غیر قانونی تعمیرات
ایس بی سی اے کے انسپکٹر بھاری رشوت لے کر منہ بند رکھتے ہیں اور غیر قانونی تعمیرات ہونے دیتے ہیں۔
واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر مسلم ہانی نے کہا ہے کہ سندھ اور خاص کر کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کا واحد ذمے دار سرکاری ادارہ ایس بی سی اے ہے جس کے افسران کی سرپرستی اور ملی بھگت کے بغیر غیر قانونی تعمیرات ہو ہی نہیں سکتیں۔ یہ ریمارکس سو فیصد درست ہیں۔
پہلے کراچی میں کے بی سی اے یعنی کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہوا کرتی تھی جو بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں سندھ کی وزارت بلدیات کا حصہ تھی اور وزارت ہاؤسنگ بھی محکمہ بلدیات کا حصہ تھی۔ 1971ء میں سندھ میں پی پی کی پہلی حکومت میں جام صادق علی بااختیار وزیر بلدیات تھے اور سرکاری پلاٹ الاٹ کرنے میں اس قدر فیاض تھے کہ وزیر اعظم بھٹو کو انھیں کہنا پڑا تھا کہ جام صاحب احتیاط کریں کہیں مزار قائد بھی مت فروخت کر دینا۔
1988ء میں جب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تو آصف زرداری کے انتہائی بااعتماد ساتھی آغا سراج درانی کو سندھ کا وزیر بلدیات بنایا گیا تھا جن کے پاس ہاؤسنگ کا محکمہ ہونے کے باعث کے بی سی اے بھی تھا اور وہ محکمہ بلدیات کے مکمل با اختیار وزیر تھے۔ جنھوں نے بھی جام صادق کی طرح پلاٹ تقسیم کیے مگر بعد میں بینظیر کی تیسری حکومت سندھ میں قائم ہوئی تو محکمہ بلدیات کو تقسیم کیا جا چکا تھا اور ہاؤسنگ، کچی آبادی اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی نئی وزارتیں وجود میں آ چکی تھیں۔ تو آغا سراج نے تعلیم کا وزیر بننا پسند کیا تھا جو اہم محکمہ تھا۔
2008ء میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں آغا سراج درانی کو وزیر بلدیات بنایا گیا تو ہاؤسنگ کچی آبادی اور پبلک ہیلتھ کی وزارتیں پھر محکمہ بلدیات کے کنٹرول میں آگئیں، تو کے بی سی اے بھی محکمہ بلدیات کا حصہ بن چکا تھا، جب کہ سٹی حکومت میں یہ محکمہ بے اختیار ہو گیا تھا اور تمام بلدیاتی معاملات سٹی حکومت کراچی کے پاس تھے جو جنرل پرویز مشرف کے با اختیار ضلع نظام میں نہایت اہم فیصلہ تھا جس میں کمشنری نظام ختم کر کے کمشنروں کو ڈی سی او اور ڈپٹی کمشنروں کو چھوٹے اضلاع میں ڈی سی او اور بڑے اضلاع میں ای ڈی اوز بناکر ضلع ناظمین کے ماتحت کر دیا گیا تھا اور پہلی بار اختیارات کی حقیقی منتقلی ہوئی تھی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جمہوریت کی دعویدار بس نام کی حد تک ہیں اور بااختیار بلدیاتی نظام کی مخالف ہی نہیں بلکہ دشمن ہیں اور عوام کے نچلی سطح کے اختیارات بھی بلدیاتی عہدیداروں کو نہیں دیتیں بلکہ دونوں کمشنری نظام کی حامی بلکہ ان کی غلامی پسند کرتی ہیں۔ دونوں نے پنجاب اور سندھ میں 2008ء میں بااختیار ضلع نظام کی جگہ 1979ء کا جنرل ضیا الحق کا بلدیاتی نظام اور کمشنری نظام بحال کر کے جمہوریت کی نرسری کہلانے والے بلدیاتی نظام کو مفلوج اور بے اختیار کر دیا تھا جس کے بعد بے اختیار محکمہ بلدیات پھر مکمل با اختیار بنا دیا گیا۔
