خان لیاقت علی خان سچے راہ نما عظیم انسان

ان کے قتل کا معاملہ اب تک اسرار کے پردے میں چھپا ہے

ان کے قتل کا معاملہ اب تک اسرار کے پردے میں چھپا ہے

WASHINGTON:
وہ اتنا صاحب ثروت تھا، جس کا نام خان سے شروع ہوکر خان پر ختم ہوتا تھا اور یہی نہیں، اس کے نام ساتھ نواب زادہ لکھا جاتا تھا کہ وہ تھا بھی نواب زادہ اور نواب رستم علی خان کا چہیتا فرزند۔ لیکن پھر اس کے دل و دماغ میں ایک ایسا سودا سمایا جس کے لیے اس نے اپنا سب کچھ تج دیا۔

ہاں اپنے خواب کی تعبیر کے لیے وہ نواب زادہ اس مقام پر بھی پہنچا جہاں وہ اپنی ذات کی نفی کرچکا تھا۔ کراچی میں حمید برادرز ہی اُن کا درزی تھا وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں قیام پاکستان کے ساڑھے چار برس میں مشکل سے تین یا چار سُوٹ سلو ائے تھے، وہ اپنے پُرانے سوٹ ہی درست کرواتے رہتے تھے۔ 1940ء کے بعد اْن کی جسمانی ساخت بدل گئی تھی اور پہلے کے کپڑے تنگ ہو گئے تھے لیکن وہ اِن تنگ کپڑوں کو بھی ادھیڑ کر بڑے کراتے اور پہنتے رہے۔ گھر پر وہ نہایت سادہ کپڑے پہنے رہتے تھے۔ ان کے درزی کے بہ قول میں نے ایک مرتبہ اُن کو ایک قمیص پہنے دیکھا جس کی آستین میں کئی پیوند لگے تھے۔ دراصل آستین کا کپڑا نکال کر اْس کا کالر بنا یا گیا تھا۔''

یوسف ہارون کے مطابق جب وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے تو اس نواب زادے نے انہیں جو ہدایت نامہ دیا وہ کسی صوفی باصفا کی نصیحت معلوم ہوتا اور آج بھی قابل غور ہے: ''تمہیں اپنے زمانۂ اقتدار میں بہت سے ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے گا جو تم سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اس موقع پر تم انصاف کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا اور ملک کا نقصان کرکے کسی کا ذاتی فائدہ ہرگز نہ کرنا۔ ہاں اگر انصاف کا خون کیے بغیر تم کسی کا فائدہ کرسکتے ہو تو مضائقہ نہیں لیکن اپنے ضمیر اور خدا کے رُو بہ رُو سچے رہنا، تمہیں اختیارات ملے ہیں تو خوفِ خدا کو ہمیشہ اپنا راہ بر بنانا اور قانون کی راہ میں روڑے مت اٹکانا۔''

ہم تذکرۂ خیر کر رہے ہیں اس عظیم انسان کا جس کا نام نواب زادہ خان لیاقت علی خان تھا، جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1922ء میں انگلینڈ بار میں شامل ہوئے۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936ء میں مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔

نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ یکم اکتوبر 1896ء کو پیدا ہوئے۔ آ پ کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر ان کے لیے قرآن اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کیا۔ 1918ء میں انہوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918ء میں جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد لیاقت علی خان برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ برطانیہ سے واپسی کے بعد انہوں نے برطانوی تسلط سے آزادی کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔1924ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا، اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دوبارہ منظم کرنا تھا اس اجلاس میں خان لیاقت علی خان بھی شریک تھے۔

1926ء میں لیاقت علی خان اُتر پردیس سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1932ء میں انہوں نے بیگم رعنا خان لیاقت علی خان سے عقد ثانی کیا جو ایک ماہرتعلیم اور معیشت داں تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد خان لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے اور 16اکتوبر 1951 اپنی شہادت تک وزیر اعظم تھے، جو 16اکتوبر 1951ء کی شام کمپنی باغ راول پنڈی میں جلسہ عام کے بعد شہید کردیے گئے۔ شہید لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے دیگر کئی پراسرار واقعات میں نمایاں ہے۔ اور اس قتل کو ایک انفرادی جرم قرار دینا مشکل ہے۔ وزیراعظم پر قاتلانہ حملے کے فوراً بعد کمپنی باغ میں ہونے والے واقعات پر ان گنت سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

وزیراعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کے وزیر اعلیٰ اور آ ئی جی پولیس تو موجود تھے مگر پنجاب کے وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ، آ ئی جی پولیس قربان علی خان اور ڈی آ ئی جی، سی آئی ڈی انور علی غیرحاضر تھے۔ جلسہ گاہ میں فرائض منصبی پر مامور پولیس کا اعلیٰ ترین عہدے دار راول پنڈی کا ایس پی نجف خان تھا۔ لیاقت علی خان پر گولی چلنے کی آ واز سنتے ہی ایس پی نجف خان نے پشتو میں چلا کر کہا تھا: ''کس نے گولی چلائی ہے اسے مارو'' اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نجف خان کو معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ پھر ان کے حکم پر سید اکبر کو انسپکٹر محمد شاہ نے ہلاک کردیا۔ کیا تجربہ کار پولیس آفیسر نجف خان کو معلوم نہیں تھا کہ وزیراعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا کتنا ضروری ہے؟ جب انسپکٹر شاہ محمد نے سید اکبر پر پانچ گولیاں چلاکر اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ زندہ نہ بچ سکے۔ اس کے باوجود کہ اس وقت سفید کپڑوں میں ملبوس خفیہ پولیس کے انسپکٹر ابرار نے حاضرین جلسہ سے مل کر قاتل سے پستول چھین لیا تھا اور اس پر قابو پالیا تھا۔ کیا انسپکٹر شاہ محمد قاتل پر قابو پانے کے باوجود اسے ختم کرنے کے مشن پر تھا؟ یہ اور اس جیسے درجنوں سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔

خان لیاقت علی خان کے صاحب زادے اکبر لیاقت کا کہنا تھا کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنا یا گیا، اصل قاتل کو ئی اور تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خان لیاقت علی خان کو گولی سامنے سے نہیں بل کہ عقب سے ماری گئی تھی۔ جلسہ گاہ میں مسلم لیگ گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے۔ اس کے جسم پر بھالوں کے زخم تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس اور کئی مسلح افراد موجود تھے، اسی سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشان دہی ہوتی ہے۔ نجف خان کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائرنگ شروع کردی جس سے جلسہ گاہ میں افراتفری پھیل گئی اور زخمی وزیراعظم کی طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ہوائی فائرنگ کا مقصد تاحال واضح نہیں ہوسکا ہے۔

ایس پی نجف خاں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ماتحتوں کو ہوائی فائرنگ کا حکم نہیں دیا تھا۔ سرکاری کاغذات میں ردوبدل بھی ایس پی نجف خان کے سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ ورانہ بددیانتی کا پختہ ثبوت تھا۔ انکوائری کمیشن کے مطابق نجف خان نے ایک ذمے دار پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کے خلاف محکمانہ کارروائی تو ہوئی لیکن پھر اسے باعزت بحال بھی کردیا گیا۔ وزیراعظم خان لیاقت علی خان کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی صورت حال کے لیے فوری طبی امداد کے کوئی انتظامات سرے سے موجود ہی نہیں تھے، حتیٰ کہ کسی زخمی کو اسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس تک موجود نہیں تھی۔ چاروں اطراف اندھا دھن گولیاں چل رہی تھیں اور چند افراد اس بھگڈر میں سید اکبر کو ختم کرنے میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ ایک وزنی آرائشی گملا اٹھا لائے اور اسے سید اکبر پر دے مارا جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری پر حملے کرنے والوں کا اطمینان حیران کن تھا۔ سید اکبر نے زردرنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی نہیں تھی۔ واردات کے فوراً بعد یہ افواہ دانستہ پھیلائی کہ قاتل خاکسار تھا، بل کہ صوبے بھر میں خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہوگئیں۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی۔



خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غلام محمد پنڈی میں ہی تھے لیکن ان دونوں اہم راہ نماؤں نے جلسے میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اْس وقت پہنچی جب نیم مردہ وزیراعظم خان لیاقت علی خان زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لا یا جا رہا تھا۔ وزیراعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی صاحب ان کی جسد خاکی کو اسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے روز کراچی میں تدفین تک منظر ِ عام پر نہیں آ ئے۔ اس وقت سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن اسپتال میں تھے اور سیکریٹری خارجہ اکرام اﷲ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں اگلے احکامات کے منتظر تھے۔


غلام نبی پٹھان (جوائنٹ سیکریٹری مسلم لیگ) کے مطابق خان لیاقت علی خان کے قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی، چالان پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چلا یا گیا۔ جسٹس منیر اور جسٹس اختر پر مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد خان لیاقت علی خان کے قاتلوں کا تعین کرنے کے بہ جائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا۔ قتل کس نے کیا ہے؟ کیو ں کیا ہے؟ کس نے کرایا ہے؟ ان سوالات سامنے لانے کے بہ جائے انتظامی غفلت کو ہی ذمے دار قرار دیا اور ان کا جائزہ لیا گیا تھا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نادانستہ غلطی تھی، اس کے نتیجے میں پنجاب اور سرحد پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کے بہ جائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں ہی مصروف تھے۔

درحقیقت انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت بڑی حد تک بے معنی تھے۔ مثال کے طور پر : (الف) ہم بیا ن کردہ واقعات کے بنا پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے، معاملہ زیرِتفتیش ہے۔ تحقیقات کرنے والے افسر کئی نظریات پر غور و فکر کر رہے ہیں۔

