ملازمین کی حوصلہ شکنی کے نتائج
دراصل انسان جو بھی کام کرتا ہے وہ حوصلے کے ذریعے کرتا ہے کیوں کہ حوصلہ ہی انسان کو آگے بڑھاتا ہے۔
TAIPEI:
دنیا کا نظام حیاتِ اجتماعی ہے اور انسان اسی میں زندگی گزارتا ہے۔ اجتماعی نظامِ حیات میں ہر شخص کسی رشتے یا تعلق کے واسطے سے دوسرے کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔
انسانوں کے یہ باہمی روابط مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، بسا اوقات آپس کے اس تعلق میں ایک شخص بڑا اور حاکم ہوتا ہے جب کہ دوسرا اس کے ماتحت اور زیر حُکم ہوتا ہے، اس نوعیت کا تعلق معاشرے میں بہت وسعت رکھتا ہے اور مختلف طبقات کے افراد اس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین اور اولاد ، استاد اور شاگرد، مالک اور ملازم کا تعلق اسی نوعیت کا ہے۔ کیوں کہ اولاد ، شاگرد اور ملازم یہ سب اپنے والدین، استاد اور مالک کے ماتحت ہوتے ہیں۔
معاشرے کے اندر اس رشتے میں جُڑے افراد آپس کے اس تعلق کے حوالے سے جن پریشانیوں کے شکار ہوتے ہیں، ان میں سے ایک پریشانی بڑوں کو اپنے ماتحتوں سے یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ان کی بات نہیں مانتے، ان کی چاہت کے مطابق کام نہیں کرتے چناں چہ والدین اپنی اولاد کی، استاد اپنے شاگرد بچوں کی، اسی طرح مالک اپنے ماتحت ملازمین کی یہی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک بڑی پریشانی ہے جو بڑوں کو اپنے ماتحتوں سے ہوتی ہے۔ مذکورہ پریشانی میں مبتلا افراد بسا اوقات اپنے ماتحتوں کے لیے صرف سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کا راستہ اختیار کرتے ہیں، مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے وہ ان کے مطیع و فرماں بردار ہوجائیں گے، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے کہ ماتحت اس سے ایک طرح کی بغاوت پر اتر آتے ہیں اور اس پریشانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بل کہ بسا اوقات یہ لاعلاج ہوجاتی ہے ، اس لیے اس طریقہ کار کا انتخاب نقصان دہ ہے۔
مذکورہ پریشانی کا ایک بہترین حل ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہے۔ حوصلہ افزائی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ماتحتوں کے اچھے کام پر اپنے قول و فعل سے ان کی تعریف کریں اور ان کی غلطیوں سے حتی الامکان درگزر کریں، آپ کے اس رویے سے ان کے دل میں اپنے لیے اطاعت اور فرماں برداری کا سچا اور دیر پا جذبہ پیدا کر پائیں گے جو اصل مطلوب ہے۔
اس کے برعکس اگر آپ ان کے ساتھ ہر وقت سختی سے پیش آئیں گے، ان کے اچھے کاموں کو نظر انداز کرکے صرف ان کی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر ٹوکیں گے تو ایسی صورت میں وہ وقتی طور پر بہ امر مجبوری آپ کی بات شاید مان جائیں گے لیکن عمومی طور پر یہ فرماں برداری صرف ظاہر تک ہی محدود ہوتی ہے، باقی دل ہی دل میں وہ آپ کے باغی بنتے چلے جاتے ہیں۔ جس کے آثار ان کے ظاہری اقوال و افعال میں بھی ظاہر ہوتے ہیں اور یہ بات جانبین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ حوصلہ افزائی کا یہ عمل ایک انتہائی مفید عمل ہے اور یہ صرف ماتحتوں کے لیے ہی خاص نہیں ہے بل کہ انسان کا اپنی زندگی میں جن کے ساتھ بھی تعلق ہو ان کے ساتھ یہی حوصلہ افزائی کا رویہ اپنانا چاہیے۔
دراصل انسان جو بھی کام کرتا ہے وہ حوصلے کے ذریعے کرتا ہے کیوں کہ حوصلہ ہی انسان کو آگے بڑھاتا ہے اور حوصلہ افزائی کے معنی ہی حوصلہ بڑھانے کے ہیں لہذا اگر آپ اپنے ماتحتوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو ان کا حوصلہ بڑھے گا جس سے وہ آپ کی مرضی و منشا کے مطابق کام کریں گے اور اگر آپ ان پر ہر وقت غصہ اور سختی کریں گے، ڈانٹ ڈپٹ کریں گے تو اس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی جس کے نتیجے میں کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، لوگ چوں کہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں اس لیے وہ اس پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی ذات ہمارے لیے عملی نمونہ ہے، صحابہ کرامؓ آپؐ کے انتہائی مطیع و فرماں بردار تھے، ان کی اس اطاعت فرماں برداری کا راز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے ساتھ نرمی اور احسان پر مبنی رویہ اور برتاؤ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ سخت دل اور سخت مزاج نہیں تھے بل کہ نرم مزاج تھے اور وہ ان کے ساتھ انتہائی احسان اور نرمی کا برتاؤ رکھتے تھے۔ آپؐ ان کے اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی جملے ارشاد فرماتے تھے اور ان کی خطاؤں سے درگزر فرماتے تھے۔
