ہرے رنگ کی چادر
یہ آرٹ کونسل کی اپنی پیش کش تھی اور اسے ٹکٹ کے بجائے دعوت ناموں کے ذریعے دکھایا گیا۔
الحمرا آرٹ کونسل کے ہال نمبر 2 میں یکم سے دس اکتوبر تک ''ہرے رنگ کی چادر'' کے نام سے ایک اسٹیج ڈرامہ پیش کیا گیا جس کا مقصد اچھا ڈرامہ دیکھنے کے شوقین اور ان فیملیز کو واپس لانا تھا جو ڈرامے کے نام پر پھیلائی جانے والی بے حیائی اور انتہائی گھٹیا درجے کے پھکڑپن اور بازاری جملوں کی وجہ سے اس سے قطع تعلق کرچکے تھے۔
یہ آرٹ کونسل کی اپنی پیش کش تھی اور اسے ٹکٹ کے بجائے دعوت ناموں کے ذریعے دکھایا گیا۔ یہ کھیل میرے ایک ٹی وی ڈرامے ''یا نصیب کلینک'' کا اسٹیج ورژن تھا جو 1975ء میں ''زندگی اے زندگی'' نامی سیریز میں لاہور سینٹر سے پیش کیا گیا تھا اور جس کے ہدایت کار کنور آفتاب احمد مرحوم تھے جب کہ اس کے بیشتر واقعات اور کردار خود ان کے ذاتی تجربے سے گزر چکے تھے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے آپریشن کے سلسلے میں انھیں تین چار دن ایک ایسے پرائیویٹ کلینک میں رہنا پڑا جس کی کوئی چیز اپنی صحیح جگہ پر نہیں تھی۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح ایک نرس بڑے مضحکہ خیز انداز میں بار بار ان کے کمرے میں ایک ہرے رنگ کی چادر ڈھونڈتی ہوئی آتی تھی اور اردگرد کے مارے مریض یہ جان کر کہ وہ ایک ٹی وی پروڈیوسر ہیں انھیں اپنی ''فن کارانہ'' صلاحیتوں سے امپریس کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
باتوں باتوں میں پروگرام بنا کہ کیوں نہ اسے ایک مزاحیہ ڈرامے کی شکل دی جائے، سو ایک پلاٹ ترتیب دیا گیا جس میں کچھ اصلی واقعات میں ترمیم و اضافے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی کہانی بنائی گئی جس میں کئی نئے کردار اور واقعات شامل تھے۔ یہ کھیل بے حد مقبول ہوا اور مرحومہ ''رومانہ'' (جو اس ڈرامے میں نرس بنی تھی) کا یہ جملہ ''آپ کے کمرے میں کوئی ہرے رنگ کی چادر ہے'' تو بہت دنوں تک زبان زد عام رہا۔
اسی طرح 1986ء میں جب میں نے اسے ''کس کو کہہ رہے ہو'' کے نام سے اسٹیج کے تقاضوں کے مطابق نئی شکل دی تو لوگوں نے اسے بھی بہت پسند کیا۔ اس وقت اس کے اداکاروں میں عابد علی، فردوس جمال، وسیم عباس، بندیا، حامد رانا، رومانہ، انور علی، ثروت عتیق، نگہت بٹ اور خالد عباس ڈار شامل تھے۔
بھائی فرقان حیدر اور عمر شریف نے اسے کراچی اور کچھ اور دوستوں نے مختلف جگہوں پر بھی پیش کیا مگر ہوا یہ کہ اس دوران میں اسٹیج ڈرامہ آہستہ آہستہ گراوٹ اور غیر سنجیدگی کا شکار ہونا شروع ہوگیا اور اس کا معیار اس قدر گرا اور ماحول ایسا خراب ہوگیا کہ ڈرامے کے اصل ناظرین غائب ہوگئے اور ان کی جگہ ایسے ''تماش بینوں'' نے لے لی جنہوں نے اسے رقص کے نام پر مجرے اور مزاح کے نام پر یاوہ گوئی کا مجموعہ بناکر رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر میری طرح اور بھی کچھ ڈرامہ نگاروں نے اسٹیج کے لیے نہ صرف لکھنا بند کردیا بلکہ اپنے پرانے کھیلوں کی نمائش پر بھی پابندی عائد کردی اور ہر طرح کے دباؤ اور فرمائش کے باوجود اس پر قائم رہے۔
