جاگتے لمحے ایک منفرد خودنوشت
جب انصاف کا ترازو ہاتھ سے چھوٹا اور مصروفیت کے بعد وقت کی فراوانی میسر ہوئی تو لکھنے لکھانے کے لیے ذہن تیار نہ تھا۔
برصغیر میں حقوق نسواں اور اصلاح خواتین کے لیے بے مثال خدمت انجام دینے والے علامہ راشد الخیری کے پوتے جسٹس حاذق الخیری نے بھی اپنے دادا، والد اور والدہ کی طرح انسانیت کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی قابل قدر خدمت انجام دی ہے۔
1908 میں جاری ہونے والا ماہنامہ ''عصمت'' جو ایک رسالہ ہی نہیں ایک تحریک کا درجہ رکھتا تھا۔ ہندوستانی خواتین میں علم و آگہی پیدا کرنے کے بعد تحریک پاکستان کا داعی بنا اور پھر پاکستانی معاشرے کے سدھار کے لیے وقف ہوگیا۔
حاذق الخیری اپنے اجداد کی طرح کہنہ مشق افسانہ نگار، ناول نگار اور ادیب ہیں۔ بقول انتظار حسین ادب اپنی سوکن کو برداشت نہیں کرتا۔ حاذق الخیری جب اپنی ادبی زندگی کے عروج پر تھے کہ انھیں انصاف کا ترازو پکڑا دیا گیا اور پھر اس ترازو کی لاج رکھتے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے کرتے جوان سے بوڑھے ہوگئے اور قانون ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا جب کہ ادب کسی گلی میں دبک کر پیچھے رہ گیا۔
جب انصاف کا ترازو ہاتھ سے چھوٹا اور مصروفیت کے بعد وقت کی فراوانی میسر ہوئی تو لکھنے لکھانے کے لیے ذہن تیار نہ تھا۔ اس سلسلے میں جسٹس صاحب لکھتے ہیں ''جون 2009 میں اپنے فرائض منصبی یعنی چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان سے فارغ ہوکر واپس شہر قائد پہنچا ۔ یہاں پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی نے یاد فرمایا اور کہا ''لکھو'' اور بار بار کہا کہ اب فارغ ہوئے ہو تو لکھو۔ پر اب لکھنے کو کیا رہا تھا سوائے یاد رفتہ کے انھوں نے کہا ''وہی لکھو'' غبار چھٹا مڑکے دیکھا کہیں خود کو نہیں پہچانا۔
ایک زندگی میں کتنی زندگیوں کے روپ تھے۔ چنانچہ قلم اٹھایا دائیں سے بائیں لکھنا شروع کیا اور سوچا: نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔ مشکل یہ ہے کہ خودنوشت بغیر ''میں'' کے دو قدم آگے نہیں چل سکتی ''جسٹس صاحب نے ''میں'' کو ضرور اہم قرار دیا ہے مگر ان کی خود نوشت میں ''میں'' کم اور ''تو'' زیادہ نظر آتا ہے۔ آپ نے اپنی خودنوشت ''جاگتے لمحے'' میں خود کے علاوہ دوسروں کی بھی بات کی ہے اور بڑی تفصیل سے کی ہے۔
اپنے دوستوں، ساتھیوں اور جان پہچان والوں تک کا ذکر اتنے تواتر اور بھرپور انداز میں کیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی کتاب انھی کے لیے لکھی ہے۔ آپ نے اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کے علاوہ اپنے گھر کی نوکرانی کشمیرا تک کا ذکر کیا ہے جو بعد میں بمبئی کی مشہور ایکٹریس اورگلوکارہ بنی اور ٹن ٹن کے نام سے مشہور ہوئی۔
جسٹس صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز 1950 میں ہوا جب وہ طالب علم تھے۔ پہلا افسانہ ''احمق'' ماہنامہ ساقی میں شایع ہوا۔ ساقی کے مدیر شاہد دہلوی افسانہ بھیجنے کے لیے خود خط لکھتے اور یہ حاذق صاحب کے لیے اعزاز کی بات تھی۔ جب جنوری 1961 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ '' گزرتی شب '' آیا تو وہ خود ان کے گھر گئے، وہ بہت خوش ہوئے۔ وہاں اختر انصاری اکبر آبادی بیٹھے تھے۔ انھوں نے چچا شاہد سے کہا کہ وہ بہت دنوں سے گھر نہیں آئے۔ کہنے لگے کیا آؤں یہ دیکھو اختر انصاری ملک الموت کی طرح بیٹھے ہیں کہ ان کے رسالے کے لیے کوئی مضمون لکھ دوں۔
