نیک تمنائیں
عمران خان کی حکومت کا تمام تر دارومدار ان کی ذات کے ارد گرد ہی گھومتا ہے، عوام ان کی ٹیم کے ممبران کی طرف نہیں دیکھتے۔
فارسی کے شاعر عرفی نے کہا تھا کہ تم اتنے جوان مرد نہ بنو تم سراب کے پیچھے اس لیے نہیں دوڑے تھے کہ تم پیاسے نہیں تھے۔ شاعر موصوف تو یہ کہہ کر گزر گیا لیکن اپنے پیچھے آنے والے سیاستدانوں کے لیے ایک سوال چھوڑ گیا کہ تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں اقتدار تو مل گیا لیکن اب کہتے ہو کہ تمہیں اس کی آرزو نہیں تھی۔
کچھ ایسا ہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے جو اقتدار کے حصول کی خاطر کسی ان دیکھے صحرا میں سراب کے پیچھے بھاگتے چلے جاتے ہیں اور یہ سراب ان کو اپنے پیچھے بھگاتا رہتا ہے لیکن ایک وقت آجاتا ہے جب یہ سراب ایک حقیقت کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور پیاسے کو کنواں مل جاتا ہے، اس کنویں تک پہنچنے کے لیے ایک طویل اور صبر آزما سفر کرنا پڑتا ہے ۔کچھ ایسا ہی سفر اور صبر ہمارے موجودہ حکمران عمران خان نے کیاہے اور اس صبر کا میٹھا پھل ان کو اقتدار کی صورت میں مل گیا ہے ۔
عمران خان کی حکومت کا تمام تر دارومدار ان کی ذات کے ارد گرد ہی گھومتا ہے، عوام ان کی ٹیم کے ممبران کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ وہ عمران خان کی جانب دیکھ رہے ہیں اور اس کی سن رہے ہیں، ایسے ہی بغورسن رہے ہیں جیسے وہ ان کو اقتدار میں آنے سے پہلے سنا کرتے تھے۔ عوام کویہ غرض نہیں کہ ان کی حکومت کیا کر رہی ہے بلکہ وہ اس کے لیے اپنے حکمران اور لیڈر کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی بڑی باشعورقوم ہے ،آج کل کے جدید زمانے میں لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان نہیں رہا اور نہ ہی لوگ بے وقوف بننے کے لیے تیار ہوتے ہیں، اس لیے وہ ابھی دیکھ رہے ہیں اور حکومت کی جانب اس اطلاع کے منتظر ہیں کہ ان کی اپنی حکومت آگئی ہے ۔
یہ بات عرض کرتے کرتے قلم کا حلق سوکھ گیا ہے کہ مسائل تو حل ہوتے ہی رہیں گے، پہلے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار تو بنانا چاہیے، عوام کے ساتھ ہاتھ ملانا ہو گا، ان کے دکھوں کو اپنانا ہو گا، عوام کو یہ اطلاع دینی ہو گی کہ ان کی اپنی حکومت ان کے لیے کام کر رہی ہے ۔ حکومت جو بھی ہواور جیسی بھی ہو اور جس کسی کی بھی ہو، عوام نے اپنی فریاد تو اسی سے کرنی ہے۔ وہ اپنے مسئلوں اور مصیبتوں کو اس لیے موخر نہیں کر سکتے کہ کوئی حکومت ان کی حقیقی غم گسار نہیں ہے اس لیے وہ خاموش رہیں یا کوئی حکومت ان کی بات سننا گوارا کرتی ہے اس لیے وہ اس کے سامنے اپنے دکھوں کا اظہار کریں ۔ ان کو جب چوٹ لگے گی تو وہ ضرور چیخیں گے اور ایک مظلوم کی چیخ خدا کو بھی پسند ہے ۔''اللہ واویلے کو پسند نہیں کرتا مگر صرف اس بلند آواز اور فریاد کو جس پر ظلم کیا گیا ہو۔''
