بہتر کارکردگی کے لئے وزیراعظم کا کابینہ کو فری ہینڈ دینے کا اعلان

نومنتخب وزیراعظم نوازشریف اپنی کابینہ بھی تشکیل دے چکے ہیں۔ اس مرحلے پر ان پہ تنقید بھی کی گئی...

فوٹو : فائل

ایک طویل وقفے کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اپنی سابقہ پارلیمانی وحکومتی گہماگہمی کی طرف لوٹ چکا ہے۔

نومنتخب وزیراعظم نوازشریف اپنی کابینہ بھی تشکیل دے چکے ہیں۔ اس مرحلے پر ان پہ تنقید بھی کی گئی کہ انہوں نے زیادہ تر کابینہ ارکان پنجاب بالخصوص لاہورسے لئے ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف کی پاکستان مسلم لیگ(ن) کو ووٹ اور نشستیں بھی تو زیادہ پنجاب سے ملی ہیں۔ جوں توں کرکے یہ مرحلہ طے ہوا اب وزیراعظم پاکستان اور ان کی کابینہ کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان بھر کی نمائندہ حکومت ہیں۔ انہیں تمام صوبوں کے تمام اضلاع اور شہروں کے ترقیاتی وغیرترقیاتی منصوبوں اور عوامی مسائل کو ایک ہی عینک سے دیکھنا ہوگا۔

وزیراعظم نوازشریف نے اپنی کابینہ کے پہلے باضابطہ اجلاس میں جہاں اپنی پالیسی گائیڈ لائن اور آئندہ کے روڈ میپ کا تفصیل سے ذکر کیا وہاں انہوں نے انتہائی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اپنی وزارت میں کابینہ اور اراکین کو مکمل فری ہینڈ دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کابینہ ارکان سے کہاکہ آپ میرٹ،شفافیت اور کفایت شعاری کے سنہرے اصولوں کو مدنظررکھتے ہوئے اپنے لئے اہداف خود مقرر کریں۔ انہوں نے وزراء کو متنبہ کیا کہ آپ اپنے اہداف اور وزارتوں کی کارکردگی کے حوالے سے خود ہی ذمہ دار بھی ہوں گے اور جوابدہ بھی۔

کوئی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا مگر ہرتین ماہ بعد آپ کی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے گا۔ اگر کسی وزیر کی کارکردگی تسلی بخش نہ ہوئی تو اس وزیر کا پورٹ فولیو تبدیل بھی کیاجاسکتا اور خراب کارکردگی والے وزراء سے پورٹ فولیو واپس لیا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان ، پانی وبجلی خواجہ محمد آصف اور وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نے اب تک کی اطلاعات کے مطابق اپنی اپنی وزارتوں میں بیوروکریسی کے کل پرزرے انتہائی بے رحمانہ مگر منصفانہ انداز میں درست کرنا شروع کردیئے ہیں۔ یہی پریکٹس دیگر وزراء بھی اپنی اپنی وزارتوں میں وزیراعظم کی ہدایات کی روشنی میں شروع کرنے والے ہیں۔

ادھر صدر مملکت نے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنا آئینی فرض ادا کردیا۔آرٹیکل 6پر عملدرآمد اور ڈرون حملے رکوانے کے لیے پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر مملکت نے درحقیقت گیند حکومتی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ مجموعی طور پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے خطاب کو متوازن قراردیاجارہا ہے مگر پوری قوم نے ایک مدت بعد بلکہ ہماری حالیہ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایک صدر مملکت کو بڑے پرسکون انداز میں بغیر کسی ہلے گلے اور''گوبابا گو''، ''گوزرداری گو'' کے نعروں کے بغیر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا اور سنا۔


اب یہ آنے والاوقت بتائے گا کہ پرامن انداز میں صدر مملکت کا خطاب سننا ہماری پارلیمانی میچوریٹی کا نتیجہ ہے یا حالات کی مجبوری اور ایوان میں بیٹھی اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی معذوری ، جس کے باعث وہ وقتی طور پر سنجیدہ نظر آئے۔ چونکہ صدر مملکت ستمبر2013ء تک ایوان صدر میں براجمان ہے اس لئے اب آئندہ چند ماہ کے دوران ان کا رویہ بھی ان کے خلوص اور سیاسی میچوریٹی کا عکاس ہوگا۔

