سندھ حکومت کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا

پیپلز پارٹی کی سابق اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے خود ہی سندھ میں...

پیپلز پارٹی کی سابق اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے خود ہی سندھ میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہ فوٹو: فائل

پاکستان پیپلزپارٹی نے واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت سے سندھ میں حکومت بنالی ہے اور نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ کام شروع کردیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سابق اتحادی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے خود ہی سندھ میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی انہیں حکومت میں شامل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ 14 سال بعد سندھ میں نمائندگی حاصل کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پہلی بار سندھ میں نمائندگی حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف نے بھی سندھ میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس طرح سندھ اسمبلی میں چار جماعتوں پر مشتمل ایک مضبوط اپوزیشن بھی وجود میں آگئی ہے ۔ لیکن یہ اپوزیشن متحد نہیں ہے ۔

وزیراعلیٰ ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں ایم کیو ایم نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے اور پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے اپنے مشترکہ امیدوار کھڑے کیے تھے جبکہ تحریک انصاف نے کسی کو بھی ووٹ نہیں دیا ۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن نے پہلے ہی مرحلے میں یہ تاثر دے دیا ہے کہ اپوزیشن میں آگے چل کر بھی اتحاد نہیں ہوسکتا ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ یعنی 48 ارکان کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے ، اسی لیے اپوزیشن لیڈر بھی ایم کیو ایم کا ہی ہوگا ۔ باقی تین جماعتوں کے رویے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ الگ گروپس کے طور پر اپنا کردار ادا کریں گی ۔

مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ (ن) کا ایک الگ گروپ ہوگا اور تحریک انصاف کا دوسرا الگ گروپ ہوگا ۔ جس طرح پیپلز پارٹی نے دوسری جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کے لیے کوئی ظاہری کوشش نہیں کی ، اسی طرح اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی مشترکہ حکمت عملی بنانے کے لیے ایک دوسرے سے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں اسے ساڑھے چار سال تک کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا ، مگر اب شروع سے ہی ایک منقسم اپوزیشن اس کے سامنے ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور حکومت اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل مرتب کرتی ہے ۔

اس وقت سندھ حکومت کو سب سے بڑا چیلنج امن و امان کا قیام ہے۔ تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ان کی نئی حکومت کی پہلی ترجیح امن و امان کا قیام ہے ۔ سندھ کابینہ کے پہلے اجلاس میں بھی امن وامان قائم کرنے کے لیے خصوصی حکمت عملی وضع کی گئی اور کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جس علاقے میں بھی ٹارگٹ کلنگ ہوگی، اس علاقے کا ایس ایچ او ذمہ دار ہوگا اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس ضمن میں سید قائم علی شاہ نے تھانوں کے اچانک دورے بھی شروع کردیئے ہیں اور امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے خود مانیٹرنگ کر رہے ہیں ۔

سندھ میں نئی حکومت کے قیام کے بعد ٹارگٹیڈ آپریشن میں بھی تیزی آگئی ہے ۔ گذشتہ روز ڈپٹی کمشنر ساؤتھ مصطفی جمال قاضی نے رینجرز ، پولیس کے اعلیٰ حکام کی موجودگی میں گرفتار ملزمان اور برآمد ہونے والا اسلحہ میڈیا کے سامنے پیش کیا ، اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین مربوط اور مؤثر رابطے کا نظام بھی وضع کیا جا رہا ہے ۔ سندھ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں امن وامان کے حوالے سے بجٹ میں 10 سے 15 ارب روپے اضافے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔


رواں مالی سال میں امن وامان کے لیے 39 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جبکہ آئندہ سال یہ رقم 50 ارب روپے سے بڑھ جائے گی ۔ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اضافی رقم سے پولیس کے لیے جدید اسلحہ اور گاڑیاں خریدی جائیں گی اور انویسٹی گیشن سسٹم کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے گا ۔ سندھ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر تمام جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی ۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ قیام امن میں وفاقی حکومت کی طرف سے ممکنہ تعاون حاصل نہیں ہوسکے گا اور بعض عناصر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے امن و امان کی صورت حال زیادہ خراب کرسکتے ہیں۔

