بوٹینیکل گارڈن سے برنس گارڈن تک
کراچی کے علاوہ کسی بھی شہر کو کبھی اس بات کا اعزاز حا صل نہیں رہا کہ اس کے پاس کوئی بوٹنیکل گارڈن موجود ہو
جہاں تک باغات کے آغاز کا تعلق ہے تو اس کا آغاز تو اللہ رب العزت نے خود ہی کیا تھا، اور اس کا ذکر رب تعالیٰ نے قرآن مجید کے سورہ رحمن اور سورہ کہف میں کیا۔ سورہ رحمن میں اس نے سرسبز و شاداب باغ کا تذکرہ کیا اور یہ بھی ذکر کیا گیا کہ جنت میں پھلوں سے لدے درخت ہونگے جن میں انار، انگور، انجیر، زیتون کے درخت بہ کثرت ہونگے۔ اسی طرح سورہ کہف میں بھی باغات کا تذکرہ موجود ہے، تاہم ان باغات سے فیضیاب ہونے کےلیے حضرت انسان کو نیکی اور بدی کے راستے دیے گئے ہیں۔ جو نیکی کی راہ اپنائے گا وہ ان باغات سے لطف اندوز ہوسکے گا؛ ورنہ جہنم کی دھکتی آگ اس کی منتظر ہوگی۔
قرآن مجید میں اس تذکرے کے بعد انسان نے بھی دنیا میں بھی حسین و جمیل باغات لگائے جو اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اگر باغات کے حوالے سے ہمارے ملک کو دیکھا جائے تو ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں، کیونکہ ملک میں شا لیمار گارڈن اور کلرکہار باغ جیسے شاندار باغات موجود ہیں جنہیں آج بھی عالمی سطح پر جانا اور مانا جاتا ہے
شالیمار گارڈن کو دیکھا جائے تو وہ آج بھی نہ صرف سر سبز و شاداب ہے بلکہ اسے عالمی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ پورے برصغیر میں باغات تو بے شمار ہیں مگر نباتات گارڈن کے نام پر صرف دو باغ لگائے گئے تھے جن میں سے ایک اس وقت بھی کلکتہ میں موجود ہے، جبکہ شہر کراچی میں برنس گارڈن کے نام سے لگایا جانے والا دوسرا باغ اب اجڑ چکا ہے۔ یہ دو نوں باغ 18 ویں صدی میں برصغیر پاک و ہند میں بیک وقت قائم کئے گئے جن میں سے ایک باغ اس وقت بھی شہر کراچی میں برنس گارڈن کے نام سے موجود ہے۔
یہ صرف ہم ہی نہیں، بلکہ تا ریخ لکھنے والے مو رخین بھی کہتے ہیں کہ اس وقت پورے ایشیائی خطے میں 10 بوٹنیکل یعنی نباتات گارڈن موجود ہیں جن میں سے بیشتر سرسبز و شاداب ہیں اور یہاں نہ صرف بوٹنی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طا لبات نباتات کا مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ یہ باغات سیر و تفریح کا مرکز بنے ہوئے ہیں جہاں 25 سے 50 ہزار اقسام کے مختلف درخت، پودے، بیلیں اور کیکٹس موجود ہیں جہاں ہر صبح رنگ برنگے نت نئے پھول کھل کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہوتے ہیں اور ان باغات میں صبح کے اوقات میں داخل ہونے والے لوگ بالخصوص طلبہ و طالبات ان درختوں اور پودوں، پھلوں اور پھولوں کے سحر میں کچھ اس طرح گرفتار ہو جاتے ہیں کہ انہیں شام ڈھلنے کا بھی پتا نہیں چلتا۔
اس سلسلے میں برصغیر پاک و ہند میں نباتات گارڈن کا تعلق ہے تو بر طا نوی حکومت نے 1786 میں نباتات گارڈن کے طور پر سب سے پہلے بھارت کے شہر کلکتہ کے قریب رائل بوٹنیکل گارڈن کے نام پر ایک وسیع و عریض رقبے پر نباتات کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے لیے ایک باغ لگایا جہاں دنیا بھر سے مختلف اقسام کے پودے اور درخت منگوا کر اس باغ کی زینت بنایا۔ یہ نباتات گارڈن کلکتہ کے قریب آچاریہ جگدیش چندرا بوٹنیکل گارڈن کے نام آج بھی موجود ہے جہاں تفریح کرنے والے لوگوں اور نباتات کی تعلیم حا صل کر نے والے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر جاکر قدرت کے حسین و جمیل شاہکار کا مشا ہدہ کرتی نظر آتی ہے۔
