ہم سے ایسا کیا گناہ ہو گیا
کسی یورپی ائیرپورٹ یا نیویارک کے جے ایف کے پر اترتا ہے تو سب ٹھاٹ پڑا رھ جاتا ہے
NEW YORK:
نواز شریف دیوانہ وار حامیوں کے جلو میں ووٹ دینے پولنگ اسٹیشن تک پہنچے مگر شناختی کارڈ ساتھ لے جانا بھول گئے لہذا ووٹ ڈالے بغیر واپس چلے آئے۔ہو سکتا ہے میرے آپ کے لیے یہ اچنبھے کی خبر ہو لیکن ہمارے جیسے ممالک و معاشرے جہاں چہرہ ، پہچان اور دبدبہ ہی شناخت ہو وہاں اشرافیہ جس ذہنی و آسائشی دنیا کی عادی ہوتی ہے یا عادی بنا دی جاتی ہے اس میں شناختی کارڈ کا جیب میں نہ ہونا یا بٹوہ کسی پرسنل سیکریٹری کی تحویل میں ہونا قطعاً حیرت ناک نہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیرِ اعظم یا سابق وزیرِ اعظم چھوڑ کوئی جوائنٹ سیکریٹری یا ون اسٹار جنرل یا سردار صاحب اپنا موبائل فون خود اٹھا کے گھومے۔رتبے و احترام کا تقاضا ہے کہ بریف کیس، موبائل فون اور شناحتی دستاویزات ساتھ ساتھ دوڑنے والے کسی مغبچے کے پاس ہونی چاہئیں۔
میں نے اچ شریف میں ایک بہت ہی محترم و دبدبے دار سجادہ نشین کے اوطاق میں دیکھا کہ قبلہ سگریٹ پی رہے ہیں اور ایک خادم اپنے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کے مجسمے کی طرح ساکت قبلہ کے بازو میں جھکا ہوا کھڑا ہے۔قبلہ اس پیالے کی جانب دیکھے بغیر مجھ سے باتیں کرتے ہوئے اس دستی پیالے میں سگریٹ کا گل جھاڑتے رہے۔جب سگریٹ فلٹر تک جل گئی تو اس انسانی ایش ٹرے نے قبلہ کے ہاتھ سے وہ سگریٹ لے کر ایک اور خادم کو تھما دی جس نے اسے باہر لے جا کر مسل دیا۔
میرا آپ کا ائیرپورٹ پر چیک ان کی لائن میں لگنا ایک روزمرہ ہے۔لیکن جب وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نیویارک جانے کے لیے اسلام آباد ائیرپورٹ پر امیگریشن لائن میں کھڑے ہوئے تو یہ بریکنگ نیوز اور سوشل میڈیا کی وڈیو سنسیشن تھی۔ڈچ وزیرِ اعظم کا سائیکل پر دفتر آنا جانا یا برطانوی وزیرِ داخلہ کا لندن کی ڈبل ڈیکر میں سفر کرنا یا ٹونی بلئیر کی اہلیہ شیری کا وزیرِ اعظم کی بیوی ہونے کے باوجود ٹیوب سے آنا جانا کوئی خبر نہیں۔مگر ضیا الحق کا تین دن ایک ہی کمپلیکس میں موجود اپنے گھر سے ذرا فاصلے پر واقع دفتر تک محافظوں کی حلقہ زنجیر کے بیچ سائیکل چلا کر جانا عظیم مسلمان حکمرانوں کی یاد تازہ کرنے جیسا قرار دیا گیا۔
میرا آپ کا کوئی دوست محکمہ داخلہ کی بلیک لسٹ میں ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اس لسٹ سے نام حذف کرائے بغیر پاکستان کے کسی بھی ایرپورٹ سے بیرونِ ملک جانے والی پرواز پر سوار ہو سکے۔لیکن عمران خان وزیرِ اعظم بننے سے پہلے ہی زلفی بخاری کے بغیر عمرے پر جانے سے انکار کر دیں تو اجازت نامہ سر کے بل چل کے ذرا دیر میں ہی وزارتِ داخلہ سے چکلالہ بیس پہنچ جاتا ہے۔
