آمدن اور اخراجات میں توازن کیلیے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ
بجٹ کو عوام دوست بنانے کی کوشش،سب سے زیادہ توجہ توانائی بحران کے حل پردی جائیگی.
وفاقی بجٹ 2013-14میں ٹیکس نیٹ بڑھانے، غیرترقیاتی اخراجات کم کرتے ہوئے آمدن اور اخراجات کو متوازن کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
نومنتخب حکومت کے سیاسی اور انتخابی منشور کی روشنی میں آنے والے وفاقی بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ توانائی کے بحران کے حل پر دی جائیگی جس کے لیے توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متوقع ہیں جن کا اعلان بجٹ تقریر میں کیا جائے گا۔ بجٹ میں مقبول عوامی اعلانات کے ذریعے بجٹ کو عوام دوست بنانے کی کوشش کی جائیگی جس کے لیے بڑے انفرااسٹرکچر منصوبوں کا اعلان کیا جائے گا۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق بجٹ میں مالیاتی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 5.6 فیصد تک مقرر کیا جائے گا جو مالی سال 2012-13کے لیے 7.6فیصد رکھا گیا تھا۔ مالی خسارہ کم کرنے کے لیے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ اور مختلف شعبوں میں دی جانے والی براہ راست اور بالواسطہ سبسڈیز بھی ختم یا محدود کردی جائیں گی۔
آئندہ بجٹ کا تخمینہ 3.5ٹریلین روپے کی سطح کے آس پاس مقرر ہوگا جو مالی سال 2012-13کے لیے 3.1ٹریلین روپے رکھا گیا تھا۔ دفاعی بجٹ اور بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بالترتیب جی ڈی پی کے 4فیصد اور ایک 2فیصد رقم مختص کی جائیگی۔ سبسڈیز کی مالیت جی ڈی پی کے 2فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کیے جانے کی توقع ہے اور سبسڈیز کے لیے مختص رقوم میں 100ارب روپے سے زائد کی کٹوتی کیے جانے کی توقع ہے۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے بجٹ میں 15فیصد تک اضافہ کیا جائے گا جس میں سے 50فیصد وسائل صوبوںکو مہیا کرنا ہوں گے۔ وفاق کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 3.6ٹریلین روپے کے آس پاس ہوگا جس میں سے ٹیکسوں سے 2.8ٹریلین اور نان ٹیکس ذرائع سے 800 ارب روپے کی وصولیاں شامل ہیں۔
نان ٹیکس آمدن میں تھری جی لائسنس کی نیلامی سے ہونے والی آمدن سرفہرست ہوگی، ایف بی آر سمیت تمام ٹیکس مشینری کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے متعدد اقدامات کیے جائیں گے، ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے متعدد شعبوں اور مصنوعات پر عائد ٹیکس ریٹ میں اضافہ متوقع ہے، جس میں سیلز ٹیکس کی مد میں ایک فیصد اضافہ اہم قدم ہوگا، ان آرگنائزڈ سیکٹر اور نان رجسٹرڈ خریداروں اور سپلائرز سے سیلز ٹیکس کی وصولی کے اقدامات کیے جائیں گے۔ آئندہ بجٹ میں لگژری برقی مصنوعات بالخصوص اسپلٹ ایئر کنڈیشنز، لارج اسکرین ایل سی ڈیز پر ٹیکس اور ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز بھی بجٹ میں شامل ہے، پانچ بڑی صنعتوں کے لیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرکے ریٹرنز فائل کرکے سیلز ٹیکس ریفنڈ کا نظام نئے بجٹ میں بحال کیا جاسکتا ہے۔ چینی پر سیلز ٹیکس کی 50فیصد چھوٹ ختم کیے جانے کی توقع ہے، اسی طرح بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات سے بنائے گئے اثاثوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
