معاشی بھنور سے نکلنے کی سوچیے
لوٹی ہوئی دولت پاکستان میں واپس لانے کے لیے برطانیہ سے رابطہ کیا جا رہا ہے، نیا پاکستان بن رہا ہے۔
ملکی معیشت جس گرداب بلکہ ''برمودا ٹرائی اینگل'' میں پھنسی ہے، اس پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی بحث چل پڑی ہے، ایک طرف آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج، دوسرے معاملات میں کھربوں کے قرضوں کی بازگشت، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ،گردشی قرضے، ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ ، رہائشی اسکیم ، نجکاری کا دباؤ، بجلی، گیس، سی این جی وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے سے پیدا شدہ مہنگائی کا طوفان، ایسے مشکل چیلنجز ہیں جن سے حکومتی اقتصادی ماہرین متضاد اعداد وشمارکے چکر اور بحران سے نکلنے کے محض اعلانات پر انحصارکر رہے ہیں۔
البتہ صورتحال کے ایک روشن پہلو پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمرکا کہنا ہے کہ اربوں روپے کی جائیداد والوں کونوٹس جاری کردیے ہیں، لوٹی ہوئی دولت پاکستان میں واپس لانے کے لیے برطانیہ سے رابطہ کیا جا رہا ہے، نیا پاکستان بن رہا ہے، عوام ٹیکس دے کراس کا حصہ بنیں، اس کے ساتھ ہی ایک بیان میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا جو بھی پروگرام ہوگا، پارلیمنٹ میں لے کرجائیں گے،کشکول سے جان چھڑانی ہے تو برآمدات کوبڑھانا پڑے گا۔ مشکلات کے باوجود غریبوں پرکوئی ٹیکس نہیں لگایا ، پھر ان کی طبع رواں اس بات پر متوجہ ہوتی ہے کہ ن لیگ نے 5 پانچ سال میں ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا۔
الزامات کی تکرار غالباًحکومتی جارحانہ انداز فکر کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے اور ''بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر'' کے مصداق وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر سمیت تقریبا پی ٹی آئی کے تمام پالیسی ساز ، سنجیدہ وزراء اور ماہرین معاشیات ملکی معیشت کی اصل ڈائنامکس کی نفسیاتی دلدل سے باہر نہیں نکلے، جب کہ ن لیگ پر ہر خرابی کی ذمے داری ڈالنے کی مستقل روش نے عوام اور اپوزیشن کو رد عمل پر بھی مجبورکردیا ہے۔
وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے اقدامات کی وجہ سے بال بال قرض میں ڈوبا ہوا ہے، دنیا کے سامنے کشکول لیے پھر رہا ہوں، کوئی ڈالر نہیں دیتا، ڈالر چھاپ نہیں سکتے، اوگرا، نیپرا گیس اور بجلی کے نرخ متعین کرتے ہیں، اگر گیس کی قیمتیں نہ بڑھائی جائیں توکئی کمپنیاں بند ہوجائیں گی، گیس خسارہ 154 ارب روپے ہے، بیل آؤٹ ناگزیر ہے، وہ اعتراف کرچکے ہیں کہ 2008 میں نوید قمرکو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو نوید قمر کا قصور نہیں تھا بلکہ مشرف کی حکومت کا قصورتھا، جب 2013میں اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے پاس گئے تو اسحاق ڈارکا قصور نہیں تھا بلکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا قصور تھا۔
2018 میں آئی ایم ایف کے پاس جانا تحریک انصاف کا قصور نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا قصور ہے ، یوں یہ سلسلہ چلتے چلتے قیام پاکستان تک پہنچ جائے گا۔ ادھر اپوزیشن کا اعتراض یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے معاشی زمینی حقائق کا ادراک کرنے میں کافی دیر لگائی۔
