سندھ حکومت نے بلدیاتی افسرکی 2 ترقیوں کے لیٹر منسوخ کر دیے
ہیلتھ افسر کی درخواست پر کارروائی،تعلقہ افسر لینڈ اقبال شیخ کی ترقیاں جعلی قرار
حکومت سندھ کے لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ نے ایک افسر کی دو ترقیوں کے لیٹرز منسوخ کر کے6 سال بعد تسلیم کر لیا ہے کہ تعلقہ لطیف آباد کا ایک افسر2007 سے گریڈ 16 سے 17 کا جعلی ترقی نامہ لے کر نہ صرف سیٹ پر بیٹھا رہا ۔
بلکہ 2012 میں مذکورہ افسر گریڈ 17 سے 18 میں ترقی کا جعلی آرڈر دکھا کر تعلقہ لطیف آباد میں ڈپٹی تعلقہ آفیسر لینڈ مقرر ہو گیا۔ تفصیلات کے مطابق سیکرٹری لوکل گورنمنٹ علی احمد لوند نے گزشتہ روز اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز عقیل احمد خانزادہ کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے 12 جون 2013 کو آرڈر جاری کرتے ہوئے ڈپٹی تعلقہ افسر لینڈ محمد اقبال شیخ کے 17 سے18 اور 16 سے17گریڈ میں ترقی کے دونوں احکام منسوخ کر دیے۔
درخواست گزار نے ثابت کر دیا تھا کہ 6 سال قبل اقبال شیخ نے گریڈ 16 سے 17 میں ترقی لینے کا آرڈر تعلقہ ایڈمنسٹریشن لطیف آباد میں جمع کرایا وہ بوگس تھا جبکہ گریڈ 17 سے 18 میں ترقی کے لیے مجاز اتھارٹی سے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے مذکورہ جعلی لیٹر کے اجرا کی تحقیقات کا بھی حکمدیتے ہوئے سیکشن افسران سید امداد علی شاہ اور سرفراز کھیڑو سے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔ مذکورہ ترقی کیلیٹر جعلیثابت ہونے کے بعد یہ بات واضح گئی ہے کہ طویل عرصے سے کالعدم لطیف آباد اور کالعدم سٹی میں جعلی لیٹروں کے ذریعے ملازمتیں دینے اور جعلی ترقیاں دینے کا مذموم کاروبار چل رہا تھا جس میں ٹھیکیدار مافیا ملوث ہے۔
وہیں اب یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ 30 اپریل 2007 کو گریڈ 17 میں ترقی اور پھر 4 ستمبر 2012 کو گریڈ 18 میں ترقی کے بوگس لیٹر لے کر گریڈ 17 اور 18 میں ایڈمنسٹریٹو افسر اور ڈپٹی تعلقہ آفیسر کی حیثیت سے محمد اقبال شیخ نے جتنی بھی سرکاری فائلوں پر دستخط کیے ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی جبکہ متعلقہ ڈپارٹمنٹ نے مذکورہ افسرکے خلاف جعلسازی اور دھوکا دہی کا مقدمہ کیوں درج نہیں کیا۔ واضح رہے کہ ٹی ایم اے لطیف آباد میں دو افسران ظفر بیگ مغل اور عقیل احمد خانزادہ نے اقبال شیخ کی دو بار مشکوک انداز میں ترقی کے خلاف درخواستیں دیں لیکن سیاسی اثر و رسوخ کے باعثمذکورہ آفیسر کے خلاف تحقیقات سرد خانے کینذرہو گئی اور ترقی کے منتظر افسران کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔
اس سلسلے میں ترقی کے منتظر ظفر بیگ مغل اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز عقیل احمد خانزادہ نے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن جبکہ ڈپارٹمنٹ میں الگ درخواستیں بھی جمع کرائیں جن میں اس بات کے ثبوت بھی منسلک کیے گئے کہ ٹی او ریگولیشن ٹاؤن لطیف آباد کے عہدے پر محمد اقبال شیخ کی تعیناتی و ترقی غیر قانونی تھی اور ان سے سینئر آفسیر کو نظر انداز کیا گیا۔ پٹیشن میں محمد اقبال شیخ کی گریڈ 18میں ترقی کے احکام منسوخ کر کے ترقی کے منتظر افسران کو ترقیاں دلانے کی استدعا ہی نہیں کی گئی بلکہ اقبال شیخ کے گریڈ 17 کو بھی چیلنج کیا گیا لیکن فوری انصاف اور اپنا حق ملنے کی آس لیے ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ ظفر بیگ مغل، پندرہ نومبر 2012 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
واضح رہے کہ اپنے حق کے لیے سندھ حکومت سے رجوع کرنے پر ٹی ایم اے لطیف آباد کی انتظامیہ نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عقیل احمد خانزادہ کو زبانی طور پر کام کرنے سے روکتے ہوئے صرف دفتر میں حاضری لگانے کا پابند کیا تھا اور زور ڈالا جا رہا تھا کہ وہ ٹی ایم اے میں کوئی کام نہ کریں۔ ڈپارٹمنٹ نے اقبال شیخ کے دونوں احکام منسوخ کرنے کا آرڈر جاری کر دیا جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں عقیل خانزادہ کی درخواست کی سماعت جون کے آخری عشرے میں ہوگی۔