کارپوریٹ سیکٹر کے ذریعے درآمد کی جانے والی اشیا پر ودہولڈنگ ایک فیصد بڑھا کر 6فیصد اور ان رجسٹرڈ پرسنز پر 6.5فیصد کیے جانے کی توقع ہے۔ اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر کی ایکسپورٹ پر ودہولڈنگ 1فیصد سے بڑھا کر 1.5فیصد اور ان رجسٹرڈ پرسنز پر 2فیصد کیے جانے کی توقع ہے۔ بینکوں سے رقوم نکلوانے پر عائد ودہولڈنگ کی شرح بھی 0.2فیصد سے بڑھا کر 0.3فیصد اور 0.4فیصد کیے جانے کی توقع ہے۔ ایک ہزار یونٹ ماہانہ سے زائد بجلی خرچ کرنے والوں پر 10فیصد ودہولڈنگ، نئی کاروں کی خریداری پر 5فیصد ودہولڈنگ، سیمنٹ اور سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ ہوگا۔ تاجر برادری کی جانب سے ٹرن اور ٹیکس میں کمی کے لیے دی جانے والی تجویز مسترد کرتے ہوئے ٹرن اور ٹیکس ایک فیصد کی سطح پر برقرار رکھے جانے کی توقع ہے۔وفاقی بجٹ 2013-13میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 4.5فیصد رکھا جائے گا۔
بجٹ میں افراط زر کا ہدف 8سے 10فیصد تک مقرر ہوگا، مالی سال 2012-13کے لیے افراط زر کا ہدف 7.5فیصد رکھا گیا تھا جو حاصل کرلیا گیا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد کے آس پاس مقرر کیے جانے کی توقع ہے جو مالی سال 2012-13کے لیے 0.9فیصد تھا، کرنٹ اکائونٹ خسارے کو سعودی عرب سے ڈیفر پے منٹ پر خام تیل کا حصول اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم کے ذریعے قابو میں رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی جائیگی۔
مالی سال 2013-14 کے دوران برآمدات میں اضافہ توانائی کے بحران کی شدت میں کمی سے مشروط ہوگا تاہم برآمدات کی مالیت 26ارب ڈالر سے بلند رہنے کی توقع کرتے ہوئے اہداف مقرر کیے جائیں گے، درآمدی بل 41سے 42ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے، اس طرح مالی سال 2013-14کے دوران تجارتی خسارہ 15سے 16ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے بیرون ملک سے ترسیلات کی آمد بڑھ کر 15ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے تاہم ترسیلات یا ترسیلات سے بنائے گئے اثاثوں پر کسی قسم کا ٹیکس ترسیلات کی آمد میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ وفاقی بجٹ 2013-14کے اقدامات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو کم ہوگا فارن انفلوز بڑھنے، ترسیلا ت میں اضافے ، بیرونی سرمایہ کاری بڑھنے اور تھری جی لائسنس سے ہونے والی آمدن کے سبب روپے کی قدر بھی مستحکم رہے گی۔
نومنتخب حکومت کے سیاسی اور انتخابی منشور کی روشنی میں آنے والے وفاقی بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ توانائی کے بحران کے حل پر دی جائیگی جس کے لیے توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متوقع ہیں جن کا اعلان بجٹ تقریر میں کیا جائے گا۔ بجٹ میں مقبول عوامی اعلانات کے ذریعے بجٹ کو عوام دوست بنانے کی کوشش کی جائیگی جس کے لیے بڑے انفرااسٹرکچر منصوبوں کا اعلان کیا جائے گا۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق بجٹ میں مالیاتی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 5.6 فیصد تک مقرر کیا جائے گا جو مالی سال 2012-13کے لیے 7.6فیصد رکھا گیا تھا۔ مالی خسارہ کم کرنے کے لیے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ اور مختلف شعبوں میں دی جانے والی براہ راست اور بالواسطہ سبسڈیز بھی ختم یا محدود کردی جائیں گی۔
آئندہ بجٹ کا تخمینہ 3.5ٹریلین روپے کی سطح کے آس پاس مقرر ہوگا جو مالی سال 2012-13کے لیے 3.1ٹریلین روپے رکھا گیا تھا۔ دفاعی بجٹ اور بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بالترتیب جی ڈی پی کے 4فیصد اور ایک 2فیصد رقم مختص کی جائیگی۔ سبسڈیز کی مالیت جی ڈی پی کے 2فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کیے جانے کی توقع ہے اور سبسڈیز کے لیے مختص رقوم میں 100ارب روپے سے زائد کی کٹوتی کیے جانے کی توقع ہے۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے بجٹ میں 15فیصد تک اضافہ کیا جائے گا جس میں سے 50فیصد وسائل صوبوںکو مہیا کرنا ہوں گے۔ وفاق کی مجموعی آمدن کا تخمینہ 3.6ٹریلین روپے کے آس پاس ہوگا جس میں سے ٹیکسوں سے 2.8ٹریلین اور نان ٹیکس ذرائع سے 800 ارب روپے کی وصولیاں شامل ہیں۔