سندھ کی سیاسی صورت حال میں ایک متوقع تبدیلی رونما ہوچکی ہے ۔ ایم کیو ایم نے وزیراعظم کے انتخاب میں میاں محمد نواز شریف کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا ہے ۔ سندھ کے سیاسی حلقوں کے لیے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے ۔ جب ایم کیو ایم نے سندھ حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کی تو یہی سمجھا جا رہا تھاکہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان معاملات طے پاجائیں گے اور یہ اندازے درست ثابت ہوئے ۔

صدر آصف علی زرداری نے اگلے روز ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم ایم کیو ایم سے تعمیری اپوزیشن کی توقع رکھتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اویس مظفر کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے استحکام کے لیے نہ صرف متنازعہ انتخابی نتائج کو تسلیم کیا ہے بلکہ مرکز میں ایک مثبت اور تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ جمہوری استحکام کے لیے دیگر سیاسی جماعتیں بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کریں گی اور سندھ حکومت کے ساتھ عوام کے بھلائی کے کاموں اور امن و امان کے قیام میں معاونت کی جائے گی ۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے ضلع تھرپارکر میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر دوبارہ پولنگ میں واضح کامیابی حاصل کرلی ہے جبکہ ضلع جیکب آباد میں سندھ اسمبلی کے حلقہ میں دوبارہ ہونے والی گنتی میں بھی پیپلز پارٹی کا امیدوار کامیاب قرار دیا گیا ہے ۔

عام تأثر یہ تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ کے سوا باقی صوبوں میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے، اس لیے ضلع تھرپارکر میں ہونے والی دوبارہ پولنگ میں پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک پر اثر پڑے گا اور وہاں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے امیدوار کامیاب ہوں گے کیونکہ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کا مسلم لیگ (ن) سے اتحاد ہوچکا ہے ، جس سے طاقت کا توازن ڈاکٹرارباب غلام رحیم کے حق میں ہوگیا ہے ، لیکن یہ تاثر درست ثابت نہیں ہوا اور تھر میں پیپلز پارٹی نے نہ صرف ارباب گروپ کے امیدواروں کو شکست دی بلکہ تحریک انصاف کے امیدوار مخدوم شاہ محمود قریشی کو بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں شکست ہوئی ۔ تھر میں مخدوم شاہ محمود قریشی کے مریدین کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ملتان سے تھرپارکر آکر الیکشن لڑے تھے۔ انہیں بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ تھر میں خود کو بے تاج بادشاہ سمجھنے والے شکست سے دوچار ہوگئے ہیں ۔اب پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی کے 168 کے ایوان میں 91 ارکان کی اکثریت رکھتی ہے جبکہ سادہ اکثریت کے لیے اسے 85 ارکان کی ضرورت تھی ۔ دو نشستوں پر اب بھی انتخابات ہونا باقی ہیں جبکہ چار نشستوں کے نتائج انتخابی عذر داریوں کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں ۔ جب ان چھ نشستوں پر بھی فیصلہ ہوجائے گا تو پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ خدشہ ہے کہ سندھ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بعض عناصر اپنی کوششیں کرسکتے ہیں ۔

اگر کسی بھی حلقے کی جانب سے اس طرح کی کوششیں کی گئیں تو ان سے سب سے زیادہ نقصان قیام امن کی کوششوں کو ہوگا اور کراچی کے عوام مزید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ اس وقت خوش آئند بات یہ ہے کہ کراچی کے لوگ بدامنی کے خلاف آواز بلندکرنے لگے ہیں اور وہ بدامنی پیدا کرنے والی قوتوں کو سیاسی مزاحمت دے سکتے ہیں۔ سندھ حکومت کراچی کے عوام کے جذبات کو سمجھتی ہے اور وہ عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کے خلاف سیاسی لائحہ عمل کو بھی حتمی شکل دے رہی ہے ۔ n
Load Next Story