بلکہ 2012 میں مذکورہ افسر گریڈ 17 سے 18 میں ترقی کا جعلی آرڈر دکھا کر تعلقہ لطیف آباد میں ڈپٹی تعلقہ آفیسر لینڈ مقرر ہو گیا۔ تفصیلات کے مطابق سیکرٹری لوکل گورنمنٹ علی احمد لوند نے گزشتہ روز اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز عقیل احمد خانزادہ کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے 12 جون 2013 کو آرڈر جاری کرتے ہوئے ڈپٹی تعلقہ افسر لینڈ محمد اقبال شیخ کے 17 سے18 اور 16 سے17گریڈ میں ترقی کے دونوں احکام منسوخ کر دیے۔
درخواست گزار نے ثابت کر دیا تھا کہ 6 سال قبل اقبال شیخ نے گریڈ 16 سے 17 میں ترقی لینے کا آرڈر تعلقہ ایڈمنسٹریشن لطیف آباد میں جمع کرایا وہ بوگس تھا جبکہ گریڈ 17 سے 18 میں ترقی کے لیے مجاز اتھارٹی سے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے مذکورہ جعلی لیٹر کے اجرا کی تحقیقات کا بھی حکمدیتے ہوئے سیکشن افسران سید امداد علی شاہ اور سرفراز کھیڑو سے جواب بھی طلب کر لیا ہے۔ مذکورہ ترقی کیلیٹر جعلیثابت ہونے کے بعد یہ بات واضح گئی ہے کہ طویل عرصے سے کالعدم لطیف آباد اور کالعدم سٹی میں جعلی لیٹروں کے ذریعے ملازمتیں دینے اور جعلی ترقیاں دینے کا مذموم کاروبار چل رہا تھا جس میں ٹھیکیدار مافیا ملوث ہے۔
وہیں اب یہ سوال بھی پیدا ہو گیا ہے کہ 30 اپریل 2007 کو گریڈ 17 میں ترقی اور پھر 4 ستمبر 2012 کو گریڈ 18 میں ترقی کے بوگس لیٹر لے کر گریڈ 17 اور 18 میں ایڈمنسٹریٹو افسر اور ڈپٹی تعلقہ آفیسر کی حیثیت سے محمد اقبال شیخ نے جتنی بھی سرکاری فائلوں پر دستخط کیے ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی جبکہ متعلقہ ڈپارٹمنٹ نے مذکورہ افسرکے خلاف جعلسازی اور دھوکا دہی کا مقدمہ کیوں درج نہیں کیا۔ واضح رہے کہ ٹی ایم اے لطیف آباد میں دو افسران ظفر بیگ مغل اور عقیل احمد خانزادہ نے اقبال شیخ کی دو بار مشکوک انداز میں ترقی کے خلاف درخواستیں دیں لیکن سیاسی اثر و رسوخ کے باعثمذکورہ آفیسر کے خلاف تحقیقات سرد خانے کینذرہو گئی اور ترقی کے منتظر افسران کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔
اس سلسلے میں ترقی کے منتظر ظفر بیگ مغل اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز عقیل احمد خانزادہ نے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن جبکہ ڈپارٹمنٹ میں الگ درخواستیں بھی جمع کرائیں جن میں اس بات کے ثبوت بھی منسلک کیے گئے کہ ٹی او ریگولیشن ٹاؤن لطیف آباد کے عہدے پر محمد اقبال شیخ کی تعیناتی و ترقی غیر قانونی تھی اور ان سے سینئر آفسیر کو نظر انداز کیا گیا۔ پٹیشن میں محمد اقبال شیخ کی گریڈ 18میں ترقی کے احکام منسوخ کر کے ترقی کے منتظر افسران کو ترقیاں دلانے کی استدعا ہی نہیں کی گئی بلکہ اقبال شیخ کے گریڈ 17 کو بھی چیلنج کیا گیا لیکن فوری انصاف اور اپنا حق ملنے کی آس لیے ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ ظفر بیگ مغل، پندرہ نومبر 2012 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
واضح رہے کہ اپنے حق کے لیے سندھ حکومت سے رجوع کرنے پر ٹی ایم اے لطیف آباد کی انتظامیہ نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عقیل احمد خانزادہ کو زبانی طور پر کام کرنے سے روکتے ہوئے صرف دفتر میں حاضری لگانے کا پابند کیا تھا اور زور ڈالا جا رہا تھا کہ وہ ٹی ایم اے میں کوئی کام نہ کریں۔ ڈپارٹمنٹ نے اقبال شیخ کے دونوں احکام منسوخ کرنے کا آرڈر جاری کر دیا جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں عقیل خانزادہ کی درخواست کی سماعت جون کے آخری عشرے میں ہوگی۔