مجھے اور آپ کو کوئی بھی فلائٹ پکڑنے سے پہلے ڈیپارچر لاؤنج کے دروازے پر کھڑے سپاہی کو شناختی کارڈ، ٹکٹ اور پاسپورٹ دکھانا، ایکسرے مشین میں سے سامان گذارنا اور خود بھی اسکینر سے گذرنا اور پھر بورڈنگ کاؤنٹر پر دوبارہ اپنا اوریجنل شناختی کارڈ، ٹکٹ اور پاسپورٹ دکھانا لازمی ہے۔مگر کوئی گریڈ بیس سے اوپر کا سول و فوجی و عدالتی افسر، وزیر، مشیر حتی کہ اپوزیشن کا کوئی سرکردہ سیاستداں یا ان سب میں سے کسی کا بھی کوئی جاننے والا جب اندرونِ و بیرونِ ملک سفر کرتا ہے تو اسے قطعاً بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کون ہے۔
صاحب کا بورڈنگ کارڈ صاحب کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی جاری و طاری ہو جاتا ہے۔انسانی قالین صاحب کے آگے پیچھے کھلتا چلا جاتا ہے۔ائیرپورٹ کا پروٹوکول عملہ صاحب کا سامان سنبھالتا ہے، صاحب الیکٹرونک گیٹس سے گذارے اور جامہ تلاشی دلائے بغیر مکھن میں سے بال جیسا گذارتا ہے اور سیدھا طیارے میں نشست پر بٹھا کے آتا ہے۔اس کا بس نہیں چلتا کہ اپنی نوکری محفوظ اور صاحب کا ماتھا شکن فری بنانے کے لیے صاحب کے طیارے کی دم سے لٹک جائے۔
یہ پروٹوکول ہر قسم کے صاحب کا پیدائشی حق ہے۔اس میں سے ایک ادب بھی کم ہو تو صاحب کا موڈ خراب ہو سکتا ہے اور موڈ خراب ہونے کا مطلب تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے۔ کھل جا سم سم کا یہ نظارہ پاکسان کے کسی بھی ائیرپورٹ پر کسی بھی دن باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔اگر یہ سب نہ ہو تو لائن میں لگی بچوں کو سنبھالتی عورتوں ، چھڑی کی ٹیک لگا کے کھڑے بوڑھوں، دنیا بدل دینے کے خواب دیکھنے والے اٹھارہ بیس برس کے بیک پیکر لڑکے لڑکیوں اور حیرت سے یہ نظارہ دیکھنے والے غیر ملکیوں کو زمینی اور آسمانی مخلوق اور زلت و عزت میں بنیادی فرق کا کیسے پتہ چلے۔
اورجب یہی صاحب کسی یورپی ائیرپورٹ یا نیویارک کے جے ایف کے پر اترتا ہے تو سب ٹھاٹ پڑا رھ جاتا ہے، جوتے تک اتار کر ٹرے میں رکھ کے مشین سے گذرانے کا عمل بھی اصولی اور اچھا لگتا ہے اور صاحب اپنے ماتحتوں کے درمیان اپنی جھینپ مٹانے کے لیے اسے مہذب دنیا میں قانون کی حکمرانی قرار دیتے ہوئے پوچھ لیتے ہیں کہ پاکستان میں ایسا کلچر کب پیدا ہو گا ؟
کیا آپ نے کسی صفِ اول یا دوم کے سیاستداں، افسر اور فکسر کو کسی ٹول پلازہ پر ٹیکس دینے کے لیے رکتے دیکھا؟یا کسی ٹول پلازہ کے ٹیکس کیبن میں بیٹھے کسی سر پھرے آپریٹر کو کسی طاقتور سے بحث کرتے دیکھا کہ سر آپ جو بھی ہیں آپ کو ٹول ٹیکس تو دینا ہی پڑے گا ورنہ بیرئیر نہیں اٹھے گا۔اس ضد کے بعد کیا اس پاگل اہل کار کو گزشتہ روز کسی نے اسی کیبن میں بیٹھے دیکھا ؟
حکمرانی رتبے کا نہیں ایک خاص ذہن اور ایک مخصوص ماحول میں پرورش پانے کا نام ہے۔مجھ جیسے کنگلے، پستذہن مڈل کلاسی مبصروں کو اشرافیہ بھلے کسی اور سیارے کی مخلوق لگے مگر اشرافیہ کے لیے زمین پر بستے ہوئے چاند پر رہنا معمولی روزمرہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