کئی کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف معمولی تعدادکو چھوڑ کر جن کا پیٹ بھرا ہے اور ذہن سیاسی و غیر سیاسی عیاشی کا طلبگار ہے، کسی پاکستانی کو کچھ معلوم او ر پرواہ نہیں کہ اس کی حکومت قانونی ہے یا غیر قانونی، دھاندلی زدہ ہے یا شفاف انتخابات کے بعد وجود میں آئی ہے،آئین کی کس دفعہ کے تحت اس کا جواز نہیں ہے اورکس کے تحت جائز ہے ۔ انھیں اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں کہ بیرونی دنیا میں ان کی حکومت کا کیا مقام ہے اور اس کے بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں، وہ صرف ایسی حکومت کو اپنی حکومت سمجھ سکتے ہیں جو ان کے فقر و فاقہ میں ان کی شریک ہو جس کے اپنے بچے بھی ان کے بچوں کی طرح بے روز گار ہوں جن کی اپنی بیٹیاں بھی جہیز کے انتظار میں سسک رہی ہوں اور جن کے اپنے بیمار بھی ان کے بیماروں کی طرح علاج کی تلاش میں بھٹک رہے ہوں ۔
عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ گورنر ہاؤسوں کو برقرار رکھا جائے اور گورنر اس میں قیام پذیر ہو یا ان کے رعب داب کو قائم رکھنے کے لیے عوام کو ہفتہ میں ایک بار ان کی جھلک دکھا دی جائے تو پھر ان کی بلا سے یہاں بوم بسے یا ہما رہے۔ سرخ بتی پر رک جانے کا نام ہی اگر حکومت تبدیلی کی علامت ہے تو پھر اس سے ان عوام کا کیا تعلق جن کے لیے یہ بتیاں ہی بے معنی ہیں اور وہ پیدل چل کر کسی بھی چوک سے گزر سکتے ہیں خواہ بتی سرخ ہو یا سبز۔ ایسی شعبدہ بازیاں یہ قوم بار بار دیکھ چکی ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ بھٹو صاحب کی عوامی حکومت کی آمد آمد کا زمانہ تھا کہ پنجاب کے ایک متوقع یا نامزدگورنر نے کہاکہ لوگوں کو تب پتہ چلے گا جب میںنے گورنر ہاؤس کے باہر ایک تمبو لگایا ہوا ہو گااور اس میں بیٹھ کر گورنری کر رہا ہوں گا ۔ حکومت ملنے پر یہ صاحب گورنر مقرر ہو گئے ۔ انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ گورنر ہاؤس لاہور کی چار دیواری پر خاردار تار لگوا دی اور مشہور یہ کیا گیا کہ اس میں بجلی چھوڑ دی گئی ہے تا کہ کوئی ناراض ''عوام''اس طرف دیکھنے کی بھی جرات بھی نہ کرے۔
عوام کی فلاح کے لیے بنایا گیا آئین عوام کے لیے چند اوراق کی ایک کتاب سے زیادہ کچھ نہیں ہے، ان کا آئین تو وہ ہے جو ان کو روٹی دیتا ہے جو ان کا بدن ڈھانپتا ہے جو ان کے سروں پر سایہ کرتا ہے ۔ اگر عمران خان عوام کو ان کی ایک غم گسار اور ہمدرد حکومت دے سکتے ہیں تو پھر ان کو بے فکر ہو جانا چاہیے اور کسی اپوزیشن وغیرہ کی پروا نہیں کرنی چاہیے ۔ اگر عوام کو تھانوں میں عزت اور عدالتوں میں انصاف مل سکتا ہے تو پھر یہ حکومت جس کی بھی ہو ان کو عزیز ہے اور ان کی اپنی حکومت ہے جس پر کسی اعتراض کا جواب وہ اس کی بھر پور حمایت کر کے دے سکتے ہیں لیکن اگر حکومت ان کے لیے اور ان کی نہیں ہے تو اس کے پاس کتنا ہی بھاری مینڈیٹ کیوں نہ ہو ان کرتوتوں پر پھٹکار بھیجی جا سکتی ہے۔
