تحریک انصاف کے ثقافتی انقلابی
گیا تو میں ایک دن کے لیے لاہور تھا۔ مگر موٹروے پر سفر کرتے اور پھر پنجاب کے دل میں بیٹھ کر اپنے چند قریبی دوستوں کے...
گیا تو میں ایک دن کے لیے لاہور تھا۔ مگر موٹروے پر سفر کرتے اور پھر پنجاب کے دل میں بیٹھ کر اپنے چند قریبی دوستوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے موضوع خیبرپختون خوا اور پشاور رہے۔ جن لوگوں کے ساتھ سفر کیا وہ عمران خان کے متوالے تھے لیکن اس بات پر بہت پریشان کہ انھوں نے قومی اسمبلی کے لیے اپنی جیتی ہوئی تین میں سے دو نشستوں کو چھوڑتے ہوئے راولپنڈی کو ترجیح کیوں دی۔
وہ یہ دعویٰ کرنے میں بالکل حق بجانب تھے کہ پشاور کے باسیوں نے اپنے برسوں پرانے دُکھ سکھ کے ساتھی بلور خاندان کو ٹھکراکر عمران خان کو اپنے شہر سے منتخب کرکے ان سے ایک جذباتی رشتہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ عمران خان کو اپنے آبائی ضلع میانوالی سے پشاور کو ترجیح دے کر ان کے جذبات کی پذیرائی کرنا چاہیے تھی۔
بات صرف جذبوں اور عشق تک محدود نہیں ہے۔ انسان بہرحال دُنیا دار ہوتے ہیں اور ان کی روزمرہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ چند روز پہلے پشاور کے ایک قدیمی محلے میں نصب واپڈاکا قدیمی ٹرانسفارمر جل کر تباہ ہوگیا۔محکمے والے سخت گرمی کے ان غضب ناک دنوں میں اہل محلہ کی مشکلیں آسان کرنے کو تیار نہ تھے۔ پھر اس محلے کا ایک بڑا وفد بلور ہاؤس پہنچ گیا۔ وہاں بشیر بلور کے بیٹے اور سیاسی جانشین عثمان بلور نے ان کا استقبال کیا۔ عثمان 11مئی کو حاجی غلام احمد بلور کے حلقے میں موجود صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔
ناکامی ان کا بھی مقدر بنی۔ لیکن اپنی شکست کو بہادری سے نظرانداز کرتے ہوئے وہ اپنے پرانے ووٹروں کی مدد کرنے کو فوراََ تیار ہوگئے۔ مجھے یہ واقعہ سنانے والے لوگوں کا یہ خیال بھی تھا کہ اگر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے نغمان وزیر کے علاوہ کسی اور کو NA-1سے کھڑا کیا تو بلور خاندان کا کوئی فرد اسے بآسانی شکست دے سکتا ہے۔ میں نغمان وزیرکو ہرگز نہیں جانتا۔ مجھے کوئی خبر نہیں کہ بلور خاندان کے اپنے حلقے میں جلد ہی ہونے والے ضمنی انتخاب کے بارے میں کیا ارادے ہیں۔ اس لاعلمی کے باوجود میں رائے دینے پر مجبور ہوں کہ بلور خاندان کو بڑی بردباری سے فی الوقت انتخابی سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ تحریک انصاف کو پشاور کے شہریوں کی مدد اور مسائل کے حل کے لیے بڑے دل کے ساتھ مناسب وقت دینا چاہیے۔
بلور خاندان تو شاید وہ فیصلہ کرلے جو میں چاہ رہا ہوں لیکن پشاور شہر میں تحریک انصاف کے ان متوالوں کا کیا ہوگا جو بڑی شدت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ صوبائی کابینہ میں ان کے شہر سے کم ازکم 4منتخب لوگوں کو کھپایا جائے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی کابینہ میں 15سے زیادہ افراد نہیں رکھے جاسکتے۔
خیبرپختون خوا میں اپنی حکومت کو مستحکم اور برقرار رکھنے کے لیے تحریک انصاف کو کچھ وزارتیں جماعت اسلامی اور آفتاب ا حمد شیر پاؤ کی جماعتوں کو دینا ہیں۔ صوابی سے کامیاب ہونے والے ایک علاقائی گروپ کی بھی دلجوئی کی ضرورت ہے اور کابینہ میں اپنا حصہ لیتے ہوئے تحریک انصاف خیبرپختون خوا کے باقی علاقوں کو حصہ دینے پر مجبور ہے۔میرا نہیں خیال کہ عمران خان کے قریب سمجھے جانے والا تحریک انصاف کا کوئی سینئر رہنما اپنی جماعت کے جذباتی لوگوں کو یہ بنیادی باتیں ذرا سختی سے سمجھانے کی کوشش کررہا ہے۔
