تذکرہ انصاف کا …
کتنے خطرناک اجتماعی معاشرتی جرائم کے مرتکب سزا یافتہ جیلوں میں کس شان بان سے رہتے ہیں؟
گزشتہ کالمو ں میں انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکر چھیڑا، چند ایک احباب کا اصرار سامنے آیا ہے کہ اس پر مزید صفحات کالے کیے جائیں، احباب کا یہ اصرار برحق بھی ہے اور ہمارے ہاں انصاف میں تاخیر ی روایات کی وجہ سے بحث طلب بھی۔ گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے انصاف کی بروقت فراہمی کے باب میں کھل کر اظہار خیال فرمایا، خاص طور پر ان کا یہ فرمان کہ ''قیدی عیش کرتے ہیں، سزائوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا، اس صورت حال میں جرائم کیسے کم ہوں گے''۔ ہماری معاشرتی عدم مساوات اور انصاف کے قتل کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ایک جملے میں سمو کر گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
اصل برائی کی جڑ یہی ہے جس کا ذکر فاضل چیف جسٹس نے کیا ہے۔ ہمارے تفتیشی ادارے پہلے تو کیس اتنے کمزور بناتے ہیں کہ ملزمان کو گرفت میں آنے سے پہلے ہی یقین کامل ہوتا ہے کہ وہ باآسانی چھوٹ جائیں گے اور باقی ماندہ کو جب عدالتوں سے سزا ہو جاتی ہے تو انتظامیہ بجائے سزائوں پر فوری اور قانون کی روح کے مطابق عمل درآمد کروانے کے، ملزمان کو داِد عیش دینے کی ''حلیف'' بن جاتی ہے، کتنے خطرناک اجتماعی معاشرتی جرائم کے مرتکب سزا یافتہ جیلوں میں کس شان بان سے رہتے ہیں؟ جیلوں میں سزا یافتہ عناصر کو کیسی کیسی سہولتیں انتظامیہ ''چمک'' کی غلام بن کر مہیا کرتی ہے، اگر انتظامیہ کے اس گھنائونے کردار کو بے نقاب کرنے کی ہمت کی جا ئے تو بہت سے راز طشت ازبام ہو سکتے ہیں، جیلوں میں کیا ہوتا ہے، کیسے ہوتا ہے؟ مکرر عرض ہے کہ پاکستانی معاشرے میں امن کا سورج اس وقت طلوع ہو گا جب معاشرے کا ہر شہری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو گا، جب روزگار کے مواقع شہری کے گھر چل کر آئیں، جب انصاف کی فراہمی کا گراف ''سوا نیزے'' پر ہوگا۔
لیکن؟ تعلیم کو عام کرنے میں حکومتیں اور سرکاری انتظامیہ اپنی بے سر و پا پالیسیوں کی بنا پر خود بہت بڑی رکاوٹ رہی ہیں اور آثار یہی ہیں کہ رہیں گی۔ روزگار کے مواقع سیاسی اور سرکاری اماموں کی نااہلیت کی بنا پر سکڑ چکے ہیں۔ اور انصاف؟ انصاف کی تیز تر فراہمی کے باب میں ایک فاضل چیف جسٹس صاحب دہائی دے رہے ہیں کہ انتظامیہ عدالتوں کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہے اور کس کس انداز میں انتظامیہ عدالتوں کے احکامات میں ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔ کچھ کہنے کے لیے باقی کیا بچتا ہے؟ فیصلہ آپ کیجیے کہ تمام معاشرتی بیماریوں کی ماں کون ہے؟ تعلیم عام کی جائے تو معاشرتی شعور کی بلندی سے بہت سے مسائل، جن کا آج ہمارا معاشرہ شکار ہے، جنم لینے سے قبل ہی طبعی موت مر جائیں گے، روزگار کے مواقعوں کی فراوانی سے چوری ڈاکے، قحبہ خانے اور ایسے ہی بہت سے معاشرتی جرائم جو غربت، تنگدستی اور بے روزگاری کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں، ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائیں گے۔