جو کچھ عرض کیا ہے، اس میں کوئی انکشاف ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہے جو پہلے سے کسی کو معلوم نہ ہو ۔ سب جانتے ہیں کہ عوام کیاچاہتے ہیں اور انھوں نے نئی حکومت کا کن توقعات اور امیدوں کے ساتھ استقبال کیا ہے، اب یہ ہمارے حکمرانوں کے اختیار میں ہے کہ وہ عوام تک اپنی آمد کی اطلاع کیسے پہنچاتے ہیں۔ ہمارے پاس تو حکمرانوں کے لیے نیک تمناؤں اور دعاؤں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کچھ ایسا ہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے جو اقتدار کے حصول کی خاطر کسی ان دیکھے صحرا میں سراب کے پیچھے بھاگتے چلے جاتے ہیں اور یہ سراب ان کو اپنے پیچھے بھگاتا رہتا ہے لیکن ایک وقت آجاتا ہے جب یہ سراب ایک حقیقت کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور پیاسے کو کنواں مل جاتا ہے، اس کنویں تک پہنچنے کے لیے ایک طویل اور صبر آزما سفر کرنا پڑتا ہے ۔کچھ ایسا ہی سفر اور صبر ہمارے موجودہ حکمران عمران خان نے کیاہے اور اس صبر کا میٹھا پھل ان کو اقتدار کی صورت میں مل گیا ہے ۔
عمران خان کی حکومت کا تمام تر دارومدار ان کی ذات کے ارد گرد ہی گھومتا ہے، عوام ان کی ٹیم کے ممبران کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ وہ عمران خان کی جانب دیکھ رہے ہیں اور اس کی سن رہے ہیں، ایسے ہی بغورسن رہے ہیں جیسے وہ ان کو اقتدار میں آنے سے پہلے سنا کرتے تھے۔ عوام کویہ غرض نہیں کہ ان کی حکومت کیا کر رہی ہے بلکہ وہ اس کے لیے اپنے حکمران اور لیڈر کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی بڑی باشعورقوم ہے ،آج کل کے جدید زمانے میں لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان نہیں رہا اور نہ ہی لوگ بے وقوف بننے کے لیے تیار ہوتے ہیں، اس لیے وہ ابھی دیکھ رہے ہیں اور حکومت کی جانب اس اطلاع کے منتظر ہیں کہ ان کی اپنی حکومت آگئی ہے ۔
یہ بات عرض کرتے کرتے قلم کا حلق سوکھ گیا ہے کہ مسائل تو حل ہوتے ہی رہیں گے، پہلے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار تو بنانا چاہیے، عوام کے ساتھ ہاتھ ملانا ہو گا، ان کے دکھوں کو اپنانا ہو گا، عوام کو یہ اطلاع دینی ہو گی کہ ان کی اپنی حکومت ان کے لیے کام کر رہی ہے ۔ حکومت جو بھی ہواور جیسی بھی ہو اور جس کسی کی بھی ہو، عوام نے اپنی فریاد تو اسی سے کرنی ہے۔ وہ اپنے مسئلوں اور مصیبتوں کو اس لیے موخر نہیں کر سکتے کہ کوئی حکومت ان کی حقیقی غم گسار نہیں ہے اس لیے وہ خاموش رہیں یا کوئی حکومت ان کی بات سننا گوارا کرتی ہے اس لیے وہ اس کے سامنے اپنے دکھوں کا اظہار کریں ۔ ان کو جب چوٹ لگے گی تو وہ ضرور چیخیں گے اور ایک مظلوم کی چیخ خدا کو بھی پسند ہے ۔''اللہ واویلے کو پسند نہیں کرتا مگر صرف اس بلند آواز اور فریاد کو جس پر ظلم کیا گیا ہو۔''
