ٹیوشن لیے بغیر اسکول میں ہمیشہ فرسٹ آتی تھی

اِبلاغ عامہ کی مدرس ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی سے بات چیت

ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی لگ بھگ ایک عشرے سے ’اِبلاغ عامہ‘‘ میں مدرس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

گریجویشن تک وہ شعبہ سائنس میں دل چسپی رکھتی رہیں، پھر مارکیٹنگ کی طرف متوجہ ہوئیں اس کے بعد ان کا دھیان اِبلاغیات اور پھر اس کی تدریس کی جانب ہو گیا۔۔۔ اِن کے ادبی رجحان ہونے کے سبب ہم کہیں گے کہ اچھا ہی ہوا کہ اب ہماری صحافیوں میں مطالعے اور ادب سے دل چسپی اٹھتی ہی جا رہی ہے، جب کہ اُن کا شمار نہ صرف زبان وبیان کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں میں ہے، بلکہ وہ ہمیشہ نوآموز صحافیوں میں بھی یہ شعور اجاگر کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ یہ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی ہیں، جو لگ بھگ ایک عشرے سے 'اِبلاغ عامہ'' میں مدرس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔

انہوں نے 2 دسمبر کو حیدرآباد کالونی، کراچی میں آنکھ کھولی۔ سات بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر آخری ہے، اُن کے چار بھائی تھے، ایک بھائی ڈاکٹر محمد عبدالمنعم سعودی عرب میں محکمہ صحت میں ملازم تھے، 2015ء میں بدقسمتی سے وہ وہاں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے۔ سب سے بڑے بھائی عبدالنعیم انجینئر ہیں، دوسرے بھائی محمد عبدالعلیم ان دنوں کینیڈا میں اقامت پذیر ہیں، جب کہ سب سے چھوٹے بھائی محمد سلیم فاروقی کراچی میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین نے 1990ء میں بہادر یار جنگ ہائی اسکول سے نمایاں نمبروں کے ساتھ میٹرک کیا، خاتون پاکستان کالج سے انٹر اور پھر یہیں سے 1996ء میں 'بی ایس سی' کیا۔ کہتی ہیں کہ ٹیوشن لیے بغیر ہمیشہ فرسٹ آئی، ویسے بھی ٹیوشن لینا اُن کے ہاں کافی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اُن کے والد محمد عبدالرحیم فاروقی کا تعلق حیدرآباد (دکن) سے تھا، اور ہجرت کے بعد وہ یہاں 'بلدیہ کراچی' سے منسلک رہے، 1984ء میں وہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

ڈاکٹر یاسمین فاروقی نے 1997ء کے آخر میں ایم بی اے (مارکیٹنگ) میں داخلہ لیا، جس کے بعد وہ ایک فرم سے بھی وابستہ رہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے سرسید یونیورسٹی سے آئی ٹی میں ایک ڈپلومہ بھی کیا۔ انہوں نے تدریس کا سلسلہ یوں تو سٹی اسکول میں پڑھا کر شروع کر ہی دیا تھا، مگر وہاں اُن کے مضامین سائنس اور ریاضی تھے، یہ 1996ء کی بات ہے جب وہ کالج کی طالبہ تھیں، اب جو انہوں نے مارکیٹنگ کے شعبے کو چُنا تو اُن کی والدہ کو ان کی آمدورفت اور اوقات کار کے باعث فکر لاحق ہوئی۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ شام سے پہلے پوری ہونے والی کوئی ذمے داری اٹھالیں، انہیں ایک مشورہ مزید پڑھنے کا بھی ملا، سو ایسی ہی کسی شبھ گھڑی میں انہوں نے ایک اور ایم اے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

