بچوں کی حفاظت کیجیے
سیل فون اورلیپ ٹاپ لڑکیوں میں جومنفی اثرات پھیلارہاہے۔اس کااحاطہ کرنامیرے لیے ناممکن ہے۔
ثریا کودن میں وہی عام سے کام کرنے ہوتے تھے جو ملک میں کروڑوں خواتین روزانہ کرتی ہیں۔گھرکی صفائی، کپڑے دھونے،کھاناپکانا اورپھراہم ترین فریضہ،اپنے چھوٹے سے بچے کی دیکھ بھال۔ پہلابیٹا تھا۔ایک ڈیڑھ سال کاننھا منابچہ۔گھرگرہستی کے دوران ثریانے بچے کوبہلانے کا ایک آسان ساطریقہ ڈھونڈلیا۔کرتی یہ تھی کہ ٹی وی پر کارٹون نیٹ ورک کھول دیتی تھی۔
معصوم بچے کوایک چھوٹی سی کرسی پربٹھاکرمحفوظ طریقے سے بیلٹ باندھ دیتی تھی۔ بچے کارخ ٹی وی کی طرف کرتی تھی۔بچہ انہماک سے مسکرا مسکراکرٹی وی پرکارٹون دیکھناشروع کردیتاتھا۔بچے کے لیے رنگ برنگے کردارایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑتے ہوئے بہت خوشگوار تھے۔
چھوٹا سابچہ ان کرداروں کودیکھ کر مسکراتا تھا، ہنستا تھا اورتالیاں بجاتاتھا۔اسے خوش دیکھ کر ماں بھی مطمئن رہتی تھی۔اب ثریانے یہ بھی کرنا شروع کر دیاکہ اگرگھرمیں مہمان آجائیں توبھی بچے کوچلتے ہوئے ٹی وی کے سامنے بٹھا دیتی تھی۔باہرشاپنگ پر جانا ہو،توملازمہ کوہدایت کرکے جاتی تھی کہ بچے کوٹی وی کے سامنے بٹھائے رکھنا تاکہ وہ مطمئن رہے۔
بچہ آہستہ آہستہ بڑاہونا شروع ہوگیا۔چلنا پھرنا شروع کردیا۔ماں نے اسے پلے گروپ میں کروادیا۔اسکول جاکر بھی بچہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ درسگاہ کی طرف سے کارٹون دیکھتا رہتاتھا۔خیریہ معمول سابن گیا۔جیسے ہی ماں ٹی وی بند کرتی،بچہ دھاڑیں مار مارکرروناشروع کردیتا۔مجبوراًٹی وی دوبارہ آن کرنا پڑتا۔ جب پانچ برس کاہوا،توبچے نے اسکول کی کتابیں پڑھنا بہت کم کردیں۔کتابوں سے چڑسی ہوگئی تھی۔
ہوم ورک بھی بے حدمشکل سے کرتاتھا۔ماں باپ کوسمجھ نہیں آرہی تھی کہ مسئلہ کیاہے۔اپنے لعل کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں اُٹھارکھی تھی۔دوسری طرف ننھاپھول ہروقت ٹی وی دیکھنے کے لیے بیتاب رہتاتھا۔ٹی وی بندملے تواس نے دوسرا کام شروع کردیا۔باپ یاماں کاموبائل فون اُٹھاکر کونے میں بیٹھ جاتاتھااورگیمزکھیلنی شروع کردیتا تھا۔ بچے کومعلوم تھاکہ سیل فون کس طرح آن کرناہے۔کس بٹن سے گیمز تک رسائی حاصل کرنی ہے۔گھنٹوں کھیلنے میں مصروف رہتا تھا۔بچے کی زندگی میں اب صرف دوچیزیں اہم تھیں۔
کارٹون نیٹ ورک اورسیل فون پر گیمز۔یہ دونوں نہ ہوں، تو دھاڑیں مارمارکررونے لگتا تھا۔ہاں،اگرکتاب سامنے آجائے، کچھ لکھنا پڑجائے، توبھی آنسوؤں سے روتاتھا۔ماں باپ انتہائی پریشان ہوگئے کہ بالٓاخراپنے بچے کوکس طرح ٹھیک کریں۔ پانچ برس کے بچے کومارپیٹ بھی نہیںسکتے تھے۔ ایک دن باپ،بچے کوزبردستی ڈاکٹرکے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے اطمینان سے طبی معائنہ کیا۔اس کے حساب سے بچہ بالکل صحت مند تھا۔والدین نے ساری صورتحال بتائی،تو ڈاکٹر کا جواب تھا کہ میرے حساب سے آپکابیٹابالکل ٹھیک ہے۔ واپس گھر آگئے۔