جاوید ہاشمی جیسے تجربہ کار فرد نے نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد جو رسمی فقرے ان کے احترام میں ادا کیے وہ کوئی اتنے Blasphemousنہ تھے۔ مگر تحریک انصاف کے انٹرنیٹ جہادیوں نے ان کو لے کر ایک طوفان برپا کردیا۔ بالآخر اپنے تئیں ازلی باغی بنے جاوید ہاشمی کو باقاعدہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے معقول اور مہذب رویے کے بابت برسرعام معذرت خواہ ہونا پڑا۔ ان کی معذرت انٹرنیٹ مجاہدوں اور تحریک انصاف کے جذباتی متوالوں کے حوصلے مزید بڑھائے گی۔
پتہ نہیں کیوں ان کے رویے کو دیکھتے ہوئے مجھے 1970 کے اوائل والے چین کے ان نوجوانوں کی یاد آنا شروع ہوگئی ہے جنہوں نے ''ثقافتی انقلاب'' کے نام پر حکمران کمیونسٹ پارٹی کے لیوشاؤچی اور ڈانگ سیاؤپنگ جیسے انقلابی مگر سنجیدہ اور تجربہ کار لوگوں کی زندگی اجیرن کردی تھی۔ کئی مہینوں تک ان لوگوں نے چو این لائی جیسے زیرک اور دوراندیش وزیر اعظم کو بھی سیاسی طورپر مفلوج بناڈالا تھا۔ ثقافتی انقلابیوں کے ہاتھوں تجربہ کار لوگوں کی دھنائی نے چینی معاشرے میں جو تباہی پھیلائی تھی اس کے بارے میں آج کل بھی کئی کتابیں لکھی جارہی ہیں۔
تحریک انصاف کے اسد عمریا ڈاکٹر شیریں مزاری جیسے لوگوں کو ان میں سے کوئی ایک کتاب ذرا غور سے ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ ورنہ کہانیاں میرے پاس تحریک انصاف کے خیبرپختون خوا کے ''بنیادی رکن'' اسد قیصر کے بارے میں بھی پہنچی ہیں جس کا تذکرہ کچھ دنوں کے بعد ضرور ہوگا۔ فی الحال تو میری بڑی خواہش ہے کہ کوئی مجھے پنجاب اسمبلی کے میاں محمود الرشید سے پوچھ کر بتائے کہ ان کا شہباز شریف کی حلف برادری کی تقریب میں پایا جانا تحریک انصاف کے ''ثقافتی انقلابیوں'' نے کس طور لیا ہے۔ کیا وہ بھی آیندہ چند دنوں میں جاوید ہاشمی کی طرح ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے معذرت خواہی کو تیار تو نہیں ہورہے۔
وہ یہ دعویٰ کرنے میں بالکل حق بجانب تھے کہ پشاور کے باسیوں نے اپنے برسوں پرانے دُکھ سکھ کے ساتھی بلور خاندان کو ٹھکراکر عمران خان کو اپنے شہر سے منتخب کرکے ان سے ایک جذباتی رشتہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ عمران خان کو اپنے آبائی ضلع میانوالی سے پشاور کو ترجیح دے کر ان کے جذبات کی پذیرائی کرنا چاہیے تھی۔
بات صرف جذبوں اور عشق تک محدود نہیں ہے۔ انسان بہرحال دُنیا دار ہوتے ہیں اور ان کی روزمرہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ چند روز پہلے پشاور کے ایک قدیمی محلے میں نصب واپڈاکا قدیمی ٹرانسفارمر جل کر تباہ ہوگیا۔محکمے والے سخت گرمی کے ان غضب ناک دنوں میں اہل محلہ کی مشکلیں آسان کرنے کو تیار نہ تھے۔ پھر اس محلے کا ایک بڑا وفد بلور ہاؤس پہنچ گیا۔ وہاں بشیر بلور کے بیٹے اور سیاسی جانشین عثمان بلور نے ان کا استقبال کیا۔ عثمان 11مئی کو حاجی غلام احمد بلور کے حلقے میں موجود صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔
