فری مارکیٹ اکانومی نجکاری اور ڈی ریگولیشن
گزشتہ ادوار میں ن لیگ کی حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کا جائزہ
موجودہ دور سے قبل، 90ء کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) نے دو مرتبہ مرکز میں حکومت بنائی۔
اس کا پہلا دور حکومت نومبر 1990ء سے جولائی 1993ء تک رہا، جبکہ دوسرا دور فروری 1997ء سے اکتوبر 1999ء کے درمیانی عرصہ پر محیط ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنے پہلے دور حکومت سے ہی ملک میں رائج معاشی پالیسیوں میں بنیادی نوع کی تبدیلیاں لے کر آئی، جنہیں معاشی اصلاحات کا نام دیا گیا۔
ان معاشی پالیسیوں کے بنیادی اجزاء میں فری مارکیٹ اکانومی، لبریشن، نجکاری اور ڈی ریگولیشن شامل ہیں۔ اس دور میں ملکی تاریخ میں پہلی بار عام شہریوں اور کاروباری حلقوں کو بیرون ملک غیر ملکی زرمبادلہ لے جانے پر عائد پابندیاں ختم کی گئیں اورڈیلرز کو اجازت دی گئی کہ وہ اس وقت کی قیمت پر غیر ملکی کرنسی خرید اور بیچ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور کی معاشی پالیسیوں کے نتائج کا جائزہ لیں، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختلف سیکٹرز میں اس کی پالیسیوں پر ایک نظرڈال لی جائے۔
نجکاری پالیسی کے تحت جنوری 1991ء سے جون 1993ء تک 66 صنعتی یونٹوں اور دو کمرشل بینکوں کی نجکاری کی گئی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن لمیٹڈ (PTCL) کی نجکاری کے لیے قابل ذکر کام بھی اس دور میں کرلیا گیا تھا۔ رقوم کے تبادلے اور ادائیگیوں کے نظام میں اصلاحات کے نتیجے میں غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیل پر ہر قسم کی پابندیاں اٹھالی گئیں۔ بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی بینکوں میں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس رکھنے کی اجازت دی گئی جبکہ پاکستان کے شہری دوسرے ممالک میں غیر ملکی اکاؤنٹس رکھ سکتے تھے۔ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکسز کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ ٹیکس اصلاحات کی بدولت 1991-92ء کے عرصہ کے دوران انکم ٹیکس آمدن میں 46 فیصد اور 1992-93ء کے دوران 32 فیصد کا اضافہ ہوا۔ مجموعی ٹیکسوں کی مد میں ڈائریکٹ ٹیکس کے حصے میں اضافہ ہوا اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
انڈسٹریل پالیسی میں ملک میں نئی صنعتوں مثلاً انجینئرنگ، الیکٹرونکس اور کیمیکل انڈسٹریز کے قیام کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا، خام مال کے بجائے ویلیو ایڈڈ اشیاء کی تیاری پر زور دیا گیا۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خصوصی رعایتیں دی گئیں۔
مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور حکومت کے تین برسوں کے دوران اوسط شرح نمو 5.2 فیصد رہی۔ اس عرصے میں سرمایہ کاری میں 70 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1990ء میں 162 بلین کی سرمایہ کاری تھی جو 1993ء تک 277 بلین تک پہنچ گئی۔ ان تین برسوں میں ملکی برآمدات میں اوسط 14 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس عرصہ میں ٹیلی کمیونیکیشن، بجلی، سڑکوں اوردوسرے سوشل سیکٹرز میں خاطرخواہ پیشرفت ہوئی۔ سندھ کے ہاریوں میں زمینوں کی تقسیم کی گئی۔ صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا سمجھوتہ بھی اس دور میں طے پایا اور نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کے فورم میں پہلی مرتبہ صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے سمجھوتے پر اتفاق رائے ہوسکا۔
جہاں تک ان پالیسیوں کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کا سوال ہے تو اس دور کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ''ملک کو درپیش بڑے معاشی مسائل کی وجہ سے ان معاشی اصلاحات کے اثرات کسی حد تک زائل ہوگئے۔'' حکومت مالیاتی خسارے پر قابو نہ پاسکی جس کی وجہ سے افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوگیا اورادائیگیوں کے توازن پر دباؤ بڑھ گیا۔ انفراسٹرکچر پر زیادہ اخراجات کی وجہ سے بجٹ خسارہ اس دوران جی ڈی پی کا 8 فیصد تھا۔ ان معاشی ناکامیوں کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں، ان میں گلف میں جاری جنگ، عالمی کسادبازاری، ستمبر 1992ء میں آنے والا سیلاب اور پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے اکتوبر 1990ء میں امریکا کی طرف سے عائد ہونے والی پریسلر پابندیاں شامل ہیں۔
