کراچی یونیورسٹی ماضی کے چند اوراق پہلا حصہ
حسین نقی 1962 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے طالب علم تھے۔
حسین نقی معروف صحافی ہیں۔ صحافیوں کے حالات کار اور آزادئ صحافت کے لیے زندگی کا بیشتر حصہ وقف کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ 90 کی دہائی سے انسانی حقوق کی تحریک سے منسلک ہوئے۔
مشکل ترین حالات میں اس تحریک کے لیے جدوجہد کی۔ حسین نقی ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے حامی سمجھتے جاتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حسین نقی ذوالفقار علی بھٹو کے دوستوں کے حلقے میں شامل ہیں۔ جب پیپلز پارٹی دسمبر 1971 میں اقتدار میں آئی تو پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا۔
صدر بھٹو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں خطاب کرنے کے لیے آئے تو حسین نقی نے ان سے خطرناک سوال کیا کہ آپ نے سی ایم ایل اے کا عہدہ کیوں قبول کیا؟ بھٹو اس سوال پر ناراض ہوئے۔ حسین نقی نے اپنے ہفت روزہ اخبار ''پنجاب پنچ'' میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ بھٹو حکومت نے پنجاب پنچ پر پابندی عائد کردی اور حسین نقی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔
حسین نقی کا مقدمہ خصوصی فوجی عدالت کے حوالے ہوا۔ حسین نقی طویل عرصے نظربند رہے۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کوششوں سے حسین نقی سمیت دیگر رہا ہوئے مگر حسین نقی کے اخبار پنجاب پنچ پر پابندی ختم نہ ہوئی۔ حسین نقی نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں بائیں بازو کے اخبار ہفت روزہ ویو پوائنٹ میں ایک آرٹیکل لکھا جو سرکاری سرکلر سے ماخوذ تھا۔
اس سرکلر میں وفاقی حکومت نے ہدایات جاری کی تھیں کہ بائیں بازو کے عناصر کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ حسین نقی کو سیکریٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ سخت سردی میں کئی دن لاہور کے شاہی قلعے میں گزرانے پڑے۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان کے گھر کا سامان تتر بتر کیا۔ حسین نقی دو سال کے قریب لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں بھی نظر بند رہے۔
حسین نقی 1962 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے طالب علم تھے۔ وہ بائیں بازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے فعال کارکنوں میں شامل تھے۔ این ایس ایف طلبا کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تاریخی جدوجہد کررہی تھی۔کراچی یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے انتخابات براہِ راست منعقد نہیں ہوتے تھے مگر حسین نقی اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یہ مطالبہ منظور کیا۔ این ایس ایف نے حسین نقی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا۔
دائیں بازو کی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے شعبہ سیاسیات کے طالب علم اور معروف مقرر مکرم علی خان کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔ حسین نقی اور مکرم علی خان شیروانی کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ عام تاثر یہ تھا کہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی حسین نقی کے منتخب ہونے کے حق میں نہیں تھے مگر حسین نقی انتخابات میں کامیاب ہوگئے۔
وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو یہ نتائج پسند نہ آئے۔ انھوں نے مخالف امیدوار کی شکست تسلیم کرنے کے بجائے دوبارہ ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ جوائنٹ سیکریٹری کو ڈالے جانے والے کچھ ووٹ متنازعہ تھے۔ دوسری بار ووٹنگ کے باوجود حسین نقی دوبارہ واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
حسین نقی نے ان انتخابات کے بارے میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ معزز وائس چانسلر نے میرے انتخاب کے خلاف ہر حربہ آزمایا تھا، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی حسین نقی کی دوبارہ کامیابی کے باوجود کسی موقعے کی تلاش میں تھے، جو انھیں جلد ہی اس وقت ملا جب ہوسٹل میں طلبا کے دو گروپوں میں جھگڑا ہوا۔ ان میں سے ایک گروپ بلوچ طلبا کا تھا۔ جب حسین نقی کو پتہ چلا کہ تصادم میں ملوث تین بلوچ طلبا کو یونیورسٹی سے نکالا جارہا ہے تو انھوں نے وائس چانسلر سے مل کر انھیں اس اقدام سے باز رہنے کی درخواست کی۔
وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اس شرط پر ایسا کرنے کا وعدہ کیا کہ حسین نقی خود ان طلبا کی جگہ یونیورسٹی سے خارج ہونے پر تیار ہوجائیں۔ یوں طلبا کے منتخب صدر کو یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا۔ طلبہ یونین کے صدر کا اخراج کراچی یونیورسٹی کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے سابق چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم جو اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھے، انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ جب حسین نقی کو وائس چانسلر آفس طلب کیا گیا تو نقی صاحب کے پیچھے گئے۔
انھوں نے دروازے سے یہ منظر دیکھا کہ حسین نقی خاصی دیر تک وائس چانسلر کی میز کے سامنے کھڑے رہے اور ڈاکٹر قریشی انھیں ڈانٹتے رہے مگر نقی صاحب نے برداشت کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا اور یونیورسٹی سے اخراج کا خط لے کر گردن جھکائے خاموشی سے چلے گئے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی فوجی آمر جنرل ایوب خان کی حکومت کے زبردست حامیوں میں تھے اور دائیں بازو کی ایک طلبہ تنظیم کی سرپرستی کرکے یونیورسٹی کا انتظام چلاتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ انھوں نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر معراج محمد خان کا یونیورسٹی میں داخلہ ہونے نہیں دیا۔ یہی سلوک انھوں نے این ایس ایف کے ایک اور صدر امیر حیدر کاظمی کے ساتھ کیا۔ سینئر صحافی عابد علی سید اس دور کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اپنا پروکٹر میجر آفتاب حسن کو مقرر کیا۔ میجر آفتاب کی ذمے داری تھی کہ این ایس ایف کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے طلبا کو ہراساں کریں۔
معروف شاعر اور استاد یونس شرر طلبہ یونین کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ یونس شرر نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو یونیورسٹی مدعو کیا تو ذوالفقار علی بھٹو کا پرجوش خیر مقدم ہوا، مگر جب اگلے سال پھر بھٹو کو مدعو کیا گیا تو یونس شرر، عابد علی سید، قمر عباس جعفری (وائس آف امریکا) اور محمد نقی مرحوم (ریڈیو پاکستان) کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے۔
(جاری ہے)
مشکل ترین حالات میں اس تحریک کے لیے جدوجہد کی۔ حسین نقی ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے حامی سمجھتے جاتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حسین نقی ذوالفقار علی بھٹو کے دوستوں کے حلقے میں شامل ہیں۔ جب پیپلز پارٹی دسمبر 1971 میں اقتدار میں آئی تو پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے صدر پاکستان اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا۔
صدر بھٹو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں خطاب کرنے کے لیے آئے تو حسین نقی نے ان سے خطرناک سوال کیا کہ آپ نے سی ایم ایل اے کا عہدہ کیوں قبول کیا؟ بھٹو اس سوال پر ناراض ہوئے۔ حسین نقی نے اپنے ہفت روزہ اخبار ''پنجاب پنچ'' میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ بھٹو حکومت نے پنجاب پنچ پر پابندی عائد کردی اور حسین نقی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔
حسین نقی کا مقدمہ خصوصی فوجی عدالت کے حوالے ہوا۔ حسین نقی طویل عرصے نظربند رہے۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کوششوں سے حسین نقی سمیت دیگر رہا ہوئے مگر حسین نقی کے اخبار پنجاب پنچ پر پابندی ختم نہ ہوئی۔ حسین نقی نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں بائیں بازو کے اخبار ہفت روزہ ویو پوائنٹ میں ایک آرٹیکل لکھا جو سرکاری سرکلر سے ماخوذ تھا۔
اس سرکلر میں وفاقی حکومت نے ہدایات جاری کی تھیں کہ بائیں بازو کے عناصر کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ حسین نقی کو سیکریٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ سخت سردی میں کئی دن لاہور کے شاہی قلعے میں گزرانے پڑے۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان کے گھر کا سامان تتر بتر کیا۔ حسین نقی دو سال کے قریب لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں بھی نظر بند رہے۔