ناکامی ان کا بھی مقدر بنی۔ لیکن اپنی شکست کو بہادری سے نظرانداز کرتے ہوئے وہ اپنے پرانے ووٹروں کی مدد کرنے کو فوراََ تیار ہوگئے۔ مجھے یہ واقعہ سنانے والے لوگوں کا یہ خیال بھی تھا کہ اگر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے نغمان وزیر کے علاوہ کسی اور کو NA-1سے کھڑا کیا تو بلور خاندان کا کوئی فرد اسے بآسانی شکست دے سکتا ہے۔ میں نغمان وزیرکو ہرگز نہیں جانتا۔ مجھے کوئی خبر نہیں کہ بلور خاندان کے اپنے حلقے میں جلد ہی ہونے والے ضمنی انتخاب کے بارے میں کیا ارادے ہیں۔ اس لاعلمی کے باوجود میں رائے دینے پر مجبور ہوں کہ بلور خاندان کو بڑی بردباری سے فی الوقت انتخابی سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ تحریک انصاف کو پشاور کے شہریوں کی مدد اور مسائل کے حل کے لیے بڑے دل کے ساتھ مناسب وقت دینا چاہیے۔
بلور خاندان تو شاید وہ فیصلہ کرلے جو میں چاہ رہا ہوں لیکن پشاور شہر میں تحریک انصاف کے ان متوالوں کا کیا ہوگا جو بڑی شدت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ صوبائی کابینہ میں ان کے شہر سے کم ازکم 4منتخب لوگوں کو کھپایا جائے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی کابینہ میں 15سے زیادہ افراد نہیں رکھے جاسکتے۔
خیبرپختون خوا میں اپنی حکومت کو مستحکم اور برقرار رکھنے کے لیے تحریک انصاف کو کچھ وزارتیں جماعت اسلامی اور آفتاب ا حمد شیر پاؤ کی جماعتوں کو دینا ہیں۔ صوابی سے کامیاب ہونے والے ایک علاقائی گروپ کی بھی دلجوئی کی ضرورت ہے اور کابینہ میں اپنا حصہ لیتے ہوئے تحریک انصاف خیبرپختون خوا کے باقی علاقوں کو حصہ دینے پر مجبور ہے۔میرا نہیں خیال کہ عمران خان کے قریب سمجھے جانے والا تحریک انصاف کا کوئی سینئر رہنما اپنی جماعت کے جذباتی لوگوں کو یہ بنیادی باتیں ذرا سختی سے سمجھانے کی کوشش کررہا ہے۔
جاوید ہاشمی جیسے تجربہ کار فرد نے نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد جو رسمی فقرے ان کے احترام میں ادا کیے وہ کوئی اتنے Blasphemousنہ تھے۔ مگر تحریک انصاف کے انٹرنیٹ جہادیوں نے ان کو لے کر ایک طوفان برپا کردیا۔ بالآخر اپنے تئیں ازلی باغی بنے جاوید ہاشمی کو باقاعدہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے معقول اور مہذب رویے کے بابت برسرعام معذرت خواہ ہونا پڑا۔ ان کی معذرت انٹرنیٹ مجاہدوں اور تحریک انصاف کے جذباتی متوالوں کے حوصلے مزید بڑھائے گی۔
پتہ نہیں کیوں ان کے رویے کو دیکھتے ہوئے مجھے 1970 کے اوائل والے چین کے ان نوجوانوں کی یاد آنا شروع ہوگئی ہے جنہوں نے ''ثقافتی انقلاب'' کے نام پر حکمران کمیونسٹ پارٹی کے لیوشاؤچی اور ڈانگ سیاؤپنگ جیسے انقلابی مگر سنجیدہ اور تجربہ کار لوگوں کی زندگی اجیرن کردی تھی۔ کئی مہینوں تک ان لوگوں نے چو این لائی جیسے زیرک اور دوراندیش وزیر اعظم کو بھی سیاسی طورپر مفلوج بناڈالا تھا۔ ثقافتی انقلابیوں کے ہاتھوں تجربہ کار لوگوں کی دھنائی نے چینی معاشرے میں جو تباہی پھیلائی تھی اس کے بارے میں آج کل بھی کئی کتابیں لکھی جارہی ہیں۔
تحریک انصاف کے اسد عمریا ڈاکٹر شیریں مزاری جیسے لوگوں کو ان میں سے کوئی ایک کتاب ذرا غور سے ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ ورنہ کہانیاں میرے پاس تحریک انصاف کے خیبرپختون خوا کے ''بنیادی رکن'' اسد قیصر کے بارے میں بھی پہنچی ہیں جس کا تذکرہ کچھ دنوں کے بعد ضرور ہوگا۔ فی الحال تو میری بڑی خواہش ہے کہ کوئی مجھے پنجاب اسمبلی کے میاں محمود الرشید سے پوچھ کر بتائے کہ ان کا شہباز شریف کی حلف برادری کی تقریب میں پایا جانا تحریک انصاف کے ''ثقافتی انقلابیوں'' نے کس طور لیا ہے۔ کیا وہ بھی آیندہ چند دنوں میں جاوید ہاشمی کی طرح ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے معذرت خواہی کو تیار تو نہیں ہورہے۔