کوئی دس برس قبل پنجاب یونیورٹی شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے پروفیسر اور میرے عزیز نوجوان دوست ڈاکٹر احمد بلال نے جو اس وقت صرف احمد بلال تھے اور پی ایچ ڈی کے لیے تیاری کررہے تھے اپنے ڈرامہ گروپ ''ناٹک'' کے لیے یہ کھیل اسٹیج کرنے کی اس دلیل کے ساتھ اجازت لے لی کہ اگر سارا اچھا کام بند ہوگیا تو پھر اس خلا کو جس طرح کا ڈرامہ پر کرے گا وہ اس سے بھی زیادہ منفی اور خرابی کا باعث ہوگا۔
ڈرامہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور اچھے ناظرین اور فیملیوں کی کسی حد تک واپسی بھی ہوئی مگر اس کا تسلسل جاری نہ رہ سکا کہ احمد بلال چار سال کے لیے اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں انگلینڈ چلے گئے اور مجھے کوئی اور ایسا گروپ نہ مل سکا جس پر میں اعتبار کرسکتا۔
سو الحمرا آرٹ کونسل کی اکا دکا کوششوں سے قلع نظر تھیٹر کی مجموعی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ پھر یوں ہوا کہ سیاسی ماحول میں ''تبدیلی'' کے نعروں کے زیر اثر ایک بار پھر ''ناٹک'' والوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور آگے چل کر اس اصرار میں الحمرا آرٹ کونسل کے چیئرمین توقیر ناصر، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیپٹن (ر) عطا محمد اور ڈائریکٹر پروگرام ہمارے مصور دوست ذوالفقار زلفی بھی شامل ہوگئے اور یوں ایک بار پھر اس کھیل کو چند جزوی تبدیلیوں اور نئے نام کے ساتھ پیش کرنے کی فضا بنتی چلی گئی۔
اتفاق سے اس کا پہلا شو اسی دن تھا جب ہمارے دوست کیپٹن عطا محمد طویل سرکاری ملازمت کے بعد ریٹائر ہورہے تھے۔ کیپٹن عطا بہت اچھے شاعر اور انسان تو ہیں ہی مگر الحمرا آرٹ کونسل جیسے فنون لطیفہ کے نمایندہ ادارے کو جس خوبی، سلیقے اور تخلیقی انداز میں انھوں نے چلایا وہ بلا شبہ لائق تعریف ہے کہ معاشرے کی عمومی فضا، سرکار کے رویہ اور ناقدین کی حوصلہ شکنی کے درمیان اس کے معیار اور کارکردگی کو برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
اب امید کی جانی چاہیے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا اور نوجوان نئے اور کمٹڈ ڈرامہ گروپس کی حوصلہ افزائی کے ذریعے تھیٹر کو اس کے صحیح مقام پر واپس لانے کی سنجیدہ اور مسلسل کوششیں جاری رہیں گی کہ ایسا نہ کرنے کے نتیجے میں تھیٹر ہی نہیں ہمارا پورا معاشرہ ابتذال کا شکار ہورہا ہے۔
میں ذاتی طور پر الحمرا کی ٹیم بالخصوص توقیر ناصر، کیپٹن عطا اور ذوالفقار زلفی کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے نہ صرف اس کھیل کو اپنی نگرانی میں اور اپنی طرف سے پیش کیا بلکہ ''ناٹک'' کی ٹیم کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں بھی پیش پیش رہے۔ اب اس کے تسلسل میں یہ پروگرام بنایا گیا ہے کہ ''ناٹک'' کی طرف سے نوجوان نسل کے تخلیقی مزاح، سوچ اور ارادے کو تقویت اور مدد فراہم کی جائے اور اس کام میں الحمرا آرٹ کونسل کی سرپرستی بھی ان کو مہیا رہے۔
ابتدائی طور پر قومی، معاشرتی اور تہذیبی مسائل پر ایک سے لے کر تین منٹ تک کی مختصر فلموںکی پروڈکشن کی جائے گی جس کے لیے ہر طرح کی سہولیات ''ناٹک'' انھیں بلاقیمت فراہم کرے گا اور یوں سوشل میڈیا کی معرفت افراد کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اور معاشرے اور ملک سے محبت اور اس پر فخر کے ایسے پہلوؤں کو موثر اور خوب صورت انداز میں پیش کیا جائے گا کہ ہماری آیندہ نسلیں اس تربیت سے بہرہ ور ہوسکیں جو بدقسمتی سے نہ ان کو گھروں سے مل رہی ہے نہ اپنے تعلیمی اداروں اور ماحول سے اور نہ ہی میڈیا سے۔