فروری 1997ء میں پاکستان مسلم لیگ ایک بھاری مینڈیٹ لے کر برسراقتدار آئی اور نواز شریف دو تہائی اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس دور میں بھی انھوں نے اپنی سابقہ پالیسیوں کے مطابق معاشی اصلاحات کا عمل جاری رکھا۔ ٹیکس شرح میں تبدیلی کی گئی، کسانوں کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے گندم کی قیمت 173 روپے سے بڑھا کر 240 روپے فی من مقرر کی گئی۔ اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنایا گیا۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پر صوابدیدی اختیارات اور VIP مراعات کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا۔ محصول چونگی کوختم کیا گیا، جس میں عوام سے 20 بلین روپے جمع کرکے حکومت کو صرف تین بلین روپے دیئے جاتے تھے۔
27 فروری 1997ء کو حکومت نے ''قرض اتارو ملک سنوارو'' کے نعرے سے ایک اسکیم کا آغاز کیا، جس کو The Nationl Debt Retirement Program (NDRP) کا نام دیا گیا۔ اس اسکیم کا مقصد یہ تھا کہ ملکی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے زرمبادلہ حاصل کرکے بھاری شرح سود پر حاصل کیے گئے ملکی قرضوں کو اتارا جائے۔ اس ضمن میں تین مدات قائم کی گئیں، جن میں پاکستانی پیسے جمع کراسکتے تھے۔ پہلی مد میں عطیے (ڈونیشن) کے طور پر دی گئی رقم شامل تھی، دوسری کو قرض حسنہ کا نام دیا گیا اور تیسری مد میں جمع کرائے گئے پیسوں پر انٹرسٹ دیا جاتا تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اس اسکیم کے تحت سب سے زیادہ رقم پہلے سال حاصل ہوئی جبکہ بعد کے برسوں میں اس اسکیم کے تحت معمولی رقم حاصل ہوئی اور اس رقم کو بھاری شرح سود پر حاصل کیے گئے قرضے کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا گیا۔
28 مئی 1998ء کے دھماکوں کے بعد امریکا اور کچھ دوسرے ممالک کی طرف سے پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کی گئیں، لیکن حکومت نے قبل از وقت متبادل منصوبہ بندی کرلی تھی تاکہ زیادہ اقتصادی نقصان نہ ہو اور اس سلسلے میں دوست ملکوں کا تعاون حاصل رہا۔ دھماکوں سے پہلے جس فیصلے نے آگے چل کر ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کا فیصلہ تھا۔ اس وقت پاکستان کے پاس 11 بلین ڈالرز کے فارن کرنسی اکاؤنٹس مقامی بینکوں میں پڑے تھے۔ لیکن ایک مہینہ بعد جب یہ پابندی اٹھالی گئی تو ان اکاؤنٹس سے ساری رقم غائب ہوگئی۔ اس کے 15 سال بعد آج بھی پاکستان میں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس صرف 4.5 بلین ڈالر تک پہنچ سکے ہیں۔ مسلم لیگ کے قائد اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ فارن اکاؤنٹس منجمد کرنے کا فیصلہ کرنا ان کی غلطی تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان پر عائد پابندیاں بڑی حد تک چھ ماہ کے بعد اٹھالی گئیں۔ 1998ء اور 1999ء میں شرح نمو بالترتیب 3.5 اور 4.2 فیصد رہی۔
مسلم لیگ (ن) اب 14 برس گزرنے کے بعد آج تیسری مرتبہ برسراقتدار ہے۔ گزشتہ دو ادوار میں ان کو سیاسی عدم استحکام اور عالمی و علاقائی مالیاتی بحرانوں کا سامنا رہا۔ لیکن آج امن وامان کی بدترین صورتحال، ملکی قرضوں اور توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے، جس کی ماضی میں بھی مثال نہیں ملتی ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اپنے گزشتہ ادوار سے سبق سیکھتے ہوئے معاشی بہتری کے لیے ضروری اقدامات کر کے عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کے بجائے انھیں ڈیلیور کرنا چاہیے۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے ان حالات میں معاشی بہتری کی ذمے داری قبول کی تھی اور عوام سے وعدے کیے تھے تو وقت آگیا ہے کہ وہ اس آزمائش پر پورا اتر کر دکھائیں۔ ماضی کی طرح مختلف مسائل کی آڑ لے کر بہتری نہ لاسکنے کی وجوہات تراشنے سے ملک کے حالات ٹھیک ہوں گے اور نہ ہی اس میں (ن) لیگ کا کوئی بھلا ہوگا۔
