شہری پانی کو ترس گئے
بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ دائمی مرض بنتا جارہا ہے
دریائے سندھ کے کنارے آباد تاریخی و سیاسی اہمیت کے حامل سکھر شہر کے باسیوں کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ خدا کی بے پناہ نعمتوں، وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے شروع کردہ منصوبوں کے باوجود شہری آج بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔
مشکلات میں گھرے اس ضلع کو اگر مسائلستان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کبھی گیس و بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ تو کبھی نکاسی آب کا مسئلہ۔ شہر میں تجاوزات کی بھرمار ان مسائل کے علاوہ ہے۔ ان تمام مسائل سے ہٹ کر ایک اور مسئلہ جو اب دائمی مرض کی صورت اختیار کر چکا ہے وہ پانی کی عدم فراہمی ہے۔ یکم جنوری 2011ء میں سکھر، روہڑی، نیا سکھر میں لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی اور ڈرینیج سسٹم کو بہتر بنانے کا ذمہ لینے والی نساسک انتظامیہ تاحال اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آتی ہے۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے تین سو ملین ڈالر قرض کو بہتر انداز سے خرچ نہ کیے جانے کے باعث نت نئی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ نساسک افسران و اہلکاروں کی جانب سے بے پناہ وسائل استعمال کرنے کے باوجود سکھر اور روہڑی کے گنجان آباد علاقوں کے مکین اب بھی پانی کے حصول سے محروم ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جس دن علاقہ مکین پانی کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج نہ کرتے ہوں۔ موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی دریائے سندھ میں سطح آب انتہائی کم ہونے، دریا کے داہنے طرف ضرورت سے زیادہ مٹی جمع ہونے اور واٹر ورکس تک ضرورت کے مطابق 50 کیوسک پانی نہ پہنچنے کے باعث پینے کے صاف پانی کا بحران پیدا ہوا جس پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
شدید گرمی اور تپتی دھوپ میں مرد، خواتین اور معصوم بچوں کی بڑی تعداد ہاتھوں میں برتن اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے، جب کہ مختلف مقامات پر قائم فلٹریشن پلانٹس اور ہینڈ پمپوں پر بھی پانی کے حصول کے لیے لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ مغل کالونی اور انصاری محلہ کے مکینوں نے اس موقع پر ہاتھوں میں برتن اٹھا کر شدید احتجاج کیا۔ مظاہرے میں شامل عرفان، ارشد، فہیم، شرافت و دیگر کا کہنا تھا کہ ایک طرف قیامت خیز گرمی ہے تو دوسری طرف لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی نہیں مل رہا۔ گھروں میں پانی نہ ہونے کے سبب نظام زندگی درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم لوگ کام پر جانے کے بجائے دن بھر پانی کے حصول کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، نگراں حکومت کے دوران کمشنر، ڈپٹی کمشنر و دیگر اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہونے والے افسران بھی شہریوں کو اس مصیبت سے چھٹکارہ نہ دلا سکے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ موسم گرما میں سکھر کے مکینوں کو حصول آب میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، بلکہ ایک طویل عرصے سے سکھر کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی و فراہمی آب کا بہتر نظام نہ ہونے اور گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور یہ تمام چیزیں ایک دائمی مرض کی شکل اختیار کر چکی ہیں جس کی بنیادی وجہ نساسک، سیپکو، پبلک ہیلتھ، میونسپل کارپوریشن، کمشنر، ڈپٹی کمشنر کے دفاتر میں فرائض انجام دینے والے وہ افسران جو اپنے فرائض بہتر طور پر انجام نہیں دیتے۔
نگراں وفاقی حکومت کے تمام تر دعوئوں کے برعکس سکھر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں گرمی کی شدت کے دوران بجلی کی طلب و رسد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا ہے، جس کے بعد سیپکو انتظامیہ نے لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ کر دیا جب کہ وولٹیج کی کمی بیشی کی وجہ سے الیکٹرونک اشیاء ناکارہ ہونے کے نتیجے میں صارفین کو شدید مالی نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑ رہا ہے، جس پر صارفین میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مختلف مقامات پر سیپکو کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ سڑکوں پر ٹائر جلا کر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ شکارپور روڈ پر ناکارہ ٹرانسفارمر درست نہ کیے جانے پر غریب آباد، شکارپور روڈ اور آس پاس کی رہائشی بستی کے مکینوں نے سڑک پر ٹائر نذر آتش کرکے ٹریفک کی آمدورفت معطل کردی جب کہ بیراج روڈ پر 2 روز قبل ناکارہ ہونے والے ٹرانسفارمر کو درست نہ کرنے اور مرمت کے نام پر بھاری رقم طلب کرنے پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا۔