نان ٹیکس آمدن میں تھری جی لائسنس کی نیلامی سے ہونے والی آمدن سرفہرست ہوگی، ایف بی آر سمیت تمام ٹیکس مشینری کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے متعدد اقدامات کیے جائیں گے، ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے متعدد شعبوں اور مصنوعات پر عائد ٹیکس ریٹ میں اضافہ متوقع ہے، جس میں سیلز ٹیکس کی مد میں ایک فیصد اضافہ اہم قدم ہوگا، ان آرگنائزڈ سیکٹر اور نان رجسٹرڈ خریداروں اور سپلائرز سے سیلز ٹیکس کی وصولی کے اقدامات کیے جائیں گے۔ آئندہ بجٹ میں لگژری برقی مصنوعات بالخصوص اسپلٹ ایئر کنڈیشنز، لارج اسکرین ایل سی ڈیز پر ٹیکس اور ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز بھی بجٹ میں شامل ہے، پانچ بڑی صنعتوں کے لیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرکے ریٹرنز فائل کرکے سیلز ٹیکس ریفنڈ کا نظام نئے بجٹ میں بحال کیا جاسکتا ہے۔ چینی پر سیلز ٹیکس کی 50فیصد چھوٹ ختم کیے جانے کی توقع ہے، اسی طرح بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات سے بنائے گئے اثاثوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
کارپوریٹ سیکٹر کے ذریعے درآمد کی جانے والی اشیا پر ودہولڈنگ ایک فیصد بڑھا کر 6فیصد اور ان رجسٹرڈ پرسنز پر 6.5فیصد کیے جانے کی توقع ہے۔ اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر کی ایکسپورٹ پر ودہولڈنگ 1فیصد سے بڑھا کر 1.5فیصد اور ان رجسٹرڈ پرسنز پر 2فیصد کیے جانے کی توقع ہے۔ بینکوں سے رقوم نکلوانے پر عائد ودہولڈنگ کی شرح بھی 0.2فیصد سے بڑھا کر 0.3فیصد اور 0.4فیصد کیے جانے کی توقع ہے۔ ایک ہزار یونٹ ماہانہ سے زائد بجلی خرچ کرنے والوں پر 10فیصد ودہولڈنگ، نئی کاروں کی خریداری پر 5فیصد ودہولڈنگ، سیمنٹ اور سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ ہوگا۔ تاجر برادری کی جانب سے ٹرن اور ٹیکس میں کمی کے لیے دی جانے والی تجویز مسترد کرتے ہوئے ٹرن اور ٹیکس ایک فیصد کی سطح پر برقرار رکھے جانے کی توقع ہے۔وفاقی بجٹ 2013-13میں جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 4.5فیصد رکھا جائے گا۔
بجٹ میں افراط زر کا ہدف 8سے 10فیصد تک مقرر ہوگا، مالی سال 2012-13کے لیے افراط زر کا ہدف 7.5فیصد رکھا گیا تھا جو حاصل کرلیا گیا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد کے آس پاس مقرر کیے جانے کی توقع ہے جو مالی سال 2012-13کے لیے 0.9فیصد تھا، کرنٹ اکائونٹ خسارے کو سعودی عرب سے ڈیفر پے منٹ پر خام تیل کا حصول اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم کے ذریعے قابو میں رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی جائیگی۔
مالی سال 2013-14 کے دوران برآمدات میں اضافہ توانائی کے بحران کی شدت میں کمی سے مشروط ہوگا تاہم برآمدات کی مالیت 26ارب ڈالر سے بلند رہنے کی توقع کرتے ہوئے اہداف مقرر کیے جائیں گے، درآمدی بل 41سے 42ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے، اس طرح مالی سال 2013-14کے دوران تجارتی خسارہ 15سے 16ارب ڈالر تک رہنے کی توقع ہے بیرون ملک سے ترسیلات کی آمد بڑھ کر 15ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے تاہم ترسیلات یا ترسیلات سے بنائے گئے اثاثوں پر کسی قسم کا ٹیکس ترسیلات کی آمد میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ وفاقی بجٹ 2013-14کے اقدامات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو کم ہوگا فارن انفلوز بڑھنے، ترسیلا ت میں اضافے ، بیرونی سرمایہ کاری بڑھنے اور تھری جی لائسنس سے ہونے والی آمدن کے سبب روپے کی قدر بھی مستحکم رہے گی۔