یہ میرا جرم ہے
عمران کے علاوہ اور تو کوئی نظر نہیں آرہا، جو پچھلے تیس سال میں حکمران رہے، وہی سامنے ہیں ناں!
''بہت مجبور ہو کر ہم نے اپنے فیصلے بدلے''۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے جو کچھ کہتا رہا اس کے جذبے پر شک نہ کرو، اس کے جنون کو رد نہ کرو۔ یہ عمران خان ہی ہے، جو قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کو باہر نکال سکتا ہے، عمران کے علاوہ اور تو کوئی نظر نہیں آرہا، جو پچھلے تیس سال میں حکمران رہے، وہی سامنے ہیں ناں! انھوں نے ملک کو کیا دیا؟
یارو! ان دونوں حکمران پارٹیوں کے وفادارو! کچھ تھوڑا سا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک لو، اور بتاؤ، انھوں نے ملک کو کیا دیا؟ 12 مئی کراچی میں قتل عام، دہشت، وحشت میں جکڑا کراچی، لاشیں، ججز گرفتار، قانون شکنجے میں، ہیروئن، کلاشنکوف، سرے محل کی بازگشت، سوئس بینک، زمینوں پر قبضے، شہر شہر حکمرانوں کے وسیع و عریض، جنت نظیر رہائشی محل، لندن کے ہوش ربا فلیٹ، ایان علی، اومنی گروپ، انور مجید، فالودے والا ارب پتی، حکمرانوں کی شوگر ملیں، منی لانڈرنگ، دبئی میں عمارتیں، اقامے، ملازمتیں، اعلیٰ آرام دہ اسپتالوں کی جیلیں اور دوسری طرف بھوکے ننگے غریب ہاری مزدور کسان، نیلے پیلے کالے کپڑے پہنے، مرتے بچے، ذلت کی زندگی گزارتے، خودکشیاں کرنے پر مجبور انسان۔ 70 سال سے ملک کا یہی حال ہے، حکمران آتے رہے، عوام کو سبز باغ دکھاتے رہے، مال بناتے رہے اور جاتے رہے۔ تقریریں جاری رہیں، بقول جالب:
ملک کٹتا، کٹے کرو تقریر
کوئی کچھ بھی کہے کرو تقریر
سب ہیں خوشحال ہاتھ اٹھواؤ
یوں تماشا جہاں کو دکھلاؤ
جس طرح حکمرانوں نے اس ملک کو لوٹا ہے، کیا اس ''لوٹ مار'' کا کسی کے پاس جواز ہے، جواب ہے؟ مشاہد اللہ خان نے سینیٹ میں حبیب جالب کا شعر پڑھ دیا:
حکمراں ہوگئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
جالب اپنی ایک طویل نظم ''داستان دل دونیم'' کراچی پریس کلب میں سنا رہے تھے، جب وہ اس شعر پر پہنچے تو انھوں نے سامعین میں بیٹھی حسین شہید سہروردی کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا ''یہ حسین شہید سہروردی صاحب کی بیٹی بیٹھی ہیں، ان کے والد نگینے لوگ تھے۔''
یاد رہے کہ کچھ عرصے کے لیے سہروردی وزیراعظم بنائے گئے تھے، اور پھر بیروت کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے تھے۔ چیئرمین سینیٹ نے لفظ کمینے کو خارج کروا دیا۔ مشاہد اللہ خان کا پڑھا ہوا شعر ہر اس حکمران کے لیے ہے جس نے اس ملک کو لوٹا ہے۔ اپنی جائیدادیں بنائی ہیں، کارخانے اور شوگر ملیں بنائی ہیں، بینک بھرے ہیں۔ جالب ہی کا ایک اور شعر ذہن میں کلبلا رہا ہے، سن لیں:
میں بتا دیتا ہوں لوگوں کو یہ میرا جرم ہے
اس نگر میں کچھ کمینے معتبر کیسے بنے
او یارو! حکمران جماعتوں کے وفادارو! کوئی تو ہو جو لٹیروں، ڈاکوؤں کو بے نقاب کرے، یارو! کسی شام ان ''ڈاکوؤں لٹیروں'' کا بھی ذکر لو۔ موضوع ہو ''لندن، دبئی اور پاکستان میں جائیدادیں، اور بیرون ملک بینکوں میں پیسہ'' کرلو، بھائی اس موضوع پر بھی بات کرلو، اب تو بات کرلو! ورنہ بتاؤ کب کرو گے؟ تب کرو گے جب کچھ بھی نہیں بچے گا۔ مگر ''یہاں پاس لفظ کس کو'' حریف حلیف بن جاتے ہیں:
اتنے سنگین ترین حالات میں عمران خان کو حکمرانی ملی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ''میں نے کسی ایک لٹیرے کو بھی نہیں چھوڑنا'' عمران خان نے ملک کو آگے لے جانے کے لیے یہی راستہ چنا ہے، ''لٹیروں'' نے جو مال لوٹا ہے، وہ واپس آجائے، تو ملک کا قرضہ اتر جائے گا، میں تو عام سا لکھنے پڑھنے والا ہوں، باقی یہ دانشور، تجزیہ نگار سوچ بچار کرکے بتائیں، میرا مسئلہ یہ ہے کہ ''قرضہ اتر جائے''۔ اگر عمران خان آئی ایم ایف میں چلا گیا ہے تو اس کا تمسخر نہ اڑاؤ۔ سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ ملک کے بارے میں سوچو، ''لٹیروں'' کے خلاف سب ایک ہوجاؤ۔ یہ لٹیرے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
بڑا ہی ''اوکھا ویلا'' ہے۔ منشا بم ابھی تک نہیں پکڑا گیا، اس کے چار ''راکٹ'' بیٹے کہاں ہیں؟ یہ میرا عمران خان سے سوال ہے۔ منشا بم واقعی اتنی بڑی چیز ہے کہ گرفت میں نہیں آرہا؟ عمران خان! تم نے کسی لٹیرے کو نہیں چھوڑنا، مجھے تمہاری بات پر یقین ہے لہٰذا اور دو چار دن سہی، منشا بم پکڑا جائے گا۔ عمران خان کی اپنی جماعت میں بھی ڈاکو، چور لٹیرے گھس آئے ہیں، عمران خان کو ان سے بھی نمٹنا ہے۔ میں پھر کہوں گا ''بڑا اوکھا ویلا'' ہے، بس دعا کریں کہ ''دکھ لباں تے نہ آوے'' اور ''اُچا ناں ہووے پیار دا'' ''ویکھیں پیار نہ ہارے'' یہ پنجابی زبان کی دعائیہ لائنیں ہیں، اردو ترجمہ یوں ہے ''دکھ لبوں پر نہ آئے''، ''اونچا نام ہو پیار کا''، ''دیکھنا! پیار نہ ہارے'' اس پاکستان نے، اس کے عوام نے بہت دکھ سہہ لیے، اب سارے دکھ بے دردوں کے گھر چلے جائیں، چلیے میں وہ شعر ہی لکھ دیتا ہوں، جسے جالب نے فلم ''زخمی'' کے لیے لکھا تھا:
گھر دیکھ لیا اپنا زمانے کے دکھوں نے
یہ دکھ کسی بے درد کے گھر کیوں نہیں جاتے
اپنا حساب کتاب یہیں دے دو، ورنہ اللہ کو کیا حساب کتاب دوگے؟
پتا نہیں اللہ پر، روز قیامت پر ان ظالموں لٹیروں کو یقین ہے یا نہیں۔ ملک بچا لو، باقی لڑائی جھگڑے، مقابلے، بحث مباحثے ہوتے رہیں گے۔ حالات کا یہی تقاضا ہے۔
یارو! ان دونوں حکمران پارٹیوں کے وفادارو! کچھ تھوڑا سا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک لو، اور بتاؤ، انھوں نے ملک کو کیا دیا؟ 12 مئی کراچی میں قتل عام، دہشت، وحشت میں جکڑا کراچی، لاشیں، ججز گرفتار، قانون شکنجے میں، ہیروئن، کلاشنکوف، سرے محل کی بازگشت، سوئس بینک، زمینوں پر قبضے، شہر شہر حکمرانوں کے وسیع و عریض، جنت نظیر رہائشی محل، لندن کے ہوش ربا فلیٹ، ایان علی، اومنی گروپ، انور مجید، فالودے والا ارب پتی، حکمرانوں کی شوگر ملیں، منی لانڈرنگ، دبئی میں عمارتیں، اقامے، ملازمتیں، اعلیٰ آرام دہ اسپتالوں کی جیلیں اور دوسری طرف بھوکے ننگے غریب ہاری مزدور کسان، نیلے پیلے کالے کپڑے پہنے، مرتے بچے، ذلت کی زندگی گزارتے، خودکشیاں کرنے پر مجبور انسان۔ 70 سال سے ملک کا یہی حال ہے، حکمران آتے رہے، عوام کو سبز باغ دکھاتے رہے، مال بناتے رہے اور جاتے رہے۔ تقریریں جاری رہیں، بقول جالب:
ملک کٹتا، کٹے کرو تقریر
کوئی کچھ بھی کہے کرو تقریر
سب ہیں خوشحال ہاتھ اٹھواؤ
یوں تماشا جہاں کو دکھلاؤ
جس طرح حکمرانوں نے اس ملک کو لوٹا ہے، کیا اس ''لوٹ مار'' کا کسی کے پاس جواز ہے، جواب ہے؟ مشاہد اللہ خان نے سینیٹ میں حبیب جالب کا شعر پڑھ دیا:
حکمراں ہوگئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