شاہد دہلوی نے حاذق الخیری صاحب کو بتائے بغیر ان کی کتاب کا اشتہار ساقی میں دے دیا اور ان کی افسانہ نگاری کی تعریف میں جو کچھ لکھا وہ باعث افتخار تھا۔ ''گزرتی شب'' کے منظر عام پر آنے پر بڑی پذیرائی ہوئی۔ کئی ادیبوں اور دانشوروں نے اسے خوب سراہا۔ اسی طرح ڈرامہ ''وہ آدمی'' کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ ملا واحدی نے لکھا ''میں قصے کہانیاں بہت کم پڑھتا ہوں مگر حاذق الخیری کے ڈرامے ''وہ آدمی'' کا پلاٹ تو بالکل انوکھا نرالا اور لاجواب ہے۔ حاذق الخیری نے اچھا ادیب ہونے کا ہی ثبوت نہیں دیا بلکہ اچھا ایڈوکیٹ ہونے کا بھی ثبوت دیا ہے۔''
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے ماہنامہ ''سات رنگ'' میں لکھا ''حاذق چاروں طرف سے ادیب ہیں۔ ان کی مادری زبان اردو ہی نہیں بلکہ ادبی اردو ہے۔ لہٰذا ان کی زبان مسلم ہی نہیں قدرتی چیز ہے۔ جس تک لوگ اکتساب سے پہنچتے ہیں ''ایک ادیب کی حیثیت سے تو اپنا لوہا منوایا ہی ہے ساتھ ہی بحیثیت وکیل، استاد اور پھر منصفی کے فرائض کی ادائیگی کا بھی حق ادا کردیا۔''
1956 میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات اور ایل ایل بی پاس کیا۔ قانون کی تعلیم کی طرف راغب ہونے کی سب سے بڑی وجہ قائد اعظم کی شخصیت سے محبت تھی۔ خاندان میں ان سے پہلے کوئی وکیل نہ تھا۔ انھوں نے اپنی وکالت کے زمانے کا ایک واقعہ یوں لکھا ہے کہ جائیداد کے بٹوارے کے معاملے میں ایک صاحب جو ایک پیرکے بیٹے تھے، مشورے کے لیے تشریف لائے۔ پیر صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔ وہ چار بیویاں اور پچاس کے قریب بچے اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔
اس پر حیرت کا اظہارکرنے پر بیٹے نے فرمایا کہ ابا حضورکی صرف چار بیویاں ہی نہیں رہیں بلکہ اور بہت ساری بیویاں تھیں، جب ایک بیوی مرجاتی تو خانہ پوری کرلیتے پھر طبیعت بھر جاتی تو طلاق بھی دے دیتے تھے۔ پوچھا گیا کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے تھے کہنے لگے والد صاحب کے بچوں کی تین کیٹیگریاں تھیں۔
اے کیٹیگری میں وہ تھے جن کے وہ نام جانتے اور پہچانتے تھے۔ بی کیٹیگری میں وہ بچے تھے جنھیں وہ پہچانتے تھے مگر نام نہیں جانتے تھے اور سی کیٹیگری میں وہ بچے تھے جنھیں وہ نہ جانتے تھے اور نہ ہی پہچانتے تھے پوچھا گیا کہ آپ کس کیٹیگری میں ہیں تو ادھر ادھر دیکھ کر بولا ''سمجھ لیجیے سی کیٹیگری میں ہوں۔'' حاذق صاحب نے جائیداد کے اس بٹوارے کے کیس سے معذرت کرلی تھی۔
ایک جج سے چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان کے عہدے تک پہنچے اور بے داغ رہے۔ اردو کی خدمت کا جہاں تک تعلق ہے پاکستان رائٹرز گلڈ کے بانی ممبران میں سے تھے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی دل کھول کر خدمت کی۔ برج کے بہترین کھلاڑی رہے۔ ان کی متانت برد باری خوش مزاجی اور سب سے بڑھ کر سنجیدگی کے تو سب ہی قائل ہیں مگر آپ ایک زندہ دل انسان بھی ہیں۔
