برے جذبات کی بو…
ایسا کیوں ہوتا ہے؟کیا واقعی ایسا ہوتا ہے یا فقط ہمیں محسوس ہوتا ہے؟
ان کے پاس بیٹھنے سے بھی کوفت ہوتی ہے، بو ہی برداشت نہیں ہوتی... اکثر لوگ کسی کے بارے میں یہ فقرہ کہتے ہیں تو ہم اس کا پس منظر نہ جانتے ہوئے دل میں اس شخص کے بارے میں برا سوچتے ہیں کہ اچھے خاصے شخص کے بارے میں اس کی رائے ایسی منفی کیوں ہے۔ ایسے اسمارٹ اور خوشبوؤں میں بسے انسان کے پاس بیٹھنے سے اسے کوفت کیوں ہوتی ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ احساس ہوا ہے کہ واقعی کچھ لوگوں کے پاس بیٹھنے سے ایسی بو آتی ہے کہ چند لمحوں کے لیے بھی بیٹھنا دشوار ہو جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟کیا واقعی ایسا ہوتا ہے یا فقط ہمیں محسوس ہوتا ہے؟
حقیقت میں، اس بو کا تعلق آپ کے اور اس انسان کے بیچ کی کیمسٹری سے ہوتا ہے، تعلق کی نوعیت اور اختلافات کے باعث ہوتا ہے۔ جب آپ کسی کو پسند کرتے ہیں تو اس کی ہر بات، ہر انداز اور ہر رویہ اچھا لگتا ہے۔ آپ کو اپنے خونی رشتوں میں موجود برائیاں عموماً نظر نہیں آتیں یا اگر کوئی ان کی نشاندہی کرے بھی تو ہم انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان کا دفاع بھی کرتے ہیں مگر ان ہی خونی رشتوں میں سے چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے ہمارے مال و دولت کے معاملات پر اختلافات ہو جاتے ہیں تو ہمیں ان کی ہر اچھائی بری لگنے لگتی ہے۔ وہی باتیں جو کبھی کسی کی شخصیت کا خاصہ ہوں تو ہم ان کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں، جب ہمارے مفادات پر چوٹ پڑے تو ان کی وہی خوبیاں زہرلگنے لگتی ہیں۔
دوسرے کی شخصیت کی ناپسندیدگی کی بنیاد نہ اس کا لباس ہوتا ہے نہ ہی اس کی حیثیت... جو شخص ہمیں فائدہ دیتا ہے اس کی ہر بو اچھی ہوتی ہے اور جو ہمارے خسارے کا باعث ہوتا ہے اس کے لباس پر پھوار کی ہوئی خوشبوئیں بھی غلاظت کی بو لگتی ہیں۔ ہر وہ شخص جو ہمارے لیے بے ضرر ہے، اس کا ہم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس کے بارے میں ہمارے دل میں نفرت کے جذبات کم ہی اٹھتے ہیں۔ اس کی سادہ سی مثال ہے کہ اگر سڑک پر دو لوگ کھڑے ہوں، ایک بھیک مانگ رہا ہو اور دوسرا کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہو... گاڑیاں صاف کرنے والا کپڑا ہی سمجھ لیں۔ جسے ہم کچھ رقم دے کر بدلے میں اس سے کچھ لے لیتے ہیں، اس کی ہم بول کر بھی تعریف کرتے ہیں کہ دیکھو کتنا خود دار انسان ہے، اس سے تو ہزار درجے بہتر ہے جو بھیک مانگ رہا ہے۔ جسے ہم بھیک مانگتا ہوا دیکھتے ہیں، اسے کچھ نہ بھی دیں تو ہم اسے ہٹا کٹا اور فراڈیا کہے بنا نہیں رہتے اور بھیک دے دیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اسے لعنت ملامت کرنا ہمارا حق بنتا ہے... شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے، کہیں کام کیوں نہیں کر لیتی ہو سارا دن یہاں کھڑی ہاتھ پھیلانے کے بجائے ان ہاتھوں سے کام کیوں نہیں کر لیتیں ، وغیرہ وغیرہ۔
