امیدواروں کی غیر ضروری بھرمار
ایک اخباری خبرکے مطابق 2013 کے عام انتخابات میں 180 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئی ہیں جو مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرسکے۔
COLOMBO:
ایک اخباری خبرکے مطابق 2013 کے عام انتخابات میں 180 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئی ہیں جو مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرسکے۔ تفصیل کے مطابق قومی اسمبلی کے کل 43 امیدواروں کی ایک لاکھ 72 ہزار روپے کی رقم اور صوبائی اسمبلی کے 11 حلقوں میں 137 امیدواروں کی دو لاکھ 74 ہزار روپے کی زر ضمانت کے طور پر رکھی گئی رقم بحق سرکار ضبط کرلی گئی ہے کیونکہ الیکشن میں پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار نے 1/8 ووٹ لینا لازمی ہوتا ہے اور اگر کوئی اس سے کم ووٹ لیتا ہے تو اس کی رکھی گئی ضمانت کی رقم ضبط کرلی جاتی ہے۔
حالیہ انتخابات الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تقریباً ڈیڑھ سو سیاسی پارٹیوں سمیت سولہ ہزار سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا اور تقریباً ڈیڑھ درجن رجسٹرڈ پارٹیوں کے امیدواروں نے ہی کامیابی حاصل کی جن میں ایسی پارٹیاں بھی ہیں جنھیں قومی اسمبلی کی صرف ایک ایک نشست حاصل ہوئی ہے اور ان پارٹیوں کی تعداد صرف 8 ہے جن میں شمولیت پر عمران خان کی حمایت سے کامیاب ہونے والے شیخ رشید احمد کو بڑا فخر ہے کہ ان کی پارٹی صرف ایک قومی نشست جیتنے والی پارٹیوں میں شامل ہے مگر شیخ رشید یہ بھول گئے کہ عمران خان نے شخصی بنیاد پر شیخ رشید کو کامیاب کرایا اور یہ کامیابی عوامی مسلم لیگ کی نہیں بلکہ شیخ رشید کی ذاتی حیثیت میں ہے جب کہ ایک قومی نشست حاصل کرنے والی پارٹیوں کے پاس اپنے صوبوں کی کچھ صوبائی نشستیں بھی ہیں اور عوامی مسلم لیگ واحد پارٹی ہے جس کے پاس کوئی صوبائی نشست نہیں ہے۔
شیخ رشید جیسی مشہور شخصیت اپنی ایک نشست پر نازاں ہے کہ ان کی پارٹی کا شمار بھی قومی اسمبلی کی ایک نشست رکھنے والی پارٹیوں میں ہے اور وہ اپنی پارٹی کو ملک گیر پارٹی سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تھوک کے حساب سے اپنے پاس سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ کر رکھی ہیں اور ان میں صرف 20 فیصد ایسی پارٹیاں بھی نہیں ہیں جن کو ملک اور صوبوں میں تو کیا اس پارٹی کے سربراہ کو اس کے علاقے والے بھی جانتے ہوں۔ ان پارٹیوں کے سربراہ اپنی دولت کے باعث پریس ریلیزوں کے ذریعے خود کو اخبارات کے ذریعے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور خود کو بڑا سیاسی رہنما سمجھ کر اخبارات میں بیان داغتے رہتے ہیں اور اپنی شائع شدہ خبروں کا ریکارڈ دوسروں کو دکھا کر اپنا مصنوعی رعب جھاڑتے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے باہر سیکڑوں ایسی نام نہاد اور خود ساختہ تنظیمیں بھی ہیں جنھوں نے اپنے شہروں میں خود کو سماجی تنظیم کے طور پر رجسٹرڈ کرا رکھا ہے اور نہ صرف چندوں پر پل رہی ہیں بلکہ سرکاری افسروں اور اداروں کو بلیک میل بھی کرتی ہیں کہ اگر ان کا کام نہ ہوا تو وہ ان کے خلاف اخبارات کو پریس ریلیز جاری کردیں گی ان نام نہاد پارٹیوں اور تنظیموں کے عہدیداروں نے ایسے ملازم رکھے ہوئے ہیں جو روزانہ ان کی پریس ریلیز بناکر اخباری دفاتر میں پہنچاتے ہیں اور خبر پریس ریلیز کے نام سے شائع ہونے کے بعد اس کی کٹنگ سے اپنا ریکارڈ بناتے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں جو جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور انھوں نے انتخابی نشانات بھی لیے ان کی اکثریت نے انتخابات میں اپنا ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی بہت بڑی تعداد نے حصہ لیا اور محض بیلٹ پیپرز پر اپنا نام اور انتخابی نشان چھپوانے کا شوق پورا کیا۔ ان آزاد امیدواروں نے اپنے بینرز تو کیا پمفلٹ تک نہیں چھپوائے اور ان آزاد امیدواروں کی وجہ سے بڑے بڑے بیلٹ پیپر چھپوانے پڑے ان بڑے بڑے بیلٹ پیپرز پر جہاں قومی و صوبائی پارٹیوں کے انتخابی نشانات اور امیدواروں کے نام تھے جو واقعی انتخاب لڑ رہے تھے ان کی تعداد درجن بھر سے زیادہ نہیں ہوگی اور باقی بیلٹ پیپر ان آزاد امیدواروں کی وجہ سے بڑے بڑے چھپوانے پڑے جو صرف نام چھپوانے کی حد تک ہی انتخاب لڑ رہے تھے جس کی وجہ سے ووٹ ڈالنے جانے والوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر لمبے چوڑے ایسے بیلٹ پیپر ملے جن پر انھیں سیاسی پارٹیوں اور اپنے امیدوار کے نشانات تلاش کرنے میں نہ صرف پریشانی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کا وقت بھی ضائع ہوا اور بعض ملتے جلتے انتخابی نشانات کے باعث وہ غلط نشانوں پر مہر لگا بیٹھے جس کی وجہ سے ان کے ووٹ بھی ضائع ہوئے اور سخت گرمی میں لائن لگاکر پولنگ بوتھ تک ان کا پہنچنا بھی بے مقصد رہا۔
ایسے آزاد امیدواروں کی تعداد بمشکل پانچ فیصد ہوگی جنھیں ہزاروں کی بڑی تعداد میں ووٹ ملتے ہیں اور یہ امیدوار وہ ہوتے ہیں جو بڑے جاگیردار، صنعت کار اور دولت مند ہوتے ہیں اور ان کے آبائی حلقے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ لیں یا نہ لیں یا انھیں ٹکٹ نہ ملے تو وہ اپنے ہی بل بوتے پر انتخاب لڑتے ہیں اور کامیاب ہوکر کسی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں یا سودے بازی کے لیے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھتے یہں۔
آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد ان مفاد پرستوں کی ہوتی ہے جنھیں خود اپنے جیتنے کا تو ایک فیصد بھی یقین نہیں ہوتا۔ آزاد امیدوار بن کر کچھ رقم خرچ کرکے وہ اپنی پبلسٹی کرالیتے ہیں۔ اپنے حلقے میں بینر اور پوسٹرز لگواکر دوسروں پر رعب جھاڑتے ہیں۔ اخباری بیانات چھپواکر وہ خود کو بڑا اہم سمجھتے ہیں اور دوسرے امیدواروں سے سودے بازی کرتے ہیں یا خوشامد کرواکر وہ کسی کے حق میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اکثر آزاد امیدوار ایسے ہوتے ہیں جنھیں ان کے حلقے کے لوگ تو کیا محلے والے بھی نہیں جانتے اور ان کی انتخابی مہم بینروں، پوسٹروں تک محدود ہوتی ہے۔
وہ پبلسٹی کے لیے اپنے چند حواریوں کے ساتھ دکھاوے کی ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلالیتے ہیں اور کارنرمیٹنگ تک کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ الیکشن کے روز کسی پولنگ اسٹیشن پر ان کا ایک بھی پولنگ ایجنٹ موجود نہیں ہوتا مگر متعلقہ حلقے کے بیلٹ پیپر پر ان کا نام اور انتخابی نشان موجود ہوتا ہے اور وہ ساری عمر اسی پر فخر کرتے ہیں کہ انھوں نے قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے انتخاب لڑا تھا مگر وہ اپنے رزلٹ کا کسی کو نہیں بتاتے۔
امیدواروں کی اس غیر ضروری بھرمار کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا کام اور اخراجات بڑھ جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں بھی سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ بیلٹ پیپر بڑا نہ ہو اور غیر ضروری طور پر انتخاب لڑنے کے ان شوقینوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