لکھتے ہیں نیا سال ہم کلب میں مناتے تھے گو کہ ڈانس نہیں کرتے تھے لیکن محو رقص جوڑوں اور مدھم مدھم موسیقی سے بے شک لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس وقت وکالت کے ساتھ ساتھ شوریٰ ہمدرد کے اسپیکر ہیں اور خدمت خلق کے علاوہ ادبی محافل کی صدارت بھی کر رہے ہیں۔
1908 میں جاری ہونے والا ماہنامہ ''عصمت'' جو ایک رسالہ ہی نہیں ایک تحریک کا درجہ رکھتا تھا۔ ہندوستانی خواتین میں علم و آگہی پیدا کرنے کے بعد تحریک پاکستان کا داعی بنا اور پھر پاکستانی معاشرے کے سدھار کے لیے وقف ہوگیا۔
حاذق الخیری اپنے اجداد کی طرح کہنہ مشق افسانہ نگار، ناول نگار اور ادیب ہیں۔ بقول انتظار حسین ادب اپنی سوکن کو برداشت نہیں کرتا۔ حاذق الخیری جب اپنی ادبی زندگی کے عروج پر تھے کہ انھیں انصاف کا ترازو پکڑا دیا گیا اور پھر اس ترازو کی لاج رکھتے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے کرتے جوان سے بوڑھے ہوگئے اور قانون ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا جب کہ ادب کسی گلی میں دبک کر پیچھے رہ گیا۔
جب انصاف کا ترازو ہاتھ سے چھوٹا اور مصروفیت کے بعد وقت کی فراوانی میسر ہوئی تو لکھنے لکھانے کے لیے ذہن تیار نہ تھا۔ اس سلسلے میں جسٹس صاحب لکھتے ہیں ''جون 2009 میں اپنے فرائض منصبی یعنی چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان سے فارغ ہوکر واپس شہر قائد پہنچا ۔ یہاں پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی نے یاد فرمایا اور کہا ''لکھو'' اور بار بار کہا کہ اب فارغ ہوئے ہو تو لکھو۔ پر اب لکھنے کو کیا رہا تھا سوائے یاد رفتہ کے انھوں نے کہا ''وہی لکھو'' غبار چھٹا مڑکے دیکھا کہیں خود کو نہیں پہچانا۔
ایک زندگی میں کتنی زندگیوں کے روپ تھے۔ چنانچہ قلم اٹھایا دائیں سے بائیں لکھنا شروع کیا اور سوچا: نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔ مشکل یہ ہے کہ خودنوشت بغیر ''میں'' کے دو قدم آگے نہیں چل سکتی ''جسٹس صاحب نے ''میں'' کو ضرور اہم قرار دیا ہے مگر ان کی خود نوشت میں ''میں'' کم اور ''تو'' زیادہ نظر آتا ہے۔ آپ نے اپنی خودنوشت ''جاگتے لمحے'' میں خود کے علاوہ دوسروں کی بھی بات کی ہے اور بڑی تفصیل سے کی ہے۔
اپنے دوستوں، ساتھیوں اور جان پہچان والوں تک کا ذکر اتنے تواتر اور بھرپور انداز میں کیا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی کتاب انھی کے لیے لکھی ہے۔ آپ نے اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کے علاوہ اپنے گھر کی نوکرانی کشمیرا تک کا ذکر کیا ہے جو بعد میں بمبئی کی مشہور ایکٹریس اورگلوکارہ بنی اور ٹن ٹن کے نام سے مشہور ہوئی۔
جسٹس صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز 1950 میں ہوا جب وہ طالب علم تھے۔ پہلا افسانہ ''احمق'' ماہنامہ ساقی میں شایع ہوا۔ ساقی کے مدیر شاہد دہلوی افسانہ بھیجنے کے لیے خود خط لکھتے اور یہ حاذق صاحب کے لیے اعزاز کی بات تھی۔ جب جنوری 1961 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ '' گزرتی شب '' آیا تو وہ خود ان کے گھر گئے، وہ بہت خوش ہوئے۔ وہاں اختر انصاری اکبر آبادی بیٹھے تھے۔ انھوں نے چچا شاہد سے کہا کہ وہ بہت دنوں سے گھر نہیں آئے۔ کہنے لگے کیا آؤں یہ دیکھو اختر انصاری ملک الموت کی طرح بیٹھے ہیں کہ ان کے رسالے کے لیے کوئی مضمون لکھ دوں۔
