انصاف کرنا ہی ہے
شہباز شریف کی گرفتاری نے کرپٹ لوگوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں اور سب مل جل کر شور مچا رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف دس برس تک عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے اب نیب جا پہنچے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی اچانک گرفتاری کو پورے ملک میں حیرت کے ساتھ سنا گیا کیونکہ عمومی خیال یہی تھا کہ نواز شریف کی ضمانت کے بعد معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور شائد اب شریف خاندان کی مشکلات کچھ کم ہو جائیں گی۔
میاں نواز شریف کی جانب سے سیاسی میدان میں خاموشی کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سے تعبیر کیاجا رہا تھا لیکن یکایک شہباز شریف کی گرفتاری نے اس سارے مفروضے کو ختم کر دیا ۔ شہباز شریف کے ایک سابق وزیر نے بھی معاملات طے پانے کی خوشخبری سنائی تھی لیکن اس خود ساختہ خوشخبری کو کسی نے منہ بھی نہ لگایا اور وائے ناکامی حسرت والا معاملہ ہی رہا۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ میاں شہباز شریف کو صحیح یا غلط گرفتار کیا گیا دس برس تک پنجاب میں مطلق العنان حکمرانی کرنے والے شہباز شریف کی شہرت ایک کام کرنے والے سخت گیر حکمران کی رہی، شہباز شریف کے ترقیاتی کام دوسرے صوبوں کے لیے ایک مثال بن گئے انھوں نے اپنے آبائی شہر اور صوبائی دارالحکومت لاہور کی ترقی کے لیے دن رات ایک کر دیا، شہر کے بیشتر علاقوں میں بار بار نئی سڑکیں اور پلوں کے علاوہ جہاں ضرورت تھی وہاں پر انڈر پاس بھی بنائے۔
ان کی حکومت کے دور میں ان کا شمار سخت گیر حکمرانوں میں ہوتا تھا جن سے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ان کے اپنی ہی پارٹی کے منتخب نمایندے بھی خوفزدہ رہتے تھے بلکہ سنا تو یہ بھی ہے کہ منتخب نمایندوں کو تو ملاقات کا وقت بھی مشکل سے ہی نصیب ہوتا تھا۔
شہباز شریف ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ان کی سیاست اور حکمرانی دوسرے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے مختلف رہی ہے وہ سنتے سب کی تھے لیکن کرتے وہی تھے جو ان کے اپنے دل و دماغ میں ہوتا تھا اسی لیے وہ پنجاب میں کسی حد تک ترقیاتی کام کر گئے خاص طور پر لاہور شہر کا تو انھوں نے حلیہ ہی تبدیل کر دیا اور میرے جیسے برسوں سے مقیم غیر لاہوری کو بھی اب سڑکوں اور راستوں کی پہچان میں دشواری محسوس ہوتی ہے، لاہور کا نقشہ بدل چکا ہے اور اس نقشے کو بدلنے والے کو لاہوریئے نہیں بھولے، انھوں نے حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں شہباز شریف کی پارٹی کو بھر پور ووٹ دیے۔
یہ الگ بات ہے کہ دس برس کی طویل حکمرانی کو وہ جاری نہ رکھ سکے اور قرعہ پاکستان تحریک انصاف کے نام نکلا لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نواز بڑی پارٹی کے طور پر پنجاب میں ابھری جس کی نشستوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی مگر آزاد ارکان نے اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا جس کی وجہ سے تحریک انصاف پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کا تعلق اسی ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات سے ہے اور مقتدر قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ نواز لیگ کے امیدوار ضمنی انتخابات میں بھی کامیاب ہو کر خاص طور پر پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کوئی نئی مشکل کھڑی کریں۔ میرے خیال میں یہ تاثر بالکل غلط ہے میاں شہباز شریف کی سیاسی شخصیت اپنی پارٹی کے دوسرے لیڈروں سے مختلف ہے وہ صلح جو انسان ہیں اور وقت کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں وہ خاموش بھی اسی لیے ہیں ان کواس بات کا مکمل ادراک ہے کہ واویلہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ نقصان ہی ہو گا اس لیے خاموشی بہتر ہے۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو یہ بات دیوانے کا خواب ہی لگتی ہے کہ پنجاب میں دوبارہ سے نواز لیگ بر سر اقتدار آجائے اگر ایسا ہونا ہوتا تو حالیہ عام انتخابات میں عددی اکثریت کے باوجود آزاد ارکان اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں کیوں ڈالتے۔ یہ سب خواہشات ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں اور نہ ہی خواہشوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