(ب) اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ ملا ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان خط و کتابت ہو رہی ہے۔ ہم نے اس سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیوں کہ ان کا انکشاف مفادعامہ میں نہیں ہے۔

(ج) سید اکبر کا کسی سازش سے تعلق معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ بہ ہرحال ایک قابل پولیس افسر مصروفِ تفتیش ہے ہمارا خیال ہے کہ سیداکبر کے کردار کا پتا مل جائے گا۔

(د) اگر سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم اس سے بھیانک جرم کے سازشیوں کا اتا پتا معلوم کرنے میں کام یاب ہوجاتے۔ سید اکبر کی موت کے متعلق پولیس رپورٹ میں انسپکٹر محمد شاہ کی فائرنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، اس چشم پوشی کا مقصد پولیس کی غفلت یا ملی بھگت پر پردہ ڈالنا تھا۔

خان لیاقت علی خان جب شہید ہو ئے تو ان کی جیب میں سے ایک سگریٹ کیس نکلا اور بنک میں چند روپوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔ قائد اعظم، خان لیاقت علی خان پراندھا اعتماد کرتے تھے۔ 6دسمبر1943ء کو کراچی میں مسلم لیگ کی کونسل میٹنگ میں نواب زادہ خان لیاقت علی خان کو دو بارہ جنرل سیکریٹری چنا گیا اور قائد اعظم نے انہیں اپنا دستِ راست کہہ کر پکارا۔

خان لیاقت علی خان کی کفایت شعاری کے حوالے سے یوسف ہارون جو اس وقت سندھ کے وزیر اعلی تھے، نے لکھا ہے:''خان لیاقت علی خان کی اپنی ماہانہ تن خواہ میں گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔ انھوں نے خود ہی اپنی تن خواہ بہت کم مقرر کروائی تھی۔ قرض کے بار سے بچنے کے لیے وہ اپنے بچوں کو معمولی اسکول میں تعلیم دلواتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ خوش پوش انسان تھے لیکن اُن کے پاس قیمتی کپڑے بہت کم تھے۔

خان لیاقت علی خان نے ایک بار کہا تھا:''میرے پاس نہ دولت ہے نہ جائیداد، میں اسی میں خوش ہوں کیوں کہ یہی چیزیں انسان کے ایمان میں خلل ڈالتی ہیں۔ صرف ایک جان میرے پاس ہے اور وہ بھی چار برس سے پاکستان کے لیے وقف ہے۔ اب میں آپ کو اس محبت اور عقیدت کے بدلے کیا دے سکتا ہوں جو آ پ مجھ سے کرتے ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حفاظت کے لیے پاکستان کی بقاء کے لیے قوم کو خون بہانا پڑتا تو لیاقت کا خون بھی اس میں شامل ہوگا۔''

اور پھر آ خر کا ر 16اکتوبر 1951ء کو انہوں نے قوم سے کیا گیا وعدہ ایفا کردیا۔ آخری وقت میں اُن کی زبان پر یہ الفاظ تھے: '' خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔''

کیا ملک خداداد پاکستان جو اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے۔ اپنے وجود کے دن سے ہی خطرات کی زد میں ہے؟ اس ملک خداداد میں سازشی عناصر کیا اتنے طاقت ور ہیں کہ اپنی ہر سازش کے نتائج حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں؟ یہاں عوام کی رائے پر جبر کی حکم رانی رہی ہے اور عوامی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی؟ کیا اس کا نظام کسی غیرمرئی قوت کے ہاتھ میں رہا ہے؟ کیا اس ملک کے شہریوں کو وہ حقوق جن کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے، ہمیشہ سے ہی سلب کیے جاتے رہے ہیں؟ اور پھر ان حالات میں ہمارا مستقبل ہے کیا۔۔۔۔۔؟ ایسے ہی اور ایسے ہی کئی سوالات اور خدشات ہمیں آج بھی گھیرے ہوئے ہیں۔

پاکستان کو ایک نیا پاکستان بنانے کا عزم لیے عمران خان پر لازم ہے کہ وہ خان لیاقت علی خان کی زندگی کو سامنے رکھیں تو بہ طور وزیراعظم ضرور کام یاب ہوسکتے ہیں۔ تحمل، بردباری اور قوت برداشت ہی سیاست کا دوسرا نام ہے۔ اختلافِ رائے ضرور ہو لیکن ذاتی رنجشیں، ذاتی مفاد اور ہوسِ زر کو چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کام یاب نہ ہوں۔ پاکستان ہے تو سیاست داں، حکم راں اور فوجی جرنیل و افسران سب ہوں گے، وگرنہ خاکم بہ دہن، خدانخواستہ اگر یہ عظیم پاکستان جو مزید کسی سانحے کا قطعاً متحمل نہیں ہوسکتا، کسی اور حادثے کا شکار ہوگیا تو ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔
Load Next Story