وزیراعظم پیش ہوکر مثبت یقین دہانی کرائیں راستہ نکل آئیگا سپریم کورٹ
وزیرقانون بھی پیش ہوئے، مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی‘ وزیراعظم کی طلبی مؤخر کرنے کی استدعا مسترد
لاہور:
عدالت عظمٰی نے وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک اور اٹارنی جنرل عرفان قادر کی طرف سے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر مثبت پیشرفت کی یقین دہانی پر خط لکھنے سے متعلق حکم کیخلاف حکومتی نظر ثانی کے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی جبکہ وزیرا عظم کو طلب کیے جانے کا معاملہ اگلے مہینے تک موخر کرنے کی استدعا مسترد کر دی گئی۔
عدالت نے قرار دیا کہ وزیراعظم پیش ہوکر مثبت یقین دہانی کرائیں گے تو راستہ خود نکل آئے گا، دوسری صورت میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ جمعرات کو اٹارنی جنرل نے5رکنی بینچ کو بتایا کہ ان کی وزیر اعظم اور وزیر قانون سے ملاقات ہو گئی ہے، حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے لیکن کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے دیگر متعلقہ افراد کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے، انھوں نے بتایا وزیر قانون خود عدالت میں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتی ہے، مشاورت کا عمل مکمل کرنے کیلیے عملدرآمد کیس کی سماعت اگلے مہینے تک ملتوی کی جائے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ این آر او عمل درآمد کیس کا معاملہ اس کیس سے مختلف ہے، اس میں عدالت کی آبزرویشن ہے کہ ملک قیوم کی مراسلت کو غیر قانونی قرار دیا جائے، عمل درآمد مقدمے کی سماعت مقررہ تاریخ پر ہی ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے دوبارہ استدعا کی کہ وہ روس جارہے ہیں اور اس دن موجود نہیں ہوں گے، حکومت موجودہ تنائو کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا این آر او ججمنٹ کے پیرا 178پر عمل قطعی مشکل نہیں، صرف اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
وزیر قانون خود روسٹر پر آئے اور عدالت کو بتایا حکومت اداروں میں تصادم پر یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسا چاہتی ہے، وہ جمہوریت کی بقا اور اداروں میں استحکام چاہتی ہے، جس دن وزیر اعظم پیش ہوں گے کچھ نہیں ہو گا بس وہ التوا کی درخواست کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ یہ اچھا نہیں ہو گا بلکہ جب این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت ہو تو معاملہ ختمٕ ہی ہو جائے، اس لیے سماعت اگر اگلے مہینے کی جائے تو یہ بہتر ہوگا۔
ویسے بھی اٹارنی جنرل روس میں ہوں گے جو حکومت کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا اس روز وزیر اعظم دو مثبت بول بول لیں گے تو شاید انھیں پھر بلانے کی نوبت ہی نہ آئے، عدالت میں آنے سے ان کا قد چھوٹا نہیں ہوتا۔ نہ جانے کیوں اس بات کا بتنگڑ بنایا جا تا ہے حا لانکہ ہر ادارہ ان کا اپنا ادارہ ہے اور وہ ہر ادارے کا احترام کرتے ہیں۔ روس دوست ملک ہے وہاں سے دوبارہ دعوت نامہ آجا ئے گا۔عدالت نے نظر ثانی کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اس التوا کو حکم امتناع نہ سمجھا جائے۔
عدالت عظمٰی نے وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک اور اٹارنی جنرل عرفان قادر کی طرف سے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر مثبت پیشرفت کی یقین دہانی پر خط لکھنے سے متعلق حکم کیخلاف حکومتی نظر ثانی کے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی جبکہ وزیرا عظم کو طلب کیے جانے کا معاملہ اگلے مہینے تک موخر کرنے کی استدعا مسترد کر دی گئی۔
عدالت نے قرار دیا کہ وزیراعظم پیش ہوکر مثبت یقین دہانی کرائیں گے تو راستہ خود نکل آئے گا، دوسری صورت میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ جمعرات کو اٹارنی جنرل نے5رکنی بینچ کو بتایا کہ ان کی وزیر اعظم اور وزیر قانون سے ملاقات ہو گئی ہے، حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے لیکن کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے دیگر متعلقہ افراد کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے، انھوں نے بتایا وزیر قانون خود عدالت میں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتی ہے، مشاورت کا عمل مکمل کرنے کیلیے عملدرآمد کیس کی سماعت اگلے مہینے تک ملتوی کی جائے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ این آر او عمل درآمد کیس کا معاملہ اس کیس سے مختلف ہے، اس میں عدالت کی آبزرویشن ہے کہ ملک قیوم کی مراسلت کو غیر قانونی قرار دیا جائے، عمل درآمد مقدمے کی سماعت مقررہ تاریخ پر ہی ہوگی۔ اٹارنی جنرل نے دوبارہ استدعا کی کہ وہ روس جارہے ہیں اور اس دن موجود نہیں ہوں گے، حکومت موجودہ تنائو کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا این آر او ججمنٹ کے پیرا 178پر عمل قطعی مشکل نہیں، صرف اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
وزیر قانون خود روسٹر پر آئے اور عدالت کو بتایا حکومت اداروں میں تصادم پر یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسا چاہتی ہے، وہ جمہوریت کی بقا اور اداروں میں استحکام چاہتی ہے، جس دن وزیر اعظم پیش ہوں گے کچھ نہیں ہو گا بس وہ التوا کی درخواست کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ یہ اچھا نہیں ہو گا بلکہ جب این آر او عمل درآمد کیس کی سماعت ہو تو معاملہ ختمٕ ہی ہو جائے، اس لیے سماعت اگر اگلے مہینے کی جائے تو یہ بہتر ہوگا۔
ویسے بھی اٹارنی جنرل روس میں ہوں گے جو حکومت کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا اس روز وزیر اعظم دو مثبت بول بول لیں گے تو شاید انھیں پھر بلانے کی نوبت ہی نہ آئے، عدالت میں آنے سے ان کا قد چھوٹا نہیں ہوتا۔ نہ جانے کیوں اس بات کا بتنگڑ بنایا جا تا ہے حا لانکہ ہر ادارہ ان کا اپنا ادارہ ہے اور وہ ہر ادارے کا احترام کرتے ہیں۔ روس دوست ملک ہے وہاں سے دوبارہ دعوت نامہ آجا ئے گا۔عدالت نے نظر ثانی کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اس التوا کو حکم امتناع نہ سمجھا جائے۔