حضرت انسؓ نبی کریم ﷺ کے خادم خاص تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال آپؐ کی خدمت کی اس دوران آپ نے مجھے کبھی کسی بات پر ڈانٹا نہیں۔ اس عرصے میں یقینا ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی، کیوں کہ وہ بھی انسان تھے اور کم عمر بھی لیکن آپ ؐ نے ان کی غلطیوں سے اس حد تک درگزر کیا کہ کبھی ان کو ڈانٹنے کی بھی نوبت نہیں آئی۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ماتحتوں کے سا تھ اخلاق اور برتاؤ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپؐ کا یہی برتاؤ اور رویہ تھا جس کے سبب صحابہ کرامؓ آپؐ پر ہر وقت اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بھی صحابہ کرامؓ کی اس جان نثاری کا یہی راز بتایا ہے۔
نبی کریمؐ کی اس عملی زندگی سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اگر ہم اپنے ماتحتوں کو اپنا مطیع و فرماں بردار دیکھنا چاہتے ہیں، ان سے اپنی مرضی و منشا کے مطابق درست کام لینا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے ساتھ صرف سختی اور ڈانٹ ڈپٹ والا رویہ اپنانے کے بہ جائے پیار و محبت کے ساتھ نرمی اور حوصلہ افزائی والا رویہ اپنانا چاہیے، اسی سے ان کا حوصلہ بڑھے گا اور اسی حوصلے کی بنیاد پر وہ محنت اور لگن کے ساتھ اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں گے۔
اللہ تعالی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ؐ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
دنیا کا نظام حیاتِ اجتماعی ہے اور انسان اسی میں زندگی گزارتا ہے۔ اجتماعی نظامِ حیات میں ہر شخص کسی رشتے یا تعلق کے واسطے سے دوسرے کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔
انسانوں کے یہ باہمی روابط مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، بسا اوقات آپس کے اس تعلق میں ایک شخص بڑا اور حاکم ہوتا ہے جب کہ دوسرا اس کے ماتحت اور زیر حُکم ہوتا ہے، اس نوعیت کا تعلق معاشرے میں بہت وسعت رکھتا ہے اور مختلف طبقات کے افراد اس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین اور اولاد ، استاد اور شاگرد، مالک اور ملازم کا تعلق اسی نوعیت کا ہے۔ کیوں کہ اولاد ، شاگرد اور ملازم یہ سب اپنے والدین، استاد اور مالک کے ماتحت ہوتے ہیں۔
معاشرے کے اندر اس رشتے میں جُڑے افراد آپس کے اس تعلق کے حوالے سے جن پریشانیوں کے شکار ہوتے ہیں، ان میں سے ایک پریشانی بڑوں کو اپنے ماتحتوں سے یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ان کی بات نہیں مانتے، ان کی چاہت کے مطابق کام نہیں کرتے چناں چہ والدین اپنی اولاد کی، استاد اپنے شاگرد بچوں کی، اسی طرح مالک اپنے ماتحت ملازمین کی یہی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک بڑی پریشانی ہے جو بڑوں کو اپنے ماتحتوں سے ہوتی ہے۔ مذکورہ پریشانی میں مبتلا افراد بسا اوقات اپنے ماتحتوں کے لیے صرف سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کا راستہ اختیار کرتے ہیں، مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے وہ ان کے مطیع و فرماں بردار ہوجائیں گے، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے کہ ماتحت اس سے ایک طرح کی بغاوت پر اتر آتے ہیں اور اس پریشانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بل کہ بسا اوقات یہ لاعلاج ہوجاتی ہے ، اس لیے اس طریقہ کار کا انتخاب نقصان دہ ہے۔
