آئی ایم ایف سے نیا قرض معیشت پر خودکش حملے کے مترادف ہوگا
9میں سے 7پروگرام ناکام رہے،قرضہ عوام پر نہیں،دہشتگردی کیخلاف جنگ پر خرچ ہوتا ہے.
اقتصادی ماہرین نے کہاہے کہ اگرعالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے نیا قرضہ لیاگیا تویہ معیشت پر خودکش حملے کے مترادف ہوگا، نئی حکومت کو شاہانہ اخراجات کم کر کے ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگانا ہوگا۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق صنعتی ترقی کو فروغ دیے بغیر بیروزگاری کا خاتمہ ممکن نہیں۔ موجودہ حکومت توانائی بحران کا پانچ سال تک بھی مستقل حل نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بجٹ سازی میں پارلیمنٹ کا کردار محض نمائشی ہوتا ہے اور بیوروکریسی کا تیار کردہ بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرکے چند روز میں رسمی منظوری لے لی جاتی ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکڑ شاہد حسن نے کہا کہ نئی حکومت کو اپنے منشور کے تحت ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لاگو کرنا ہوگا، یہ ایک سخت فیصلہ ہوگا لیکن بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے بعض مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹ ٹیکس اور منصفانہ نظام کے ذریعے 6500ارب روپے محصولات جمع کیے جاسکتے ہیں۔
19کروڑ کی آبادی میں صرف 15لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں۔ زراعت سمیت ہر قسم کی آمدن پر ٹیکس لگاکر کمزور معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ 39لاکھ ایسے افراد کا ریکارڈ قومی اداروں کے پاس موجود ہے جن کے پاس بے انتہا دولت ہے اور اس آمدن پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ آئی ایف ایم کے پچھلے 9میں سے 7پروگرام ناکام رہے اور اب ایک بار پھر آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ لینے کیلیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا قرضہ پاکستانی عوام پر نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر خرچ کیا جاتا ہے جس سے ملک میں معاشی ترقی اور استحکام نہیں آتا۔
انہوں نے موجودہ حکومت کو تجویز دی کہ چین کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کو وسعت دے کر سمندپار پاکستانیوں کو دولت وطن واپس لانے کیلیے ترغیبی اسکیموں کا اجرا کیا جائے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ عوام کو سہولت دینے کے لیے براہ راست اور بلواسطہ ٹیکس کے درمیان فرق کم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اسی فیصد وصولی بلواسطہ ٹیکسوں سے ہوتی ہے جو کہ صارفین ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اداروں کی نجکاری سے معیشت کو فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی قومی آمدن میں کوئی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ سبسڈی ختم کرکے اسٹیل مل، پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی نجکاری کے بجائے ان اداروں کی انتظامی حالت بہتر بنائی جائے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق صنعتی ترقی کو فروغ دیے بغیر بیروزگاری کا خاتمہ ممکن نہیں۔ موجودہ حکومت توانائی بحران کا پانچ سال تک بھی مستقل حل نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بجٹ سازی میں پارلیمنٹ کا کردار محض نمائشی ہوتا ہے اور بیوروکریسی کا تیار کردہ بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرکے چند روز میں رسمی منظوری لے لی جاتی ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکڑ شاہد حسن نے کہا کہ نئی حکومت کو اپنے منشور کے تحت ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لاگو کرنا ہوگا، یہ ایک سخت فیصلہ ہوگا لیکن بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے بعض مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹ ٹیکس اور منصفانہ نظام کے ذریعے 6500ارب روپے محصولات جمع کیے جاسکتے ہیں۔
19کروڑ کی آبادی میں صرف 15لاکھ ٹیکس دہندگان ہیں۔ زراعت سمیت ہر قسم کی آمدن پر ٹیکس لگاکر کمزور معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔ 39لاکھ ایسے افراد کا ریکارڈ قومی اداروں کے پاس موجود ہے جن کے پاس بے انتہا دولت ہے اور اس آمدن پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ آئی ایف ایم کے پچھلے 9میں سے 7پروگرام ناکام رہے اور اب ایک بار پھر آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ لینے کیلیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا قرضہ پاکستانی عوام پر نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر خرچ کیا جاتا ہے جس سے ملک میں معاشی ترقی اور استحکام نہیں آتا۔
انہوں نے موجودہ حکومت کو تجویز دی کہ چین کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ کو وسعت دے کر سمندپار پاکستانیوں کو دولت وطن واپس لانے کیلیے ترغیبی اسکیموں کا اجرا کیا جائے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ عوام کو سہولت دینے کے لیے براہ راست اور بلواسطہ ٹیکس کے درمیان فرق کم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اسی فیصد وصولی بلواسطہ ٹیکسوں سے ہوتی ہے جو کہ صارفین ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اداروں کی نجکاری سے معیشت کو فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی قومی آمدن میں کوئی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ سبسڈی ختم کرکے اسٹیل مل، پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی نجکاری کے بجائے ان اداروں کی انتظامی حالت بہتر بنائی جائے۔