انسان کے دماغ کے خلل، بری نیت اور رویے، بد اخلاقی، بد فطرتی، بد گوئی، جھوٹ، تکبر، مکاری اور عیاری وہ صفات ہیں جو اس کے اچھے سے اچھے لباس اور مہنگی سے مہنگی خوشبو کے باوجود اس کے وجود سے تعفن پیدا کرتی ہیں۔ وہ تعفن ان لوگوں کو محسوس ہوتا ہے جن کا اس کی بد عادات کے باعث کچھ داؤ پر لگا ہو۔
آپ کے لیے کسی مجرم بچے کے والدین ہونا، کوئی ایسا بچہ جو خاندان، محلے، اسکول اور کالج میں اپنی غلط حرکتوں کے باعث ناپسندیدہ ہو۔ کسی ایسے بھائی کا بھائی یا بہن ہونا جو ہر طرف بھونرے کے نام سے مشہور ہو یا کوئی ایسی بہن جو تتلی کی مانند ہر طرف منڈلاتی ہو۔ کوئی ایسا باس جو اپنی ماتحتوں پر بری نظر رکھتا ہو، ایسا شوہر جو ہر کسی کی بیوی کو اپنی ہی سمجھتا ہو۔ کسی راشی یا مرتشی سے یاکسی دوغلے اور برے سیاستدان کے خاندان سے تعلق ہونا، کسی چور اچکے کا دوست ہونا، یہ سب ایسی تکالیف ہیں جن کا آپ کے پاس کوئی حل نہیں ہوتا مگر واحد علاج ایسے ناطوں کو چھوڑ دینا، ایسے تعلق سے قطع تعلقی کر لینا اور خود کو ایسے لوگوں کی صحبت سے بچانا ہوتا ہے۔
آپ اپنے اللہ کا حق بندگی ادا کرتے ہوں، اس کی ناراضی کے ڈر سے حقوق العباد ادا کرتے ہوں، کسی کی حق تلفی نہ کرتے ہوں نہ کسی کی ناجائز سفارش کرتے ہوں۔ اپنے مذہبی، معاشرتی اور خانگی معاملات میں خوش اسلوبی اختیارکرتے ہوں، اپنے فرائض کو احسن طریق نبھاتے ہوں۔ کسی سے جھوٹا وعدہ نہ کرتے ہوں اور نہ کسی سے کیے گئے عہد سے منکر ہوں، رشتوں اور تعلقات میں شرعی حدود نہ پھلانگتے ہوں، نہ کسی کی بہن بیٹی پر بری نظر رکھتے ہوں۔ آپ اپنے پیاروں کے دل دکھانے سے اجتناب کرتے ہوں، خود سے منسلک رشتوں کو وہ عزت اور احترام دیتے ہوں جو ان کا حق ہے... تو سمجھیں کہ آپ ایک اچھے انسان ہیں اور آپ کو اس سب کے علاوہ کسی مصنوعی خوشبو کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ کا لباس چاہے سادہ ہو مگر صاف ہو اور آپ کے تن کو ڈھانپتا ہو، آپ چاہے بہت لکھے پڑھے نہ ہوں، انگریزی بولنے کی استعداد نہ رکھتے ہوں مگر آپ کی گفتگو مہذب ہو، مخاطب کی حیثیت اور عمر کیمطابق ہو تو آپ کی شخصیت کی اندرونی خوبصورتی ابھرکر سامنے آتی ہے۔ چہرہ انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے تو اس کی گفتگو اور اس کا عمل اس کے کردار کا۔ ہر انسان کا کردار بے داغ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں کہ مکمل اور عیب سے پاک ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔ انسا ن خطا کا پتلا ہے اورسزا کے خوف سے بے نیاز ہو کر دوسروں کے دل دکھاتا چلاجاتا ہے تا وقتیکہ لوگ اس سے کنارہ کرنا شروع کردیں۔ برا انسان بہت جلد تنہا رہ جاتا ہے!!