وزیر بلدیات آغا سراج کے بی سی اے میں ہونے والی کرپشن اور کمائی جانتے تھے اس لیے انھوں نے اندھی کمائی کا یہ شعبہ سندھ تک وسیع کر کے ایس بی سی اے کو پورے سندھ تک وسیع کر دیا تھا اور اپنے بااعتماد افسر منظور علی کاکا کو پورے سندھ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا تھا جو کرپشن کے الزام میں ملک سے بھاگا ہوا ہے۔
جس پر اربوں روپے کی کرپشن کے مبینہ طور پر الزامات ہیں جس نے سندھ کے ہر ڈویژن اور کراچی کے ہر ٹاؤن میں اپنے بااعتماد ڈائریکٹر لگا کر ایس بی سی اے میں اندھا دھند کمائی کے لیے سندھ اور خاص طور پر کراچی و حیدرآباد میں غیر قانونی تعمیرات کرائی تھیں۔ ایس بی سی اے واحد ادارہ ہے جس کو نقشوں کی مد میں جو سرکاری طور پر رقم وصول ہوتی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے جو وہ عملے کی تنخواہوں پر خرچ کرتی ہے اور کے بی سی اے کے افسروں کو تنخواہ کی کوئی فکر نہیں ہوتی اسی لیے کبھی دیگر بلدیاتی اداروں کی طرح ایس بی سی اے میں تنخواہیں نہ ملنے یا تاخیر کی بھی کوئی شکایت ہی پیدا نہیں ہوئی۔
ایس بی سی اے محکمہ بلدیات کا سب سے زیادہ اوپر کی کمائی کا محکمہ ہے جہاں تقرر و تعیناتی میرٹ یا اصول پر نہیں بلکہ بڑی سفارش اور لاکھوں روپے کی رشوت پر ہوتی ہے اور اسی وجہ سے کراچی کے بڑے ٹاؤنز میں ایک سے زائد ڈائریکٹر نہ صرف تعینات ہیں بلکہ ڈپٹی ڈائریکٹروں کے پاس ڈائریکٹروں کا چارج ہے جس کی مثال جمشید ٹاؤن ہے جہاں ڈائریکٹروں کی جگہ دو ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر تھے جن میں ایک شکایات بڑھ جانے پر معطل کیا گیا ہے۔
ایس بی سی اے اب سرکاری ادارہ نہیں مافیا بنا ہوا ہے۔ ایس بی سی اے کو فیس کی مد میں اگر کسی نقشے کی فیس کے دس ہزار ملتے ہیں تو عملے کو ملنے والی رشوت کی رقم نوے ہزار ہوتی ہے۔ 80 گز اور 120 گز کے مکانات تو یہاں اہمیت کم رکھتے ہیں مگر اہمیت دو سو گز کے پلاٹوں اور مکانوں اور فلیٹوں کی بڑی بڑی عمارتوں کی ہوتی ہے۔ ایس بی اے سی میں رشوت کی بڑی وجہ اس کے سخت قوانین ہیں جن پر عمل ہو تو ایک گھر نہیں بنایا جا سکتا اس لیے بھاری رشوت پر نقشے غیر قانونی طور منظور کرائے جاتے ہیں۔
ایس بی سی اے کے انسپکٹر بھاری رشوت لے کر منہ بند رکھتے ہیں اور غیر قانونی تعمیرات ہونے دیتے ہیں اور اگر کوئی رشوت کے بغیر غیر قانونی تعمیرات کر لے تو وہ منہدم کرانے میں دیر نہیں ہوتی اور غیر قانونی تعمیرات افسروں کی سرپرستی میں دن رات کام کر کے مکمل کرا دی جاتی ہیں کیونکہ رہائش کے بعد انہدامی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ غیر قانونی تعمیرات کی مافیا میں افسروں کے علاوہ نام نہاد این جی اوز، میڈیا بلیک میلر، بعض وکلا اور عدالتی عملہ بھی ملوث ہے جنھیں ایس بی سی اے میں اہمیت ملتی ہے اور ان کے اپنے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی ایس بی سی اے ہیڈ آفس میں داخل نہیں ہو سکتا اور اب غیر قانونی تعمیرات ٹھیکے پر بھی دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کراچی ملک بھر میں غیر قانونی تعمیرات میں سب سے آگے ہے اور کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔
پہلے کراچی میں کے بی سی اے یعنی کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہوا کرتی تھی جو بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں سندھ کی وزارت بلدیات کا حصہ تھی اور وزارت ہاؤسنگ بھی محکمہ بلدیات کا حصہ تھی۔ 1971ء میں سندھ میں پی پی کی پہلی حکومت میں جام صادق علی بااختیار وزیر بلدیات تھے اور سرکاری پلاٹ الاٹ کرنے میں اس قدر فیاض تھے کہ وزیر اعظم بھٹو کو انھیں کہنا پڑا تھا کہ جام صاحب احتیاط کریں کہیں مزار قائد بھی مت فروخت کر دینا۔
1988ء میں جب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تو آصف زرداری کے انتہائی بااعتماد ساتھی آغا سراج درانی کو سندھ کا وزیر بلدیات بنایا گیا تھا جن کے پاس ہاؤسنگ کا محکمہ ہونے کے باعث کے بی سی اے بھی تھا اور وہ محکمہ بلدیات کے مکمل با اختیار وزیر تھے۔ جنھوں نے بھی جام صادق کی طرح پلاٹ تقسیم کیے مگر بعد میں بینظیر کی تیسری حکومت سندھ میں قائم ہوئی تو محکمہ بلدیات کو تقسیم کیا جا چکا تھا اور ہاؤسنگ، کچی آبادی اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی نئی وزارتیں وجود میں آ چکی تھیں۔ تو آغا سراج نے تعلیم کا وزیر بننا پسند کیا تھا جو اہم محکمہ تھا۔
2008ء میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں آغا سراج درانی کو وزیر بلدیات بنایا گیا تو ہاؤسنگ کچی آبادی اور پبلک ہیلتھ کی وزارتیں پھر محکمہ بلدیات کے کنٹرول میں آگئیں، تو کے بی سی اے بھی محکمہ بلدیات کا حصہ بن چکا تھا، جب کہ سٹی حکومت میں یہ محکمہ بے اختیار ہو گیا تھا اور تمام بلدیاتی معاملات سٹی حکومت کراچی کے پاس تھے جو جنرل پرویز مشرف کے با اختیار ضلع نظام میں نہایت اہم فیصلہ تھا جس میں کمشنری نظام ختم کر کے کمشنروں کو ڈی سی او اور ڈپٹی کمشنروں کو چھوٹے اضلاع میں ڈی سی او اور بڑے اضلاع میں ای ڈی اوز بناکر ضلع ناظمین کے ماتحت کر دیا گیا تھا اور پہلی بار اختیارات کی حقیقی منتقلی ہوئی تھی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جمہوریت کی دعویدار بس نام کی حد تک ہیں اور بااختیار بلدیاتی نظام کی مخالف ہی نہیں بلکہ دشمن ہیں اور عوام کے نچلی سطح کے اختیارات بھی بلدیاتی عہدیداروں کو نہیں دیتیں بلکہ دونوں کمشنری نظام کی حامی بلکہ ان کی غلامی پسند کرتی ہیں۔ دونوں نے پنجاب اور سندھ میں 2008ء میں بااختیار ضلع نظام کی جگہ 1979ء کا جنرل ضیا الحق کا بلدیاتی نظام اور کمشنری نظام بحال کر کے جمہوریت کی نرسری کہلانے والے بلدیاتی نظام کو مفلوج اور بے اختیار کر دیا تھا جس کے بعد بے اختیار محکمہ بلدیات پھر مکمل با اختیار بنا دیا گیا۔