جالب اپنی ایک طویل نظم ''داستان دل دونیم'' کراچی پریس کلب میں سنا رہے تھے، جب وہ اس شعر پر پہنچے تو انھوں نے سامعین میں بیٹھی حسین شہید سہروردی کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا ''یہ حسین شہید سہروردی صاحب کی بیٹی بیٹھی ہیں، ان کے والد نگینے لوگ تھے۔''
یاد رہے کہ کچھ عرصے کے لیے سہروردی وزیراعظم بنائے گئے تھے، اور پھر بیروت کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے تھے۔ چیئرمین سینیٹ نے لفظ کمینے کو خارج کروا دیا۔ مشاہد اللہ خان کا پڑھا ہوا شعر ہر اس حکمران کے لیے ہے جس نے اس ملک کو لوٹا ہے۔ اپنی جائیدادیں بنائی ہیں، کارخانے اور شوگر ملیں بنائی ہیں، بینک بھرے ہیں۔ جالب ہی کا ایک اور شعر ذہن میں کلبلا رہا ہے، سن لیں:
میں بتا دیتا ہوں لوگوں کو یہ میرا جرم ہے
اس نگر میں کچھ کمینے معتبر کیسے بنے
او یارو! حکمران جماعتوں کے وفادارو! کوئی تو ہو جو لٹیروں، ڈاکوؤں کو بے نقاب کرے، یارو! کسی شام ان ''ڈاکوؤں لٹیروں'' کا بھی ذکر لو۔ موضوع ہو ''لندن، دبئی اور پاکستان میں جائیدادیں، اور بیرون ملک بینکوں میں پیسہ'' کرلو، بھائی اس موضوع پر بھی بات کرلو، اب تو بات کرلو! ورنہ بتاؤ کب کرو گے؟ تب کرو گے جب کچھ بھی نہیں بچے گا۔ مگر ''یہاں پاس لفظ کس کو'' حریف حلیف بن جاتے ہیں:
اتنے سنگین ترین حالات میں عمران خان کو حکمرانی ملی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ''میں نے کسی ایک لٹیرے کو بھی نہیں چھوڑنا'' عمران خان نے ملک کو آگے لے جانے کے لیے یہی راستہ چنا ہے، ''لٹیروں'' نے جو مال لوٹا ہے، وہ واپس آجائے، تو ملک کا قرضہ اتر جائے گا، میں تو عام سا لکھنے پڑھنے والا ہوں، باقی یہ دانشور، تجزیہ نگار سوچ بچار کرکے بتائیں، میرا مسئلہ یہ ہے کہ ''قرضہ اتر جائے''۔ اگر عمران خان آئی ایم ایف میں چلا گیا ہے تو اس کا تمسخر نہ اڑاؤ۔ سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ ملک کے بارے میں سوچو، ''لٹیروں'' کے خلاف سب ایک ہوجاؤ۔ یہ لٹیرے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
بڑا ہی ''اوکھا ویلا'' ہے۔ منشا بم ابھی تک نہیں پکڑا گیا، اس کے چار ''راکٹ'' بیٹے کہاں ہیں؟ یہ میرا عمران خان سے سوال ہے۔ منشا بم واقعی اتنی بڑی چیز ہے کہ گرفت میں نہیں آرہا؟ عمران خان! تم نے کسی لٹیرے کو نہیں چھوڑنا، مجھے تمہاری بات پر یقین ہے لہٰذا اور دو چار دن سہی، منشا بم پکڑا جائے گا۔ عمران خان کی اپنی جماعت میں بھی ڈاکو، چور لٹیرے گھس آئے ہیں، عمران خان کو ان سے بھی نمٹنا ہے۔ میں پھر کہوں گا ''بڑا اوکھا ویلا'' ہے، بس دعا کریں کہ ''دکھ لباں تے نہ آوے'' اور ''اُچا ناں ہووے پیار دا'' ''ویکھیں پیار نہ ہارے'' یہ پنجابی زبان کی دعائیہ لائنیں ہیں، اردو ترجمہ یوں ہے ''دکھ لبوں پر نہ آئے''، ''اونچا نام ہو پیار کا''، ''دیکھنا! پیار نہ ہارے'' اس پاکستان نے، اس کے عوام نے بہت دکھ سہہ لیے، اب سارے دکھ بے دردوں کے گھر چلے جائیں، چلیے میں وہ شعر ہی لکھ دیتا ہوں، جسے جالب نے فلم ''زخمی'' کے لیے لکھا تھا:
گھر دیکھ لیا اپنا زمانے کے دکھوں نے
یہ دکھ کسی بے درد کے گھر کیوں نہیں جاتے
اپنا حساب کتاب یہیں دے دو، ورنہ اللہ کو کیا حساب کتاب دوگے؟
پتا نہیں اللہ پر، روز قیامت پر ان ظالموں لٹیروں کو یقین ہے یا نہیں۔ ملک بچا لو، باقی لڑائی جھگڑے، مقابلے، بحث مباحثے ہوتے رہیں گے۔ حالات کا یہی تقاضا ہے۔