والدین ہمیشہ اپنی اولاد کے حوالے سے مثبت سوچ رکھتے ہیں، انھیں اچھائی کی تلقین کرتے ہیں۔ ہر مذہب، ملک ، سماج اور عقیدے کیمطابق اچھائی کے معیارات مختلف سہی مگر اچھائی کی بنیاد وہی ہے جو ہر جگہ پر ایک ہی ہے۔ کسی کو نقصان یا تکلیف نہ پہنچانا، سیدھے راستے پر چلنا!! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ایک گھر سے نکلتا ہے، اسکول کالج جاتا ہے... محلے اور تعلیمی ادارے میں اس کی دوستیاں اور تعلقات بنتے اور فروغ پاتے رہتے ہیں۔ وہ نوکری کرتا ہے تو افسران اور ماتحتوں سے کچھ سیکھتا ہے، سفر کرتا ہے تو اس کا واسطہ کئی اور لوگوں سے پڑتا ہے۔
یہ مناسب نہیں کہ آپ جہاں اور جو کچھ دیکھیں اسے اپنا لیں... آپ کے اندر بھی قدرت نے اچھائی اور برائی کو ناپنے کا پیمانہ فٹ کر رکھا ہے، اسے استعمال کریں اور اپنی شخصیت کی جس بنیاد کو آپ کے والدین نے شروع کیا تھا اسے کم از کم مت بھولیں۔آج کے والدین بچوں کو کہتے ہیں کہ رشتہ داروں اور قرابت داروں سے حسن سلوک کا حکم ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ کرنا افورڈ ہی نہیں کر سکتے کہ ہر رشتہ دار سے تعلق رکھیں۔ صرف وہ لوگ ان کی فہرست میں رشتہ دار ہیں جن کی ذات سے انھیں کچھ فائدہ ہے۔ وہ کسے کیا فائدہ پہنچانے کی حیثیت میں ہیں، اس بات کو وہ نہیں جانتے اور نہ ہی وہ ایسے جنجال پالنا چاہتے ہیں۔ آج کا نوجوان social animal نہیں بلکہ صر ف ریشم کا وہ کیڑا بن گیا ہے جو اپنے گرد خود ہی ایک کوکون بنا لیتا ہے اور ایک دن اسی میں تنہا قید ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو ایسی ہی معطر شخصیت بننے کی توفیق دے اور ہمارے دل میں دوسروں کے لیے عزت و احترام پیدا کرے۔ یہ وہ مال ہے جو آپ دوسروں کو دیں گے تو جواب میں وہ بھی ایسی ہی دولت آپ کو دیں گے!!!
ایسا کیوں ہوتا ہے؟کیا واقعی ایسا ہوتا ہے یا فقط ہمیں محسوس ہوتا ہے؟
حقیقت میں، اس بو کا تعلق آپ کے اور اس انسان کے بیچ کی کیمسٹری سے ہوتا ہے، تعلق کی نوعیت اور اختلافات کے باعث ہوتا ہے۔ جب آپ کسی کو پسند کرتے ہیں تو اس کی ہر بات، ہر انداز اور ہر رویہ اچھا لگتا ہے۔ آپ کو اپنے خونی رشتوں میں موجود برائیاں عموماً نظر نہیں آتیں یا اگر کوئی ان کی نشاندہی کرے بھی تو ہم انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان کا دفاع بھی کرتے ہیں مگر ان ہی خونی رشتوں میں سے چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے ہمارے مال و دولت کے معاملات پر اختلافات ہو جاتے ہیں تو ہمیں ان کی ہر اچھائی بری لگنے لگتی ہے۔ وہی باتیں جو کبھی کسی کی شخصیت کا خاصہ ہوں تو ہم ان کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں، جب ہمارے مفادات پر چوٹ پڑے تو ان کی وہی خوبیاں زہرلگنے لگتی ہیں۔
