حکیم محمد اختر صاحب
2جون کی شام بعد از نماز مغرب مسجد میں درس قرآن کے دوران اچانک یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ حکیم محمد اختر دامت۔۔۔
2جون کی شام بعد از نماز مغرب مسجد میں درس قرآن کے دوران اچانک یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم اس دار فانی سے رخصت ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ حضرت والا میکدۂ تھانویؒ کے سرکردہ بادہ خواروں حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا محمد ابرار الحق حقی دامت برکاتہم جیسے جید بزرگان دین کے محبت اور فیض یافتگان میں سر فہرست شمار کیے جاتے ہیں۔ وہی محبت صالح جس کی جانب آپ نے اپنے اس خوبصورت شعر میں ان الفاظ میں اشارہ فرمایا۔
کسی اہل دل کی محبت جو ملی کسی کو اختر
اسے آ گیا ہے جینا اسے آ گیا ہے مرنا
شاہ صاحب(مرحوم ومغفور)نے ابتداء ساتویں جماعت تک عصری تعلیم اس زمانے کے دستور کے مطابق حاصل کی اور پھر والد بزرگوارکے اصرار پر طبیہ کالج الٰہ آباد سے فن طب کی تکمیل فرمائی۔ لیکن چونکہ شروع سے ہی آپ کا طبی رجحان علوم اسلامی کی جانب تھا چنانچہ دوران تعلیم ہی فارسی زبان بھی سیکھ لی اور بہت جلد اس پر دسترس حاصل کرلی۔ علماء حق کے مواعظ میں شرکت کا شوق آپ کو بچپن ہی سے تھا اور دنیا داری سے بے رغبتی اور خلوت پسندی آپؒ کے خمیر میں شامل تھی۔ جس کا اظہار اس شعر کی صورت میں ملتاہے:
مری زندگی کا حاصل مری زیست کا سہارا
ترے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا
یہ درد دل ہی تھا جس نے آپ کو کم بینی میں ہی مثنوی مولانا روم کے کیف وسرور سے آشنا کردیاتھا۔ یہی وہ اضطراب تھا جس کے سبب آپ کی رسائی حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے وعظ ''راحت القلوب'' تک ہوئی۔ جس نے دل کو مزید سوختہ اور وارفتہ بنادیا۔ ابھی آپ نے حضرت تھانویؒ سے بیعت کا ارادہ ہی کیا تھا کہ حضرت تھانویؒ کی وفات ہوگئی۔ چنانچہ آپؒ نے حضرت تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری ؒ کی جانب رجوع کیا اور پہلے خط کے سرنامہ پر یہ شعر تحریر کردیا۔
جان ودل اے شاہ قربانت کنم
دل ہدف ماتیز مژگانت کنم
مولانا پھول پھوریؒ سے بیعت کے بعد ان ہی کے مدرسہ ''بیت العلم'' میں عربی درسیات کی تعلیم حاصل کی اور بخاری شریف کے چند حصے خود مولانا سے ہی پڑھنے کا شرف واعزاز حاصل کیا۔ پھر جب شاہ پھول پھوریؒکا وصال ہوگیا تو ان ہی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مولانا ابرار الحق دامت برکاتہم سے رجوع ہوئے اور 1387ھ میں خلافت واجازت سے سر فراز کیے گئے۔ ابھی چہرے پر مونچھیں بھی نمودار نہ ہوئی تھیں کہ اپنی زندگی کا یہ پہلا شعر کہا جو حاصل زندگی بن گیا۔
حضرت پھول پوریؒ کے ساتھ حکیم صاحب کی نیاز مندی اور رفاقت سولہ سالہ طویل عرصے پر محیط ہے۔ جس کا نتیجہ ان علوم ومعارف کی شکل میں ظاہر ہوا جنھیں حکیم صاحب ؒ نے مختلف کتابوں کی صورت میں مرتب کیا اور ''معرفت الٰہیہ' صراط مستقیم اور براھین قاطع کے عنوان سے شائع فرمایا۔ اس کے علاوہ علم ومعرفت اور تذکیہ وتصوف کے موضوع پر بھی کئی کتابیں مرتب فرمائیں۔ لیکن آپ کا سب سے بڑا کارنامہ مثنوی مولانا روم کی تشریح ہے جو 800صفحات پر مشتمل ہے اور معارف مثنوی کے عنوان سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔ علاوہ ازیں خود حکیم صاحب کی ''مثنوی اختر'' بھی اہل دل کے قلوب کو گرماچکی ہے۔
حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کے وصال کے بعد حکیم صاحب قبلہ نے اپنا جو اصلاحی تعلق حضرت مولانا شاہ ابرار الحق دامت برکاتہم سے قائم فرمایا ۔ وہ آخری دم تک قائم رہا اور اس والہانہ لگاؤ کا اظہار آپ کے مواعظ وملفوظات کے مطالعے سے بخوبی ہوتاہے۔ اسی تعلق کی خاطر آپ نے ''مجالس ابرار'' کے نام سے592صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب مرتب فرمائی جو حضرت شاہ صاحب کے مواعظ وملفوظات کے انمول خزانے پر مشتمل ہے۔ یہ مولانا پھول پھوریؒ اور شاہ ابرار الحق کی محبتوں کا اثر اور کمال تھا کہ حکیم صاحبؒ کی مجالس انتہائی روح پرور، معلومات افزا اور دل نشین ہواکرتی تھیں۔ حضرت والا کی مجالس باطن کی پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ہواکرتی تھیں۔ جن سے اذہان وقلوب منور ومعطر ہوجاتے تھے۔ گلشن اقبال کراچی میں آپ کی خانقاہ کو ایک مرکز ثقل کی حیثیت حاصل تھی۔ جہاں خواص وعوام کھنچے چلے آتے تھے۔ ان مجلسوں نے نہ جانے کتنے دلوں کو پگھلاکر پتھر سے موم اور مٹی سے پارس بنادیا۔ حضرت والا سرتاپا حضرت تھانویؒ کے رنگ رنگے ہوئے تھے اور اسی نسبت سے اس مرکز فیض کا نام ''اشرف المدارس'' رکھا گیا۔ حکیم صاحب کا مواعظ عالمانہ نہیں بلکہ حکیمانہ ہوا کرتے تھے۔ آپ نہ صرف شعر وسخن کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے بلکہ بذات خود بھی اپنے اشعار سے سامعین ومریدین کو بادہ محبت ومعرفت سے سرشار فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی مجلسیں کسی زاہد خشک کی مجالس نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں شعر وسخن اور لطائف وظرائف کی چاشنی بھی ہوتی تھی جس سے آپ کے خطبات اور مواعظ کا اثر دو آتشہ ہوجاتاتھا۔ حکیم صاحب کے مواعظ وملفوظات میں جا بہ جا عشق حقیقی اور محبت خداوندی کا غلبہ نمایاں طورپر نظر آتاہے اور سننے اور پڑھنے والا اس کی حرارت کو واضح طورپرمحسوس کرتاہے۔
صحابہ کرامؓ سے حضرت والا کو قلبی محبت تھی جس کا اظہار آپ نے اپنے اس شعر کی صورت میں کیا ہے۔
محبت ہو خدا کی یا نبیؐ کی
کوئی سیکھے صحابہؓ کے لہو سے
1977میں ہندوستان کے مشہور شہر بمبئی میں جو اب ممبئی کہلاتاہے آل انڈیا کانفرنس ''تحفظ ناموس صحابہؓ'' منعقد ہوئی تھی۔ محترم حکیم صاحب حیدرآباد دکن سے پاکستان واپس آتے ہوئے اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔
حکیم صاحبؒ کی وصیت کے مطابق ان کی نماز جنازہ ان کے صاحبزادے مولانا مظہر کی امامت میں 3جون بروز پیر 9بجے جامعہ اشرف المدارس، سندھ بلوچ سوسائٹی، گلستان جوہر کراچی میں ادا کی گئی اور انھیں گلستان جوہر بلاک 12میں واقع مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔اس طرح روحانیت کا یہ خورشیدہ تابناک جو ہندوستان کے مشہور شہر پرتاب گڑھ میں1928میں طلوع ہوا تھا عروس البلاد کراچی، پاکستان میں 2013میں غروب ہوگیا۔ حکیم صاحب کے وصال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئی اور بیرون ملک واندرون ملک سے ان کے دیوانے پروانہ وار کھنچے چلے آئے۔ حضرت والا کے وصال سے جو روحانی خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہ ہوگا اور دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ان کے معتقدین ومریدین ان کی کمی کو ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔ موت العالم موت العالم!