اور جب ہر وقت، بروقت اور سستے انصاف کا چلن عام ہو جائے گا تو جن کی ہتھیلیوں پر جرائم کی خارش آج کل عام ہے، اس میں کافی حد تک کمی واقع ہو جائے گی۔ اب دماغ کو گھمانے والا سوال یہ ہے کہ زیربحث ان امور کو حل کون کرے گا۔ جواب صد فی صد درست کہ سیاسی اور سرکاری انتظامیہ کے فرائض میں یہ امور آتے ہیں، سو سیاسی اور سرکاری انتظامیہ قومی خلوص کے سمندر میں جت کر ان امور کا قبلہ درست کرے۔ نئی نئی سیاسی انتظامیہ نے ''پائوں پائوں'' چلنا شروع کر دیا ہے، اس انتظامیہ سے ہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ حضور والا! قوم بہت پس چکی، عدم مساوات کی قومی بیماری لاحق ہونے سے بہت تکالیف سہہ لیں اور طا قت وروں نے بہت عیش کر لیا، اب اس قوم کے عام فرد کو زیور تعلیم سے آراستہ کیجیے، اب اس قوم کے عام شہری پر روزگار کے دروازے کھولیے۔ ضلعی سطح پر جج صاحبان کی کمی پوری کیجیے بلکہ ضلعی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک معزز جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ کیجیے کہ جن مظلوموں کے کیسوں کا ''نمبر'' برسوں بعد آتا ہے، ان کا نمبر دنوں میں آئے اور دنوں میں ان کو انصاف ملے۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عدالتیں تو فیصلہ کر دیتی ہیں لیکن ان احکاما ت پر عمل کا انتظامیہ کا ٹریک ریکارڈ بہت افسوسناک ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کا راج تب قائم ہو سکے گا جب عدالتوں کے فیصلوں کو انتظامیہ سر آنکھوں پر رکھے گی۔ جب عدالتیں احکامات صادر فرمائیں تو سرعت کے ساتھ ان پر عمل درآمد کروائیے۔ یاد رکھیے مخلوق خدا کو زحمت میں ڈالنے والے حکمران خواہ وہ سیاسی ہوں یا سرکاری انھیں خود بھی چین نصیب نہیں ہوتا۔ عبرت کے لیے چک شہزاد کے مکین اور دبئی میں اٹکے ہوئے ''سرکاری مہمان'' کا ذکر ہی کافی ہے۔ رعایا کو سکھ دیجیے اور خود سکھ پائیے۔ کامیاب حکمرانی کا سب سے بہترین اور آسان فارمولا یہی ہے کہ رعایا کے سکھ اور فلاح کے لیے خود کو وقف کیجیے، سکون آپ کا مقدر بنا دیا جائے گا۔ کیا نئے نئے حکمران بننے والے قوم کے ہر طبقے کے لیے بلاتفریق کچھ کرنے کے لیے کمربستہ ہیں؟ وعدے تو سابق ہونے والوں نے بھی بہت کیے تھے اور عہد حاضر کے حکمرانوں نے بھی بہت کچھ کر گزرنے کے ''خیالی جنت'' کے خواب دکھائے تھے۔ دیکھیں نئی حکومت سے قوم کو تحفے میں کیا ملتا ہے؟
اصل برائی کی جڑ یہی ہے جس کا ذکر فاضل چیف جسٹس نے کیا ہے۔ ہمارے تفتیشی ادارے پہلے تو کیس اتنے کمزور بناتے ہیں کہ ملزمان کو گرفت میں آنے سے پہلے ہی یقین کامل ہوتا ہے کہ وہ باآسانی چھوٹ جائیں گے اور باقی ماندہ کو جب عدالتوں سے سزا ہو جاتی ہے تو انتظامیہ بجائے سزائوں پر فوری اور قانون کی روح کے مطابق عمل درآمد کروانے کے، ملزمان کو داِد عیش دینے کی ''حلیف'' بن جاتی ہے، کتنے خطرناک اجتماعی معاشرتی جرائم کے مرتکب سزا یافتہ جیلوں میں کس شان بان سے رہتے ہیں؟ جیلوں میں سزا یافتہ عناصر کو کیسی کیسی سہولتیں انتظامیہ ''چمک'' کی غلام بن کر مہیا کرتی ہے، اگر انتظامیہ کے اس گھنائونے کردار کو بے نقاب کرنے کی ہمت کی جا ئے تو بہت سے راز طشت ازبام ہو سکتے ہیں، جیلوں میں کیا ہوتا ہے، کیسے ہوتا ہے؟ مکرر عرض ہے کہ پاکستانی معاشرے میں امن کا سورج اس وقت طلوع ہو گا جب معاشرے کا ہر شہری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو گا، جب روزگار کے مواقع شہری کے گھر چل کر آئیں، جب انصاف کی فراہمی کا گراف ''سوا نیزے'' پر ہوگا۔
