پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام اور صوبائی خود مختاری
میاں شہباز شریف نے کراچی کے شہریوں کو میٹرو بس سروس کا تحفہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ قائم علی شاہ نے جواب میں کراچی...
میاں شہباز شریف نے کراچی کے شہریوں کو میٹرو بس سروس کا تحفہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ قائم علی شاہ نے جواب میں کراچی میں 100 سے زیادہ بسیں چلانے کا اعلان کیا پھر صوبائی حکومت نے سرکلر ریلوے کو جاپانی حکومت کی مدد سے منظم کرنے کا فیصلہ کیا اور کراچی ماس ٹرانزٹ پلان پر عملدرآمد کی خوشخبری سنائی گئی، یہ منصوبہ 50 سال سے التوا کا شکار ہے۔ ایک معروف اخبار میں پلاننگ کمیشن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کراچی، اسلام آباد وغیرہ میں میٹرو بس سروس کے لیے ہر شہر کے لیے 30 بلین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔ کراچی میں 50 سال قبل بڑی بسوں، سرکلر ریلوے اور ٹرام وے کا ایک مربوط نظام قائم تھا۔ کراچی کی تاریخ شاہد ہے کہ کراچی اور ممبئی میں سب سے پہلے ٹرام وے چلا کرتی تھی، پہلے گھوڑے ٹرام کوکھینچا کرتے تھے پھر موٹر انجن کی ایجاد کے بعد ٹرام اپنے لوہے کی پٹڑی پر چلنے لگی۔ کراچی میں کیماڑی، بولٹن مارکیٹ ، گارڈن، چاکیواڑہ، سولجر بازار، صدر، کینٹ اسٹیشن تک مختلف روٹس پر ٹرام چلتی تھی، پاکستان بننے کے بعد بڑی بس چلنا شروع ہوئی۔ کراچی میں ایک زمانے میں بڑی ڈبل ڈیکر بس بھی چلتی تھی۔
کراچی میں بس سروس نجی شعبے کے پاس تھی، پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم ہوئی۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے تحت چلنے والی بڑی بس لوگوں کی سفری سہولتیں کسی حد تک پوری کرتی تھی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سرکلر ریلوے شروع ہوئی، سرکلر ریلوے وزیر مینشن سے سٹی اسٹیشن اور وزیر مینشن سے ناظم آباد تک جاتی تھی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی سے شہر آنے والے مسافر 30 سے 45 منٹ میں انتہائی کم ٹکٹ پر کینٹ اور سٹی اسٹیشن پہنچ جاتے تھے۔
ایک وقت تھا کہ سرکلر ریلوے اپنے شیڈول کے مطابق صبح اور شام کے وقت ہر 15 منٹ بعد دستیاب ہوتی تھی، اس ہی زمانے میں ماس ٹرانزٹ اسکیم تیار ہوئی، اس اسکیم کے تحت بھٹو دور میں سوئیڈن نے بڑی ایئر کنڈیشن بسوں کا ایک فلیٹ کے ٹی سی کو تحفے میں دیا، ان بسوں میں پبلک ایڈریس سسٹم اور خودکار دروازے بھی تھے۔ کے ٹی سی نے ان میں سے بہت سے بسیں کراچی یونیورسٹی کے طلبا کے مختلف پوائنٹس کے لیے مختص کردی تھیں۔
بھٹو دور میں شہر میں بسوں کی قلت تھی۔ شہری یہ امید کرتے تھے کہ دنیا کے جدید ممالک کی طرح کراچی میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام قائم کیا جائے گا مگر نجی شعبہ ٹرانسپورٹ میں مافیا کی حیثیت اختیار کررہا تھا، اس مافیا کے دباؤ پر ٹرام کے خلاف ایک مہم چلائی گئی، یہ الزام لگایا گیا کہ ٹرام کی سیڑھی سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے، اس موقعے پر شہر کی منصوبہ بندی کے ماہرین ٹرام کی افادیت کو فراموش کربیٹھے۔ اس دور میں امریکا اور یورپ کے علاوہ مشرق بعید کے ممالک میں الیکٹرک ٹرام چل رہی تھی مگر کراچی میں ٹرام کو جدید بنانے کے بجائے ٹرام وے کمپنی کا کاروبار ختم کرنے اور چھوٹی منی بسوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سرکلر ریلوے کی سروس خراب ہونا شروع ہوئی، ریل گاڑیوں نے شیڈول کی پابندی ترک کردی، ریل کے انجنوں کا خراب ہونا معمول بن گیا، ڈبوں سے بلب غائب ہونے لگے، ریل گاڑیوں میں خواتین کا سفر کرنا بند ہوا، سرکلر ریلوے سے سفر کرنے پر منزل مقصود پر وقت پر نہ پہنچنے کا رسک لازمی ہوگیا، اس طرح مسافروں کی اکثریت منی بسوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوئی اور کے ٹی سی بدعنوانیوں کی آماجگاہ بن گئی۔ بسوں کے غائب ہونے، انجنوں کی خریداری، کھڑکی کے شیشوں اور نشستوں پر بیٹھ کر کپڑوں کے خراب اور پھٹنے کے واقعات معمول بن گئے۔
عوام منی بسوں، رکشہ، ٹیکسیوں کے محتاج بن گئے۔ منی بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کا توہین آمیز رویہ عام آدمی کے لیے وبال جان بن گیا۔ منی بس سروس کی بنا پر شہر میں لسانی خلیج پیدا ہوئی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں جب غوث علی شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ بنے پہلے لانڈھی میں ریل کی ٹکر سے منی بس کے مسافروں کی ہلاکت سے یہ خلیج بڑھ گئی، جب سرسید کالج کے سامنے ایک طالبہ بشریٰ زیدی منی بس سے کچل کر ہلاک ہوئی تو کراچی ایک لسانی بحران کا شکار ہوا جس کے اثرات 26 سال بعد بھی محسوس ہوتے ہیں۔
کے ٹی سی کو ختم کردیا گیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ نجی شعبے نے بسوں سے ٹکٹ کا نظام ختم کیا اور زیادہ سے زیادہ منافعے کو اپنا شعار بنایا۔ غوث علی شاہ کے دور میں ٹریفک انجینئرنگ بیورو قائم ہوا، بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ماس ٹرانزٹ پروگرام پر عملدرآمد کا ذکر ہوا مگر معاملہ اخبارات کے صفحات تک محدود رہا۔ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں یلو کیب اسکیم شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت قومی بینکوں نے ٹیکسیوں کی خریداری کے لیے اربوں روپے قرضے دیے۔
مسلم لیگ حکومت نے بڑی بسوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا، قوم کے سرمایے سے چھوٹی ٹیکسیوں سے لے کر مرسڈیز کاریں قرضوں پر حاصل کی گئیں، ڈائیوو ٹیکسیوں کی سڑکوں پر بھر مار ہوئی مگر جن لوگوں نے ٹیکسیاں حاصل کیں انھوں نے نہ تو بینکوں کے قرضے ادا کیے اور اکثر ٹیکسیاں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال نہیں ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ٹیکسیاں سڑکوں سے غائب ہوگئی۔ سینئر صحافی صبیح الدین غوثی مرحوم کا کہنا تھا کہ یلو کیب اسکیم سے تین قومی بینک دیوالیے کے قریب پہنچ گئے تھے۔
جب 2000 کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان ناظم اعلیٰ بنے تو انھوں نے نجی شعبے کو بڑی بس چلانے کی ترغیب دی، بینکوں کے قرضوں سے مختلف نوعیت کی بسیں سڑکوں پر نظر آنے لگیں، ان میں ایئر کنڈیشن بسیں شامل تھی، یوں شہریوں کو عزت کے ساتھ معیاری بسوں میں سفر کرنے کی سہولت حاصل ہوئی۔ گاڑیاں استعمال کرنے والے کئی لوگ ان جدید بسوں کو اپنے سفر کے لیے ترجیح دینے لگے، پھر چند سال کے دوران یہ بسیں سڑکوں سے غائب ہونے لگیں۔ جب ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے چارج سنبھالا تو انھوں نے جدید پلوں، سڑکوں پر خصوصی توجہ دی، گرین بسیں بھی چلائی گئیں مگر یہ بھی موثر ثابت نہ ہوسکیں۔ بعد ازاں چین کی تیار کردہ موٹر سائیکل کی سواری چنگچی کو پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کیا جانے لگا، کراچی شہر میں چھوٹے بچے ہزاروں چنگچی چلا رہے ہیں اور جب سی این جی بند ہوجاتی ہے تو شہریوں کے پاس چنگچی کے علاوہ کوئی اور سواری نہیں ہوتی۔
مصطفیٰ کمال کے آخری دور میں گرین بسیں مخصوص روٹس پر چلائی گئیں، یہ عام آدمی کے لیے اچھی سہولت تھی، توقع تھی کہ یہ سہولت پورے شہر کو حاصل ہوگی مگر یہ بسیں غائب ہوگئیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے پانچ برسوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ میاں شہباز شریف کی پیشکش کے جواب میں قائم علی شاہ کا متحرک ہونا ایک اچھا فیصلہ ہے مگر محض بڑی بسوں کی خریداری سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، شہر کراچی کو الیکٹرک ٹرام، بڑی بسوں اور انڈر گراؤنڈ ریل کے جدید نظام کی ضرورت ہے۔
میاں شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس کو محفوظ ٹریک پر چلا کر ایک اچھا کام کیا ہے مگر مسئلے کا حل ایک جدید نظام میں پیوست ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کراچی کے علاوہ حیدرآباد، ملتان، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں جدید نظام کے لیے اقدامات کریں۔
بعض صحافی اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت کو سرکلر ریلوے اور ماس ٹرانزٹ اسکیم کے لیے قرضے کی گارنٹی دیں گے، یہ قرضہ صوبائی حکومت استعمال کرے گی یوں شفافیت کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ یہ معاملہ 18 ویں ترمیم کی صوبائی خود مختاری سے متعلق شقوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ محض اعتراضات کی بنا پر کراچی کے شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید نظام سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔ کراچی میں 50 سال قبل بڑی بسوں، سرکلر ریلوے اور ٹرام وے کا ایک مربوط نظام قائم تھا۔ کراچی کی تاریخ شاہد ہے کہ کراچی اور ممبئی میں سب سے پہلے ٹرام وے چلا کرتی تھی، پہلے گھوڑے ٹرام کوکھینچا کرتے تھے پھر موٹر انجن کی ایجاد کے بعد ٹرام اپنے لوہے کی پٹڑی پر چلنے لگی۔ کراچی میں کیماڑی، بولٹن مارکیٹ ، گارڈن، چاکیواڑہ، سولجر بازار، صدر، کینٹ اسٹیشن تک مختلف روٹس پر ٹرام چلتی تھی، پاکستان بننے کے بعد بڑی بس چلنا شروع ہوئی۔ کراچی میں ایک زمانے میں بڑی ڈبل ڈیکر بس بھی چلتی تھی۔
کراچی میں بس سروس نجی شعبے کے پاس تھی، پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم ہوئی۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے تحت چلنے والی بڑی بس لوگوں کی سفری سہولتیں کسی حد تک پوری کرتی تھی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سرکلر ریلوے شروع ہوئی، سرکلر ریلوے وزیر مینشن سے سٹی اسٹیشن اور وزیر مینشن سے ناظم آباد تک جاتی تھی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی سے شہر آنے والے مسافر 30 سے 45 منٹ میں انتہائی کم ٹکٹ پر کینٹ اور سٹی اسٹیشن پہنچ جاتے تھے۔