اسی طرح 1729 میں بننے والے اس شہر جسے ماضی میں کبھی کولاچی، کبھی کلاچی اور کبھی کراچے/ کراچو کے نام سے جانا اور مانا جاتا رہا ہے، کو اس بات کا اعزاز حاصل رہا ہے کہ ماضی میں اس شہر کے اندر کئی باغات لگائے گئے جن میں سرفہرست کل کا گاندھی گارڈن اور آج کا کراچی چڑیا گھر ہے جہاں ابتدا میں نت نئے اقسام کے پھلوں کے درخت اور پھولوں کے پودے و بیلیں لگائی گئیں جہاں تمام اقسام کے پھلوں کے درخت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جبکہ اسی باغ میں سبزیاں بھی اگائی گئی تھیں جنہیں با قاعدہ طور پر برآمد بھی کیا جاتا تھا۔
جب انگریزوں نے 1839 میں شہر پر مکمل طور پر قبضہ جمالیا تو نہ صرف 43 ایکڑ پر انگریز فوجیوں کےلیے اسی علاقے میں، یعنی کے گارڈن میں بیرکس بنائے گئے اور یہاں رہنے والے فوجیوں کو پانی کی فراہمی کےلیے اسی باغ کے اندر 15 کنویں کھودے گئے جن سے انہیں پانی مہیا کیا جاتا تھا۔ جبکہ باغ میں اگائی گئی سبزیاں اور پھل بھی ان فوجیوں کو دیے جانے کے ساتھ بیرون ملک بھی برآمد کیا جاتا تھا۔ اور کیونکہ ان باغات اور کھیتوں میں انگریز فوجیوں کی اکثریت شام کو تفریح کی غرض سے یہاں کا رخ کرتی، لہذا انہوں نے یہاں مختلف اقسام کے جانور اور پرندے بھی پالنا شروع کر دیے۔
مورخین کہتے ہیں کہ 1884 تک یہاں 93 مختلف اقسام کے جانور اور 465 پرندے جمع ہوگئے جس کے بعد اسے وکٹوریہ گارڈن کا نام دے دیا گیا۔ اور جب 1934 میں مہاتما گاندھی نے یہاں کا دورہ کیا تو اسے گاندھی گارڈن کے نام سے پکارا جانے لگا؛ اور قیام پاکستان کے بعد اب اسے چڑیا گھر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب جہاں تک نباتات گارڈن کا تعلق ہے تو ملک کے کسی بھی صوبے، کسی بھی شہر کو کبھی اس بات کا اعزاز حا صل نہیں رہا کہ ان کے پاس کوئی بوٹنیکل گارڈن موجود ہو۔ مگر اس سلسلے میں شہر کراچی کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ برنس روڈ کے علاقے جہاں آج قومی عجائب گھر قائم ہے، میں ابتدائی طور پر کمشنر کراچی لیوڈ، جنہوں نے سکھر بیراج بنانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
ابتداء میں 25 ایکڑ کے رقبے پر ایک پارک قائم کیا اور اس پارک کا انتظام کراچی جیل کے سپرد کر دیا۔ جیل کے قیدیوں نے یہاں آم، چیکو، انگور، امرود، ناریل، کھجور و دیگر پھلوں کے درخت اور بیلیں لگا کر اسے ایک مکمل باغ کی شکل دی۔ اور ایک وقت وہ بھی ہوا کرتا تھا جب یہاں اتنے انگور، امرود، چیکو، آم، ناریل، کھجور اور دوسرے پھل پیدا ہوتے تھے کہ انہیں بیرون ملک برآمد کیا جاتا تھا۔