عوام آج بھی ریلیف کے منتظر ہیں جب کہ حکومت ان کے لیے مہنگائی اور ٹیکسوں کے نئے دروازے کھولنے کے لیے پر تول رہی ہے، اس ساری صورتحال کا بہترین ازالہ ٹھوس معاشی روڈ میپ کی تیاری سے ہی ممکن ہے، جو ہوا سو ہوا ،اب عالمی صورتحال اور ملک کو درپیش داخلی سیاسی ، سماجی اور معاشی بھنور سے نکالنے کے لیے الزام تراشی اورکردار کشی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، دیکھنا چاہیے کہ دوست ملک کس حد تک مدد کے لیے تیار ہیں ۔ ان کے ساتھ سنجیدہ نوعیت کا مکالمہ کیا جائے تاکہ بحرانی کیفیت سے باہر نکلنے کی کوئی راہ سامنے آ سکے۔
ایک بنیادی تضاد کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، وزیر خزانہ کا یہ گلہ کہ دنیا میں کشکول لیے '' پھرتے ہیں میرؔ خوارکوئی پوچھتا نہیں'' کی نوبت کیوں آئی ، وجہ سفارتی نرگسیت میں گرفتار اور دوستی کے جامد نظریے پر قائم رہنے کی ہے، پاکستان کو دلچسپ اشارے بھی مل رہے ہیں ،ایک طرف پی ٹی آئی حکومت تاثر دیتی ہے کہ نئے اتحادی پاکستان سے تعلقات کی تجدید پر مائل ہیں۔
روس اور چین سمیت خطے کے دیگر ممالک کے نئے بلاک کی تشکیل کے قصے ہیں تو امریکا اور یورپ سے ڈالرکیسے ملیں گے اور چین اور روس سے ڈالروں کی توقعات پر ملکی معیشت کتنا انحصار کریگی، تاہم یہ خوش آیند بات ہے کہ پاک چین دوستی ایک اٹل حقیقت ہے ، مگر سی پیک پر نظرثانی کا شوشہ چھوڑنے والوں نے پاکستان کے معاشی بحران کی شدت میں اضافہ کیا ، چین محتاط ہوگیا اس کے رابطوں میں تیزی بے معنی نہیں ہے، اسے چینی قیادت کی پاکستان کے عوام سے گہری محبت کا صلہ کہیے کہ چین نے سی پیک قرضوں کو پاکستان کے بحران کی وجہ قرار دینے کے امریکی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی قرضے اتنے زیادہ نہیں کہ معاشی بحران پیدا ہوجائے۔
ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کے حل کے لیے اْٹھائے گئے ہر اقدام کے لیے آئی ایم ایف کی مدد و معاونت کریں، ادھر وفاقی وزیرمنصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے کہ پاک چین زرعی تعاون کے تحت فصلوں کی پیداوار بڑھانے، تجربے اورٹیکنالوجی کا تبادلہ، بیج وپودوں کی حفاظت و بیماریوں پرقابو پانے جیسے شعبوں میں تعاون کے ساتھ ساتھ مختلف پراڈکٹس کی ویلیوایڈیشن، ڈیری، لائیواسٹاک اورفشریز میں مارکیٹنگ پرتوجہ دی جائے گی،ان خیالات کا اظہارانھوں نے چین کے نائب وزیر برائے زراعت ما آئے گو سے ملا قات میں کیا، فریقین نے زرعی تعاون کو مزید وسعت دینے کی لیے ایک جامع طریقہ کاراختیارکرنے پراتفاق کیا۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے کثیر جہتی معاشی مسائل کے حل کے لیے دوررس اقدامات اٹھائے جائیں۔
عوام کو نئی حکومت سے بے پناہ توقعات تھیں۔حکومت کہتی تو ہے کہ وہ ملک کے خوشحال اور بالادست طبقے پر معاشی دباؤ ڈالے گی جب کہ غریبوں پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے سفید پوش طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ سرکاری اور نجی شعبے کے ملازم پیشہ تنخواہ دار طبقے کی آمدنی میں اضافہ تو نہیں ہوا بلکہ ان کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔
ادھر نجی شعبہ جامد ہو گیا ہے' کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں'یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور مسلسل بے روز گاری کا شکار ہیں' نئی حکومت کے پالیسی سازوں کو اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے' کئی کئی سو ایکڑوں کے فارم ہاؤسز میں رہنے والے' ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں'بڑے بڑے قبائلی عمائدین اور سردار جن کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیں 'ان پر کسی کی نظر نہیں پڑ رہی۔