کئی کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف معمولی تعدادکو چھوڑ کر جن کا پیٹ بھرا ہے اور ذہن سیاسی و غیر سیاسی عیاشی کا طلبگار ہے، کسی پاکستانی کو کچھ معلوم او ر پرواہ نہیں کہ اس کی حکومت قانونی ہے یا غیر قانونی، دھاندلی زدہ ہے یا شفاف انتخابات کے بعد وجود میں آئی ہے،آئین کی کس دفعہ کے تحت اس کا جواز نہیں ہے اورکس کے تحت جائز ہے ۔ انھیں اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں کہ بیرونی دنیا میں ان کی حکومت کا کیا مقام ہے اور اس کے بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات کیسے ہیں، وہ صرف ایسی حکومت کو اپنی حکومت سمجھ سکتے ہیں جو ان کے فقر و فاقہ میں ان کی شریک ہو جس کے اپنے بچے بھی ان کے بچوں کی طرح بے روز گار ہوں جن کی اپنی بیٹیاں بھی جہیز کے انتظار میں سسک رہی ہوں اور جن کے اپنے بیمار بھی ان کے بیماروں کی طرح علاج کی تلاش میں بھٹک رہے ہوں ۔
عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ گورنر ہاؤسوں کو برقرار رکھا جائے اور گورنر اس میں قیام پذیر ہو یا ان کے رعب داب کو قائم رکھنے کے لیے عوام کو ہفتہ میں ایک بار ان کی جھلک دکھا دی جائے تو پھر ان کی بلا سے یہاں بوم بسے یا ہما رہے۔ سرخ بتی پر رک جانے کا نام ہی اگر حکومت تبدیلی کی علامت ہے تو پھر اس سے ان عوام کا کیا تعلق جن کے لیے یہ بتیاں ہی بے معنی ہیں اور وہ پیدل چل کر کسی بھی چوک سے گزر سکتے ہیں خواہ بتی سرخ ہو یا سبز۔ ایسی شعبدہ بازیاں یہ قوم بار بار دیکھ چکی ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ بھٹو صاحب کی عوامی حکومت کی آمد آمد کا زمانہ تھا کہ پنجاب کے ایک متوقع یا نامزدگورنر نے کہاکہ لوگوں کو تب پتہ چلے گا جب میںنے گورنر ہاؤس کے باہر ایک تمبو لگایا ہوا ہو گااور اس میں بیٹھ کر گورنری کر رہا ہوں گا ۔ حکومت ملنے پر یہ صاحب گورنر مقرر ہو گئے ۔ انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ گورنر ہاؤس لاہور کی چار دیواری پر خاردار تار لگوا دی اور مشہور یہ کیا گیا کہ اس میں بجلی چھوڑ دی گئی ہے تا کہ کوئی ناراض ''عوام''اس طرف دیکھنے کی بھی جرات بھی نہ کرے۔
عوام کی فلاح کے لیے بنایا گیا آئین عوام کے لیے چند اوراق کی ایک کتاب سے زیادہ کچھ نہیں ہے، ان کا آئین تو وہ ہے جو ان کو روٹی دیتا ہے جو ان کا بدن ڈھانپتا ہے جو ان کے سروں پر سایہ کرتا ہے ۔ اگر عمران خان عوام کو ان کی ایک غم گسار اور ہمدرد حکومت دے سکتے ہیں تو پھر ان کو بے فکر ہو جانا چاہیے اور کسی اپوزیشن وغیرہ کی پروا نہیں کرنی چاہیے ۔ اگر عوام کو تھانوں میں عزت اور عدالتوں میں انصاف مل سکتا ہے تو پھر یہ حکومت جس کی بھی ہو ان کو عزیز ہے اور ان کی اپنی حکومت ہے جس پر کسی اعتراض کا جواب وہ اس کی بھر پور حمایت کر کے دے سکتے ہیں لیکن اگر حکومت ان کے لیے اور ان کی نہیں ہے تو اس کے پاس کتنا ہی بھاری مینڈیٹ کیوں نہ ہو ان کرتوتوں پر پھٹکار بھیجی جا سکتی ہے۔
جو کچھ عرض کیا ہے، اس میں کوئی انکشاف ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہے جو پہلے سے کسی کو معلوم نہ ہو ۔ سب جانتے ہیں کہ عوام کیاچاہتے ہیں اور انھوں نے نئی حکومت کا کن توقعات اور امیدوں کے ساتھ استقبال کیا ہے، اب یہ ہمارے حکمرانوں کے اختیار میں ہے کہ وہ عوام تک اپنی آمد کی اطلاع کیسے پہنچاتے ہیں۔ ہمارے پاس تو حکمرانوں کے لیے نیک تمناؤں اور دعاؤں کے سوا کچھ نہیں ہے۔