لیکن؟ تعلیم کو عام کرنے میں حکومتیں اور سرکاری انتظامیہ اپنی بے سر و پا پالیسیوں کی بنا پر خود بہت بڑی رکاوٹ رہی ہیں اور آثار یہی ہیں کہ رہیں گی۔ روزگار کے مواقع سیاسی اور سرکاری اماموں کی نااہلیت کی بنا پر سکڑ چکے ہیں۔ اور انصاف؟ انصاف کی تیز تر فراہمی کے باب میں ایک فاضل چیف جسٹس صاحب دہائی دے رہے ہیں کہ انتظامیہ عدالتوں کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی ہے اور کس کس انداز میں انتظامیہ عدالتوں کے احکامات میں ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔ کچھ کہنے کے لیے باقی کیا بچتا ہے؟ فیصلہ آپ کیجیے کہ تمام معاشرتی بیماریوں کی ماں کون ہے؟ تعلیم عام کی جائے تو معاشرتی شعور کی بلندی سے بہت سے مسائل، جن کا آج ہمارا معاشرہ شکار ہے، جنم لینے سے قبل ہی طبعی موت مر جائیں گے، روزگار کے مواقعوں کی فراوانی سے چوری ڈاکے، قحبہ خانے اور ایسے ہی بہت سے معاشرتی جرائم جو غربت، تنگدستی اور بے روزگاری کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں، ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائیں گے۔
اور جب ہر وقت، بروقت اور سستے انصاف کا چلن عام ہو جائے گا تو جن کی ہتھیلیوں پر جرائم کی خارش آج کل عام ہے، اس میں کافی حد تک کمی واقع ہو جائے گی۔ اب دماغ کو گھمانے والا سوال یہ ہے کہ زیربحث ان امور کو حل کون کرے گا۔ جواب صد فی صد درست کہ سیاسی اور سرکاری انتظامیہ کے فرائض میں یہ امور آتے ہیں، سو سیاسی اور سرکاری انتظامیہ قومی خلوص کے سمندر میں جت کر ان امور کا قبلہ درست کرے۔ نئی نئی سیاسی انتظامیہ نے ''پائوں پائوں'' چلنا شروع کر دیا ہے، اس انتظامیہ سے ہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ حضور والا! قوم بہت پس چکی، عدم مساوات کی قومی بیماری لاحق ہونے سے بہت تکالیف سہہ لیں اور طا قت وروں نے بہت عیش کر لیا، اب اس قوم کے عام فرد کو زیور تعلیم سے آراستہ کیجیے، اب اس قوم کے عام شہری پر روزگار کے دروازے کھولیے۔ ضلعی سطح پر جج صاحبان کی کمی پوری کیجیے بلکہ ضلعی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک معزز جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ کیجیے کہ جن مظلوموں کے کیسوں کا ''نمبر'' برسوں بعد آتا ہے، ان کا نمبر دنوں میں آئے اور دنوں میں ان کو انصاف ملے۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عدالتیں تو فیصلہ کر دیتی ہیں لیکن ان احکاما ت پر عمل کا انتظامیہ کا ٹریک ریکارڈ بہت افسوسناک ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کا راج تب قائم ہو سکے گا جب عدالتوں کے فیصلوں کو انتظامیہ سر آنکھوں پر رکھے گی۔ جب عدالتیں احکامات صادر فرمائیں تو سرعت کے ساتھ ان پر عمل درآمد کروائیے۔ یاد رکھیے مخلوق خدا کو زحمت میں ڈالنے والے حکمران خواہ وہ سیاسی ہوں یا سرکاری انھیں خود بھی چین نصیب نہیں ہوتا۔ عبرت کے لیے چک شہزاد کے مکین اور دبئی میں اٹکے ہوئے ''سرکاری مہمان'' کا ذکر ہی کافی ہے۔ رعایا کو سکھ دیجیے اور خود سکھ پائیے۔ کامیاب حکمرانی کا سب سے بہترین اور آسان فارمولا یہی ہے کہ رعایا کے سکھ اور فلاح کے لیے خود کو وقف کیجیے، سکون آپ کا مقدر بنا دیا جائے گا۔ کیا نئے نئے حکمران بننے والے قوم کے ہر طبقے کے لیے بلاتفریق کچھ کرنے کے لیے کمربستہ ہیں؟ وعدے تو سابق ہونے والوں نے بھی بہت کیے تھے اور عہد حاضر کے حکمرانوں نے بھی بہت کچھ کر گزرنے کے ''خیالی جنت'' کے خواب دکھائے تھے۔ دیکھیں نئی حکومت سے قوم کو تحفے میں کیا ملتا ہے؟