اس کا پہلا دور حکومت نومبر 1990ء سے جولائی 1993ء تک رہا، جبکہ دوسرا دور فروری 1997ء سے اکتوبر 1999ء کے درمیانی عرصہ پر محیط ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنے پہلے دور حکومت سے ہی ملک میں رائج معاشی پالیسیوں میں بنیادی نوع کی تبدیلیاں لے کر آئی، جنہیں معاشی اصلاحات کا نام دیا گیا۔
ان معاشی پالیسیوں کے بنیادی اجزاء میں فری مارکیٹ اکانومی، لبریشن، نجکاری اور ڈی ریگولیشن شامل ہیں۔ اس دور میں ملکی تاریخ میں پہلی بار عام شہریوں اور کاروباری حلقوں کو بیرون ملک غیر ملکی زرمبادلہ لے جانے پر عائد پابندیاں ختم کی گئیں اورڈیلرز کو اجازت دی گئی کہ وہ اس وقت کی قیمت پر غیر ملکی کرنسی خرید اور بیچ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور کی معاشی پالیسیوں کے نتائج کا جائزہ لیں، یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختلف سیکٹرز میں اس کی پالیسیوں پر ایک نظرڈال لی جائے۔
نجکاری پالیسی کے تحت جنوری 1991ء سے جون 1993ء تک 66 صنعتی یونٹوں اور دو کمرشل بینکوں کی نجکاری کی گئی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن لمیٹڈ (PTCL) کی نجکاری کے لیے قابل ذکر کام بھی اس دور میں کرلیا گیا تھا۔ رقوم کے تبادلے اور ادائیگیوں کے نظام میں اصلاحات کے نتیجے میں غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیل پر ہر قسم کی پابندیاں اٹھالی گئیں۔ بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی بینکوں میں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس رکھنے کی اجازت دی گئی جبکہ پاکستان کے شہری دوسرے ممالک میں غیر ملکی اکاؤنٹس رکھ سکتے تھے۔ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکسز کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ ٹیکس اصلاحات کی بدولت 1991-92ء کے عرصہ کے دوران انکم ٹیکس آمدن میں 46 فیصد اور 1992-93ء کے دوران 32 فیصد کا اضافہ ہوا۔ مجموعی ٹیکسوں کی مد میں ڈائریکٹ ٹیکس کے حصے میں اضافہ ہوا اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
انڈسٹریل پالیسی میں ملک میں نئی صنعتوں مثلاً انجینئرنگ، الیکٹرونکس اور کیمیکل انڈسٹریز کے قیام کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا، خام مال کے بجائے ویلیو ایڈڈ اشیاء کی تیاری پر زور دیا گیا۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خصوصی رعایتیں دی گئیں۔
مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور حکومت کے تین برسوں کے دوران اوسط شرح نمو 5.2 فیصد رہی۔ اس عرصے میں سرمایہ کاری میں 70 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1990ء میں 162 بلین کی سرمایہ کاری تھی جو 1993ء تک 277 بلین تک پہنچ گئی۔ ان تین برسوں میں ملکی برآمدات میں اوسط 14 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس عرصہ میں ٹیلی کمیونیکیشن، بجلی، سڑکوں اوردوسرے سوشل سیکٹرز میں خاطرخواہ پیشرفت ہوئی۔ سندھ کے ہاریوں میں زمینوں کی تقسیم کی گئی۔ صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا سمجھوتہ بھی اس دور میں طے پایا اور نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کے فورم میں پہلی مرتبہ صوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے سمجھوتے پر اتفاق رائے ہوسکا۔
جہاں تک ان پالیسیوں کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کا سوال ہے تو اس دور کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ''ملک کو درپیش بڑے معاشی مسائل کی وجہ سے ان معاشی اصلاحات کے اثرات کسی حد تک زائل ہوگئے۔'' حکومت مالیاتی خسارے پر قابو نہ پاسکی جس کی وجہ سے افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوگیا اورادائیگیوں کے توازن پر دباؤ بڑھ گیا۔ انفراسٹرکچر پر زیادہ اخراجات کی وجہ سے بجٹ خسارہ اس دوران جی ڈی پی کا 8 فیصد تھا۔ ان معاشی ناکامیوں کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں، ان میں گلف میں جاری جنگ، عالمی کسادبازاری، ستمبر 1992ء میں آنے والا سیلاب اور پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کی وجہ سے اکتوبر 1990ء میں امریکا کی طرف سے عائد ہونے والی پریسلر پابندیاں شامل ہیں۔
