سنو کہانی سوشل ویب سائٹس سے جُڑے قصے بہ ذریعہ ٹوئٹر ہوا مفت میں دیس دیس کا سفر

پاؤل اسمتھ نے سیاحت کی خواہش ٹوئٹ کی، اور پھر پیشکشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا

پاؤل اسمتھ نے سیاحت کی خواہش ٹوئٹ کی، اور پھر پیشکشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا. فوٹو : فائل

''سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے'' صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔ دورانِ سفر ٹرانسپورٹ سے ہوٹلوں تک نوازشیں پیسے دے کر ہی خریدی جاسکتی ہیں۔ مگر ایک صاحب نے اس مصرعے کو سچ کر دکھایا۔

یہ کہانی برطانیہ سے تعلق رکھنے والے پاؤل اسمتھ کی ہے، جنھوں نے صرف ''ٹوئٹر'' کے سہارے مفت میں دنیا کے کئی ممالک کا سفر کرڈالا۔ سابق براڈ کاسٹر اور اب بلاگر کی حیثیت سے شہرت کمانے والے پاؤل اسمتھ اپنی اچھوتے خیال سے شروع ہونے والی کہانی یوں شروع کرتے ہیں،''دیگر کروڑوں لوگوں کی طرح میں بھی ٹوئٹر پر بہت وقت سرف کرتا رہا ہوں۔

دنیا بھر سے ٹوئٹر کے استعمال کرنے والوں میں سے بیسیوں میرے ٹوئٹس کو فالو کرتے تھے۔ اور یہیں سے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ٹوئٹر کے ذریعے میں دنیا کے مختلف ممالک کے لوگوں تک براہ راست رسائی حاصل کرسکتا ہوں۔'' اس آئیڈیا کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا،'' کیا کوئی اس نیٹ ورک (ٹوئٹر) کے ذریعے دنیا کی سیاحت میں میری مدد کرے گا؟ کیا میں 33 سال کی عمر میں پہلا گلوب ٹوئٹرر (بروزن ٹریولر) بن پاؤںگا؟''

پاؤل کا آئیڈیا اس کے ذہن میں منصوبے کی صورت پارہا تھا۔ اس نے طے کیا تھا کہ وہ یہ سفر تیس دن میں مکمل کرے گا۔ اپنا یہ سپنا اسے ساتھی ٹوئٹریوزرز کی مہربانی اور ان کے خود پر اعتماد کے سہارے پورا کرنا تھا۔ اس حوالے سے اسے بڑے پُرجوش اور خیال آفریں مشورے ملے، مگر وہ قابلِ عمل نہیں تھے۔ جب اس نے اپنی بیوی سے اپنے منصوبے کا تذکرہ کیا تو وہ اسے مذاق سمجھی، مگر اپنے شوہر کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے اسے یقین آہی گیا۔

اب منصوبے پر عمل شروع کرنا تھا، چناں چہ پاؤل نے سب سے پہلے کچھ اپنے سفر کے لیے کچھ قواعد وضع تاکہ ساتھی ٹوئٹر یوزرز کے سامنے جب وہ اپنا آئیڈیا پیش کرے تو لوگوں اس کی سنجیدگی کا یقین آجائے۔

پاؤل کی جیب اجازت نہیں تھی کہ وہ ٹرانسپورٹ اور رہائش کے اخراجات برداشت کرتے ہوئے اس تیس روزہ سیاحت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکے، سو اسے ٹوئٹر استعمال کرنے والوں کی پیشکشوں ہی کا آسرا تھا۔ اسے پاس اتنی ہی رقم تھی جس سے ان تیس دنوں میں وہ کھا پی سکے۔ اپنے سفر کے دوران وہ کسی بھی جگہ تیس دن سے زیادہ قیام نہیں کرسکتا تھا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اسے مقررہ وقت سے پہلے اپنے گھر واپس جانا پڑتا۔

منصوبہ تو بن گیا، مگر شرم اور خودداری آڑے آرہی تھی،''میں ٹوئٹر کے استعمال کنندگان سے مدد کے لیے کہہ تو نہیں سکتا تھا، یہ ان پر منحصر تھا کہ وہ معاونت کریں اور وہ اس راستہ بتائیں جو مجھے اختیار کرنا چاہیے تھا۔''

اب ہونا یون تھا کہ پاؤل کو مدد کی پیشکش موصول ہوتی، جسے قبول کرنے کے بعد وہ ٹکٹ خریدنے اور دیگر انتظامات کا معاملہ طے ہوتا۔ یوں وہ جہاں سفر کا ایڈوینچر کر رہا تھا وہیں اپنی زندگی اجنبی لوگوں کے ہاتھوں میں دے رہا تھا۔


''آئیڈیے کا اعلان کرنے کے دو دن کے اندر ٹوئٹر کے ذریعے میرا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ اور ''ٹوئچ ہائیکر'' (جس عنوان کے تحت یہ پیغام دیا گیا تھا، خاص طور پر نیوزی لینڈ میں ہیڈلائن نیوز بن گیا۔''