وہی روٹین دوبارہ شروع ہوگئی۔ دس بارہ دن بعد،صبح کے وقت بچہ اُٹھا۔کمرے میں سامنے پڑی ہوئی کرسی سے زورسے ٹکراگیا۔کافی چوٹ آئی۔ماں باپ کی جان پربن آئی۔اسے بہترین ڈاکٹرکے پاس لے گئے۔ دوچاردن میں خیربچہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔اب وہ چھ سال کا تھا۔ مگر اکثراوقات گھرمیں پڑی اشیاء سے ٹکراکر زخمی ہوجاتا تھا۔ پھردوبارہ ڈاکٹرکے پاس گئے۔
ڈاکٹرنے معائنہ کرکے جواب دیاکہ بچہ توبالکل ٹھیک ہے۔جب واپس جارہا تھا تو ڈاکٹرکے ذہن میں پتہ نہیں کیاآیاکہ باپ کوکہا،کہ ذرابچے کی آنکھیں ٹیسٹ کروالیں۔باپ نے دوچاردن بعد آنکھوں کے ڈاکٹرسے وقت لیا۔ آنکھوں کے ڈاکٹرنے انتہائی توجہ سے بچے کامعائنہ کیا۔ آنکھوں کی کیفیت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ عام بچوں کی قدرتی نظر 6×6 ہوتی ہے۔بچے کی نظر انتہائی کمزورتھی۔ قدرتی استطاعت سے آدھی ہوچکی تھی۔
ڈاکٹر سرپکڑکربیٹھ گیا۔ماں سے پوچھاکہ کیاآپ بچے کو ہر وقت ٹی وی یاسیل فون پرگیمز دکھاتی رہتی ہیں۔جواب اثبات میں تھا۔ڈاکٹرنے جواب دیا۔ آپ نے صرف اور صرف اپنی سہولت کے لیے بچے کی بینائی بربادکردی ہے۔ ہر وقت ٹی وی دیکھنے کی بدولت اس کی پچاس فیصدآنکھیں ضایع ہوچکی ہیں۔اسے توکتاب کے حروف بالکل نظرنہیں آتے۔ پڑھنا کیاخاک ہے۔معائنہ کے بعد،پوری عمر کے لیے بچے کو ایک موٹی سی عینک لگ گئی۔پوری زندگی کا ایسا روگ جس سے بخوبی بچا جاسکتا تھا۔ماں باپ نے اپنی سہولت دیکھی اور اپنے ہی بچے کی بینائی بربادکردی۔
بالکل اسی طرح جاویدتقریباًچودہ برس کاہوچکا تھا۔ اسے دوچیزوں کاجنون کی حدتک شوق تھا۔ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر اوردوسراسیل فون۔ہم جماعت بچوں کی اکثریت کے پاس دونوں چیزیں موجود تھیں۔ والدین نے اپنے بیٹے کو اس نیت سے موبائل لے کر دیا تھا کہ ہردم اس کی خیریت سے آگاہ رہیں۔لیپ ٹاپ کے متعلق معاملات بھی اس طرح کے تھے کہ بچہ کمپیوٹر پر تمام دنیاکی معلومات سے آگاہ رہے گا اور ان کی بدولت اس کے تعلیمی معاملات بہترہوجائینگے۔ مگرجاویدکی حدتک دونوں معاملات بالکل اُلٹ نکلے۔ ہروقت موبائل پر دوستوں سے باتیں کرتارہتا تھا۔ جہاں کہیں موبائل استعمال نہ کرسکتا، وہاں فوری طورپر بستے میں سے لیپ ٹاپ نکال کرفیس بُک اوراسی طرح کے سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر چلا جاتاتھا۔