یہ 2003ء کی بات ہے، جب انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ اِبلاغ عامہ میں داخلہ لیا، یہاں ابھی زکریا ساجد بھی پڑھا رہے تھے، اُن کے ساتھ متین الرحمن مرتضیٰ، نثار زبیری اور محمود غزنوی وغیرہ سے پڑھنے کو وہ اپنا اعزاز شمار کرتی ہیں۔ 2005ء میں ایم اے مکمل ہوا، اس کے بعد ایک نجی ٹی وی اور ایک مقامی اخبار میں کچھ عرصے کے لیے ٹرینی کام کیا۔ ساتھ ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 2008ء میں جامعہ کراچی میں شام کی کلاسز کے لیے کوآپریٹو ٹیچر ہو گئیں، بعد میں یہ سلسلہ صبح کی کلاسوں تک دراز ہو گیا۔ 2009ء میں انہوں نے 'ایم فل' میں داخلہ لیا، کہتی ہیں کہ ہمارا پہلا بیج تھا، جس سے ایم فل کرنے والوں کے لیے 'ایچ ای سی' کا متعارف کرایا گیا 'کورس ورک' شروع ہوا، اس دوران وہ بہ یک وقت 'ایم فل' کی کلاسیں لیتیں، تحقیق کرتیں اور ساتھ ہی تدریس بھی کرتیں۔ 2012ء میں وہ کُل وقتی کوآپریٹو ٹیچر ہو گئیں، کہتی ہیں اس میں خدمات تو لگ بھگ کسی مستقل استاد کی طرح ہوتی ہیں، مگر ہوتا یہ عہدہ غیر مستقل ہی ہے۔

2016ء میں یاسمین فاروقی نے ڈاکٹر طاہر مسعود کے زیر نگرانی اپنا تحقیقی مقالہ جمع کرایا، جس کے بعد 2017ء میں انہیں ڈاکٹریٹ عطا ہوئی۔ اُن کا موضوع 'نصراللہ خان کی فکاہیہ کالم نگاری کا تحقیقی جائزہ' تھا۔ مقالے کی اشاعت کے لیے اس میں انہوں نے نصراللہ خان کی خاکہ نگاری کے حوالے سے مواد کا اضافہ بھی کیا اور یوں 'انجمن ترقیٔ اردو' کے زیر اہتمام یہ مقالہ بہ عنوان 'فکاہیہ کالم نگاری اور نصراللہ خان'منصۂ شہود پہ آیا۔ اس کے علاوہ 2016ء میں انہوں نے ایک کتاب 'نوادر انجمن' بھی مرتب کی، جو دراصل 'انجمن ترقیٔ اردو' کے کتب خانے میں موجود نادر ونایاب کتب پر اسلم فرخی کے لکھے گئے مضامین ہیں۔ کہتی ہیں کہ دراصل یہ 37 مضامین انہوں نے انجمن سے اپنی نو سالہ وابستگی کے دوران تحریر کیے تھے، مگر کتابی صورت میں یک جا نہیں ہو سکے تھے۔

ڈاکٹر یاسمین کا خیال ہے کہ آج کے کالم نگاروں میں وہ دم خم نہیں، کہتی ہیں کہ پہلے لوگ کالم پڑھنے کے لیے اخبار خریدتے تھے۔ پہلے کے کالم نگاروں کا وژن ہوتا تھا، آج کے کالم نگاروں پر کسی نہ کسی کی چھاپ دکھائی دیتی ہے، جب کہ پہلے لکھنے والے اپنے نظریے کی چھاپ بھی نہ پڑنے دیتے تھے۔ آج سب ہی سیاست پر لکھ رہے ہیں، مزاح تو دور کی بات سماج کے بہت سے مسائل نظرانداز ہو رہے ہیں۔ کالموں کو قارئین کی رائے سازی سے ان کے شعور میں اضافے تک اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اظہار رائے کے لیے انٹرنیٹ پر 'کالم' جیسی ایک اور صنف اظہار 'بلاگ' کے سوال پر ڈاکٹر یاسمین فاروقی نے کہا کہ ہر دور کا اپنا تقاضا ہوتا ہے، یہ صدی تیزی سے تبدیلی لانے والی ہے۔ بلاگ لکھنے والے نوجوان ہیں اور یہ سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) کا دور ہے۔ بہت سے لوگ 'فیس بک' کی 'بلاگ پوسٹ' پر بھی کالم ہی لکھتے معلوم ہوتے ہیں۔ میں بلاگ کو کالم کا متبادل نہیں سمجھتی، لیکن یہ اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ اس کا لکھنا اور اس کا اظہار کرنا آسان ہونا بھی ا س کا ایک سبب ہے۔

وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ 'سماجی ذرایع اِبلاغ' میں کوئی مدیر نہ ہونے کے سبب مسائل ہیں، اس ضمن میں پیمرا، پریس کونسل کی طرز پر کوئی ادارہ ہونا چاہیے، اگرچہ سائبر قوانین موجود ہیں، لیکن کوئی موثر روک تھام ہونا ضروری ہے۔


''سماجی ذرایع اِبلاغ کی چکا چوند نے تو ہر ایک کو 'صحافی' بنا دیا ہے، ایسے میں بھی کیا عام ذرایع اِبلاغ میں کشش موجود ہے؟'' ہمارے اس سوال پر ڈاکٹر یاسمین بولیں کہ 'اس کی کشش اپنی جگہ برقرار ہے۔' وہ چاہتی ہیں کہ ذرایع اِبلاغ اخلاقی اور قانونی طور پر اپنا قبلہ درست کریں، اصلاح پر توجہ دیں اور نان ایشوز کو ایشوز نہ بنائیں۔

پی ایچ ڈی کے بعد یاسمین سلطانہ 2017ء میں 'جناح یونیورسٹی برائے خواتین' کراچی میں 'میڈیا سائنس' کی چیئر پرسن ہوگئیں۔ اس تجربے کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ ''نجی اداروں میں جس طرح معاملات چلائے جاتے ہیں، اسی طرح یہاں بھی چلائے گئے۔''

کچھ ماہ بعد وہ جنوری 2018ء میں وہ بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر 'سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی' کے شعبہ میڈیا سائنس سے جُڑ گئیں، یہاں بھی کچھ عرصے چیئر پرسن رہیں، ان کے طلبہ ذرایع اِبلاغ کے قوانین و اخلاقیات اور سیاسی اِبلاغ وغیرہ کے مضامین پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی ایم فل کے 10طلبہ بھی ان کے زیرنگرانی تحقیق کر رہے ہیں۔ یہاں وہ شعبے کے تحقیقی جریدے JOURNAL OF SOCIAL SCIENCE & MEDIA STUDIES (JOSSAMS) کی ادارت پر بھی مامور ہیں۔

میڈیا کے موجودہ بحران کو لمحۂ فکریہ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین فاروقی نے کہا کہ 'اِبلاغ عامہ کے جتنے طلبہ پڑھ کر نکل رہے ہیں، ان کے لیے اتنے مواقع موجود نہیں، موجودہ صورت حال کے سبب اب طلبہ مایوسی کے عالم میں دوسروں کو منع کرتے ہیں کہ خبردار، اس شعبے کا رخ نہ کرنا، میرا ایک طالب علم کے ایک چینل کی طرف ڈھائی تین لاکھ روپے واجب الادا ہیں، اس کی اگلے ہفتے شادی ہے اور وہ بہت پریشان ہے۔'

2013ء میں جب 'انجمن ترقیٔ اردو' میں نوجوانوں کی ادبی کمیٹی قائم ہوئی تو وہ اس کی صدر بنیں، اس کا مقصد نوجوانوں کو اردو اور ادبی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا تھا، انہوں نے اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سے پروگرام کیے، لیکن اب پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے سبب اس جانب زیادہ توجہ نہیں دے پا رہیں، زیادہ تر وقت تحقیقی کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ 'ادارۂ یادگار غالب' کی گورننگ باڈی کی رکن بھی ہیں۔