پھر اس باغ کو ایک ماہر نباتات مسٹر برنس جو اعلیٰ افسر بھی تھا، کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے اسے ایک نباتاتی باغ میں تبدیل کر دیا۔ یہاں نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک میں باٹنی پڑھنے والے طلبہ و طالبات بوٹنی سے متعلق تجربات کےلیے یہاں آیا کرتے تھے۔ مگر آج ہمارا یہ گارڈن اجڑ چکا ہے اور یہاں محض چند قدیم درخت ماضی کو یاد دلاتے ہیں۔ گوکہ اب بھی یہ باغ موجود ہے، مگر گزرتے وقتوں کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ تباہ حالی کے مناظر پیش کر رہا ہے۔ ماضی میں اس باغ کے دو حصے تھے جن میں سے ایک حصہ جسے پردہ پارک کہا جاتا تھا، اسے ایک مخیر پارسی چیتومل سوبھراج نے تعمیر کر وایا تھا جو صرف خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ جبکہ دوسرے حصے میں سیر و تفریح کرنے والے اپنے خاندانوں اور طلبہ و طالبات نباتات کے مشاہدے کےلیے آیا کرتے تھے؛ مگر اب باغ کے دونوں حصے اجڑے چمن کے مناظر پیش کر رہے ہیں جہاں محض چند افراد ہی روزانہ کی بنیاد پر تفریح کےلیے آتے ہیں۔
سونے پر سہاگے کے طور پر برنس گارڈن کے اطراف میں ایس ایم لاء کالج، سپریم کورٹ آف پاکستان کی رجسٹری آ فس، آرٹس کونسل فیضی رحمین گیلری کے ساتھ ساتھ جس جگہ پر باغ کے اندر جہاں قومی عجائب گھر کراچی بنایا گیا ہے، وہاں عجائب گھر کے سا تھ کئی دفاتر، ورکشاپ، سندھی ویلج کیفے سندھ قائم کیے گئے جس کے پیش نظر برنس گارڈن جس کا شمار ماضی کے خوبصورت ترین باغوں میں ہوا کرتا تھا، اب باغ کے بجائے تجاوزات کا ڈھیر بن چکا ہے۔
اس حوالے سے بلدیہ عظمیٰ کراچی جس نے سپریم کورٹ میں باغ کی ملکیت کے حوالے سے حکومت سندھ پر مقدمہ دائر کر رکھا تھا، عدالت نے اس کا فیصلہ سناتے ہوئے فوری طور پر نہ صرف اس باغ، بلکہ شہر کراچی میں قائم تمام پارکوں اور باغات میں تجاوزات کے خاتمے کا حکم جاری کردیا جس کے بعد تمام باغات اور پارکوں سے تجاوزات کے خاتمے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر برنس گارڈن میں بنے 25 کوارٹرز، سندھی ویلج، کیفے سندھ اور دفاتر کو خالی کرنے کے نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔ جس کے تحت امکان غالب ہے کہ بلدیہ عظمیٰ اس باغ میں بنائے گئے عجائب گھر سمیت تمام تجاوزات کو مسمار کیے جانے کے بعد ایک بار پھر یہاں باغ لگائے گی جہاں عوام کو سیر و تفریح کی نئی سہولت میسر ہو سکے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
قرآن مجید میں اس تذکرے کے بعد انسان نے بھی دنیا میں بھی حسین و جمیل باغات لگائے جو اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اگر باغات کے حوالے سے ہمارے ملک کو دیکھا جائے تو ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں، کیونکہ ملک میں شا لیمار گارڈن اور کلرکہار باغ جیسے شاندار باغات موجود ہیں جنہیں آج بھی عالمی سطح پر جانا اور مانا جاتا ہے
شالیمار گارڈن کو دیکھا جائے تو وہ آج بھی نہ صرف سر سبز و شاداب ہے بلکہ اسے عالمی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ پورے برصغیر میں باغات تو بے شمار ہیں مگر نباتات گارڈن کے نام پر صرف دو باغ لگائے گئے تھے جن میں سے ایک اس وقت بھی کلکتہ میں موجود ہے، جبکہ شہر کراچی میں برنس گارڈن کے نام سے لگایا جانے والا دوسرا باغ اب اجڑ چکا ہے۔ یہ دو نوں باغ 18 ویں صدی میں برصغیر پاک و ہند میں بیک وقت قائم کئے گئے جن میں سے ایک باغ اس وقت بھی شہر کراچی میں برنس گارڈن کے نام سے موجود ہے۔