مذکورہ پریشانی کا ایک بہترین حل ماتحتوں کی حوصلہ افزائی ہے۔ حوصلہ افزائی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ماتحتوں کے اچھے کام پر اپنے قول و فعل سے ان کی تعریف کریں اور ان کی غلطیوں سے حتی الامکان درگزر کریں، آپ کے اس رویے سے ان کے دل میں اپنے لیے اطاعت اور فرماں برداری کا سچا اور دیر پا جذبہ پیدا کر پائیں گے جو اصل مطلوب ہے۔
اس کے برعکس اگر آپ ان کے ساتھ ہر وقت سختی سے پیش آئیں گے، ان کے اچھے کاموں کو نظر انداز کرکے صرف ان کی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر ٹوکیں گے تو ایسی صورت میں وہ وقتی طور پر بہ امر مجبوری آپ کی بات شاید مان جائیں گے لیکن عمومی طور پر یہ فرماں برداری صرف ظاہر تک ہی محدود ہوتی ہے، باقی دل ہی دل میں وہ آپ کے باغی بنتے چلے جاتے ہیں۔ جس کے آثار ان کے ظاہری اقوال و افعال میں بھی ظاہر ہوتے ہیں اور یہ بات جانبین کے لیے پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ حوصلہ افزائی کا یہ عمل ایک انتہائی مفید عمل ہے اور یہ صرف ماتحتوں کے لیے ہی خاص نہیں ہے بل کہ انسان کا اپنی زندگی میں جن کے ساتھ بھی تعلق ہو ان کے ساتھ یہی حوصلہ افزائی کا رویہ اپنانا چاہیے۔
دراصل انسان جو بھی کام کرتا ہے وہ حوصلے کے ذریعے کرتا ہے کیوں کہ حوصلہ ہی انسان کو آگے بڑھاتا ہے اور حوصلہ افزائی کے معنی ہی حوصلہ بڑھانے کے ہیں لہذا اگر آپ اپنے ماتحتوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو ان کا حوصلہ بڑھے گا جس سے وہ آپ کی مرضی و منشا کے مطابق کام کریں گے اور اگر آپ ان پر ہر وقت غصہ اور سختی کریں گے، ڈانٹ ڈپٹ کریں گے تو اس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی جس کے نتیجے میں کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، لوگ چوں کہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں اس لیے وہ اس پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی ذات ہمارے لیے عملی نمونہ ہے، صحابہ کرامؓ آپؐ کے انتہائی مطیع و فرماں بردار تھے، ان کی اس اطاعت فرماں برداری کا راز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے ساتھ نرمی اور احسان پر مبنی رویہ اور برتاؤ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ سخت دل اور سخت مزاج نہیں تھے بل کہ نرم مزاج تھے اور وہ ان کے ساتھ انتہائی احسان اور نرمی کا برتاؤ رکھتے تھے۔ آپؐ ان کے اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ افزائی کے لیے تعریفی جملے ارشاد فرماتے تھے اور ان کی خطاؤں سے درگزر فرماتے تھے۔
حضرت انسؓ نبی کریم ﷺ کے خادم خاص تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال آپؐ کی خدمت کی اس دوران آپ نے مجھے کبھی کسی بات پر ڈانٹا نہیں۔ اس عرصے میں یقینا ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی، کیوں کہ وہ بھی انسان تھے اور کم عمر بھی لیکن آپ ؐ نے ان کی غلطیوں سے اس حد تک درگزر کیا کہ کبھی ان کو ڈانٹنے کی بھی نوبت نہیں آئی۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ماتحتوں کے سا تھ اخلاق اور برتاؤ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپؐ کا یہی برتاؤ اور رویہ تھا جس کے سبب صحابہ کرامؓ آپؐ پر ہر وقت اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بھی صحابہ کرامؓ کی اس جان نثاری کا یہی راز بتایا ہے۔
نبی کریمؐ کی اس عملی زندگی سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اگر ہم اپنے ماتحتوں کو اپنا مطیع و فرماں بردار دیکھنا چاہتے ہیں، ان سے اپنی مرضی و منشا کے مطابق درست کام لینا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے ساتھ صرف سختی اور ڈانٹ ڈپٹ والا رویہ اپنانے کے بہ جائے پیار و محبت کے ساتھ نرمی اور حوصلہ افزائی والا رویہ اپنانا چاہیے، اسی سے ان کا حوصلہ بڑھے گا اور اسی حوصلے کی بنیاد پر وہ محنت اور لگن کے ساتھ اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں گے۔
اللہ تعالی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ؐ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