دوسرے کی شخصیت کی ناپسندیدگی کی بنیاد نہ اس کا لباس ہوتا ہے نہ ہی اس کی حیثیت... جو شخص ہمیں فائدہ دیتا ہے اس کی ہر بو اچھی ہوتی ہے اور جو ہمارے خسارے کا باعث ہوتا ہے اس کے لباس پر پھوار کی ہوئی خوشبوئیں بھی غلاظت کی بو لگتی ہیں۔ ہر وہ شخص جو ہمارے لیے بے ضرر ہے، اس کا ہم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس کے بارے میں ہمارے دل میں نفرت کے جذبات کم ہی اٹھتے ہیں۔ اس کی سادہ سی مثال ہے کہ اگر سڑک پر دو لوگ کھڑے ہوں، ایک بھیک مانگ رہا ہو اور دوسرا کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہو... گاڑیاں صاف کرنے والا کپڑا ہی سمجھ لیں۔ جسے ہم کچھ رقم دے کر بدلے میں اس سے کچھ لے لیتے ہیں، اس کی ہم بول کر بھی تعریف کرتے ہیں کہ دیکھو کتنا خود دار انسان ہے، اس سے تو ہزار درجے بہتر ہے جو بھیک مانگ رہا ہے۔ جسے ہم بھیک مانگتا ہوا دیکھتے ہیں، اسے کچھ نہ بھی دیں تو ہم اسے ہٹا کٹا اور فراڈیا کہے بنا نہیں رہتے اور بھیک دے دیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اسے لعنت ملامت کرنا ہمارا حق بنتا ہے... شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے، کہیں کام کیوں نہیں کر لیتی ہو سارا دن یہاں کھڑی ہاتھ پھیلانے کے بجائے ان ہاتھوں سے کام کیوں نہیں کر لیتیں ، وغیرہ وغیرہ۔
انسان کے دماغ کے خلل، بری نیت اور رویے، بد اخلاقی، بد فطرتی، بد گوئی، جھوٹ، تکبر، مکاری اور عیاری وہ صفات ہیں جو اس کے اچھے سے اچھے لباس اور مہنگی سے مہنگی خوشبو کے باوجود اس کے وجود سے تعفن پیدا کرتی ہیں۔ وہ تعفن ان لوگوں کو محسوس ہوتا ہے جن کا اس کی بد عادات کے باعث کچھ داؤ پر لگا ہو۔
آپ کے لیے کسی مجرم بچے کے والدین ہونا، کوئی ایسا بچہ جو خاندان، محلے، اسکول اور کالج میں اپنی غلط حرکتوں کے باعث ناپسندیدہ ہو۔ کسی ایسے بھائی کا بھائی یا بہن ہونا جو ہر طرف بھونرے کے نام سے مشہور ہو یا کوئی ایسی بہن جو تتلی کی مانند ہر طرف منڈلاتی ہو۔ کوئی ایسا باس جو اپنی ماتحتوں پر بری نظر رکھتا ہو، ایسا شوہر جو ہر کسی کی بیوی کو اپنی ہی سمجھتا ہو۔ کسی راشی یا مرتشی سے یاکسی دوغلے اور برے سیاستدان کے خاندان سے تعلق ہونا، کسی چور اچکے کا دوست ہونا، یہ سب ایسی تکالیف ہیں جن کا آپ کے پاس کوئی حل نہیں ہوتا مگر واحد علاج ایسے ناطوں کو چھوڑ دینا، ایسے تعلق سے قطع تعلقی کر لینا اور خود کو ایسے لوگوں کی صحبت سے بچانا ہوتا ہے۔
آپ اپنے اللہ کا حق بندگی ادا کرتے ہوں، اس کی ناراضی کے ڈر سے حقوق العباد ادا کرتے ہوں، کسی کی حق تلفی نہ کرتے ہوں نہ کسی کی ناجائز سفارش کرتے ہوں۔ اپنے مذہبی، معاشرتی اور خانگی معاملات میں خوش اسلوبی اختیارکرتے ہوں، اپنے فرائض کو احسن طریق نبھاتے ہوں۔ کسی سے جھوٹا وعدہ نہ کرتے ہوں اور نہ کسی سے کیے گئے عہد سے منکر ہوں، رشتوں اور تعلقات میں شرعی حدود نہ پھلانگتے ہوں، نہ کسی کی بہن بیٹی پر بری نظر رکھتے ہوں۔ آپ اپنے پیاروں کے دل دکھانے سے اجتناب کرتے ہوں، خود سے منسلک رشتوں کو وہ عزت اور احترام دیتے ہوں جو ان کا حق ہے... تو سمجھیں کہ آپ ایک اچھے انسان ہیں اور آپ کو اس سب کے علاوہ کسی مصنوعی خوشبو کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ کا لباس چاہے سادہ ہو مگر صاف ہو اور آپ کے تن کو ڈھانپتا ہو، آپ چاہے بہت لکھے پڑھے نہ ہوں، انگریزی بولنے کی استعداد نہ رکھتے ہوں مگر آپ کی گفتگو مہذب ہو، مخاطب کی حیثیت اور عمر کیمطابق ہو تو آپ کی شخصیت کی اندرونی خوبصورتی ابھرکر سامنے آتی ہے۔ چہرہ انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے تو اس کی گفتگو اور اس کا عمل اس کے کردار کا۔ ہر انسان کا کردار بے داغ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں کہ مکمل اور عیب سے پاک ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔ انسا ن خطا کا پتلا ہے اورسزا کے خوف سے بے نیاز ہو کر دوسروں کے دل دکھاتا چلاجاتا ہے تا وقتیکہ لوگ اس سے کنارہ کرنا شروع کردیں۔ برا انسان بہت جلد تنہا رہ جاتا ہے!!
والدین ہمیشہ اپنی اولاد کے حوالے سے مثبت سوچ رکھتے ہیں، انھیں اچھائی کی تلقین کرتے ہیں۔ ہر مذہب، ملک ، سماج اور عقیدے کیمطابق اچھائی کے معیارات مختلف سہی مگر اچھائی کی بنیاد وہی ہے جو ہر جگہ پر ایک ہی ہے۔ کسی کو نقصان یا تکلیف نہ پہنچانا، سیدھے راستے پر چلنا!! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ایک گھر سے نکلتا ہے، اسکول کالج جاتا ہے... محلے اور تعلیمی ادارے میں اس کی دوستیاں اور تعلقات بنتے اور فروغ پاتے رہتے ہیں۔ وہ نوکری کرتا ہے تو افسران اور ماتحتوں سے کچھ سیکھتا ہے، سفر کرتا ہے تو اس کا واسطہ کئی اور لوگوں سے پڑتا ہے۔
یہ مناسب نہیں کہ آپ جہاں اور جو کچھ دیکھیں اسے اپنا لیں... آپ کے اندر بھی قدرت نے اچھائی اور برائی کو ناپنے کا پیمانہ فٹ کر رکھا ہے، اسے استعمال کریں اور اپنی شخصیت کی جس بنیاد کو آپ کے والدین نے شروع کیا تھا اسے کم از کم مت بھولیں۔آج کے والدین بچوں کو کہتے ہیں کہ رشتہ داروں اور قرابت داروں سے حسن سلوک کا حکم ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ یہ سب کچھ کرنا افورڈ ہی نہیں کر سکتے کہ ہر رشتہ دار سے تعلق رکھیں۔ صرف وہ لوگ ان کی فہرست میں رشتہ دار ہیں جن کی ذات سے انھیں کچھ فائدہ ہے۔ وہ کسے کیا فائدہ پہنچانے کی حیثیت میں ہیں، اس بات کو وہ نہیں جانتے اور نہ ہی وہ ایسے جنجال پالنا چاہتے ہیں۔ آج کا نوجوان social animal نہیں بلکہ صر ف ریشم کا وہ کیڑا بن گیا ہے جو اپنے گرد خود ہی ایک کوکون بنا لیتا ہے اور ایک دن اسی میں تنہا قید ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو ایسی ہی معطر شخصیت بننے کی توفیق دے اور ہمارے دل میں دوسروں کے لیے عزت و احترام پیدا کرے۔ یہ وہ مال ہے جو آپ دوسروں کو دیں گے تو جواب میں وہ بھی ایسی ہی دولت آپ کو دیں گے!!!