یہ صرف ہم ہی نہیں، بلکہ تا ریخ لکھنے والے مو رخین بھی کہتے ہیں کہ اس وقت پورے ایشیائی خطے میں 10 بوٹنیکل یعنی نباتات گارڈن موجود ہیں جن میں سے بیشتر سرسبز و شاداب ہیں اور یہاں نہ صرف بوٹنی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طا لبات نباتات کا مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ یہ باغات سیر و تفریح کا مرکز بنے ہوئے ہیں جہاں 25 سے 50 ہزار اقسام کے مختلف درخت، پودے، بیلیں اور کیکٹس موجود ہیں جہاں ہر صبح رنگ برنگے نت نئے پھول کھل کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہوتے ہیں اور ان باغات میں صبح کے اوقات میں داخل ہونے والے لوگ بالخصوص طلبہ و طالبات ان درختوں اور پودوں، پھلوں اور پھولوں کے سحر میں کچھ اس طرح گرفتار ہو جاتے ہیں کہ انہیں شام ڈھلنے کا بھی پتا نہیں چلتا۔
اس سلسلے میں برصغیر پاک و ہند میں نباتات گارڈن کا تعلق ہے تو بر طا نوی حکومت نے 1786 میں نباتات گارڈن کے طور پر سب سے پہلے بھارت کے شہر کلکتہ کے قریب رائل بوٹنیکل گارڈن کے نام پر ایک وسیع و عریض رقبے پر نباتات کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے لیے ایک باغ لگایا جہاں دنیا بھر سے مختلف اقسام کے پودے اور درخت منگوا کر اس باغ کی زینت بنایا۔ یہ نباتات گارڈن کلکتہ کے قریب آچاریہ جگدیش چندرا بوٹنیکل گارڈن کے نام آج بھی موجود ہے جہاں تفریح کرنے والے لوگوں اور نباتات کی تعلیم حا صل کر نے والے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر جاکر قدرت کے حسین و جمیل شاہکار کا مشا ہدہ کرتی نظر آتی ہے۔
اسی طرح 1729 میں بننے والے اس شہر جسے ماضی میں کبھی کولاچی، کبھی کلاچی اور کبھی کراچے/ کراچو کے نام سے جانا اور مانا جاتا رہا ہے، کو اس بات کا اعزاز حاصل رہا ہے کہ ماضی میں اس شہر کے اندر کئی باغات لگائے گئے جن میں سرفہرست کل کا گاندھی گارڈن اور آج کا کراچی چڑیا گھر ہے جہاں ابتدا میں نت نئے اقسام کے پھلوں کے درخت اور پھولوں کے پودے و بیلیں لگائی گئیں جہاں تمام اقسام کے پھلوں کے درخت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جبکہ اسی باغ میں سبزیاں بھی اگائی گئی تھیں جنہیں با قاعدہ طور پر برآمد بھی کیا جاتا تھا۔
جب انگریزوں نے 1839 میں شہر پر مکمل طور پر قبضہ جمالیا تو نہ صرف 43 ایکڑ پر انگریز فوجیوں کےلیے اسی علاقے میں، یعنی کے گارڈن میں بیرکس بنائے گئے اور یہاں رہنے والے فوجیوں کو پانی کی فراہمی کےلیے اسی باغ کے اندر 15 کنویں کھودے گئے جن سے انہیں پانی مہیا کیا جاتا تھا۔ جبکہ باغ میں اگائی گئی سبزیاں اور پھل بھی ان فوجیوں کو دیے جانے کے ساتھ بیرون ملک بھی برآمد کیا جاتا تھا۔ اور کیونکہ ان باغات اور کھیتوں میں انگریز فوجیوں کی اکثریت شام کو تفریح کی غرض سے یہاں کا رخ کرتی، لہذا انہوں نے یہاں مختلف اقسام کے جانور اور پرندے بھی پالنا شروع کر دیے۔
مورخین کہتے ہیں کہ 1884 تک یہاں 93 مختلف اقسام کے جانور اور 465 پرندے جمع ہوگئے جس کے بعد اسے وکٹوریہ گارڈن کا نام دے دیا گیا۔ اور جب 1934 میں مہاتما گاندھی نے یہاں کا دورہ کیا تو اسے گاندھی گارڈن کے نام سے پکارا جانے لگا؛ اور قیام پاکستان کے بعد اب اسے چڑیا گھر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب جہاں تک نباتات گارڈن کا تعلق ہے تو ملک کے کسی بھی صوبے، کسی بھی شہر کو کبھی اس بات کا اعزاز حا صل نہیں رہا کہ ان کے پاس کوئی بوٹنیکل گارڈن موجود ہو۔ مگر اس سلسلے میں شہر کراچی کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ برنس روڈ کے علاقے جہاں آج قومی عجائب گھر قائم ہے، میں ابتدائی طور پر کمشنر کراچی لیوڈ، جنہوں نے سکھر بیراج بنانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