اسکول کے علاوہ گھر جاکربھی یہی حال تھا۔جیسے ہی گھر پہنچتا تھا تو ہوم ورک کی کوئی بھی فکرنہیں ہوتی تھی۔وہی سیل فون پر گھنٹوں باتیں اورپھرطویل وقت کے لیے کمپیوٹر پر اوٹ پٹانگ سائٹس دیکھتے رہنا۔ایک دن والد،رات تین بجے کے قریب اُٹھے،بیٹے کے کمرے کے سامنے سے گزرے تو لائٹ آن تھی۔
وہ جاگ رہاتھا۔باپ کی طبیعت خوش ہوگئی کہ بیٹا ماشاء اللہ محنت کررہاہے۔امتحان بھی نزدیک تھے۔ شاباش دینے کے لیے بیٹے کے کمرے میں داخل ہوا،تو دیکھا کہ بیٹا لیٹے ہوئے کسی سے سیل فون پرباتیں کر رہا ہے۔ سامنے لیپ ٹاپ بھی کھلاہواہے۔کتابوں کانام ونشان تک نہیں تھا۔لگتاتھاکہ کمرے کاکتابوں سے تعلق ہی نہیں ہے۔ اسکول کی تمام کتابیں بستے میں بند تھیں۔ معلوم ہوتاتھاکہ انھیں کبھی باہرنکالاہی نہیں گیا۔بیٹا،اپنے والدکودیکھ کرگھبرا گیا۔ فوراًسیل فون بندکردیااورکمپیوٹربھی دہراکرکے رکھ دیا۔ باپ نے زبردستی لیپ ٹاپ کھولا۔جو ویب سائٹ بچہ دیکھ رہا تھا، وہ ہرطریقے سے غیراخلاقی تھی۔
باپ نے اپنے بیٹے کو بے حدڈانٹا۔ دوتین تھپڑبھی جڑدیے۔واپس آکربیوی کو اُٹھایا۔ لڑناشروع کردیاکہ تم نے کبھی بیٹے پرنظرہی نہیں رکھی کہ وہ کیاکررہاہے۔صبح اسکول جاکراس کے گریڈچیک کرو۔ بچہ توتباہ ہورہاہے۔اگلے دن اسکول پہنچے۔پرنسپل سے بچے کا تعلیمی ریکارڈنکلوایاتوپیروں تلے زمین نکل گئی۔بچہ ہر مضمون میں رعائتی نمبروں سے پاس ہورہا تھا۔یہ اسلام آباد کاایک بہترین نجی اسکول تھا۔
لہذاپرنسپل نے بچہ کواسکول سے نہیں نکالا۔اسکول کو تو صرف اورصرف فیس سے غرض تھی۔بچہ پاس ہویافیل ہویابربادہوجائے،انھیں اس سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ماں باپ واپس آئے اوران میں شدیدلڑائی شروع ہوگئی۔باپ نے ماں کوکہاکہ تم بچے کی تعلیمی بنیاد ہی نہیں رکھ سکیں۔تمہاری وجہ سے بچہ اب ہردرجہ نالائق ہوچکا ہے۔اس کی تربیت ہی ٹھیک نہیں ہوئی۔ جھگڑاختم ہوا۔ تو والد گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
آخر کیا وجہ تھی کہ انکابیٹا،تعلیمی دوڑمیں اتناپیچھے رہ گیا۔خیال آیاکہ موبائل فون اورلیپ ٹاپ توبرتھ ڈے پرخوداس نے بڑے چاؤسے لے کردیے تھے۔نالائقی کی اصل بنیاد تو ان اشیاء نے ڈالی ہے۔اس کے اپنے اندر شدید احساسِ ندامت پیدا ہوگیاکہ بیٹے کو تو خود اس نے اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا ہے۔ اگر قصورلڑکے کا ہے توپچاس فیصد قصور اسکااپنابھی ہے۔باپ نے ہاتھ پیر جوڑکر موبائل فون اورلیپ ٹاپ واپس لیا اور بچے کوحکم دیاکہ تعلیم پرتوجہ دے۔قصہ کوتاہ یہ کہ ان دواشیاء کے ضبط ہونے سے بیٹاکافی حدتک سدھرگیا۔