نیوزی لینڈ میں پاؤل کی خواہش کا چرچا ہونا اس کے لیے نیک شگون تھا کیوں کہ وہ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے سفر کا آغاز دنیا کے بعید ترین مقام سے کرے گا۔ اسے اپنی مسافرت نیوزی لینڈ کے جنوب میں سیکڑوں میل دور واقع ''Campbell Island'' سے شروع کرنی تھی۔ اور پھر اس کا خواب تعبیر پانے لگا اور اسے مدد کے پیغامات موصول ہونے لگے سیاحت کا ارادہ ظاہر کرنے کے پانچ روز بعد پاؤل نے ٹوئٹ کیا،''میں نیوکیسل (شمال مشرقی برطانیہ کا ایک شہر) سے اتوار کو اپنا سفر شروع کروں گا۔



کیا آپ کہیں اور پہنچنے میں میری مدد کریں گے؟ کیا آپ مجھے ایک رات کے لیے بستر فراہم کرنے کی پیشکش کرسکتے ہیں؟ بس اور کچھ نہیں۔'' کوئی تین منٹ تک خاموشی چھائی رہی، اور پھر مدد کا پہلا سندیسہ آہی گیا۔ یہ لیانے تھا، اس نے پیشکش کی،''کیا تم ایمسٹریڈم آؤگے؟ میں نے وہاں تمھارے لیے رات بھر کِشتی کے سفر کا اہتمام کیا ہے۔'' بس پھر کیا تھا، مسافر نواز ملتے ہی چلے گئے، اور سفر ہوتا رہا۔

کسی نے پیرس کے ریٹرن ٹکٹ کا انتظام کا تو کسی نے وہاں رہائش کی سہولت فراہم کی۔ ایسی ہی پیشکشوں کے سہارے وہ فرانس سے جرمنی جا پہنچا، جہاں ایک اور مہربان نے اس کے لیے فرینکفرٹ سے نیویارک تک کے ون وے ٹکٹ فراہم کرنے کی پیشکش کی اور ایک اور ٹوئٹرر نے نیویارک میں اپنے ہوٹل کے روم میں شب بسری کی دعوت دی۔ امریکا کی یاترا کے خیال سے پاؤل کا دل سینے میں اچھل رہا تھا، مگر اسے یقین تھا کہ ریٹرن ٹکٹ کے بغیر امریکا میں داخلے کی اجازت نہیں ملے گی۔ سو ریٹرن ٹکٹ کے انتظام کی پیشکش حاصل کرنے کے لی اس کی مضطرب انگلیاں تیزی سے ٹوئٹ کرنے لگیں۔

آخر کار امید بر آئی۔ ''شکریہ سچی محبت کے لیے ترساں اُس خاتون آفیسر کا۔۔۔'' اس خاتون نے کچھ سوالات کرنے کے بعد پاؤل سے کہا،''تم یہاں شادی کروگے۔'' بہ ہر حال ریٹرن ٹکٹ کا انتظام بھی ہوگیا، یوں وہ نیویارک جا پہنچا۔ ایک ٹوئٹرر نے نیویارک سے واشنگٹن کے بس ٹکٹ کی پیشکش کردی اور ایک خاتون نے ایک ہوٹل میں رہنے کا بندوبست کردیا۔ امریکا کے مختلف شہروں سے سفری اخراجات اور قیام کی دعوتیں ملتی رہیں اور پاؤل کی سیاحت جاری رہی۔ اسے رہائش کی پیشکش کرنے والوں میں کیتھرائن بھی تھی۔ Wheeling شہر کی اس باسی نے پاؤل کو پُلوں کے شہر Pittsburgh کی سیر کرانے کی دعوت دی۔ کیتھرائن کا گھر پاؤل کی آمد سے ایک سال پہلے آتش زدگی کی نذر ہوگیا تھا اور اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ کرائے کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہ رہی تھی۔ پاؤل اس جوڑے کے خلوص سے بہت متاثر ہوا، وہ کہتا ہے،''وہ ہر اس چیز سے محروم ہوچکے تھے جو ان کی ملکیت تھی۔ پھر بھی انھوں نے ایک اجنبی کی میزبانی کی اور اسے اپنے ساتھ شام گزارنے کی دعوت دی۔

یہ تیس روزہ سفر اپنے آخری ہفتے میں داخل ہوچکا تھا، جب اسے نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے ٹوئٹررز کی دعوت ملی۔ اب وہ اپنے منصوبے کے مطابق نیوزی لینڈ کی سیاحت کر رہا تھا، یہیں اس کا سفر اختتام کو پہنچا اور اسے برطانیہ واپسی کے لیے ایک ٹوئٹرر کی پیشکش موصول ہوگئی اور وہ اپنے وطن روانہ ہوگیا۔

پاؤل اسمتھ کی کہانی بتاتی ہے کہ نفرتوں اور تشدد سے بھری اس دنیا میں خلوص اور محبت کی کوئی کمی نہیں، پاؤل کی طرح کوئی آزمائے تو۔
Load Next Story