ایک وقت تھا کہ سرکلر ریلوے اپنے شیڈول کے مطابق صبح اور شام کے وقت ہر 15 منٹ بعد دستیاب ہوتی تھی، اس ہی زمانے میں ماس ٹرانزٹ اسکیم تیار ہوئی، اس اسکیم کے تحت بھٹو دور میں سوئیڈن نے بڑی ایئر کنڈیشن بسوں کا ایک فلیٹ کے ٹی سی کو تحفے میں دیا، ان بسوں میں پبلک ایڈریس سسٹم اور خودکار دروازے بھی تھے۔ کے ٹی سی نے ان میں سے بہت سے بسیں کراچی یونیورسٹی کے طلبا کے مختلف پوائنٹس کے لیے مختص کردی تھیں۔
بھٹو دور میں شہر میں بسوں کی قلت تھی۔ شہری یہ امید کرتے تھے کہ دنیا کے جدید ممالک کی طرح کراچی میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام قائم کیا جائے گا مگر نجی شعبہ ٹرانسپورٹ میں مافیا کی حیثیت اختیار کررہا تھا، اس مافیا کے دباؤ پر ٹرام کے خلاف ایک مہم چلائی گئی، یہ الزام لگایا گیا کہ ٹرام کی سیڑھی سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے، اس موقعے پر شہر کی منصوبہ بندی کے ماہرین ٹرام کی افادیت کو فراموش کربیٹھے۔ اس دور میں امریکا اور یورپ کے علاوہ مشرق بعید کے ممالک میں الیکٹرک ٹرام چل رہی تھی مگر کراچی میں ٹرام کو جدید بنانے کے بجائے ٹرام وے کمپنی کا کاروبار ختم کرنے اور چھوٹی منی بسوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سرکلر ریلوے کی سروس خراب ہونا شروع ہوئی، ریل گاڑیوں نے شیڈول کی پابندی ترک کردی، ریل کے انجنوں کا خراب ہونا معمول بن گیا، ڈبوں سے بلب غائب ہونے لگے، ریل گاڑیوں میں خواتین کا سفر کرنا بند ہوا، سرکلر ریلوے سے سفر کرنے پر منزل مقصود پر وقت پر نہ پہنچنے کا رسک لازمی ہوگیا، اس طرح مسافروں کی اکثریت منی بسوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوئی اور کے ٹی سی بدعنوانیوں کی آماجگاہ بن گئی۔ بسوں کے غائب ہونے، انجنوں کی خریداری، کھڑکی کے شیشوں اور نشستوں پر بیٹھ کر کپڑوں کے خراب اور پھٹنے کے واقعات معمول بن گئے۔
عوام منی بسوں، رکشہ، ٹیکسیوں کے محتاج بن گئے۔ منی بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کا توہین آمیز رویہ عام آدمی کے لیے وبال جان بن گیا۔ منی بس سروس کی بنا پر شہر میں لسانی خلیج پیدا ہوئی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں جب غوث علی شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ بنے پہلے لانڈھی میں ریل کی ٹکر سے منی بس کے مسافروں کی ہلاکت سے یہ خلیج بڑھ گئی، جب سرسید کالج کے سامنے ایک طالبہ بشریٰ زیدی منی بس سے کچل کر ہلاک ہوئی تو کراچی ایک لسانی بحران کا شکار ہوا جس کے اثرات 26 سال بعد بھی محسوس ہوتے ہیں۔
کے ٹی سی کو ختم کردیا گیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ نجی شعبے نے بسوں سے ٹکٹ کا نظام ختم کیا اور زیادہ سے زیادہ منافعے کو اپنا شعار بنایا۔ غوث علی شاہ کے دور میں ٹریفک انجینئرنگ بیورو قائم ہوا، بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ماس ٹرانزٹ پروگرام پر عملدرآمد کا ذکر ہوا مگر معاملہ اخبارات کے صفحات تک محدود رہا۔ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں یلو کیب اسکیم شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت قومی بینکوں نے ٹیکسیوں کی خریداری کے لیے اربوں روپے قرضے دیے۔