کسی اہل دل کی محبت جو ملی کسی کو اختر
اسے آ گیا ہے جینا اسے آ گیا ہے مرنا
شاہ صاحب(مرحوم ومغفور)نے ابتداء ساتویں جماعت تک عصری تعلیم اس زمانے کے دستور کے مطابق حاصل کی اور پھر والد بزرگوارکے اصرار پر طبیہ کالج الٰہ آباد سے فن طب کی تکمیل فرمائی۔ لیکن چونکہ شروع سے ہی آپ کا طبی رجحان علوم اسلامی کی جانب تھا چنانچہ دوران تعلیم ہی فارسی زبان بھی سیکھ لی اور بہت جلد اس پر دسترس حاصل کرلی۔ علماء حق کے مواعظ میں شرکت کا شوق آپ کو بچپن ہی سے تھا اور دنیا داری سے بے رغبتی اور خلوت پسندی آپؒ کے خمیر میں شامل تھی۔ جس کا اظہار اس شعر کی صورت میں ملتاہے:
مری زندگی کا حاصل مری زیست کا سہارا
ترے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا
یہ درد دل ہی تھا جس نے آپ کو کم بینی میں ہی مثنوی مولانا روم کے کیف وسرور سے آشنا کردیاتھا۔ یہی وہ اضطراب تھا جس کے سبب آپ کی رسائی حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے وعظ ''راحت القلوب'' تک ہوئی۔ جس نے دل کو مزید سوختہ اور وارفتہ بنادیا۔ ابھی آپ نے حضرت تھانویؒ سے بیعت کا ارادہ ہی کیا تھا کہ حضرت تھانویؒ کی وفات ہوگئی۔ چنانچہ آپؒ نے حضرت تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری ؒ کی جانب رجوع کیا اور پہلے خط کے سرنامہ پر یہ شعر تحریر کردیا۔
جان ودل اے شاہ قربانت کنم
دل ہدف ماتیز مژگانت کنم
مولانا پھول پھوریؒ سے بیعت کے بعد ان ہی کے مدرسہ ''بیت العلم'' میں عربی درسیات کی تعلیم حاصل کی اور بخاری شریف کے چند حصے خود مولانا سے ہی پڑھنے کا شرف واعزاز حاصل کیا۔ پھر جب شاہ پھول پھوریؒکا وصال ہوگیا تو ان ہی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مولانا ابرار الحق دامت برکاتہم سے رجوع ہوئے اور 1387ھ میں خلافت واجازت سے سر فراز کیے گئے۔ ابھی چہرے پر مونچھیں بھی نمودار نہ ہوئی تھیں کہ اپنی زندگی کا یہ پہلا شعر کہا جو حاصل زندگی بن گیا۔
حضرت پھول پوریؒ کے ساتھ حکیم صاحب کی نیاز مندی اور رفاقت سولہ سالہ طویل عرصے پر محیط ہے۔ جس کا نتیجہ ان علوم ومعارف کی شکل میں ظاہر ہوا جنھیں حکیم صاحب ؒ نے مختلف کتابوں کی صورت میں مرتب کیا اور ''معرفت الٰہیہ' صراط مستقیم اور براھین قاطع کے عنوان سے شائع فرمایا۔ اس کے علاوہ علم ومعرفت اور تذکیہ وتصوف کے موضوع پر بھی کئی کتابیں مرتب فرمائیں۔ لیکن آپ کا سب سے بڑا کارنامہ مثنوی مولانا روم کی تشریح ہے جو 800صفحات پر مشتمل ہے اور معارف مثنوی کے عنوان سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے۔ علاوہ ازیں خود حکیم صاحب کی ''مثنوی اختر'' بھی اہل دل کے قلوب کو گرماچکی ہے۔
حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کے وصال کے بعد حکیم صاحب قبلہ نے اپنا جو اصلاحی تعلق حضرت مولانا شاہ ابرار الحق دامت برکاتہم سے قائم فرمایا ۔ وہ آخری دم تک قائم رہا اور اس والہانہ لگاؤ کا اظہار آپ کے مواعظ وملفوظات کے مطالعے سے بخوبی ہوتاہے۔ اسی تعلق کی خاطر آپ نے ''مجالس ابرار'' کے نام سے592صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب مرتب فرمائی جو حضرت شاہ صاحب کے مواعظ وملفوظات کے انمول خزانے پر مشتمل ہے۔ یہ مولانا پھول پھوریؒ اور شاہ ابرار الحق کی محبتوں کا اثر اور کمال تھا کہ حکیم صاحبؒ کی مجالس انتہائی روح پرور، معلومات افزا اور دل نشین ہواکرتی تھیں۔ حضرت والا کی مجالس باطن کی پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ہواکرتی تھیں۔ جن سے اذہان وقلوب منور ومعطر ہوجاتے تھے۔ گلشن اقبال کراچی میں آپ کی خانقاہ کو ایک مرکز ثقل کی حیثیت حاصل تھی۔ جہاں خواص وعوام کھنچے چلے آتے تھے۔ ان مجلسوں نے نہ جانے کتنے دلوں کو پگھلاکر پتھر سے موم اور مٹی سے پارس بنادیا۔ حضرت والا سرتاپا حضرت تھانویؒ کے رنگ رنگے ہوئے تھے اور اسی نسبت سے اس مرکز فیض کا نام ''اشرف المدارس'' رکھا گیا۔ حکیم صاحب کا مواعظ عالمانہ نہیں بلکہ حکیمانہ ہوا کرتے تھے۔ آپ نہ صرف شعر وسخن کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے بلکہ بذات خود بھی اپنے اشعار سے سامعین ومریدین کو بادہ محبت ومعرفت سے سرشار فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی مجلسیں کسی زاہد خشک کی مجالس نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں شعر وسخن اور لطائف وظرائف کی چاشنی بھی ہوتی تھی جس سے آپ کے خطبات اور مواعظ کا اثر دو آتشہ ہوجاتاتھا۔ حکیم صاحب کے مواعظ وملفوظات میں جا بہ جا عشق حقیقی اور محبت خداوندی کا غلبہ نمایاں طورپر نظر آتاہے اور سننے اور پڑھنے والا اس کی حرارت کو واضح طورپرمحسوس کرتاہے۔
صحابہ کرامؓ سے حضرت والا کو قلبی محبت تھی جس کا اظہار آپ نے اپنے اس شعر کی صورت میں کیا ہے۔
محبت ہو خدا کی یا نبیؐ کی
کوئی سیکھے صحابہؓ کے لہو سے
1977میں ہندوستان کے مشہور شہر بمبئی میں جو اب ممبئی کہلاتاہے آل انڈیا کانفرنس ''تحفظ ناموس صحابہؓ'' منعقد ہوئی تھی۔ محترم حکیم صاحب حیدرآباد دکن سے پاکستان واپس آتے ہوئے اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔
حکیم صاحبؒ کی وصیت کے مطابق ان کی نماز جنازہ ان کے صاحبزادے مولانا مظہر کی امامت میں 3جون بروز پیر 9بجے جامعہ اشرف المدارس، سندھ بلوچ سوسائٹی، گلستان جوہر کراچی میں ادا کی گئی اور انھیں گلستان جوہر بلاک 12میں واقع مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔اس طرح روحانیت کا یہ خورشیدہ تابناک جو ہندوستان کے مشہور شہر پرتاب گڑھ میں1928میں طلوع ہوا تھا عروس البلاد کراچی، پاکستان میں 2013میں غروب ہوگیا۔ حکیم صاحب کے وصال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئی اور بیرون ملک واندرون ملک سے ان کے دیوانے پروانہ وار کھنچے چلے آئے۔ حضرت والا کے وصال سے جو روحانی خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہ ہوگا اور دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ان کے معتقدین ومریدین ان کی کمی کو ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔ موت العالم موت العالم!