سیل فون اورلیپ ٹاپ لڑکیوں میں جومنفی اثرات پھیلارہاہے۔اس کااحاطہ کرنامیرے لیے ناممکن ہے۔بچی کس سے بات کررہی ہے،کس سے فیس بُک پردوستی کر چکی ہے،اس کی تعلیم اورکردارپران چیزوں کے کیامنفی اثرات پڑ رہے ہیں۔مجھے لکھتے ہوئے بھی جھجک محسوس ہورہی ہے۔ مگراب ہماری سوسائٹی میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا کلچر بالکل عام ہوچکاہے۔
معصوم بچے کوایک چھوٹی سی کرسی پربٹھاکرمحفوظ طریقے سے بیلٹ باندھ دیتی تھی۔ بچے کارخ ٹی وی کی طرف کرتی تھی۔بچہ انہماک سے مسکرا مسکراکرٹی وی پرکارٹون دیکھناشروع کردیتاتھا۔بچے کے لیے رنگ برنگے کردارایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑتے ہوئے بہت خوشگوار تھے۔
چھوٹا سابچہ ان کرداروں کودیکھ کر مسکراتا تھا، ہنستا تھا اورتالیاں بجاتاتھا۔اسے خوش دیکھ کر ماں بھی مطمئن رہتی تھی۔اب ثریانے یہ بھی کرنا شروع کر دیاکہ اگرگھرمیں مہمان آجائیں توبھی بچے کوچلتے ہوئے ٹی وی کے سامنے بٹھا دیتی تھی۔باہرشاپنگ پر جانا ہو،توملازمہ کوہدایت کرکے جاتی تھی کہ بچے کوٹی وی کے سامنے بٹھائے رکھنا تاکہ وہ مطمئن رہے۔
بچہ آہستہ آہستہ بڑاہونا شروع ہوگیا۔چلنا پھرنا شروع کردیا۔ماں نے اسے پلے گروپ میں کروادیا۔اسکول جاکر بھی بچہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ درسگاہ کی طرف سے کارٹون دیکھتا رہتاتھا۔خیریہ معمول سابن گیا۔جیسے ہی ماں ٹی وی بند کرتی،بچہ دھاڑیں مار مارکرروناشروع کردیتا۔مجبوراًٹی وی دوبارہ آن کرنا پڑتا۔ جب پانچ برس کاہوا،توبچے نے اسکول کی کتابیں پڑھنا بہت کم کردیں۔کتابوں سے چڑسی ہوگئی تھی۔
ہوم ورک بھی بے حدمشکل سے کرتاتھا۔ماں باپ کوسمجھ نہیں آرہی تھی کہ مسئلہ کیاہے۔اپنے لعل کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں اُٹھارکھی تھی۔دوسری طرف ننھاپھول ہروقت ٹی وی دیکھنے کے لیے بیتاب رہتاتھا۔ٹی وی بندملے تواس نے دوسرا کام شروع کردیا۔باپ یاماں کاموبائل فون اُٹھاکر کونے میں بیٹھ جاتاتھااورگیمزکھیلنی شروع کردیتا تھا۔ بچے کومعلوم تھاکہ سیل فون کس طرح آن کرناہے۔کس بٹن سے گیمز تک رسائی حاصل کرنی ہے۔گھنٹوں کھیلنے میں مصروف رہتا تھا۔بچے کی زندگی میں اب صرف دوچیزیں اہم تھیں۔
کارٹون نیٹ ورک اورسیل فون پر گیمز۔یہ دونوں نہ ہوں، تو دھاڑیں مارمارکررونے لگتا تھا۔ہاں،اگرکتاب سامنے آجائے، کچھ لکھنا پڑجائے، توبھی آنسوؤں سے روتاتھا۔ماں باپ انتہائی پریشان ہوگئے کہ بالٓاخراپنے بچے کوکس طرح ٹھیک کریں۔ پانچ برس کے بچے کومارپیٹ بھی نہیںسکتے تھے۔ ایک دن باپ،بچے کوزبردستی ڈاکٹرکے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے اطمینان سے طبی معائنہ کیا۔اس کے حساب سے بچہ بالکل صحت مند تھا۔والدین نے ساری صورتحال بتائی،تو ڈاکٹر کا جواب تھا کہ میرے حساب سے آپکابیٹابالکل ٹھیک ہے۔ واپس گھر آگئے۔
