امریکی عدالت میں طالب علم کا مسلمان ٹیکسی ڈرائیور پر قاتلانہ حملے کے جرم کا اعتراف
احمد شریف کے وکیل نے بتایا کہ حملے میں احمد شریف کے چہرے، گلے اور کندھے پر چاقو کے وار سے نہ مٹنے والے نشانات پڑ گئے.
مقامی عدالت میں مائیکل انرائٹ نامی طالب علم نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ٹیکسی ڈرائیور پر اس لئے قاتلانہ حملہ کیا کیوں کہ وہ ایک مسلمان تھا۔ دوسری جانب عدالت نے کیس کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو 25 جون کو سنایا جائے گا۔
24 سالہ مائیکل انرائٹ نے اگست 2010 میں مین ہٹن میں سفر کے دوران ٹیکسی ڈرائیور احمد شریف سے اس کے مذہب کے بارے میں سوال کیا جس کے جواب میں ٹیکسی ڈارئیور نے اپنا مذہب اسلام بتایا تو مائیکل نے اس کا گلہ تیز دھار چاقو سے کاٹ دیا اور اس کے چہرے، کندھے اور ہاتھوں پر بھی چاقو سے وار کیا۔ خوش قسمتی سے احمد شریف کی جان بچ گئی اور اس نے میئر مائیکل بلومبرگ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی جس میں اس نے کہا کہ یہ حملہ اس پر مذہبی نفرت کی بنا پر کیا گیا۔
عدالت میں احمد شریف کے وکیل نے بتایا کہ حملے میں ان کے مؤکل کے چہرے، گلے اور کندھے پر چاقو کے وار سے نہ مٹنے والے نشانات پڑ گئے، سماعت کے بعد ڈسٹرکٹ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نیو یارک میں عدم برداشت اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ احمد شریف کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور وہ 30 سال سے امریکا میں آباد ہیں۔
24 سالہ مائیکل انرائٹ نے اگست 2010 میں مین ہٹن میں سفر کے دوران ٹیکسی ڈرائیور احمد شریف سے اس کے مذہب کے بارے میں سوال کیا جس کے جواب میں ٹیکسی ڈارئیور نے اپنا مذہب اسلام بتایا تو مائیکل نے اس کا گلہ تیز دھار چاقو سے کاٹ دیا اور اس کے چہرے، کندھے اور ہاتھوں پر بھی چاقو سے وار کیا۔ خوش قسمتی سے احمد شریف کی جان بچ گئی اور اس نے میئر مائیکل بلومبرگ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی جس میں اس نے کہا کہ یہ حملہ اس پر مذہبی نفرت کی بنا پر کیا گیا۔
عدالت میں احمد شریف کے وکیل نے بتایا کہ حملے میں ان کے مؤکل کے چہرے، گلے اور کندھے پر چاقو کے وار سے نہ مٹنے والے نشانات پڑ گئے، سماعت کے بعد ڈسٹرکٹ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نیو یارک میں عدم برداشت اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ احمد شریف کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور وہ 30 سال سے امریکا میں آباد ہیں۔