فروری 1997ء میں پاکستان مسلم لیگ ایک بھاری مینڈیٹ لے کر برسراقتدار آئی اور نواز شریف دو تہائی اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس دور میں بھی انھوں نے اپنی سابقہ پالیسیوں کے مطابق معاشی اصلاحات کا عمل جاری رکھا۔ ٹیکس شرح میں تبدیلی کی گئی، کسانوں کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے گندم کی قیمت 173 روپے سے بڑھا کر 240 روپے فی من مقرر کی گئی۔ اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنایا گیا۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پر صوابدیدی اختیارات اور VIP مراعات کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا۔ محصول چونگی کوختم کیا گیا، جس میں عوام سے 20 بلین روپے جمع کرکے حکومت کو صرف تین بلین روپے دیئے جاتے تھے۔
27 فروری 1997ء کو حکومت نے ''قرض اتارو ملک سنوارو'' کے نعرے سے ایک اسکیم کا آغاز کیا، جس کو The Nationl Debt Retirement Program (NDRP) کا نام دیا گیا۔ اس اسکیم کا مقصد یہ تھا کہ ملکی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے زرمبادلہ حاصل کرکے بھاری شرح سود پر حاصل کیے گئے ملکی قرضوں کو اتارا جائے۔ اس ضمن میں تین مدات قائم کی گئیں، جن میں پاکستانی پیسے جمع کراسکتے تھے۔ پہلی مد میں عطیے (ڈونیشن) کے طور پر دی گئی رقم شامل تھی، دوسری کو قرض حسنہ کا نام دیا گیا اور تیسری مد میں جمع کرائے گئے پیسوں پر انٹرسٹ دیا جاتا تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اس اسکیم کے تحت سب سے زیادہ رقم پہلے سال حاصل ہوئی جبکہ بعد کے برسوں میں اس اسکیم کے تحت معمولی رقم حاصل ہوئی اور اس رقم کو بھاری شرح سود پر حاصل کیے گئے قرضے کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا گیا۔
28 مئی 1998ء کے دھماکوں کے بعد امریکا اور کچھ دوسرے ممالک کی طرف سے پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کی گئیں، لیکن حکومت نے قبل از وقت متبادل منصوبہ بندی کرلی تھی تاکہ زیادہ اقتصادی نقصان نہ ہو اور اس سلسلے میں دوست ملکوں کا تعاون حاصل رہا۔ دھماکوں سے پہلے جس فیصلے نے آگے چل کر ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کا فیصلہ تھا۔ اس وقت پاکستان کے پاس 11 بلین ڈالرز کے فارن کرنسی اکاؤنٹس مقامی بینکوں میں پڑے تھے۔ لیکن ایک مہینہ بعد جب یہ پابندی اٹھالی گئی تو ان اکاؤنٹس سے ساری رقم غائب ہوگئی۔ اس کے 15 سال بعد آج بھی پاکستان میں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس صرف 4.5 بلین ڈالر تک پہنچ سکے ہیں۔ مسلم لیگ کے قائد اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ فارن اکاؤنٹس منجمد کرنے کا فیصلہ کرنا ان کی غلطی تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان پر عائد پابندیاں بڑی حد تک چھ ماہ کے بعد اٹھالی گئیں۔ 1998ء اور 1999ء میں شرح نمو بالترتیب 3.5 اور 4.2 فیصد رہی۔
مسلم لیگ (ن) اب 14 برس گزرنے کے بعد آج تیسری مرتبہ برسراقتدار ہے۔ گزشتہ دو ادوار میں ان کو سیاسی عدم استحکام اور عالمی و علاقائی مالیاتی بحرانوں کا سامنا رہا۔ لیکن آج امن وامان کی بدترین صورتحال، ملکی قرضوں اور توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے، جس کی ماضی میں بھی مثال نہیں ملتی ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اپنے گزشتہ ادوار سے سبق سیکھتے ہوئے معاشی بہتری کے لیے ضروری اقدامات کر کے عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کے بجائے انھیں ڈیلیور کرنا چاہیے۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے ان حالات میں معاشی بہتری کی ذمے داری قبول کی تھی اور عوام سے وعدے کیے تھے تو وقت آگیا ہے کہ وہ اس آزمائش پر پورا اتر کر دکھائیں۔ ماضی کی طرح مختلف مسائل کی آڑ لے کر بہتری نہ لاسکنے کی وجوہات تراشنے سے ملک کے حالات ٹھیک ہوں گے اور نہ ہی اس میں (ن) لیگ کا کوئی بھلا ہوگا۔