آج وزیرخزانہ محمد اسحاق ڈار اپنی گزشتہ تین دنوں اور 4راتوں کی انتھک محنت سے تیار کردہ بجٹ بھی پیش کرنے والے ہیں۔ بھاری مینڈیٹ کی حامل نواز حکومت کا بلاشبہ یہ بجٹ ہے مگر عام آدمی کا اس بات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں کہ حکومت بنے کتنے دن ہوئے ہیں اور انہیں بجٹ کی تیاری کے لئے کتنے گھنٹے ملے ہیں، عوام فوری ریلیف کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ جس طرح وہ وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کی یہ بات ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ بجلی کا بحران دنوں ہفتوں یا مہینوں میں حل نہیں کیاجاسکتا اس عذاب سے نجات حاصل کرنے میں سالوں لگ سکتے ہیں۔

یوں تو اب عوام کے لئے بجٹ کی وہ پہلی سی اہمیت نہیں رہی کہ سارا سال ہی بجلی تیل ،گیس اور اشیائے خوردونوش میں اتارچڑھاؤ جاری رہتا ہے پھر بھی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کی امید عوام کے دلوں میں ضرور موجزن ہے ۔ذرائع کے مطابق اب کی بار وزیرخزانہ عوام پر بہت زیادہ ٹیکس نہیں لگائیں گے ۔ مشروبات پر Capacity ٹیکس کے نام سے نیا ٹیکس لگایاجارہا ہے ۔ صدر ، وزیراعظم اور گورنروں کی جانب سے بغیر ڈیوٹی گاڑیاں درآمد کرنے کی سہولت بھی واپس لی جارہی ہے ۔ وزیر منصوبہ بندی وترقیات احسن اقبال خود کہہ چکے ہیں کہ یہ بجٹ آئیڈیل نہیں متوازن ہوگا اور ان کا یہ فرمان عوام کو ذہنی طور پر خوش فہمی کی حالت سے باہر لانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش بھی ہے۔

وزارت خزانہ میں موجود ذرائع بتاتے ہیں کہ 25لاکھ سے 60لاکھ روپے سالانہ تک کی آمدن والوں پر 25فیصد انکم ٹیکس لگانے اور اس سے زائد آمدن والوں پر 35فیصد تک ٹیکس لگانے کی تجاویز زیر غور ہیں۔ اپنی آمدن پر 5فیصد تک ٹیکس ادا کرنے والوں کے لئے خطرے کی بات یہ ہے کہ وزیرخزانہ اسے سات فیصد تک بڑھانے کے موڈ میں ہیں اور آج بجٹ پیش کرنے سے پہلے جب وہ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی کابینہ کے پاس حتمی تجاویز لے کر جاتے ہیں تو اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ یہ تجویز قبول کرتے ہیں یا مسترد کرتے ہوئے بجٹ میزانیہ ازسرنوترتیب دینے کے احکامات دیتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لئے اب تک ساڑھے سات فیصد ،دس فیصد اور پندرہ فیصد اضافے کی تین مختلف تجاویز تیار کی گئی ہیں۔

بجٹ خسارہ 15سو ارب روپے سے زائد متوقع ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نومنتخب حکومت بے روزگار نوجوانوں کو 3سے 5فیصد کی معمولی شرح سود پر قرضے دینے کا اعلان کرے گی۔کراچی میں بلٹ ٹرین اور راولپنڈی ،اسلام آباد کے لئے میٹرو بس شروع کرنے، توانائی کے شعبے میں دیامیر بھاشا ڈیم ،نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ ،نندی پور اور چیچو کی ملیاں پاور پراجیکٹس کے لئے بھی بھاری رقوم مختص کرنے سے ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا ۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں 20فیصد اضافے کی خوشخبری متوقع ہے۔ درحقیقت بجٹ پیش کرنے کے بعد ہی نوازشریف حکومت کی ترجیحات کھل کر سامنے آئیں گی۔

لوڈشیڈنگ اور گرمی کے ستائے ہوئے عوام انہیں چند دن کا گریس پیریڈ بھی دینے کے لئے تیار نہیں مگر اب کی بار آثار بتاتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف عوامی مسائل کے حل اور پاکستان کی خوشحالی وترقی کے لئے نہ خودچین سے بیٹھیں گے اور نہ اپنی کابینہ ارکان کو بیٹھنے دیں گے۔
Load Next Story