میاں شہباز شریف نے جس تیزی کے ساتھ ترقیاتی کام مکمل کرائے وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے اور کسی سے پوشیدہ نہیں انھی تاریخی کاموں کی وجہ سے وہ اب نیب کے شکنجے میں ہیں اور ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کا جواب انھی کو دینا ہے اور نیب کو مطمئن کرنا ہے ۔
شہباز شریف کی گرفتاری نے کرپٹ لوگوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں اور سب مل جل کر شور مچا رہے ہیں اور بقول ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے ان سب کو اپنی گرفتاری کا ڈر ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ نیب کی رفتار بڑی سست ہے اور نیب اگر ان کے ماتحت ہوتا تو اب تک پچاس بڑے مجرم پکڑے جا چکے ہوتے۔ انھوں نے نیب کے سربراہ کو حکومت کی بھر پور مدد کا یقین بھی دلایا ہے ۔
شہباز شریف کی گرفتاری اگر سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے تو پھر اس ملک میں آپ احتساب کو بھول جائیں اور سیاستدان اپنی اپنی باری کا انتظار کریں کہ جس پارٹی کی حکومت نہیں ہو گی وہ احتساب کے شکنجے میں ہوگا اور پارٹی کے برسر اقتدار آتے ہی نہا دھوکر پاک صاف ہوجائے گا اور وہ کرپشن کے الزامات سے بری ہو جائے گا۔ اس طرح کا احتساب ماضی میں بھی ہوتا رہا اور ہم نے دیکھا کہ کرپشن کے بڑے بڑے کھلاڑی احتساب کے شکنجے سے پاک صاف ہو کر نکل آئے۔
سیاست اور احتساب کو جب تک الگ نہیں کیا جاتا تو احتساب سے اسی طرح کے نتائج برآمد ہوں گے ۔ تیسری دنیا کے غریب ممالک کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے حکمران وہ لوگ رہے ہیں جن کا اگر احتساب ہو جائے تو ان میں سے کوئی بھی بچ نہ پائے لیکن ان کا احتساب کون کرے یہی سیاست میں بھی ہیں اور ملک کے بڑے مجرم بھی یہی لوگ ہیں انھی کی لوٹ مار کی وجہ سے ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور ہم پھر بھی بدلنے کو تیار نہیں اقتدار میں موجود بڑے لوگوں کا احتساب مشکل بلکہ ناممکن اور اقتدار سے باہر ہو جانے والے احتساب کے شکنجے میں ہیں۔
یہ ناانصافی کب تک چلے گی کچھ معلوم نہیں ۔ اگر شہباز شریف قصور وار ہے تو بے شک اس کو سزا دیں لیکن احتساب کا معیار اور پیمانہ سب کے لیے ایک جیسا ہونا ہی وقت اور پاکستان کی ضرورت ہے ۔ سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر سیاست میں موجود محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا پڑے گا تب ہی حقیقی انصاف اور احتساب ہو سکے گا۔
میاں نواز شریف کی جانب سے سیاسی میدان میں خاموشی کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سے تعبیر کیاجا رہا تھا لیکن یکایک شہباز شریف کی گرفتاری نے اس سارے مفروضے کو ختم کر دیا ۔ شہباز شریف کے ایک سابق وزیر نے بھی معاملات طے پانے کی خوشخبری سنائی تھی لیکن اس خود ساختہ خوشخبری کو کسی نے منہ بھی نہ لگایا اور وائے ناکامی حسرت والا معاملہ ہی رہا۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ میاں شہباز شریف کو صحیح یا غلط گرفتار کیا گیا دس برس تک پنجاب میں مطلق العنان حکمرانی کرنے والے شہباز شریف کی شہرت ایک کام کرنے والے سخت گیر حکمران کی رہی، شہباز شریف کے ترقیاتی کام دوسرے صوبوں کے لیے ایک مثال بن گئے انھوں نے اپنے آبائی شہر اور صوبائی دارالحکومت لاہور کی ترقی کے لیے دن رات ایک کر دیا، شہر کے بیشتر علاقوں میں بار بار نئی سڑکیں اور پلوں کے علاوہ جہاں ضرورت تھی وہاں پر انڈر پاس بھی بنائے۔
ان کی حکومت کے دور میں ان کا شمار سخت گیر حکمرانوں میں ہوتا تھا جن سے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ان کے اپنی ہی پارٹی کے منتخب نمایندے بھی خوفزدہ رہتے تھے بلکہ سنا تو یہ بھی ہے کہ منتخب نمایندوں کو تو ملاقات کا وقت بھی مشکل سے ہی نصیب ہوتا تھا۔
شہباز شریف ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ان کی سیاست اور حکمرانی دوسرے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے مختلف رہی ہے وہ سنتے سب کی تھے لیکن کرتے وہی تھے جو ان کے اپنے دل و دماغ میں ہوتا تھا اسی لیے وہ پنجاب میں کسی حد تک ترقیاتی کام کر گئے خاص طور پر لاہور شہر کا تو انھوں نے حلیہ ہی تبدیل کر دیا اور میرے جیسے برسوں سے مقیم غیر لاہوری کو بھی اب سڑکوں اور راستوں کی پہچان میں دشواری محسوس ہوتی ہے، لاہور کا نقشہ بدل چکا ہے اور اس نقشے کو بدلنے والے کو لاہوریئے نہیں بھولے، انھوں نے حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں شہباز شریف کی پارٹی کو بھر پور ووٹ دیے۔