ابتداء میں 25 ایکڑ کے رقبے پر ایک پارک قائم کیا اور اس پارک کا انتظام کراچی جیل کے سپرد کر دیا۔ جیل کے قیدیوں نے یہاں آم، چیکو، انگور، امرود، ناریل، کھجور و دیگر پھلوں کے درخت اور بیلیں لگا کر اسے ایک مکمل باغ کی شکل دی۔ اور ایک وقت وہ بھی ہوا کرتا تھا جب یہاں اتنے انگور، امرود، چیکو، آم، ناریل، کھجور اور دوسرے پھل پیدا ہوتے تھے کہ انہیں بیرون ملک برآمد کیا جاتا تھا۔
پھر اس باغ کو ایک ماہر نباتات مسٹر برنس جو اعلیٰ افسر بھی تھا، کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے اسے ایک نباتاتی باغ میں تبدیل کر دیا۔ یہاں نویں جماعت سے بارہویں جماعت تک میں باٹنی پڑھنے والے طلبہ و طالبات بوٹنی سے متعلق تجربات کےلیے یہاں آیا کرتے تھے۔ مگر آج ہمارا یہ گارڈن اجڑ چکا ہے اور یہاں محض چند قدیم درخت ماضی کو یاد دلاتے ہیں۔ گوکہ اب بھی یہ باغ موجود ہے، مگر گزرتے وقتوں کے ساتھ ساتھ دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ تباہ حالی کے مناظر پیش کر رہا ہے۔ ماضی میں اس باغ کے دو حصے تھے جن میں سے ایک حصہ جسے پردہ پارک کہا جاتا تھا، اسے ایک مخیر پارسی چیتومل سوبھراج نے تعمیر کر وایا تھا جو صرف خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ جبکہ دوسرے حصے میں سیر و تفریح کرنے والے اپنے خاندانوں اور طلبہ و طالبات نباتات کے مشاہدے کےلیے آیا کرتے تھے؛ مگر اب باغ کے دونوں حصے اجڑے چمن کے مناظر پیش کر رہے ہیں جہاں محض چند افراد ہی روزانہ کی بنیاد پر تفریح کےلیے آتے ہیں۔
سونے پر سہاگے کے طور پر برنس گارڈن کے اطراف میں ایس ایم لاء کالج، سپریم کورٹ آف پاکستان کی رجسٹری آ فس، آرٹس کونسل فیضی رحمین گیلری کے ساتھ ساتھ جس جگہ پر باغ کے اندر جہاں قومی عجائب گھر کراچی بنایا گیا ہے، وہاں عجائب گھر کے سا تھ کئی دفاتر، ورکشاپ، سندھی ویلج کیفے سندھ قائم کیے گئے جس کے پیش نظر برنس گارڈن جس کا شمار ماضی کے خوبصورت ترین باغوں میں ہوا کرتا تھا، اب باغ کے بجائے تجاوزات کا ڈھیر بن چکا ہے۔
اس حوالے سے بلدیہ عظمیٰ کراچی جس نے سپریم کورٹ میں باغ کی ملکیت کے حوالے سے حکومت سندھ پر مقدمہ دائر کر رکھا تھا، عدالت نے اس کا فیصلہ سناتے ہوئے فوری طور پر نہ صرف اس باغ، بلکہ شہر کراچی میں قائم تمام پارکوں اور باغات میں تجاوزات کے خاتمے کا حکم جاری کردیا جس کے بعد تمام باغات اور پارکوں سے تجاوزات کے خاتمے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اور اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر برنس گارڈن میں بنے 25 کوارٹرز، سندھی ویلج، کیفے سندھ اور دفاتر کو خالی کرنے کے نوٹسز جاری کر دیے گئے ہیں۔ جس کے تحت امکان غالب ہے کہ بلدیہ عظمیٰ اس باغ میں بنائے گئے عجائب گھر سمیت تمام تجاوزات کو مسمار کیے جانے کے بعد ایک بار پھر یہاں باغ لگائے گی جہاں عوام کو سیر و تفریح کی نئی سہولت میسر ہو سکے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