انہوں نے 1997ء میں پہلا سفر سعودی عرب میں اپنے بھائی کی رہائش کے سبب کیا، اپنی والدہ کے ہم راہ وہاں چھے ماہ بِتائے، جب کہ 1999ء کے آخری دنوں میں انہوں نے ہندوستان کا رخ کیا، جہاں اپنی آبائی دھرتی حیدرآباد میں عزیز و اقارب سے ملاقات ہوئی اور پھر ممبئی کی کوچہ نوردی کا شوق پورا کیا۔ اب تک کُل تین بار سعودی عرب اور دو بار بھارت یاترا کر چکی ہیں، لیکن گھومنے پھرنے کو اب بھی اپنا من پسند شوق قرار دیتی ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ گھر میں ہر مشہور شاعر اور ادیب کی تصنیف موجود ہے، گھر کے ذخیرۂ کتب میں بہت سے اضافے ان کی جانب سے بھی ہوئے۔ تحفے میں کتابیں دینا پسند ہے، اور شاعری کی دل دادہ ہیں۔

پہلے کالم نگار ہلکے پھلکے انداز میں کام کی بات کر جاتے تھے

ڈاکٹر یاسمین فاروقی اپنی 'پی ایچ ڈی' کے لیے ڈاکٹر طاہر مسعود کو نگراں منتخب کرنے کی وجہ اُن کا صحافتی پس منظر بتاتی ہیں۔ خود انہوں نے اپنے ادبی رجحان اور مزاح سے لگائو کے سبب نصر اللہ خان کے کالموں کو موضوع بنایا، کہتی ہیں کہ ''میں نے اردو کا سارا کلاسیکی ادب اور بڑے مزاح نگاروں کو پڑھا ہوا تھا۔ نصر اللہ خان کے آخری دنوں کے ہی کالم باقاعدگی سے پڑھ سکی۔ ہمارے گھر میں 'جنگ' کے علاوہ ہفت روزہ 'تکبیر' بھی پابندی سے آتے تھے، اہل خانہ نے بھی نصراللہ خان کے لطیف اور نفیس مزاح کو ہمیشہ پسند کیا۔ اُن کی زبان شستہ اور ادبی ہوتی، کوئی پھکڑ پن نہیں ہوتا تھا۔ ان کے ہاں روایتی زبان کی چاشنی ملتی، بہت سے متروک الفاظ کا چلن اور موقع محل کے لحاظ سے محاوروں اور ضرب المثال کا برتائو بھی ان کے ہاں بہت خوب تھا۔

اسی طرح ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تعلق رکھنے والی نسیمہ بنت سراج کے کالموں میں بھی دلّی کی ٹکسالی زبان سے بہت لطف آتا۔ ابن انشا کی کتب تو پڑھی ہوئی تھیں، لیکن 'پی ایچ ڈی' کی تحقیق کے دوران اُن کے کالموں سے بھی استفادہ کیا، جس سے اندازہ ہوا کہ پہلے کے کالم نگار بہت ہلکے پھلکے انداز میں کام کی بات کر جاتے تھے۔ نصر اللہ خان نے بھی مارشل لا کے دور دیکھے، لیکن وہ بنا ڈرے مختلف مسائل کا پوسٹ مارٹم کر جاتے تھے۔ نصراللہ خان 50 سال صحافت سے منسلک رہے، ان کے استاد مولانا ظفر علی خان تھے، وہ ان کے والد کے دوست بھی تھے اس لیے وہ نصراللہ خان کو بیٹے کی طرح سمجھتے تھے۔ نصراللہ خان نے لکھنا بھی 'زمیں دار' سے شروع کیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مشاہیر کی صحافت سے استفادہ کیا۔ جب وہ لاہور آئے تو ہم سائیگی بھی فیض احمد فیض کی نصیب ہوئی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اُن کا اٹھنا بیٹھنا اپنے دور کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ رہا۔''
Load Next Story