قومی اسمبلی اجلاس ن لیگ اور پی پی پی کے حکومت پر بھرپور وار
آشیانہ کرپشن اسکینڈل میں گرفتار شہباز شریف کی اجلاس میں خصوصی شرکت
قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
آشیانہ کرپشن اسکینڈل میں شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف اپوزیشن کے مطالبے پر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں پہنچایا جہاں انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر اجلاس میں شرکت کی۔
شہباز شریف نے اپنے اوپر لگے کرپشن الزامات کی صفائیاں پیش کیں اور تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار اپوزیشن لیڈر کو بغیر الزام بھونڈے طریقے سے دھوکا دے کر گرفتار کیا گیا، پی ٹی آئی اور نیب کے درمیان چولی دامن کا ساتھ اور ناپاک گٹھ جوڑ ہے، جب کہ نیب دراصل 'نیشنل بلیک میلنگ بیورو' ہے۔
صدر ن لیگ کا کہنا تھا کہ نیب تفتیش کار نے مجھ سے کہا کہ آپ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لیکن آپ نے سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے آرمی چیف کے بھائی میجر کامران کیانی کو ٹھیکہ دلوانا چاہا تاکہ آرمی چیف کو خوش کریں، میں نے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الہی حکومت نے میجر کامران کیانی کو 35 ارب روپے کا رنگ روڈ کا ٹھیکہ دیا تھا، لیکن انہوں نے اس پر کوئی کام نہیں کیا، میں نے جنرل کیانی سے ملاقات کی اور وہ ٹھیکہ منسوخ کردیا تاہم جنرل کیانی نے آج تک گلا نہیں کیا۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ نیب نے مجھے خواجہ آصف کے خلاف گواہی دینے کو کہا، میں نے کہا کہ یہاں وعدہ معاف گواہ بننے نہیں آیا، جس کیس میں گرفتار کیا ہے اس میں تفتیش کی جائے، نیب ہر سرکاری افسر کو کہتا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جاؤ جس کے عوض ترقی ملے گی، جیل جانے سے نہیں ڈرتا، میرے خلاف الزامات پر کمیٹی بنائی جائے، مجرم نکلا تو ہر سزا قبول ہے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے شہباز شریف کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے نیب کے رویے اور کارروائیوں کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے، تاہم قانون میں اس کی ممانعت ہے، یہ عدالت نہیں، قومی اسمبلی میں یہ ڈسکس نہیں ہوسکتا کہ نیب تحقیقات قانونی ہیں یا غیر قانونی، نیب کو تحقیقات کے تحت گرفتاری کا اختیار حاصل ہے، اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو اپنی حکومت میں قانون تبدیل کردیتے، حکومت کی نیب میں کوئی مداخلت نہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ آج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی بڑی کامیابی55 روپے فی لیٹر ہیلی کاپٹر کا سفر ہے، ہم چاہتے ہیں یہ حکومت چلے اور اپنے وعدے پورے کرے، نئی حکومت کو چلانا چاہتے ہیں تاہم حکومت جمہوری روایات کو مسخ کرتی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق ملک کا قرضہ 24 بلین تھا تاہم پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو قرضہ 27 ہزار 900 بلین پر پہنچ گیا، آج آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ مہنگائی 14 فیصد پر جارہی ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت تباہ ہورہی ہے اور عوام پریشان ہیں، 2 ماہ میں ڈالر17روپے بڑھ گیا لیکن کسی کواحساس نہیں تاہم (ن) لیگ یا پیپلزپارٹی کی حکومت میں ڈالر اتنا اوپر نہیں تھا، ڈکٹیٹرز نے ملکی سالمیت کو تباہ کیا اور ملک کو توڑا، حکمران ڈکٹیٹر ملک توڑ دیتے ہیں لیکن کوئی احتساب نہیں ہوتا، سارے سوالات اور تلوار سیاستدانوں پر آکر گرتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف نے بنیادی طور پر آمر کی کوکھ سے جنم لیا، مسلم لیگ (ن) نے جس سیاسی فلسفے سے جنم لیا وہ فلسفہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی سے شروع ہوا، مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور حکومت میں جھوٹے مقدمات قائم کیے، موجودہ نیب میں پی ٹی آئی نے ایک چپڑاسی بھی بھرتی نہیں کیا، چیئرمین نیب کی تقرری پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے کی۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جب بھی وزیراعظم نے یہ بات کی کہ پچاس چوروں کو پکڑنا ہے اور چوروں کو نہیں چھوڑیں گے، تو اپوزیشن کیوں پریشان ہوجاتی ہے، یہ تین لوگ تین نسلوں سے پاکستان پر حکومت کررہے ہیں۔ جن کے پاس ایک دھیلا نہیں تھا وہ آج ارب پتی بنے ہوئے ہیں، جب کوئی فرد زیادہ عرصہ برسراقتدار رہے تو وہ خود کو ملک سے بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ انہیں لگتا ہے ہم نہ ہوں تو چین سے کیسے تعلقات ہوں گے مگر آج ہمارے ان تمام ممالک سے تعلقات مضبوط تر ہیں اور مزید مضبوط ہورہے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ فواد چوہدری میرے برخوردار ہیں، جب ہم اقتدار میں آئے تو پی پی پی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا اور اسی طرح پی پی پی حکومت نے ہمیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا، اس سے یہ ہوا کہ آمر نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، ہم نے غلطیوں سے سبق سیکھا، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ہمارے تجربے سے سیکھ لے، خود غلطیاں کرکے اپنی حکومت کو خراب اور داغدار نہ کرے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اقتدار آنے پر حکمراں بھول جاتا ہے کہ یہ چار دن کی چاندنی ہے، رعونت سے کام نہ لیں، اقتدار کے پہلے دو ماہ میں ضمنی الیکشن کے نتائج سے سبق سیکھ لیں، عمران خان جو چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کرتے تھے وہ آج بھی ن لیگ کے پاس ہیں، پی ٹی آئی جس آئی ایم ایف کو گالیاں دیتی تھی آج اسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئی، اپنے بزرگوں کی فوجی آمروں سے وابستگی پر شرمندگی ہے، میں نے کہا تھا کہ کسی فوجی آمر کی حمایت کروں تو مجھے موت آجائے، فواد چوہدری آمریت کی حمایت کا الزام لگانے سے قبل گریبان میں جھانکیں۔
آشیانہ کرپشن اسکینڈل میں شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف اپوزیشن کے مطالبے پر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں پہنچایا جہاں انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر اجلاس میں شرکت کی۔
شہباز شریف
شہباز شریف نے اپنے اوپر لگے کرپشن الزامات کی صفائیاں پیش کیں اور تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار اپوزیشن لیڈر کو بغیر الزام بھونڈے طریقے سے دھوکا دے کر گرفتار کیا گیا، پی ٹی آئی اور نیب کے درمیان چولی دامن کا ساتھ اور ناپاک گٹھ جوڑ ہے، جب کہ نیب دراصل 'نیشنل بلیک میلنگ بیورو' ہے۔
صدر ن لیگ کا کہنا تھا کہ نیب تفتیش کار نے مجھ سے کہا کہ آپ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لیکن آپ نے سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے آرمی چیف کے بھائی میجر کامران کیانی کو ٹھیکہ دلوانا چاہا تاکہ آرمی چیف کو خوش کریں، میں نے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الہی حکومت نے میجر کامران کیانی کو 35 ارب روپے کا رنگ روڈ کا ٹھیکہ دیا تھا، لیکن انہوں نے اس پر کوئی کام نہیں کیا، میں نے جنرل کیانی سے ملاقات کی اور وہ ٹھیکہ منسوخ کردیا تاہم جنرل کیانی نے آج تک گلا نہیں کیا۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ نیب نے مجھے خواجہ آصف کے خلاف گواہی دینے کو کہا، میں نے کہا کہ یہاں وعدہ معاف گواہ بننے نہیں آیا، جس کیس میں گرفتار کیا ہے اس میں تفتیش کی جائے، نیب ہر سرکاری افسر کو کہتا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جاؤ جس کے عوض ترقی ملے گی، جیل جانے سے نہیں ڈرتا، میرے خلاف الزامات پر کمیٹی بنائی جائے، مجرم نکلا تو ہر سزا قبول ہے۔
وزیر قانون
