہوری معاشروں میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ایم کیو ایم خود بھی وفاق اور صوبے میں اپوزیشن کا کردار اداکرنے پر آمادہ نظر آرہی ہے۔مگر اس کے باوجود سندھ میںبدامنی کی نئی لہر کا پیدا ہونا،بہت سے سوالات کو جنم دے رہاہے۔اول،کیا پیپلز پارٹی اس طرح دبائو ڈال کر ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت پر مجبور کررہی ہے؟ دوئم، کیا بعض ریاستی ادارے 1992 جیسے آپریشن کے لیے ماحول تیار کررہے ہیں؟سوئم،کیا کچھ بیرونی قوتیں کراچی کو مسلسل بدامنی کا شکار رکھ کر اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟

پہلے سوال میں زیادہ وزن نظر نہیں آرہا۔جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، تو اس میں کسی حد تک وزن محسوس ہورہا ہے۔ کیونکہ اسٹبلشمنٹ کے ایک مخصوص حلقے کے علاوہ بعض کاروباری حلقے بھی کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاسی قوت کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اورکراچی کو براہ راست وفاق کے زیر اثر لانے کے لیے کئی دہائیوں سے سرگرمِ عمل ہیں،تاکہ کراچی کی بندرگاہ پران کا براہ راست کنٹرول قائم ہوجائے۔حالانکہ اس وقت بھی سندھ کی دونوں بندرگاہیں وفاقی کے زیراثرہی ہیں۔ تیسرا سوال بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے،کیونکہ خطے کی مخصوص صورتحال کے تناظر میںبعض عالمی قوتوں کے لیے اس قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال پاکستان کو دبائو میں رکھنے کے حوالے سے خاصا کارآمد ثابت ہوسکتاہے۔درج بالاسوالات اور ان کے تصور کردہ جوابات کی روشنی میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل ممکن ہے۔


اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اردو بولنے والی آبادی اب سندھ کی مستقل شہری ہے۔ اس کے علاوہ وہ پنجابی اور پختون جو مستقلاً سندھ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں آباد ہیں اور ان کا Stakeسندھ کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے،انھیں بھی سندھ کا مستقل رہائشی تصور کرنا چاہیے۔دوئم شہری اور دیہی سندھ کی لسانی بنیادوں پر تقسیم کو اب ختم ہوجانا چاہیے۔سوئم، اردو بولنے والی آبادی کی نمایندہ تنظیم کو سندھ کے قومی مسائل کا فہم وادراک کرتے ہوئے ان کے حل کی جدوجہد میں سندھی عوام کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے۔چہارم، سندھی اور اردو بولنے والوں کو اپنے اندرونی اختلافات صوبے کے اندر رہتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور وفاق کو ان معاملات میں گھسیٹے سے گریز کرنا چاہیے۔ پنجم، اردو اور سندھی بولنے والے دانشورسندھ کے بہتر مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل پر توجہ دیں اور سیاسی جماعتوں پر اس معاہدے کے عمل درآمد کے لیے دبائو ڈالیں ۔ اس عمل میں مستقلاً آبادپنجابیوں اور پختونوں کو بھی شامل کیاجائے۔

دوسرے ایک ایسے مقامی حکومتی نظام کی تشکیل پر توجہ دی جائے ،جو معاشرے کے تمام طبقات کے لیے قابل قبول ہواور جس میں اقتدارواختیار حقیقی معنی میں نچلی ترین سطح تک منتقل ہونے کا امکان ہو۔اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کی بااختیاریت کو یقینی بنایاہے،اب اس عمل کو مزید نچلی سطح تک پہنچانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔یوں ترقیاتی منصوبہ سازی میںعوام کی براہ راست شرکت جمہوری عمل کو مزید تقویت پہنچانے کا باعث بنے گی۔یہ عمل محض بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان پر بیوروکریسی کے ذریعے صوبائی حکومت کے تسلط سے عبارت نہ ہو، بلکہ ضلع کی سطح پر بھی صوبائی اسمبلی کی طرح پر منتخب اسمبلی اور حکومت قائم ہو، جوقومی اور صوبائی حکومت کی طرح اپنے مخصوص دائرہ کار میں آزادانہ کام کرنے کی مجاز ہو۔جس کے نتیجے میں رہے سہے قومیتی،لسانی اور گروہی اختلافات کا خاتمہ ممکن ہے۔

آج کی اس تبدیل شدہ دنیا میںاس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے فروغ نے فکری کثرتیت کے تصور کوفروغ دیا ہے،اس لیے کسی ایک قوم یا لسانی اکائی کی کسی دوسری قوم یا لسانی اکائی پر بالادستی کا تصور ممکن نہیں رہاہے۔ نتیجتاً مختلف عقائد، نظریات ،نسلی ولسانی شناخت رکھنے والے ہر فرد کو اپنے عقائد، ثقافتی اقدار اور لسانی شناخت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق حاصل ہوا ہے۔اس لیے کسی علاقے، خطے یا زمین کے کسی ٹکڑے پرکسی مخصوص نظریہ، نسلی یا لسانی گروہ کی جابرانہ بالادستی کا تصور تیزی کے ساتھ متروک ہورہاہے۔

لہٰذا وہ تمام معاشرے جن پرقبائلی اور جاگیرادارانہ طرز حیات اور آمریت اور آمرانہ اندازفکر کے نقوش اگر باقی رہ گئے ہوں،تو یہ اہل دانش کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ انھیں اس طرز فکر یاmindset سے نکلنے کی راہ دکھائیںاورایک دوسرے کے لیے قبولیت کے تصور کو اجاگر کریں ۔اس تناظر میںمختلف قومیتوں اور نسلی ولسانی اکائیوں کے لیے اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے نئی عمرانی معاہدوں کی ضرورت میں اضافہ ہواہے،جس کی تیاری میں اہل دانش کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔اس عمل میں جس قدر تاخیر ہوگی مسائل اتنی ہی پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کے غلط تصورات سے جان چھڑائی جائے اور معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان مثبت اور دیرپا ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔اس سلسلے میں پورے ملک بالخصوص سندھ کے دانشوروں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صوبے کی مختلف لسانی اکائیوں اور طبقات کوایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ایک نیا عمرانی معاہدہ ترتیب دیںاور سیاسی جماعتوں پر عملدرآمد کے لیے دبائو ڈالیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی ضد،ہٹ دھرمی اور انا پرستی کے خول سے باہر نکل کر تبدیل ہوتی دنیا کے حقائق کو سمجھنے کی کوشش اور صوبے کے وسیع تر مفاد میں ایسی پالیسیوں سے گریز کرناہوگا جو عوام کے مختلف طبقات کے درمیان پیدا شدہ خلیج کو کم کرنے کے بجائے مزید گہراکرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سندھ میںپائیدار امن صرف اہل سندھ کی ضرورت نہیں، بلکہ پورے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔
Load Next Story