وزیر بلدیات آغا سراج کے بی سی اے میں ہونے والی کرپشن اور کمائی جانتے تھے اس لیے انھوں نے اندھی کمائی کا یہ شعبہ سندھ تک وسیع کر کے ایس بی سی اے کو پورے سندھ تک وسیع کر دیا تھا اور اپنے بااعتماد افسر منظور علی کاکا کو پورے سندھ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا تھا جو کرپشن کے الزام میں ملک سے بھاگا ہوا ہے۔
جس پر اربوں روپے کی کرپشن کے مبینہ طور پر الزامات ہیں جس نے سندھ کے ہر ڈویژن اور کراچی کے ہر ٹاؤن میں اپنے بااعتماد ڈائریکٹر لگا کر ایس بی سی اے میں اندھا دھند کمائی کے لیے سندھ اور خاص طور پر کراچی و حیدرآباد میں غیر قانونی تعمیرات کرائی تھیں۔ ایس بی سی اے واحد ادارہ ہے جس کو نقشوں کی مد میں جو سرکاری طور پر رقم وصول ہوتی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے جو وہ عملے کی تنخواہوں پر خرچ کرتی ہے اور کے بی سی اے کے افسروں کو تنخواہ کی کوئی فکر نہیں ہوتی اسی لیے کبھی دیگر بلدیاتی اداروں کی طرح ایس بی سی اے میں تنخواہیں نہ ملنے یا تاخیر کی بھی کوئی شکایت ہی پیدا نہیں ہوئی۔
ایس بی سی اے محکمہ بلدیات کا سب سے زیادہ اوپر کی کمائی کا محکمہ ہے جہاں تقرر و تعیناتی میرٹ یا اصول پر نہیں بلکہ بڑی سفارش اور لاکھوں روپے کی رشوت پر ہوتی ہے اور اسی وجہ سے کراچی کے بڑے ٹاؤنز میں ایک سے زائد ڈائریکٹر نہ صرف تعینات ہیں بلکہ ڈپٹی ڈائریکٹروں کے پاس ڈائریکٹروں کا چارج ہے جس کی مثال جمشید ٹاؤن ہے جہاں ڈائریکٹروں کی جگہ دو ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر تھے جن میں ایک شکایات بڑھ جانے پر معطل کیا گیا ہے۔
ایس بی سی اے اب سرکاری ادارہ نہیں مافیا بنا ہوا ہے۔ ایس بی سی اے کو فیس کی مد میں اگر کسی نقشے کی فیس کے دس ہزار ملتے ہیں تو عملے کو ملنے والی رشوت کی رقم نوے ہزار ہوتی ہے۔ 80 گز اور 120 گز کے مکانات تو یہاں اہمیت کم رکھتے ہیں مگر اہمیت دو سو گز کے پلاٹوں اور مکانوں اور فلیٹوں کی بڑی بڑی عمارتوں کی ہوتی ہے۔ ایس بی اے سی میں رشوت کی بڑی وجہ اس کے سخت قوانین ہیں جن پر عمل ہو تو ایک گھر نہیں بنایا جا سکتا اس لیے بھاری رشوت پر نقشے غیر قانونی طور منظور کرائے جاتے ہیں۔
ایس بی سی اے کے انسپکٹر بھاری رشوت لے کر منہ بند رکھتے ہیں اور غیر قانونی تعمیرات ہونے دیتے ہیں اور اگر کوئی رشوت کے بغیر غیر قانونی تعمیرات کر لے تو وہ منہدم کرانے میں دیر نہیں ہوتی اور غیر قانونی تعمیرات افسروں کی سرپرستی میں دن رات کام کر کے مکمل کرا دی جاتی ہیں کیونکہ رہائش کے بعد انہدامی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ غیر قانونی تعمیرات کی مافیا میں افسروں کے علاوہ نام نہاد این جی اوز، میڈیا بلیک میلر، بعض وکلا اور عدالتی عملہ بھی ملوث ہے جنھیں ایس بی سی اے میں اہمیت ملتی ہے اور ان کے اپنے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی ایس بی سی اے ہیڈ آفس میں داخل نہیں ہو سکتا اور اب غیر قانونی تعمیرات ٹھیکے پر بھی دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کراچی ملک بھر میں غیر قانونی تعمیرات میں سب سے آگے ہے اور کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