وزیر قانون فروغ نسیم نے شہباز شریف کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے نیب کے رویے اور کارروائیوں کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے، تاہم قانون میں اس کی ممانعت ہے، یہ عدالت نہیں، قومی اسمبلی میں یہ ڈسکس نہیں ہوسکتا کہ نیب تحقیقات قانونی ہیں یا غیر قانونی، نیب کو تحقیقات کے تحت گرفتاری کا اختیار حاصل ہے، اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو اپنی حکومت میں قانون تبدیل کردیتے، حکومت کی نیب میں کوئی مداخلت نہیں۔
خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ آج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی بڑی کامیابی55 روپے فی لیٹر ہیلی کاپٹر کا سفر ہے، ہم چاہتے ہیں یہ حکومت چلے اور اپنے وعدے پورے کرے، نئی حکومت کو چلانا چاہتے ہیں تاہم حکومت جمہوری روایات کو مسخ کرتی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق ملک کا قرضہ 24 بلین تھا تاہم پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو قرضہ 27 ہزار 900 بلین پر پہنچ گیا، آج آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ مہنگائی 14 فیصد پر جارہی ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت تباہ ہورہی ہے اور عوام پریشان ہیں، 2 ماہ میں ڈالر17روپے بڑھ گیا لیکن کسی کواحساس نہیں تاہم (ن) لیگ یا پیپلزپارٹی کی حکومت میں ڈالر اتنا اوپر نہیں تھا، ڈکٹیٹرز نے ملکی سالمیت کو تباہ کیا اور ملک کو توڑا، حکمران ڈکٹیٹر ملک توڑ دیتے ہیں لیکن کوئی احتساب نہیں ہوتا، سارے سوالات اور تلوار سیاستدانوں پر آکر گرتی ہے۔
وزیر اطلاعات
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف نے بنیادی طور پر آمر کی کوکھ سے جنم لیا، مسلم لیگ (ن) نے جس سیاسی فلسفے سے جنم لیا وہ فلسفہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی سے شروع ہوا، مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور حکومت میں جھوٹے مقدمات قائم کیے، موجودہ نیب میں پی ٹی آئی نے ایک چپڑاسی بھی بھرتی نہیں کیا، چیئرمین نیب کی تقرری پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے کی۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جب بھی وزیراعظم نے یہ بات کی کہ پچاس چوروں کو پکڑنا ہے اور چوروں کو نہیں چھوڑیں گے، تو اپوزیشن کیوں پریشان ہوجاتی ہے، یہ تین لوگ تین نسلوں سے پاکستان پر حکومت کررہے ہیں۔ جن کے پاس ایک دھیلا نہیں تھا وہ آج ارب پتی بنے ہوئے ہیں، جب کوئی فرد زیادہ عرصہ برسراقتدار رہے تو وہ خود کو ملک سے بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ انہیں لگتا ہے ہم نہ ہوں تو چین سے کیسے تعلقات ہوں گے مگر آج ہمارے ان تمام ممالک سے تعلقات مضبوط تر ہیں اور مزید مضبوط ہورہے ہیں۔
خواجہ آصف
خواجہ آصف نے کہا کہ فواد چوہدری میرے برخوردار ہیں، جب ہم اقتدار میں آئے تو پی پی پی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا اور اسی طرح پی پی پی حکومت نے ہمیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا، اس سے یہ ہوا کہ آمر نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، ہم نے غلطیوں سے سبق سیکھا، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ ہمارے تجربے سے سیکھ لے، خود غلطیاں کرکے اپنی حکومت کو خراب اور داغدار نہ کرے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اقتدار آنے پر حکمراں بھول جاتا ہے کہ یہ چار دن کی چاندنی ہے، رعونت سے کام نہ لیں، اقتدار کے پہلے دو ماہ میں ضمنی الیکشن کے نتائج سے سبق سیکھ لیں، عمران خان جو چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کرتے تھے وہ آج بھی ن لیگ کے پاس ہیں، پی ٹی آئی جس آئی ایم ایف کو گالیاں دیتی تھی آج اسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئی، اپنے بزرگوں کی فوجی آمروں سے وابستگی پر شرمندگی ہے، میں نے کہا تھا کہ کسی فوجی آمر کی حمایت کروں تو مجھے موت آجائے، فواد چوہدری آمریت کی حمایت کا الزام لگانے سے قبل گریبان میں جھانکیں۔