ریونیوبورڈ میں مستقلی قانون کیخلاف درخواست پر نوٹس
ملازمین کوریگولرائزکرنے کی پہلی فہرست106،دوسری میں154ملازمین ہیں۔
سندھ ریونیو بورڈ میں کنٹریکٹ ملازمین کومستقل کرنے کے قانون کے خلاف درخواست پر چیف سیکریٹری سندھ اور چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ( ایس آر بی )کو عدالت نے نوٹس جاری کردیے ہیں۔
درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ سندھ ریونیو بورڈ ایکٹ 2012 میں پبلک سروس کمیشن کونظرانداز کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کا راستہ نکالا گیا ہے جوکہ آئین پاکستان سے متصادم ہے، رابعہ خاتون اور فائق علی جاگیرانی نے حکومت سندھ کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیارکیا ہے کہ سندھ اسمبلی نے سندھ ریونیو بورڈ کے 2010 کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے بورڈ کو اختیار دیا ہے کہ وہ ادارے میں کنٹریکٹ پر گریڈ ایک سے 20 کی اسامیوں پر تعینات ملازمین کو مستقل کرسکتا ہے ،درخواست گزار کے مطابق یہ قانون جنوری 13سے لاگو ہوا ہے ، اس طرح حکومت کو یہ اختیارمل گیا ہے کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر پبلک سروس کمیشن کو نظرانداز کرکے من پسند افراد کو بھرتی کرسکتا ہے ۔
درخواست گزاروں کے مطابق اس قانون کی منظوری کے بعد مستقل کرنے کے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری فنانس اور سیکریٹری سروسزاینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے اس قانون پر شدید اعتراضات کیے تھے ،درخواست گزاروں کے مطابق اس صورتحال میں ایک اجلاس چھٹی کے روز 5مئی کو ہوا جس کی اطلاع سلیکشن کمیٹی کے تمام ارکان کو نہیں کی گئی ، درخواست گزاروں کے مطابق کنٹریکٹ پر تعینات ملازمین کومستقل کرنے کے لیے پہلی فہرست 106 ملازمین کی تھی لیکن دوسری فہرست 154 ملازمین تک پہنچ گئی ، ان میں سے بیشتر وہ ملازمین تھے جنھیں مستقلی سے صرف ایک روز قبل ہی کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا، درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ یہ امتیازی قانون ہے اور آئین سے متصادم ہے ، اسمبلی کو یہ ایکٹ منظورکرنے کا اختیارنہیں تھا اس لیے قانون کو کالعدم اور غیرقانونی قراردیا جائے ۔
درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ سندھ ریونیو بورڈ ایکٹ 2012 میں پبلک سروس کمیشن کونظرانداز کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کا راستہ نکالا گیا ہے جوکہ آئین پاکستان سے متصادم ہے، رابعہ خاتون اور فائق علی جاگیرانی نے حکومت سندھ کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیارکیا ہے کہ سندھ اسمبلی نے سندھ ریونیو بورڈ کے 2010 کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے بورڈ کو اختیار دیا ہے کہ وہ ادارے میں کنٹریکٹ پر گریڈ ایک سے 20 کی اسامیوں پر تعینات ملازمین کو مستقل کرسکتا ہے ،درخواست گزار کے مطابق یہ قانون جنوری 13سے لاگو ہوا ہے ، اس طرح حکومت کو یہ اختیارمل گیا ہے کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر پبلک سروس کمیشن کو نظرانداز کرکے من پسند افراد کو بھرتی کرسکتا ہے ۔
درخواست گزاروں کے مطابق اس قانون کی منظوری کے بعد مستقل کرنے کے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری فنانس اور سیکریٹری سروسزاینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے اس قانون پر شدید اعتراضات کیے تھے ،درخواست گزاروں کے مطابق اس صورتحال میں ایک اجلاس چھٹی کے روز 5مئی کو ہوا جس کی اطلاع سلیکشن کمیٹی کے تمام ارکان کو نہیں کی گئی ، درخواست گزاروں کے مطابق کنٹریکٹ پر تعینات ملازمین کومستقل کرنے کے لیے پہلی فہرست 106 ملازمین کی تھی لیکن دوسری فہرست 154 ملازمین تک پہنچ گئی ، ان میں سے بیشتر وہ ملازمین تھے جنھیں مستقلی سے صرف ایک روز قبل ہی کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا، درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ یہ امتیازی قانون ہے اور آئین سے متصادم ہے ، اسمبلی کو یہ ایکٹ منظورکرنے کا اختیارنہیں تھا اس لیے قانون کو کالعدم اور غیرقانونی قراردیا جائے ۔