شاہد دہلوی نے حاذق الخیری صاحب کو بتائے بغیر ان کی کتاب کا اشتہار ساقی میں دے دیا اور ان کی افسانہ نگاری کی تعریف میں جو کچھ لکھا وہ باعث افتخار تھا۔ ''گزرتی شب'' کے منظر عام پر آنے پر بڑی پذیرائی ہوئی۔ کئی ادیبوں اور دانشوروں نے اسے خوب سراہا۔ اسی طرح ڈرامہ ''وہ آدمی'' کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ ملا واحدی نے لکھا ''میں قصے کہانیاں بہت کم پڑھتا ہوں مگر حاذق الخیری کے ڈرامے ''وہ آدمی'' کا پلاٹ تو بالکل انوکھا نرالا اور لاجواب ہے۔ حاذق الخیری نے اچھا ادیب ہونے کا ہی ثبوت نہیں دیا بلکہ اچھا ایڈوکیٹ ہونے کا بھی ثبوت دیا ہے۔''
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے ماہنامہ ''سات رنگ'' میں لکھا ''حاذق چاروں طرف سے ادیب ہیں۔ ان کی مادری زبان اردو ہی نہیں بلکہ ادبی اردو ہے۔ لہٰذا ان کی زبان مسلم ہی نہیں قدرتی چیز ہے۔ جس تک لوگ اکتساب سے پہنچتے ہیں ''ایک ادیب کی حیثیت سے تو اپنا لوہا منوایا ہی ہے ساتھ ہی بحیثیت وکیل، استاد اور پھر منصفی کے فرائض کی ادائیگی کا بھی حق ادا کردیا۔''
1956 میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات اور ایل ایل بی پاس کیا۔ قانون کی تعلیم کی طرف راغب ہونے کی سب سے بڑی وجہ قائد اعظم کی شخصیت سے محبت تھی۔ خاندان میں ان سے پہلے کوئی وکیل نہ تھا۔ انھوں نے اپنی وکالت کے زمانے کا ایک واقعہ یوں لکھا ہے کہ جائیداد کے بٹوارے کے معاملے میں ایک صاحب جو ایک پیرکے بیٹے تھے، مشورے کے لیے تشریف لائے۔ پیر صاحب کا انتقال ہوچکا تھا۔ وہ چار بیویاں اور پچاس کے قریب بچے اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔
اس پر حیرت کا اظہارکرنے پر بیٹے نے فرمایا کہ ابا حضورکی صرف چار بیویاں ہی نہیں رہیں بلکہ اور بہت ساری بیویاں تھیں، جب ایک بیوی مرجاتی تو خانہ پوری کرلیتے پھر طبیعت بھر جاتی تو طلاق بھی دے دیتے تھے۔ پوچھا گیا کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے تھے کہنے لگے والد صاحب کے بچوں کی تین کیٹیگریاں تھیں۔
اے کیٹیگری میں وہ تھے جن کے وہ نام جانتے اور پہچانتے تھے۔ بی کیٹیگری میں وہ بچے تھے جنھیں وہ پہچانتے تھے مگر نام نہیں جانتے تھے اور سی کیٹیگری میں وہ بچے تھے جنھیں وہ نہ جانتے تھے اور نہ ہی پہچانتے تھے پوچھا گیا کہ آپ کس کیٹیگری میں ہیں تو ادھر ادھر دیکھ کر بولا ''سمجھ لیجیے سی کیٹیگری میں ہوں۔'' حاذق صاحب نے جائیداد کے اس بٹوارے کے کیس سے معذرت کرلی تھی۔
ایک جج سے چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان کے عہدے تک پہنچے اور بے داغ رہے۔ اردو کی خدمت کا جہاں تک تعلق ہے پاکستان رائٹرز گلڈ کے بانی ممبران میں سے تھے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی دل کھول کر خدمت کی۔ برج کے بہترین کھلاڑی رہے۔ ان کی متانت برد باری خوش مزاجی اور سب سے بڑھ کر سنجیدگی کے تو سب ہی قائل ہیں مگر آپ ایک زندہ دل انسان بھی ہیں۔
لکھتے ہیں نیا سال ہم کلب میں مناتے تھے گو کہ ڈانس نہیں کرتے تھے لیکن محو رقص جوڑوں اور مدھم مدھم موسیقی سے بے شک لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس وقت وکالت کے ساتھ ساتھ شوریٰ ہمدرد کے اسپیکر ہیں اور خدمت خلق کے علاوہ ادبی محافل کی صدارت بھی کر رہے ہیں۔