شاہراہوں پر حکم رانی کرتی ڈرائیور

موٹر بائیک کے بعد خواتین نے ٹرک کا اسٹیئرنگ بھی سنبھال لیا۔

موٹر بائیک کے بعد خواتین نے ٹرک کا اسٹیئرنگ بھی سنبھال لیا۔ فوٹو: فائل

ہمارے معاشرے میں خواتین کی ڈرائیونگ کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اچھی ڈرائیور نہیں ہوتیں، بل کہ یہ گاڑیاں چلاتے ہوئے غلطیاں کرجاتی ہیں۔

اکثر حادثات میں خواتین کی بے پروائی اور غیر ذمے داری سے کی جانے والی ڈرائیونگ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں بہ حیثیت بہترین خاتون ڈرائیور اپنی منفرد پہچان بنانا خاصا کٹھن کام ہے، لیکن فی زمانہ پاکستانی خواتین کار، موٹرسائیکل، ٹرک غرض ہر سواری میں اپنی مخصوص پہچان بنانے اور اس میں کام یاب ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔

نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کی پندرہ انجینئرنگ طالبات پر مشتمل باہمت لڑکیوں کی ایک ٹیم پاکستان کی وہ پہلی گرلز ٹیم ہے جس نے جولائی میں برطانیہ میں سلور اسٹون کار ریسنگ ٹریک میں طالبات کے درمیان ہونے والے بین الاقوامی مقابلے کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

اس ٹیم کی لیڈر کا نام عزکہ اطہر تھا جنہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسی ریسنگ کار بنائی تھی جو 4.5 سیکنڈ میں 100کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی تھی، اس پر انہیں انعام و اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔گوکہ خواتین میں موٹرسائیکل چلانے کا رجحان اتنا عام نہیں ہے، لیکن ہمارے ہی وطن کی ایک جرأت مند لڑکی مرینہ سید نے نہ صرف موٹر سائیکل چلانا سیکھ کر روزمرہ کاموں کے لیے گھر سے باہر آمدورفت کی سہولت حاصل کی، بل کہ سماجی ذرایع ابلاغ پر ان کے موٹرسائیکلسٹ کلب کا بھی خوب چرچا ہوا۔

اس لڑکی نے شہر کراچی میں ہیوی موٹر بائیک پر کرتب دکھا کر سب کو حیران بھی کردیا تھا۔ سب سے اہم یہ بات ہے کہ مرینہ نے کراچی میں ڈرائیونگ اسکول بھی قائم کرلیا ہے جہاں وہ اور ان کی ٹیم ممبرز نوجوان خواتین کو موٹر بائیک چلانا سکھاتی ہیں۔


ان کا مقصد خواتین کو بلند حوصلہ اور خود مختار بنانا ہے، تاکہ خواتین کو اپنے روزمرہ کاموں کے لیے مردوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ شہرِ قائد میں جہاں لڑکیاں اسکوٹی چلاتی دیکھی جارہی ہیں، وہیں ملازمت پیشہ لڑکیاں اعتماد سے سڑکوں پر موٹر سائیکل بھی دوڑا رہی ہیں اور دفتر آنے جانے کے علاوہ مختلف ضروری کاموں کے لیے موٹر سائیکل استعمال کر رہی ہیں۔

اب ہم بات کرتے ہیں 25 سالہ گلاباں کی جو تین بچوں کی ماں ہے، گلاباں کا تعلق اسلام کوٹ (تھرپارکر) سندھ سے ہے۔ اس باہمت خاتون نے ایک 60 ٹن وزنی ٹرک ڈرائیو کرنے کی تربیت حاصل کی ہے۔ گلاباں نے فیمیل ٹرک ڈرائیور پروگرام میں یہ ٹرک چلانے کی تربیت حاصل کی ہے، انہیں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC)اسلام کوٹ (تھرپارکر)نے بہ طور لیڈی ٹرک ڈرائیور متعارف کرایا تھا۔

گلاباں نے یہ قدم اٹھا کر ثابت کردیا ہے کہ عورت بھی ہر مشکل کام کرسکتی ہے۔ ڈرائیونگ اور خاص طور پر بھاری گاڑی کا اسٹیئرنگ سنبھالنے کی بات کی جائے تو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ کام صرف مرد ہی کرسکتے ہیں، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ گلاباں تین بچوں کی ماں ہیں۔ وہ تھر کی ان 35 خواتین میں شامل ہیں جنہیں ایسے ٹرک چلانے کی تربیت دی گئی ہے جو تعمیرات میں استعمال ہونے والے ساز و سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

تربیت مکمل ہونے پر وہ اپنے علاقے کی پہلی خاتون بن چکی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے یہ سیکھا کہ کار کیسے چلائی جاتی ہے۔ گلاباں ایک تربیت یافتہ ٹرک ڈرائیور بن کر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے ساتھ اب وہ اپنے خاندان کی کفالت بھی کرسکیں گی۔ شمیم اختر پاکستان کی پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور ہیں۔

ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کا کار چلانا بھی بیش تر افراد کے نزدیک اچھا نہیں سمجھا جاتا، وہاں شمیم نے بہ حیثیت ٹرک ڈرائیور اپنی پہچان بنائی ہے۔ ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ شمیم اختر ٹرک میں مال لادنے اور چلانے کے ساتھ اپنے گھر کے تمام امور بھی سرانجام دیتی ہیں۔ پاکستان میں عورتوں کا کار چلانا نئی بات نہیں۔ مگر اب اس سے خواتین کا روزگار بھی جڑ گیا ہے۔ ہمارے ملک میں خواتین کو تنہا سفر کے دوران پیش آنے والے مسائل یا ہراساں کیے جانے کے واقعات سے بچاؤ کے لیے 'پیکسی' کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس گاڑی کی ڈرائیور خواتین اور مسافر بھی خواتین ہی ہوتی ہیں۔ غرض پاکستانی خواتین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ڈرائیونگ کے میدان میں بھی کسی سے کم نہیں۔

یہ بہادر خواتین نہ صرف ہر قسم کی گاڑیاں ڈرائیو کرکے اپنی ایک منفرد پہچان بنا رہی ہیں، بلکہ بیش تر خواتین ڈرائیونگ کے ذریعے اپنے اہل خانہ کی معاشی ضروریات پوری کرنے اور ان کی خوش حالی کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ دوسری طرف زینت عرفان دو پہیوں کی سواری شاہ راہوں پر دوڑانے والی وہ خاتون ہیں جنھوں نے اپنے مرحوم والد کا خواب پورا کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی موٹرسائیکل پر اپنے وطن کا سفر کریں۔
Load Next Story