مسلم لیگ حکومت نے بڑی بسوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا، قوم کے سرمایے سے چھوٹی ٹیکسیوں سے لے کر مرسڈیز کاریں قرضوں پر حاصل کی گئیں، ڈائیوو ٹیکسیوں کی سڑکوں پر بھر مار ہوئی مگر جن لوگوں نے ٹیکسیاں حاصل کیں انھوں نے نہ تو بینکوں کے قرضے ادا کیے اور اکثر ٹیکسیاں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال نہیں ہوئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ٹیکسیاں سڑکوں سے غائب ہوگئی۔ سینئر صحافی صبیح الدین غوثی مرحوم کا کہنا تھا کہ یلو کیب اسکیم سے تین قومی بینک دیوالیے کے قریب پہنچ گئے تھے۔
جب 2000 کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان ناظم اعلیٰ بنے تو انھوں نے نجی شعبے کو بڑی بس چلانے کی ترغیب دی، بینکوں کے قرضوں سے مختلف نوعیت کی بسیں سڑکوں پر نظر آنے لگیں، ان میں ایئر کنڈیشن بسیں شامل تھی، یوں شہریوں کو عزت کے ساتھ معیاری بسوں میں سفر کرنے کی سہولت حاصل ہوئی۔ گاڑیاں استعمال کرنے والے کئی لوگ ان جدید بسوں کو اپنے سفر کے لیے ترجیح دینے لگے، پھر چند سال کے دوران یہ بسیں سڑکوں سے غائب ہونے لگیں۔ جب ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے چارج سنبھالا تو انھوں نے جدید پلوں، سڑکوں پر خصوصی توجہ دی، گرین بسیں بھی چلائی گئیں مگر یہ بھی موثر ثابت نہ ہوسکیں۔ بعد ازاں چین کی تیار کردہ موٹر سائیکل کی سواری چنگچی کو پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کیا جانے لگا، کراچی شہر میں چھوٹے بچے ہزاروں چنگچی چلا رہے ہیں اور جب سی این جی بند ہوجاتی ہے تو شہریوں کے پاس چنگچی کے علاوہ کوئی اور سواری نہیں ہوتی۔
مصطفیٰ کمال کے آخری دور میں گرین بسیں مخصوص روٹس پر چلائی گئیں، یہ عام آدمی کے لیے اچھی سہولت تھی، توقع تھی کہ یہ سہولت پورے شہر کو حاصل ہوگی مگر یہ بسیں غائب ہوگئیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے اقتدار کے پانچ برسوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ میاں شہباز شریف کی پیشکش کے جواب میں قائم علی شاہ کا متحرک ہونا ایک اچھا فیصلہ ہے مگر محض بڑی بسوں کی خریداری سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، شہر کراچی کو الیکٹرک ٹرام، بڑی بسوں اور انڈر گراؤنڈ ریل کے جدید نظام کی ضرورت ہے۔
میاں شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس کو محفوظ ٹریک پر چلا کر ایک اچھا کام کیا ہے مگر مسئلے کا حل ایک جدید نظام میں پیوست ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کراچی کے علاوہ حیدرآباد، ملتان، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں جدید نظام کے لیے اقدامات کریں۔
بعض صحافی اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت کو سرکلر ریلوے اور ماس ٹرانزٹ اسکیم کے لیے قرضے کی گارنٹی دیں گے، یہ قرضہ صوبائی حکومت استعمال کرے گی یوں شفافیت کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ یہ معاملہ 18 ویں ترمیم کی صوبائی خود مختاری سے متعلق شقوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ محض اعتراضات کی بنا پر کراچی کے شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید نظام سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