ایک اخباری خبرکے مطابق 2013 کے عام انتخابات میں 180 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئی ہیں جو مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرسکے۔ تفصیل کے مطابق قومی اسمبلی کے کل 43 امیدواروں کی ایک لاکھ 72 ہزار روپے کی رقم اور صوبائی اسمبلی کے 11 حلقوں میں 137 امیدواروں کی دو لاکھ 74 ہزار روپے کی زر ضمانت کے طور پر رکھی گئی رقم بحق سرکار ضبط کرلی گئی ہے کیونکہ الیکشن میں پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار نے 1/8 ووٹ لینا لازمی ہوتا ہے اور اگر کوئی اس سے کم ووٹ لیتا ہے تو اس کی رکھی گئی ضمانت کی رقم ضبط کرلی جاتی ہے۔
حالیہ انتخابات الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تقریباً ڈیڑھ سو سیاسی پارٹیوں سمیت سولہ ہزار سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا اور تقریباً ڈیڑھ درجن رجسٹرڈ پارٹیوں کے امیدواروں نے ہی کامیابی حاصل کی جن میں ایسی پارٹیاں بھی ہیں جنھیں قومی اسمبلی کی صرف ایک ایک نشست حاصل ہوئی ہے اور ان پارٹیوں کی تعداد صرف 8 ہے جن میں شمولیت پر عمران خان کی حمایت سے کامیاب ہونے والے شیخ رشید احمد کو بڑا فخر ہے کہ ان کی پارٹی صرف ایک قومی نشست جیتنے والی پارٹیوں میں شامل ہے مگر شیخ رشید یہ بھول گئے کہ عمران خان نے شخصی بنیاد پر شیخ رشید کو کامیاب کرایا اور یہ کامیابی عوامی مسلم لیگ کی نہیں بلکہ شیخ رشید کی ذاتی حیثیت میں ہے جب کہ ایک قومی نشست حاصل کرنے والی پارٹیوں کے پاس اپنے صوبوں کی کچھ صوبائی نشستیں بھی ہیں اور عوامی مسلم لیگ واحد پارٹی ہے جس کے پاس کوئی صوبائی نشست نہیں ہے۔
شیخ رشید جیسی مشہور شخصیت اپنی ایک نشست پر نازاں ہے کہ ان کی پارٹی کا شمار بھی قومی اسمبلی کی ایک نشست رکھنے والی پارٹیوں میں ہے اور وہ اپنی پارٹی کو ملک گیر پارٹی سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تھوک کے حساب سے اپنے پاس سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ کر رکھی ہیں اور ان میں صرف 20 فیصد ایسی پارٹیاں بھی نہیں ہیں جن کو ملک اور صوبوں میں تو کیا اس پارٹی کے سربراہ کو اس کے علاقے والے بھی جانتے ہوں۔ ان پارٹیوں کے سربراہ اپنی دولت کے باعث پریس ریلیزوں کے ذریعے خود کو اخبارات کے ذریعے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور خود کو بڑا سیاسی رہنما سمجھ کر اخبارات میں بیان داغتے رہتے ہیں اور اپنی شائع شدہ خبروں کا ریکارڈ دوسروں کو دکھا کر اپنا مصنوعی رعب جھاڑتے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے باہر سیکڑوں ایسی نام نہاد اور خود ساختہ تنظیمیں بھی ہیں جنھوں نے اپنے شہروں میں خود کو سماجی تنظیم کے طور پر رجسٹرڈ کرا رکھا ہے اور نہ صرف چندوں پر پل رہی ہیں بلکہ سرکاری افسروں اور اداروں کو بلیک میل بھی کرتی ہیں کہ اگر ان کا کام نہ ہوا تو وہ ان کے خلاف اخبارات کو پریس ریلیز جاری کردیں گی ان نام نہاد پارٹیوں اور تنظیموں کے عہدیداروں نے ایسے ملازم رکھے ہوئے ہیں جو روزانہ ان کی پریس ریلیز بناکر اخباری دفاتر میں پہنچاتے ہیں اور خبر پریس ریلیز کے نام سے شائع ہونے کے بعد اس کی کٹنگ سے اپنا ریکارڈ بناتے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں جو جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور انھوں نے انتخابی نشانات بھی لیے ان کی اکثریت نے انتخابات میں اپنا ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی بہت بڑی تعداد نے حصہ لیا اور محض بیلٹ پیپرز پر اپنا نام اور انتخابی نشان چھپوانے کا شوق پورا کیا۔ ان آزاد امیدواروں نے اپنے بینرز تو کیا پمفلٹ تک نہیں چھپوائے اور ان آزاد امیدواروں کی وجہ سے بڑے بڑے بیلٹ پیپر چھپوانے پڑے ان بڑے بڑے بیلٹ پیپرز پر جہاں قومی و صوبائی پارٹیوں کے انتخابی نشانات اور امیدواروں کے نام تھے جو واقعی انتخاب لڑ رہے تھے ان کی تعداد درجن بھر سے زیادہ نہیں ہوگی اور باقی بیلٹ پیپر ان آزاد امیدواروں کی وجہ سے بڑے بڑے چھپوانے پڑے جو صرف نام چھپوانے کی حد تک ہی انتخاب لڑ رہے تھے جس کی وجہ سے ووٹ ڈالنے جانے والوں کو پولنگ اسٹیشنوں پر لمبے چوڑے ایسے بیلٹ پیپر ملے جن پر انھیں سیاسی پارٹیوں اور اپنے امیدوار کے نشانات تلاش کرنے میں نہ صرف پریشانی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کا وقت بھی ضائع ہوا اور بعض ملتے جلتے انتخابی نشانات کے باعث وہ غلط نشانوں پر مہر لگا بیٹھے جس کی وجہ سے ان کے ووٹ بھی ضائع ہوئے اور سخت گرمی میں لائن لگاکر پولنگ بوتھ تک ان کا پہنچنا بھی بے مقصد رہا۔
ایسے آزاد امیدواروں کی تعداد بمشکل پانچ فیصد ہوگی جنھیں ہزاروں کی بڑی تعداد میں ووٹ ملتے ہیں اور یہ امیدوار وہ ہوتے ہیں جو بڑے جاگیردار، صنعت کار اور دولت مند ہوتے ہیں اور ان کے آبائی حلقے اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ لیں یا نہ لیں یا انھیں ٹکٹ نہ ملے تو وہ اپنے ہی بل بوتے پر انتخاب لڑتے ہیں اور کامیاب ہوکر کسی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں یا سودے بازی کے لیے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھتے یہں۔
آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد ان مفاد پرستوں کی ہوتی ہے جنھیں خود اپنے جیتنے کا تو ایک فیصد بھی یقین نہیں ہوتا۔ آزاد امیدوار بن کر کچھ رقم خرچ کرکے وہ اپنی پبلسٹی کرالیتے ہیں۔ اپنے حلقے میں بینر اور پوسٹرز لگواکر دوسروں پر رعب جھاڑتے ہیں۔ اخباری بیانات چھپواکر وہ خود کو بڑا اہم سمجھتے ہیں اور دوسرے امیدواروں سے سودے بازی کرتے ہیں یا خوشامد کرواکر وہ کسی کے حق میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اکثر آزاد امیدوار ایسے ہوتے ہیں جنھیں ان کے حلقے کے لوگ تو کیا محلے والے بھی نہیں جانتے اور ان کی انتخابی مہم بینروں، پوسٹروں تک محدود ہوتی ہے۔
وہ پبلسٹی کے لیے اپنے چند حواریوں کے ساتھ دکھاوے کی ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلالیتے ہیں اور کارنرمیٹنگ تک کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ الیکشن کے روز کسی پولنگ اسٹیشن پر ان کا ایک بھی پولنگ ایجنٹ موجود نہیں ہوتا مگر متعلقہ حلقے کے بیلٹ پیپر پر ان کا نام اور انتخابی نشان موجود ہوتا ہے اور وہ ساری عمر اسی پر فخر کرتے ہیں کہ انھوں نے قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے انتخاب لڑا تھا مگر وہ اپنے رزلٹ کا کسی کو نہیں بتاتے۔
امیدواروں کی اس غیر ضروری بھرمار کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا کام اور اخراجات بڑھ جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں بھی سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ بیلٹ پیپر بڑا نہ ہو اور غیر ضروری طور پر انتخاب لڑنے کے ان شوقینوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوسکے۔