جب نومبر اٹھارہ سو ستاون میں لکھنؤ کا سقوط ہو گیا تو فاتح میجر جنرل آوٹ رم جانِ عالم پئیا واجد علی شاہ کو حراست میں لینے کے لیے کوٹھی پر پہنچا اور نہائت ادب سے عرض کیا کہ حضور بگھی صدر دروازے سے لگ گئی ہے۔تشریف لائیے۔واجد علی شاہ اپنی منقش کرسی سے ننگے پاؤں اٹھے۔ پیچھے پیچھے رو رو کے آنکھیں سرخ کرنے والے درباری چل رہے تھے۔قالین کے سرے پر آ کر جانِ عالم رک گئے جیسے کسی کا انتظار کر رہے ہوں۔اجڈ انگریز جنرل کو حالات کی نزاکت سمجھ میں نہ آئی اور پوچھا حضور رک کیوں گئے ؟ واجد علی شاہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اچانک ایک سمت سے پاپوش بردار دوڑا دوڑا آیا اور مخملیں سلیپر فرش پر رکھے۔پہلے جانِ عالم کا دایاں اور پھر بایاں پاؤں سلیپر میں ڈالا تب جا کے جانِ عالم آگے بڑھے اور صدر دروازے پر کھڑی بگھی میں سوار ہو گئے۔مبہوت جنرل آؤٹ رم یہ سب دیکھ کر اپنی ٹانٹ ہی کھجاتا رھ گیا۔
شاہی ایران میں آخری امریکی سفیر ولیم سلیوان کی ڈائری کے مطابق مستقل جلاوطنی سے ایک ہفتے قبل آریا مہر رضا شاہ پہلوی نے وزیرِ دربار کو حکم دیا کہ ہمیں تہران کے حالات کا بنفسِ نفیس جائزہ لینا ہے۔ ہزایگزالٹڈ ہائی نیس نے خصوصی سفید ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر تہران پر نیچی پرواز کی اور شہر کا حال ملاخطہ کیا۔شاہراہیںاحتجاجیوں سے بھری تھیں اور کئی مقامات سے دھواں اٹھ رہا تھا۔شاہ نے وزیرِ دربار سے پوچھا انھیں کس نے بہکایا ہے ؟ ہم سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا کہ جگہ جگہ بدامنی کی نشانیاں نظر آ رہی ہیں ؟ ہمارے ایران کو کس کی نظر لگ گئی ؟ وزیرِ دربار نے سر جھکا لیا تاکہ شاہ آنکھوں میں تیرتے آنسو نہ دیکھ سکے۔
نواز شریف دیوانہ وار حامیوں کے جلو میں ووٹ دینے پولنگ اسٹیشن تک پہنچے مگر شناختی کارڈ ساتھ لے جانا بھول گئے لہذا ووٹ ڈالے بغیر واپس چلے آئے۔ہو سکتا ہے میرے آپ کے لیے یہ اچنبھے کی خبر ہو لیکن ہمارے جیسے ممالک و معاشرے جہاں چہرہ ، پہچان اور دبدبہ ہی شناخت ہو وہاں اشرافیہ جس ذہنی و آسائشی دنیا کی عادی ہوتی ہے یا عادی بنا دی جاتی ہے اس میں شناختی کارڈ کا جیب میں نہ ہونا یا بٹوہ کسی پرسنل سیکریٹری کی تحویل میں ہونا قطعاً حیرت ناک نہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیرِ اعظم یا سابق وزیرِ اعظم چھوڑ کوئی جوائنٹ سیکریٹری یا ون اسٹار جنرل یا سردار صاحب اپنا موبائل فون خود اٹھا کے گھومے۔رتبے و احترام کا تقاضا ہے کہ بریف کیس، موبائل فون اور شناحتی دستاویزات ساتھ ساتھ دوڑنے والے کسی مغبچے کے پاس ہونی چاہئیں۔
میں نے اچ شریف میں ایک بہت ہی محترم و دبدبے دار سجادہ نشین کے اوطاق میں دیکھا کہ قبلہ سگریٹ پی رہے ہیں اور ایک خادم اپنے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کے مجسمے کی طرح ساکت قبلہ کے بازو میں جھکا ہوا کھڑا ہے۔قبلہ اس پیالے کی جانب دیکھے بغیر مجھ سے باتیں کرتے ہوئے اس دستی پیالے میں سگریٹ کا گل جھاڑتے رہے۔جب سگریٹ فلٹر تک جل گئی تو اس انسانی ایش ٹرے نے قبلہ کے ہاتھ سے وہ سگریٹ لے کر ایک اور خادم کو تھما دی جس نے اسے باہر لے جا کر مسل دیا۔