وہی روٹین دوبارہ شروع ہوگئی۔ دس بارہ دن بعد،صبح کے وقت بچہ اُٹھا۔کمرے میں سامنے پڑی ہوئی کرسی سے زورسے ٹکراگیا۔کافی چوٹ آئی۔ماں باپ کی جان پربن آئی۔اسے بہترین ڈاکٹرکے پاس لے گئے۔ دوچاردن میں خیربچہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔اب وہ چھ سال کا تھا۔ مگر اکثراوقات گھرمیں پڑی اشیاء سے ٹکراکر زخمی ہوجاتا تھا۔ پھردوبارہ ڈاکٹرکے پاس گئے۔
ڈاکٹرنے معائنہ کرکے جواب دیاکہ بچہ توبالکل ٹھیک ہے۔جب واپس جارہا تھا تو ڈاکٹرکے ذہن میں پتہ نہیں کیاآیاکہ باپ کوکہا،کہ ذرابچے کی آنکھیں ٹیسٹ کروالیں۔باپ نے دوچاردن بعد آنکھوں کے ڈاکٹرسے وقت لیا۔ آنکھوں کے ڈاکٹرنے انتہائی توجہ سے بچے کامعائنہ کیا۔ آنکھوں کی کیفیت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ عام بچوں کی قدرتی نظر 6×6 ہوتی ہے۔بچے کی نظر انتہائی کمزورتھی۔ قدرتی استطاعت سے آدھی ہوچکی تھی۔
ڈاکٹر سرپکڑکربیٹھ گیا۔ماں سے پوچھاکہ کیاآپ بچے کو ہر وقت ٹی وی یاسیل فون پرگیمز دکھاتی رہتی ہیں۔جواب اثبات میں تھا۔ڈاکٹرنے جواب دیا۔ آپ نے صرف اور صرف اپنی سہولت کے لیے بچے کی بینائی بربادکردی ہے۔ ہر وقت ٹی وی دیکھنے کی بدولت اس کی پچاس فیصدآنکھیں ضایع ہوچکی ہیں۔اسے توکتاب کے حروف بالکل نظرنہیں آتے۔ پڑھنا کیاخاک ہے۔معائنہ کے بعد،پوری عمر کے لیے بچے کو ایک موٹی سی عینک لگ گئی۔پوری زندگی کا ایسا روگ جس سے بخوبی بچا جاسکتا تھا۔ماں باپ نے اپنی سہولت دیکھی اور اپنے ہی بچے کی بینائی بربادکردی۔
بالکل اسی طرح جاویدتقریباًچودہ برس کاہوچکا تھا۔ اسے دوچیزوں کاجنون کی حدتک شوق تھا۔ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر اوردوسراسیل فون۔ہم جماعت بچوں کی اکثریت کے پاس دونوں چیزیں موجود تھیں۔ والدین نے اپنے بیٹے کو اس نیت سے موبائل لے کر دیا تھا کہ ہردم اس کی خیریت سے آگاہ رہیں۔لیپ ٹاپ کے متعلق معاملات بھی اس طرح کے تھے کہ بچہ کمپیوٹر پر تمام دنیاکی معلومات سے آگاہ رہے گا اور ان کی بدولت اس کے تعلیمی معاملات بہترہوجائینگے۔ مگرجاویدکی حدتک دونوں معاملات بالکل اُلٹ نکلے۔ ہروقت موبائل پر دوستوں سے باتیں کرتارہتا تھا۔ جہاں کہیں موبائل استعمال نہ کرسکتا، وہاں فوری طورپر بستے میں سے لیپ ٹاپ نکال کرفیس بُک اوراسی طرح کے سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر چلا جاتاتھا۔
اسکول کے علاوہ گھر جاکربھی یہی حال تھا۔جیسے ہی گھر پہنچتا تھا تو ہوم ورک کی کوئی بھی فکرنہیں ہوتی تھی۔وہی سیل فون پر گھنٹوں باتیں اورپھرطویل وقت کے لیے کمپیوٹر پر اوٹ پٹانگ سائٹس دیکھتے رہنا۔ایک دن والد،رات تین بجے کے قریب اُٹھے،بیٹے کے کمرے کے سامنے سے گزرے تو لائٹ آن تھی۔