مظاہرے میں شامل افراد نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے الزام عاید کیا کہ ایک جانب بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ہے تو دوسری طرف ناکارہ ٹرانسفارمر کئی کئی دن درست نہیں کیے جاتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیپکو اہلکار مرمت کے نام پر بھاری رقم وصول کر رہے ہیں جو کہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ شہر میں عوامی مسائل کے حل کے لیے سرکردہ رہنما ایک عرصے سے شہریوں کو درپیش مشکلات جن میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ، اوور ریڈنگ، قلت آب کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس کے باوجود صورت حال دن بدن گھمبیر ہوتی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ مذکورہ محکموں میں تعینات وہ افسران ہیں جن کا زیادہ تر وقت منتخب نمائندوں کی خوشنودی میں پیش پیش رہنا ہے۔
گزشتہ دنوں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ، اضافی یونٹ، ڈٹیکشن شدہ بلز ارسال کرنے، دفاتر میں موجود افسران و اہلکاروں کے ناروا سلوک پر سکھر پارٹیز الائنس کے وفد نے چیئرمین مشرف محمود قادری کی قیادت میں سیپکو چیف نور احمد دایو سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر سیپکو چیف نے کہا کہ سیاسی اور یونین کے اثر و رسوخ کے باعث عوام کو پریشان کرنے والا عملہ کارروائی سے بچ جاتا ہے، اب عوام کو اوورریڈنگ اور ڈٹیکشن لگانے والے ایس ڈی اوز، لائن سپرنٹنڈنٹ اور میٹر ریڈر کے خلاف فوری ایکشن ہوگا۔ تبادلے کے ساتھ ساتھ انہیں معطل بھی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ صارفین کو درپیش مشکلات کے ازالے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریںگے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی شدید گرمی کے باوجود سوئی سدرن گیس انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی لوڈشیڈنگ اور گیس پریشر کی کمی کی شکایت پر بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے نواں گوٹھ، بندھانی محلہ کے مکینوں نے بھی اب پانی، بجلی کے بعد سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج کا راستہ اختیارکر لیا ہے۔ شدید گرمی میں صبح، دوپہر اور رات کے وقت گیس پریشر کم ہونے اور گیس نہ آنے کی وجہ سے خواتین کو کھانا پکانے سمیت دیگر امور خانہ داری کی انجام دہی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
شہری بحالت مجبوری ہوٹلوں، پکوان سینٹروں سے تیار شدہ کھانا خرید کر استعمال کر رہے ہیں۔ بندھانی گوٹھ اور نوا محلہ کے مکینوں کا اس موقع پر کہنا تھا کہ شدید گرمی کے باوجود گیس کی لوڈشیڈنگ اور پریشر میں نمایاں کمی روز کا معمول بن چکا ہے۔ سوئی سدرن گیس انتظامیہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ریجنل منیجر سوئی گیس عبدالعزیز ابڑو نے مظاہرین کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرہ کرنے والے کسی شخص نے بھی آج تک ہمارے پاس گیس لوڈشیڈنگ یا پریشر کے حوالے سے کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔
مشکلات میں گھرے اس ضلع کو اگر مسائلستان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کبھی گیس و بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ تو کبھی نکاسی آب کا مسئلہ۔ شہر میں تجاوزات کی بھرمار ان مسائل کے علاوہ ہے۔ ان تمام مسائل سے ہٹ کر ایک اور مسئلہ جو اب دائمی مرض کی صورت اختیار کر چکا ہے وہ پانی کی عدم فراہمی ہے۔ یکم جنوری 2011ء میں سکھر، روہڑی، نیا سکھر میں لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی اور ڈرینیج سسٹم کو بہتر بنانے کا ذمہ لینے والی نساسک انتظامیہ تاحال اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام نظر آتی ہے۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے تین سو ملین ڈالر قرض کو بہتر انداز سے خرچ نہ کیے جانے کے باعث نت نئی خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ نساسک افسران و اہلکاروں کی جانب سے بے پناہ وسائل استعمال کرنے کے باوجود سکھر اور روہڑی کے گنجان آباد علاقوں کے مکین اب بھی پانی کے حصول سے محروم ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جس دن علاقہ مکین پانی کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج نہ کرتے ہوں۔ موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی دریائے سندھ میں سطح آب انتہائی کم ہونے، دریا کے داہنے طرف ضرورت سے زیادہ مٹی جمع ہونے اور واٹر ورکس تک ضرورت کے مطابق 50 کیوسک پانی نہ پہنچنے کے باعث پینے کے صاف پانی کا بحران پیدا ہوا جس پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
شدید گرمی اور تپتی دھوپ میں مرد، خواتین اور معصوم بچوں کی بڑی تعداد ہاتھوں میں برتن اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے، جب کہ مختلف مقامات پر قائم فلٹریشن پلانٹس اور ہینڈ پمپوں پر بھی پانی کے حصول کے لیے لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ مغل کالونی اور انصاری محلہ کے مکینوں نے اس موقع پر ہاتھوں میں برتن اٹھا کر شدید احتجاج کیا۔ مظاہرے میں شامل عرفان، ارشد، فہیم، شرافت و دیگر کا کہنا تھا کہ ایک طرف قیامت خیز گرمی ہے تو دوسری طرف لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی نہیں مل رہا۔ گھروں میں پانی نہ ہونے کے سبب نظام زندگی درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم لوگ کام پر جانے کے بجائے دن بھر پانی کے حصول کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، نگراں حکومت کے دوران کمشنر، ڈپٹی کمشنر و دیگر اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہونے والے افسران بھی شہریوں کو اس مصیبت سے چھٹکارہ نہ دلا سکے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ موسم گرما میں سکھر کے مکینوں کو حصول آب میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، بلکہ ایک طویل عرصے سے سکھر کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی و فراہمی آب کا بہتر نظام نہ ہونے اور گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور یہ تمام چیزیں ایک دائمی مرض کی شکل اختیار کر چکی ہیں جس کی بنیادی وجہ نساسک، سیپکو، پبلک ہیلتھ، میونسپل کارپوریشن، کمشنر، ڈپٹی کمشنر کے دفاتر میں فرائض انجام دینے والے وہ افسران جو اپنے فرائض بہتر طور پر انجام نہیں دیتے۔
نگراں وفاقی حکومت کے تمام تر دعوئوں کے برعکس سکھر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں گرمی کی شدت کے دوران بجلی کی طلب و رسد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا ہے، جس کے بعد سیپکو انتظامیہ نے لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ کر دیا جب کہ وولٹیج کی کمی بیشی کی وجہ سے الیکٹرونک اشیاء ناکارہ ہونے کے نتیجے میں صارفین کو شدید مالی نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑ رہا ہے، جس پر صارفین میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مختلف مقامات پر سیپکو کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ سڑکوں پر ٹائر جلا کر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ شکارپور روڈ پر ناکارہ ٹرانسفارمر درست نہ کیے جانے پر غریب آباد، شکارپور روڈ اور آس پاس کی رہائشی بستی کے مکینوں نے سڑک پر ٹائر نذر آتش کرکے ٹریفک کی آمدورفت معطل کردی جب کہ بیراج روڈ پر 2 روز قبل ناکارہ ہونے والے ٹرانسفارمر کو درست نہ کرنے اور مرمت کے نام پر بھاری رقم طلب کرنے پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا۔
مظاہرے میں شامل افراد نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے الزام عاید کیا کہ ایک جانب بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ہے تو دوسری طرف ناکارہ ٹرانسفارمر کئی کئی دن درست نہیں کیے جاتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیپکو اہلکار مرمت کے نام پر بھاری رقم وصول کر رہے ہیں جو کہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ شہر میں عوامی مسائل کے حل کے لیے سرکردہ رہنما ایک عرصے سے شہریوں کو درپیش مشکلات جن میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ، اوور ریڈنگ، قلت آب کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس کے باوجود صورت حال دن بدن گھمبیر ہوتی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ مذکورہ محکموں میں تعینات وہ افسران ہیں جن کا زیادہ تر وقت منتخب نمائندوں کی خوشنودی میں پیش پیش رہنا ہے۔
گزشتہ دنوں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ، اضافی یونٹ، ڈٹیکشن شدہ بلز ارسال کرنے، دفاتر میں موجود افسران و اہلکاروں کے ناروا سلوک پر سکھر پارٹیز الائنس کے وفد نے چیئرمین مشرف محمود قادری کی قیادت میں سیپکو چیف نور احمد دایو سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر سیپکو چیف نے کہا کہ سیاسی اور یونین کے اثر و رسوخ کے باعث عوام کو پریشان کرنے والا عملہ کارروائی سے بچ جاتا ہے، اب عوام کو اوورریڈنگ اور ڈٹیکشن لگانے والے ایس ڈی اوز، لائن سپرنٹنڈنٹ اور میٹر ریڈر کے خلاف فوری ایکشن ہوگا۔ تبادلے کے ساتھ ساتھ انہیں معطل بھی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ صارفین کو درپیش مشکلات کے ازالے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریںگے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی شدید گرمی کے باوجود سوئی سدرن گیس انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی لوڈشیڈنگ اور گیس پریشر کی کمی کی شکایت پر بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے نواں گوٹھ، بندھانی محلہ کے مکینوں نے بھی اب پانی، بجلی کے بعد سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج کا راستہ اختیارکر لیا ہے۔ شدید گرمی میں صبح، دوپہر اور رات کے وقت گیس پریشر کم ہونے اور گیس نہ آنے کی وجہ سے خواتین کو کھانا پکانے سمیت دیگر امور خانہ داری کی انجام دہی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
شہری بحالت مجبوری ہوٹلوں، پکوان سینٹروں سے تیار شدہ کھانا خرید کر استعمال کر رہے ہیں۔ بندھانی گوٹھ اور نوا محلہ کے مکینوں کا اس موقع پر کہنا تھا کہ شدید گرمی کے باوجود گیس کی لوڈشیڈنگ اور پریشر میں نمایاں کمی روز کا معمول بن چکا ہے۔ سوئی سدرن گیس انتظامیہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ریجنل منیجر سوئی گیس عبدالعزیز ابڑو نے مظاہرین کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرہ کرنے والے کسی شخص نے بھی آج تک ہمارے پاس گیس لوڈشیڈنگ یا پریشر کے حوالے سے کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے۔