میرا آپ کا ائیرپورٹ پر چیک ان کی لائن میں لگنا ایک روزمرہ ہے۔لیکن جب وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نیویارک جانے کے لیے اسلام آباد ائیرپورٹ پر امیگریشن لائن میں کھڑے ہوئے تو یہ بریکنگ نیوز اور سوشل میڈیا کی وڈیو سنسیشن تھی۔ڈچ وزیرِ اعظم کا سائیکل پر دفتر آنا جانا یا برطانوی وزیرِ داخلہ کا لندن کی ڈبل ڈیکر میں سفر کرنا یا ٹونی بلئیر کی اہلیہ شیری کا وزیرِ اعظم کی بیوی ہونے کے باوجود ٹیوب سے آنا جانا کوئی خبر نہیں۔مگر ضیا الحق کا تین دن ایک ہی کمپلیکس میں موجود اپنے گھر سے ذرا فاصلے پر واقع دفتر تک محافظوں کی حلقہ زنجیر کے بیچ سائیکل چلا کر جانا عظیم مسلمان حکمرانوں کی یاد تازہ کرنے جیسا قرار دیا گیا۔
میرا آپ کا کوئی دوست محکمہ داخلہ کی بلیک لسٹ میں ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اس لسٹ سے نام حذف کرائے بغیر پاکستان کے کسی بھی ایرپورٹ سے بیرونِ ملک جانے والی پرواز پر سوار ہو سکے۔لیکن عمران خان وزیرِ اعظم بننے سے پہلے ہی زلفی بخاری کے بغیر عمرے پر جانے سے انکار کر دیں تو اجازت نامہ سر کے بل چل کے ذرا دیر میں ہی وزارتِ داخلہ سے چکلالہ بیس پہنچ جاتا ہے۔
مجھے اور آپ کو کوئی بھی فلائٹ پکڑنے سے پہلے ڈیپارچر لاؤنج کے دروازے پر کھڑے سپاہی کو شناختی کارڈ، ٹکٹ اور پاسپورٹ دکھانا، ایکسرے مشین میں سے سامان گذارنا اور خود بھی اسکینر سے گذرنا اور پھر بورڈنگ کاؤنٹر پر دوبارہ اپنا اوریجنل شناختی کارڈ، ٹکٹ اور پاسپورٹ دکھانا لازمی ہے۔مگر کوئی گریڈ بیس سے اوپر کا سول و فوجی و عدالتی افسر، وزیر، مشیر حتی کہ اپوزیشن کا کوئی سرکردہ سیاستداں یا ان سب میں سے کسی کا بھی کوئی جاننے والا جب اندرونِ و بیرونِ ملک سفر کرتا ہے تو اسے قطعاً بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کون ہے۔
صاحب کا بورڈنگ کارڈ صاحب کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی جاری و طاری ہو جاتا ہے۔انسانی قالین صاحب کے آگے پیچھے کھلتا چلا جاتا ہے۔ائیرپورٹ کا پروٹوکول عملہ صاحب کا سامان سنبھالتا ہے، صاحب الیکٹرونک گیٹس سے گذارے اور جامہ تلاشی دلائے بغیر مکھن میں سے بال جیسا گذارتا ہے اور سیدھا طیارے میں نشست پر بٹھا کے آتا ہے۔اس کا بس نہیں چلتا کہ اپنی نوکری محفوظ اور صاحب کا ماتھا شکن فری بنانے کے لیے صاحب کے طیارے کی دم سے لٹک جائے۔
یہ پروٹوکول ہر قسم کے صاحب کا پیدائشی حق ہے۔اس میں سے ایک ادب بھی کم ہو تو صاحب کا موڈ خراب ہو سکتا ہے اور موڈ خراب ہونے کا مطلب تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے۔ کھل جا سم سم کا یہ نظارہ پاکسان کے کسی بھی ائیرپورٹ پر کسی بھی دن باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔اگر یہ سب نہ ہو تو لائن میں لگی بچوں کو سنبھالتی عورتوں ، چھڑی کی ٹیک لگا کے کھڑے بوڑھوں، دنیا بدل دینے کے خواب دیکھنے والے اٹھارہ بیس برس کے بیک پیکر لڑکے لڑکیوں اور حیرت سے یہ نظارہ دیکھنے والے غیر ملکیوں کو زمینی اور آسمانی مخلوق اور زلت و عزت میں بنیادی فرق کا کیسے پتہ چلے۔