وہ جاگ رہاتھا۔باپ کی طبیعت خوش ہوگئی کہ بیٹا ماشاء اللہ محنت کررہاہے۔امتحان بھی نزدیک تھے۔ شاباش دینے کے لیے بیٹے کے کمرے میں داخل ہوا،تو دیکھا کہ بیٹا لیٹے ہوئے کسی سے سیل فون پرباتیں کر رہا ہے۔ سامنے لیپ ٹاپ بھی کھلاہواہے۔کتابوں کانام ونشان تک نہیں تھا۔لگتاتھاکہ کمرے کاکتابوں سے تعلق ہی نہیں ہے۔ اسکول کی تمام کتابیں بستے میں بند تھیں۔ معلوم ہوتاتھاکہ انھیں کبھی باہرنکالاہی نہیں گیا۔بیٹا،اپنے والدکودیکھ کرگھبرا گیا۔ فوراًسیل فون بندکردیااورکمپیوٹربھی دہراکرکے رکھ دیا۔ باپ نے زبردستی لیپ ٹاپ کھولا۔جو ویب سائٹ بچہ دیکھ رہا تھا، وہ ہرطریقے سے غیراخلاقی تھی۔
باپ نے اپنے بیٹے کو بے حدڈانٹا۔ دوتین تھپڑبھی جڑدیے۔واپس آکربیوی کو اُٹھایا۔ لڑناشروع کردیاکہ تم نے کبھی بیٹے پرنظرہی نہیں رکھی کہ وہ کیاکررہاہے۔صبح اسکول جاکراس کے گریڈچیک کرو۔ بچہ توتباہ ہورہاہے۔اگلے دن اسکول پہنچے۔پرنسپل سے بچے کا تعلیمی ریکارڈنکلوایاتوپیروں تلے زمین نکل گئی۔بچہ ہر مضمون میں رعائتی نمبروں سے پاس ہورہا تھا۔یہ اسلام آباد کاایک بہترین نجی اسکول تھا۔
لہذاپرنسپل نے بچہ کواسکول سے نہیں نکالا۔اسکول کو تو صرف اورصرف فیس سے غرض تھی۔بچہ پاس ہویافیل ہویابربادہوجائے،انھیں اس سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ماں باپ واپس آئے اوران میں شدیدلڑائی شروع ہوگئی۔باپ نے ماں کوکہاکہ تم بچے کی تعلیمی بنیاد ہی نہیں رکھ سکیں۔تمہاری وجہ سے بچہ اب ہردرجہ نالائق ہوچکا ہے۔اس کی تربیت ہی ٹھیک نہیں ہوئی۔ جھگڑاختم ہوا۔ تو والد گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
آخر کیا وجہ تھی کہ انکابیٹا،تعلیمی دوڑمیں اتناپیچھے رہ گیا۔خیال آیاکہ موبائل فون اورلیپ ٹاپ توبرتھ ڈے پرخوداس نے بڑے چاؤسے لے کردیے تھے۔نالائقی کی اصل بنیاد تو ان اشیاء نے ڈالی ہے۔اس کے اپنے اندر شدید احساسِ ندامت پیدا ہوگیاکہ بیٹے کو تو خود اس نے اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا ہے۔ اگر قصورلڑکے کا ہے توپچاس فیصد قصور اسکااپنابھی ہے۔باپ نے ہاتھ پیر جوڑکر موبائل فون اورلیپ ٹاپ واپس لیا اور بچے کوحکم دیاکہ تعلیم پرتوجہ دے۔قصہ کوتاہ یہ کہ ان دواشیاء کے ضبط ہونے سے بیٹاکافی حدتک سدھرگیا۔
سیل فون اورلیپ ٹاپ لڑکیوں میں جومنفی اثرات پھیلارہاہے۔اس کااحاطہ کرنامیرے لیے ناممکن ہے۔بچی کس سے بات کررہی ہے،کس سے فیس بُک پردوستی کر چکی ہے،اس کی تعلیم اورکردارپران چیزوں کے کیامنفی اثرات پڑ رہے ہیں۔مجھے لکھتے ہوئے بھی جھجک محسوس ہورہی ہے۔ مگراب ہماری سوسائٹی میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا کلچر بالکل عام ہوچکاہے۔