یہی حال طاقتور اور بڑے زمینداروں کا ہے'یہ لوگ سیکڑوں ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالک ہیں لیکن ٹیکس اول تو ہے نہیں اگر ہے بھی تو بہت معمولی نوعیت کا 'فلاحی ادارے بھی ٹیکسوں سے باہر ہیں جب کہ ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان کا طرز زندگی شاہانہ ہے' نئی حکومت کو ان طبقات سے ٹیکس لینے کے لیے کوئی پالیسی وضع کرنی چاہیے۔
البتہ صورتحال کے ایک روشن پہلو پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمرکا کہنا ہے کہ اربوں روپے کی جائیداد والوں کونوٹس جاری کردیے ہیں، لوٹی ہوئی دولت پاکستان میں واپس لانے کے لیے برطانیہ سے رابطہ کیا جا رہا ہے، نیا پاکستان بن رہا ہے، عوام ٹیکس دے کراس کا حصہ بنیں، اس کے ساتھ ہی ایک بیان میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا جو بھی پروگرام ہوگا، پارلیمنٹ میں لے کرجائیں گے،کشکول سے جان چھڑانی ہے تو برآمدات کوبڑھانا پڑے گا۔ مشکلات کے باوجود غریبوں پرکوئی ٹیکس نہیں لگایا ، پھر ان کی طبع رواں اس بات پر متوجہ ہوتی ہے کہ ن لیگ نے 5 پانچ سال میں ملکی معیشت کا بیڑا غرق کردیا۔
الزامات کی تکرار غالباًحکومتی جارحانہ انداز فکر کا بنیادی مسئلہ بن چکا ہے اور ''بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر'' کے مصداق وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر سمیت تقریبا پی ٹی آئی کے تمام پالیسی ساز ، سنجیدہ وزراء اور ماہرین معاشیات ملکی معیشت کی اصل ڈائنامکس کی نفسیاتی دلدل سے باہر نہیں نکلے، جب کہ ن لیگ پر ہر خرابی کی ذمے داری ڈالنے کی مستقل روش نے عوام اور اپوزیشن کو رد عمل پر بھی مجبورکردیا ہے۔
وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے اقدامات کی وجہ سے بال بال قرض میں ڈوبا ہوا ہے، دنیا کے سامنے کشکول لیے پھر رہا ہوں، کوئی ڈالر نہیں دیتا، ڈالر چھاپ نہیں سکتے، اوگرا، نیپرا گیس اور بجلی کے نرخ متعین کرتے ہیں، اگر گیس کی قیمتیں نہ بڑھائی جائیں توکئی کمپنیاں بند ہوجائیں گی، گیس خسارہ 154 ارب روپے ہے، بیل آؤٹ ناگزیر ہے، وہ اعتراف کرچکے ہیں کہ 2008 میں نوید قمرکو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو نوید قمر کا قصور نہیں تھا بلکہ مشرف کی حکومت کا قصورتھا، جب 2013میں اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے پاس گئے تو اسحاق ڈارکا قصور نہیں تھا بلکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا قصور تھا۔
2018 میں آئی ایم ایف کے پاس جانا تحریک انصاف کا قصور نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا قصور ہے ، یوں یہ سلسلہ چلتے چلتے قیام پاکستان تک پہنچ جائے گا۔ ادھر اپوزیشن کا اعتراض یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے معاشی زمینی حقائق کا ادراک کرنے میں کافی دیر لگائی۔
عوام آج بھی ریلیف کے منتظر ہیں جب کہ حکومت ان کے لیے مہنگائی اور ٹیکسوں کے نئے دروازے کھولنے کے لیے پر تول رہی ہے، اس ساری صورتحال کا بہترین ازالہ ٹھوس معاشی روڈ میپ کی تیاری سے ہی ممکن ہے، جو ہوا سو ہوا ،اب عالمی صورتحال اور ملک کو درپیش داخلی سیاسی ، سماجی اور معاشی بھنور سے نکالنے کے لیے الزام تراشی اورکردار کشی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، دیکھنا چاہیے کہ دوست ملک کس حد تک مدد کے لیے تیار ہیں ۔ ان کے ساتھ سنجیدہ نوعیت کا مکالمہ کیا جائے تاکہ بحرانی کیفیت سے باہر نکلنے کی کوئی راہ سامنے آ سکے۔
