جنسی ہراسانی کے الزام پر بھارت کے مرکزی وزیر ایم جے اکبر مستعفی
مرکزی وزیر پر تین خواتین نے می ٹو مہم کے تحت جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا
جنسی ہراسانی کے مختلف الزامات کا سامنا کرنے والے بھارت کے وزیر مملکت اور نریندرا مودی کے دیرینہ ساتھی ایم جے اکبر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کے وزیر مملکت برائے خارجہ مبشر جاوید اکبر جنسی ہراسانی کے ایک سے زائد الزامات سامنے آنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ مرکزی وزیر ایم جے اکبر سیاست میں آنے سے قبل صحافت کے پیشے سے منسلک تھے اور جنسی ہراسانی کا پہلا الزام بھی اُن کی ساتھی صحافی کی جانب سے می ٹو مہم کے تحت عائد کیا گیا تھا۔
وزیر مملکت برائے خارجہ مبشر جاوید اکبر نے ایک بیان میں جنسی ہراسانی کے الزامات کو ایک بار پھر بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام الزامات کا سامنا عدالت میں کرنا چاہتا ہوں اس لیے قانون اور انصاف کے تقاضوں کو بغیر کسی دباؤ کے پورا کرنے اور شفاف تحقیقات کے لیے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر گزشتہ روز ہی وزیر مملکت برائے خارجہ نے جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی صحافی ساتھی پریا رامانی کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا جس کی سماعت 18 اکتوبر کو ہونی ہے۔ وزیر مملکت ایم جے اکبر پر مستعفی ہونے کے لیے اپوزیشن جماعت کانگریس کا شدید دباؤ تھا۔
صحافت سے سیاست کے کار زار میں قدم رکھنے والے مبشر جاوید اکبر پر اُن کی ساتھی خواتین پریا رامانی، غزالہ وہاب اور توشیتا پاٹل نے سوشل میڈیا پر می ٹو مہم کے تحت خود پر بیتی داستان بیان کی تھی جس پر وزیر مملکت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے سستی شہرت کے حصول کی ناکام کوشش سے گردانا تھا۔
مبشر جاوید اکبر نے 1976 میں ہفتہ وار سیاسی اخبار سنڈے شائع کیا تھا جب کہ دو روزہ اخبار ٹیلیگراف 1989 اور دا ایشین ایج 1994 نکالا۔ اس کے علاوہ وہ کئی مقامی اور بین الاقوامی اخبارات کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر بھی رہے۔ انہوں نے جواہر لال نہرو کی سوانح حیات کے علاوہ میکنگ آف انڈیا، کشمیر بی ہائنڈ دی ویل، فسادات کے بعد فساد اور ایک سفر نامہ سمیت کئی عالمی افسانوں کے تراجم بھی کیے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کے وزیر مملکت برائے خارجہ مبشر جاوید اکبر جنسی ہراسانی کے ایک سے زائد الزامات سامنے آنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ مرکزی وزیر ایم جے اکبر سیاست میں آنے سے قبل صحافت کے پیشے سے منسلک تھے اور جنسی ہراسانی کا پہلا الزام بھی اُن کی ساتھی صحافی کی جانب سے می ٹو مہم کے تحت عائد کیا گیا تھا۔
وزیر مملکت برائے خارجہ مبشر جاوید اکبر نے ایک بیان میں جنسی ہراسانی کے الزامات کو ایک بار پھر بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام الزامات کا سامنا عدالت میں کرنا چاہتا ہوں اس لیے قانون اور انصاف کے تقاضوں کو بغیر کسی دباؤ کے پورا کرنے اور شفاف تحقیقات کے لیے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر گزشتہ روز ہی وزیر مملکت برائے خارجہ نے جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی صحافی ساتھی پریا رامانی کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا جس کی سماعت 18 اکتوبر کو ہونی ہے۔ وزیر مملکت ایم جے اکبر پر مستعفی ہونے کے لیے اپوزیشن جماعت کانگریس کا شدید دباؤ تھا۔
صحافت سے سیاست کے کار زار میں قدم رکھنے والے مبشر جاوید اکبر پر اُن کی ساتھی خواتین پریا رامانی، غزالہ وہاب اور توشیتا پاٹل نے سوشل میڈیا پر می ٹو مہم کے تحت خود پر بیتی داستان بیان کی تھی جس پر وزیر مملکت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے سستی شہرت کے حصول کی ناکام کوشش سے گردانا تھا۔
مبشر جاوید اکبر نے 1976 میں ہفتہ وار سیاسی اخبار سنڈے شائع کیا تھا جب کہ دو روزہ اخبار ٹیلیگراف 1989 اور دا ایشین ایج 1994 نکالا۔ اس کے علاوہ وہ کئی مقامی اور بین الاقوامی اخبارات کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر بھی رہے۔ انہوں نے جواہر لال نہرو کی سوانح حیات کے علاوہ میکنگ آف انڈیا، کشمیر بی ہائنڈ دی ویل، فسادات کے بعد فساد اور ایک سفر نامہ سمیت کئی عالمی افسانوں کے تراجم بھی کیے۔