یہ الگ بات ہے کہ دس برس کی طویل حکمرانی کو وہ جاری نہ رکھ سکے اور قرعہ پاکستان تحریک انصاف کے نام نکلا لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نواز بڑی پارٹی کے طور پر پنجاب میں ابھری جس کی نشستوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی مگر آزاد ارکان نے اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا جس کی وجہ سے تحریک انصاف پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری کا تعلق اسی ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات سے ہے اور مقتدر قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ نواز لیگ کے امیدوار ضمنی انتخابات میں بھی کامیاب ہو کر خاص طور پر پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کوئی نئی مشکل کھڑی کریں۔ میرے خیال میں یہ تاثر بالکل غلط ہے میاں شہباز شریف کی سیاسی شخصیت اپنی پارٹی کے دوسرے لیڈروں سے مختلف ہے وہ صلح جو انسان ہیں اور وقت کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں وہ خاموش بھی اسی لیے ہیں ان کواس بات کا مکمل ادراک ہے کہ واویلہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ نقصان ہی ہو گا اس لیے خاموشی بہتر ہے۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو یہ بات دیوانے کا خواب ہی لگتی ہے کہ پنجاب میں دوبارہ سے نواز لیگ بر سر اقتدار آجائے اگر ایسا ہونا ہوتا تو حالیہ عام انتخابات میں عددی اکثریت کے باوجود آزاد ارکان اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں کیوں ڈالتے۔ یہ سب خواہشات ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں اور نہ ہی خواہشوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
میاں شہباز شریف نے جس تیزی کے ساتھ ترقیاتی کام مکمل کرائے وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے اور کسی سے پوشیدہ نہیں انھی تاریخی کاموں کی وجہ سے وہ اب نیب کے شکنجے میں ہیں اور ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کا جواب انھی کو دینا ہے اور نیب کو مطمئن کرنا ہے ۔
شہباز شریف کی گرفتاری نے کرپٹ لوگوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں اور سب مل جل کر شور مچا رہے ہیں اور بقول ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے ان سب کو اپنی گرفتاری کا ڈر ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ نیب کی رفتار بڑی سست ہے اور نیب اگر ان کے ماتحت ہوتا تو اب تک پچاس بڑے مجرم پکڑے جا چکے ہوتے۔ انھوں نے نیب کے سربراہ کو حکومت کی بھر پور مدد کا یقین بھی دلایا ہے ۔
شہباز شریف کی گرفتاری اگر سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے تو پھر اس ملک میں آپ احتساب کو بھول جائیں اور سیاستدان اپنی اپنی باری کا انتظار کریں کہ جس پارٹی کی حکومت نہیں ہو گی وہ احتساب کے شکنجے میں ہوگا اور پارٹی کے برسر اقتدار آتے ہی نہا دھوکر پاک صاف ہوجائے گا اور وہ کرپشن کے الزامات سے بری ہو جائے گا۔ اس طرح کا احتساب ماضی میں بھی ہوتا رہا اور ہم نے دیکھا کہ کرپشن کے بڑے بڑے کھلاڑی احتساب کے شکنجے سے پاک صاف ہو کر نکل آئے۔
سیاست اور احتساب کو جب تک الگ نہیں کیا جاتا تو احتساب سے اسی طرح کے نتائج برآمد ہوں گے ۔ تیسری دنیا کے غریب ممالک کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے حکمران وہ لوگ رہے ہیں جن کا اگر احتساب ہو جائے تو ان میں سے کوئی بھی بچ نہ پائے لیکن ان کا احتساب کون کرے یہی سیاست میں بھی ہیں اور ملک کے بڑے مجرم بھی یہی لوگ ہیں انھی کی لوٹ مار کی وجہ سے ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور ہم پھر بھی بدلنے کو تیار نہیں اقتدار میں موجود بڑے لوگوں کا احتساب مشکل بلکہ ناممکن اور اقتدار سے باہر ہو جانے والے احتساب کے شکنجے میں ہیں۔
یہ ناانصافی کب تک چلے گی کچھ معلوم نہیں ۔ اگر شہباز شریف قصور وار ہے تو بے شک اس کو سزا دیں لیکن احتساب کا معیار اور پیمانہ سب کے لیے ایک جیسا ہونا ہی وقت اور پاکستان کی ضرورت ہے ۔ سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر سیاست میں موجود محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا پڑے گا تب ہی حقیقی انصاف اور احتساب ہو سکے گا۔