ایک بنیادی تضاد کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، وزیر خزانہ کا یہ گلہ کہ دنیا میں کشکول لیے '' پھرتے ہیں میرؔ خوارکوئی پوچھتا نہیں'' کی نوبت کیوں آئی ، وجہ سفارتی نرگسیت میں گرفتار اور دوستی کے جامد نظریے پر قائم رہنے کی ہے، پاکستان کو دلچسپ اشارے بھی مل رہے ہیں ،ایک طرف پی ٹی آئی حکومت تاثر دیتی ہے کہ نئے اتحادی پاکستان سے تعلقات کی تجدید پر مائل ہیں۔
روس اور چین سمیت خطے کے دیگر ممالک کے نئے بلاک کی تشکیل کے قصے ہیں تو امریکا اور یورپ سے ڈالرکیسے ملیں گے اور چین اور روس سے ڈالروں کی توقعات پر ملکی معیشت کتنا انحصار کریگی، تاہم یہ خوش آیند بات ہے کہ پاک چین دوستی ایک اٹل حقیقت ہے ، مگر سی پیک پر نظرثانی کا شوشہ چھوڑنے والوں نے پاکستان کے معاشی بحران کی شدت میں اضافہ کیا ، چین محتاط ہوگیا اس کے رابطوں میں تیزی بے معنی نہیں ہے، اسے چینی قیادت کی پاکستان کے عوام سے گہری محبت کا صلہ کہیے کہ چین نے سی پیک قرضوں کو پاکستان کے بحران کی وجہ قرار دینے کے امریکی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی قرضے اتنے زیادہ نہیں کہ معاشی بحران پیدا ہوجائے۔
ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کے حل کے لیے اْٹھائے گئے ہر اقدام کے لیے آئی ایم ایف کی مدد و معاونت کریں، ادھر وفاقی وزیرمنصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار نے کہا ہے کہ پاک چین زرعی تعاون کے تحت فصلوں کی پیداوار بڑھانے، تجربے اورٹیکنالوجی کا تبادلہ، بیج وپودوں کی حفاظت و بیماریوں پرقابو پانے جیسے شعبوں میں تعاون کے ساتھ ساتھ مختلف پراڈکٹس کی ویلیوایڈیشن، ڈیری، لائیواسٹاک اورفشریز میں مارکیٹنگ پرتوجہ دی جائے گی،ان خیالات کا اظہارانھوں نے چین کے نائب وزیر برائے زراعت ما آئے گو سے ملا قات میں کیا، فریقین نے زرعی تعاون کو مزید وسعت دینے کی لیے ایک جامع طریقہ کاراختیارکرنے پراتفاق کیا۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے کثیر جہتی معاشی مسائل کے حل کے لیے دوررس اقدامات اٹھائے جائیں۔
عوام کو نئی حکومت سے بے پناہ توقعات تھیں۔حکومت کہتی تو ہے کہ وہ ملک کے خوشحال اور بالادست طبقے پر معاشی دباؤ ڈالے گی جب کہ غریبوں پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے سفید پوش طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ سرکاری اور نجی شعبے کے ملازم پیشہ تنخواہ دار طبقے کی آمدنی میں اضافہ تو نہیں ہوا بلکہ ان کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔
ادھر نجی شعبہ جامد ہو گیا ہے' کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ رہی ہیں'یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور مسلسل بے روز گاری کا شکار ہیں' نئی حکومت کے پالیسی سازوں کو اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے' کئی کئی سو ایکڑوں کے فارم ہاؤسز میں رہنے والے' ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں'بڑے بڑے قبائلی عمائدین اور سردار جن کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیں 'ان پر کسی کی نظر نہیں پڑ رہی۔
یہی حال طاقتور اور بڑے زمینداروں کا ہے'یہ لوگ سیکڑوں ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالک ہیں لیکن ٹیکس اول تو ہے نہیں اگر ہے بھی تو بہت معمولی نوعیت کا 'فلاحی ادارے بھی ٹیکسوں سے باہر ہیں جب کہ ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان کا طرز زندگی شاہانہ ہے' نئی حکومت کو ان طبقات سے ٹیکس لینے کے لیے کوئی پالیسی وضع کرنی چاہیے۔