حسین نقی 1962 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے طالب علم تھے۔ وہ بائیں بازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے فعال کارکنوں میں شامل تھے۔ این ایس ایف طلبا کے حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تاریخی جدوجہد کررہی تھی۔کراچی یونیورسٹی میں طلبہ یونین کے انتخابات براہِ راست منعقد نہیں ہوتے تھے مگر حسین نقی اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یہ مطالبہ منظور کیا۔ این ایس ایف نے حسین نقی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا۔
دائیں بازو کی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے شعبہ سیاسیات کے طالب علم اور معروف مقرر مکرم علی خان کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔ حسین نقی اور مکرم علی خان شیروانی کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ عام تاثر یہ تھا کہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی حسین نقی کے منتخب ہونے کے حق میں نہیں تھے مگر حسین نقی انتخابات میں کامیاب ہوگئے۔
وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو یہ نتائج پسند نہ آئے۔ انھوں نے مخالف امیدوار کی شکست تسلیم کرنے کے بجائے دوبارہ ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ جوائنٹ سیکریٹری کو ڈالے جانے والے کچھ ووٹ متنازعہ تھے۔ دوسری بار ووٹنگ کے باوجود حسین نقی دوبارہ واضح اکثریت سے کامیاب ہوئے۔
حسین نقی نے ان انتخابات کے بارے میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ معزز وائس چانسلر نے میرے انتخاب کے خلاف ہر حربہ آزمایا تھا، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی حسین نقی کی دوبارہ کامیابی کے باوجود کسی موقعے کی تلاش میں تھے، جو انھیں جلد ہی اس وقت ملا جب ہوسٹل میں طلبا کے دو گروپوں میں جھگڑا ہوا۔ ان میں سے ایک گروپ بلوچ طلبا کا تھا۔ جب حسین نقی کو پتہ چلا کہ تصادم میں ملوث تین بلوچ طلبا کو یونیورسٹی سے نکالا جارہا ہے تو انھوں نے وائس چانسلر سے مل کر انھیں اس اقدام سے باز رہنے کی درخواست کی۔
وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اس شرط پر ایسا کرنے کا وعدہ کیا کہ حسین نقی خود ان طلبا کی جگہ یونیورسٹی سے خارج ہونے پر تیار ہوجائیں۔ یوں طلبا کے منتخب صدر کو یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا۔ طلبہ یونین کے صدر کا اخراج کراچی یونیورسٹی کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے سابق چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم جو اس زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھے، انھوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ جب حسین نقی کو وائس چانسلر آفس طلب کیا گیا تو نقی صاحب کے پیچھے گئے۔
انھوں نے دروازے سے یہ منظر دیکھا کہ حسین نقی خاصی دیر تک وائس چانسلر کی میز کے سامنے کھڑے رہے اور ڈاکٹر قریشی انھیں ڈانٹتے رہے مگر نقی صاحب نے برداشت کا حیرت انگیز مظاہرہ کیا اور یونیورسٹی سے اخراج کا خط لے کر گردن جھکائے خاموشی سے چلے گئے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی فوجی آمر جنرل ایوب خان کی حکومت کے زبردست حامیوں میں تھے اور دائیں بازو کی ایک طلبہ تنظیم کی سرپرستی کرکے یونیورسٹی کا انتظام چلاتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ انھوں نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر معراج محمد خان کا یونیورسٹی میں داخلہ ہونے نہیں دیا۔ یہی سلوک انھوں نے این ایس ایف کے ایک اور صدر امیر حیدر کاظمی کے ساتھ کیا۔ سینئر صحافی عابد علی سید اس دور کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اپنا پروکٹر میجر آفتاب حسن کو مقرر کیا۔ میجر آفتاب کی ذمے داری تھی کہ این ایس ایف کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے طلبا کو ہراساں کریں۔
معروف شاعر اور استاد یونس شرر طلبہ یونین کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ یونس شرر نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو یونیورسٹی مدعو کیا تو ذوالفقار علی بھٹو کا پرجوش خیر مقدم ہوا، مگر جب اگلے سال پھر بھٹو کو مدعو کیا گیا تو یونس شرر، عابد علی سید، قمر عباس جعفری (وائس آف امریکا) اور محمد نقی مرحوم (ریڈیو پاکستان) کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے۔
(جاری ہے)