اورجب یہی صاحب کسی یورپی ائیرپورٹ یا نیویارک کے جے ایف کے پر اترتا ہے تو سب ٹھاٹ پڑا رھ جاتا ہے، جوتے تک اتار کر ٹرے میں رکھ کے مشین سے گذرانے کا عمل بھی اصولی اور اچھا لگتا ہے اور صاحب اپنے ماتحتوں کے درمیان اپنی جھینپ مٹانے کے لیے اسے مہذب دنیا میں قانون کی حکمرانی قرار دیتے ہوئے پوچھ لیتے ہیں کہ پاکستان میں ایسا کلچر کب پیدا ہو گا ؟
کیا آپ نے کسی صفِ اول یا دوم کے سیاستداں، افسر اور فکسر کو کسی ٹول پلازہ پر ٹیکس دینے کے لیے رکتے دیکھا؟یا کسی ٹول پلازہ کے ٹیکس کیبن میں بیٹھے کسی سر پھرے آپریٹر کو کسی طاقتور سے بحث کرتے دیکھا کہ سر آپ جو بھی ہیں آپ کو ٹول ٹیکس تو دینا ہی پڑے گا ورنہ بیرئیر نہیں اٹھے گا۔اس ضد کے بعد کیا اس پاگل اہل کار کو گزشتہ روز کسی نے اسی کیبن میں بیٹھے دیکھا ؟
حکمرانی رتبے کا نہیں ایک خاص ذہن اور ایک مخصوص ماحول میں پرورش پانے کا نام ہے۔مجھ جیسے کنگلے، پستذہن مڈل کلاسی مبصروں کو اشرافیہ بھلے کسی اور سیارے کی مخلوق لگے مگر اشرافیہ کے لیے زمین پر بستے ہوئے چاند پر رہنا معمولی روزمرہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
جب نومبر اٹھارہ سو ستاون میں لکھنؤ کا سقوط ہو گیا تو فاتح میجر جنرل آوٹ رم جانِ عالم پئیا واجد علی شاہ کو حراست میں لینے کے لیے کوٹھی پر پہنچا اور نہائت ادب سے عرض کیا کہ حضور بگھی صدر دروازے سے لگ گئی ہے۔تشریف لائیے۔واجد علی شاہ اپنی منقش کرسی سے ننگے پاؤں اٹھے۔ پیچھے پیچھے رو رو کے آنکھیں سرخ کرنے والے درباری چل رہے تھے۔قالین کے سرے پر آ کر جانِ عالم رک گئے جیسے کسی کا انتظار کر رہے ہوں۔اجڈ انگریز جنرل کو حالات کی نزاکت سمجھ میں نہ آئی اور پوچھا حضور رک کیوں گئے ؟ واجد علی شاہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اچانک ایک سمت سے پاپوش بردار دوڑا دوڑا آیا اور مخملیں سلیپر فرش پر رکھے۔پہلے جانِ عالم کا دایاں اور پھر بایاں پاؤں سلیپر میں ڈالا تب جا کے جانِ عالم آگے بڑھے اور صدر دروازے پر کھڑی بگھی میں سوار ہو گئے۔مبہوت جنرل آؤٹ رم یہ سب دیکھ کر اپنی ٹانٹ ہی کھجاتا رھ گیا۔
شاہی ایران میں آخری امریکی سفیر ولیم سلیوان کی ڈائری کے مطابق مستقل جلاوطنی سے ایک ہفتے قبل آریا مہر رضا شاہ پہلوی نے وزیرِ دربار کو حکم دیا کہ ہمیں تہران کے حالات کا بنفسِ نفیس جائزہ لینا ہے۔ ہزایگزالٹڈ ہائی نیس نے خصوصی سفید ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر تہران پر نیچی پرواز کی اور شہر کا حال ملاخطہ کیا۔شاہراہیںاحتجاجیوں سے بھری تھیں اور کئی مقامات سے دھواں اٹھ رہا تھا۔شاہ نے وزیرِ دربار سے پوچھا انھیں کس نے بہکایا ہے ؟ ہم سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا کہ جگہ جگہ بدامنی کی نشانیاں نظر آ رہی ہیں ؟ ہمارے ایران کو کس کی نظر لگ گئی ؟ وزیرِ دربار نے سر جھکا لیا تاکہ شاہ آنکھوں میں تیرتے آنسو نہ دیکھ سکے۔