یہ آرٹ کونسل کی اپنی پیش کش تھی اور اسے ٹکٹ کے بجائے دعوت ناموں کے ذریعے دکھایا گیا۔ یہ کھیل میرے ایک ٹی وی ڈرامے ''یا نصیب کلینک'' کا اسٹیج ورژن تھا جو 1975ء میں ''زندگی اے زندگی'' نامی سیریز میں لاہور سینٹر سے پیش کیا گیا تھا اور جس کے ہدایت کار کنور آفتاب احمد مرحوم تھے جب کہ اس کے بیشتر واقعات اور کردار خود ان کے ذاتی تجربے سے گزر چکے تھے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے آپریشن کے سلسلے میں انھیں تین چار دن ایک ایسے پرائیویٹ کلینک میں رہنا پڑا جس کی کوئی چیز اپنی صحیح جگہ پر نہیں تھی۔ انھوں نے بتایا کہ کس طرح ایک نرس بڑے مضحکہ خیز انداز میں بار بار ان کے کمرے میں ایک ہرے رنگ کی چادر ڈھونڈتی ہوئی آتی تھی اور اردگرد کے مارے مریض یہ جان کر کہ وہ ایک ٹی وی پروڈیوسر ہیں انھیں اپنی ''فن کارانہ'' صلاحیتوں سے امپریس کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
باتوں باتوں میں پروگرام بنا کہ کیوں نہ اسے ایک مزاحیہ ڈرامے کی شکل دی جائے، سو ایک پلاٹ ترتیب دیا گیا جس میں کچھ اصلی واقعات میں ترمیم و اضافے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی کہانی بنائی گئی جس میں کئی نئے کردار اور واقعات شامل تھے۔ یہ کھیل بے حد مقبول ہوا اور مرحومہ ''رومانہ'' (جو اس ڈرامے میں نرس بنی تھی) کا یہ جملہ ''آپ کے کمرے میں کوئی ہرے رنگ کی چادر ہے'' تو بہت دنوں تک زبان زد عام رہا۔
اسی طرح 1986ء میں جب میں نے اسے ''کس کو کہہ رہے ہو'' کے نام سے اسٹیج کے تقاضوں کے مطابق نئی شکل دی تو لوگوں نے اسے بھی بہت پسند کیا۔ اس وقت اس کے اداکاروں میں عابد علی، فردوس جمال، وسیم عباس، بندیا، حامد رانا، رومانہ، انور علی، ثروت عتیق، نگہت بٹ اور خالد عباس ڈار شامل تھے۔
بھائی فرقان حیدر اور عمر شریف نے اسے کراچی اور کچھ اور دوستوں نے مختلف جگہوں پر بھی پیش کیا مگر ہوا یہ کہ اس دوران میں اسٹیج ڈرامہ آہستہ آہستہ گراوٹ اور غیر سنجیدگی کا شکار ہونا شروع ہوگیا اور اس کا معیار اس قدر گرا اور ماحول ایسا خراب ہوگیا کہ ڈرامے کے اصل ناظرین غائب ہوگئے اور ان کی جگہ ایسے ''تماش بینوں'' نے لے لی جنہوں نے اسے رقص کے نام پر مجرے اور مزاح کے نام پر یاوہ گوئی کا مجموعہ بناکر رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر میری طرح اور بھی کچھ ڈرامہ نگاروں نے اسٹیج کے لیے نہ صرف لکھنا بند کردیا بلکہ اپنے پرانے کھیلوں کی نمائش پر بھی پابندی عائد کردی اور ہر طرح کے دباؤ اور فرمائش کے باوجود اس پر قائم رہے۔
کوئی دس برس قبل پنجاب یونیورٹی شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے پروفیسر اور میرے عزیز نوجوان دوست ڈاکٹر احمد بلال نے جو اس وقت صرف احمد بلال تھے اور پی ایچ ڈی کے لیے تیاری کررہے تھے اپنے ڈرامہ گروپ ''ناٹک'' کے لیے یہ کھیل اسٹیج کرنے کی اس دلیل کے ساتھ اجازت لے لی کہ اگر سارا اچھا کام بند ہوگیا تو پھر اس خلا کو جس طرح کا ڈرامہ پر کرے گا وہ اس سے بھی زیادہ منفی اور خرابی کا باعث ہوگا۔
ڈرامہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور اچھے ناظرین اور فیملیوں کی کسی حد تک واپسی بھی ہوئی مگر اس کا تسلسل جاری نہ رہ سکا کہ احمد بلال چار سال کے لیے اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں انگلینڈ چلے گئے اور مجھے کوئی اور ایسا گروپ نہ مل سکا جس پر میں اعتبار کرسکتا۔
سو الحمرا آرٹ کونسل کی اکا دکا کوششوں سے قلع نظر تھیٹر کی مجموعی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ پھر یوں ہوا کہ سیاسی ماحول میں ''تبدیلی'' کے نعروں کے زیر اثر ایک بار پھر ''ناٹک'' والوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور آگے چل کر اس اصرار میں الحمرا آرٹ کونسل کے چیئرمین توقیر ناصر، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیپٹن (ر) عطا محمد اور ڈائریکٹر پروگرام ہمارے مصور دوست ذوالفقار زلفی بھی شامل ہوگئے اور یوں ایک بار پھر اس کھیل کو چند جزوی تبدیلیوں اور نئے نام کے ساتھ پیش کرنے کی فضا بنتی چلی گئی۔
اتفاق سے اس کا پہلا شو اسی دن تھا جب ہمارے دوست کیپٹن عطا محمد طویل سرکاری ملازمت کے بعد ریٹائر ہورہے تھے۔ کیپٹن عطا بہت اچھے شاعر اور انسان تو ہیں ہی مگر الحمرا آرٹ کونسل جیسے فنون لطیفہ کے نمایندہ ادارے کو جس خوبی، سلیقے اور تخلیقی انداز میں انھوں نے چلایا وہ بلا شبہ لائق تعریف ہے کہ معاشرے کی عمومی فضا، سرکار کے رویہ اور ناقدین کی حوصلہ شکنی کے درمیان اس کے معیار اور کارکردگی کو برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
اب امید کی جانی چاہیے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا اور نوجوان نئے اور کمٹڈ ڈرامہ گروپس کی حوصلہ افزائی کے ذریعے تھیٹر کو اس کے صحیح مقام پر واپس لانے کی سنجیدہ اور مسلسل کوششیں جاری رہیں گی کہ ایسا نہ کرنے کے نتیجے میں تھیٹر ہی نہیں ہمارا پورا معاشرہ ابتذال کا شکار ہورہا ہے۔
میں ذاتی طور پر الحمرا کی ٹیم بالخصوص توقیر ناصر، کیپٹن عطا اور ذوالفقار زلفی کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے نہ صرف اس کھیل کو اپنی نگرانی میں اور اپنی طرف سے پیش کیا بلکہ ''ناٹک'' کی ٹیم کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی میں بھی پیش پیش رہے۔ اب اس کے تسلسل میں یہ پروگرام بنایا گیا ہے کہ ''ناٹک'' کی طرف سے نوجوان نسل کے تخلیقی مزاح، سوچ اور ارادے کو تقویت اور مدد فراہم کی جائے اور اس کام میں الحمرا آرٹ کونسل کی سرپرستی بھی ان کو مہیا رہے۔
ابتدائی طور پر قومی، معاشرتی اور تہذیبی مسائل پر ایک سے لے کر تین منٹ تک کی مختصر فلموںکی پروڈکشن کی جائے گی جس کے لیے ہر طرح کی سہولیات ''ناٹک'' انھیں بلاقیمت فراہم کرے گا اور یوں سوشل میڈیا کی معرفت افراد کی اخلاقی اور ذہنی تربیت اور معاشرے اور ملک سے محبت اور اس پر فخر کے ایسے پہلوؤں کو موثر اور خوب صورت انداز میں پیش کیا جائے گا کہ ہماری آیندہ نسلیں اس تربیت سے بہرہ ور ہوسکیں جو بدقسمتی سے نہ ان کو گھروں سے مل رہی ہے نہ اپنے تعلیمی اداروں اور ماحول سے اور نہ ہی میڈیا سے۔