مسئلہ بجلی کی قلت اور قیمت کا…
اسی طرح 120 مربع گز رقبے میں رہنے والے تمام صارفین کے لیے یہی ریٹ لاگو ہوں.
پاکستان میں اگر آپ بجلی کی رسد کے ذمے دار اداروں سے تیزی سے بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کی وجہ دریافت کریں تو ان کہنا ہوتا ہے کہ انھیں صارفین کی طرف سے واجبات کی عدم ادائیگی اور بجلی کی چوری کا سامنا ہے جس کی وجہ سے گردشی قرضوں (circular debt) میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بجلی کی پیداوار بڑھانا تو کُجا پیداوار برقرار رکھنا بھی ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور بجلی کا شارٹ فال موسمی درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے، ایسی صورت میں لوڈشیڈنگ میں اضافہ یقینی ہے۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر ہمارے حکمران فرماتے ہیں کہ بجلی چوروں کو نشانِ عبرت بنا دیں گے اور اب ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
میں نے ایک معزز اینکر کو ٹی وی پہ یہاں تک کہتے سنا کہ بجلی چوروں کو پھانسی دیدینی چاہیے۔ ایسے بیانات سن کر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ سیاستدانوں پر تو امارت کا الزام ہے ہی مگر اب ماشاء اﷲ ہمارا دانشور طبقہ بھی اس قدر متمول ہو گیا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ اب ان میں سے کچھ لوگ عوامی نفسیات اور عوام کے حقیقی مسائل سمجھنے سے ہی قاصر ہیں تو شاید یہ بات پوری طرح غلط نہ ہو۔ بے شک بجلی کی چوری ایک بڑا جرم ہے اور اس جرم کی سخت سے سخت سزا نہ صرف متعین ہونی چاہیے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنانا چاہیے۔ اس بارے میں کوئی بھی حتمی اور شدید رائے قائم کرنے سے پہلے حکمرانوں کو اپنے عوام کی نفسیات کو سمجھنا ہو گا وگرنہ انتہائی اقدام اور کڑی سے کڑی سزائیں بھی اس مسئلے کا حل ثابت نہیں ہو سکیں گی، بلکہ شاید عوام میں بے بسی اور غصہ مزید بڑھانے کا موجب بنیں گی۔
سب سے پہلے ہمیں ان عوامل پر غور کرنا ہو گا جن کی وجہ سے ایک عام آدمی باوجود ایک موثر انتباہی مہم کے جو ایک عرصہ تک پرِنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جاری رہی، بجلی کی چوری کی طرف راغب ہوتا ہے۔ ایک مختصر جائزے کے مطابق عموماً بجلی چوروں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم تو کچھ ایسے علاقوں کے لوگ ہیں جہاں ابھی تک بجلی پہنچائی نہیں گئی اور ان لوگوں نے بجلی کے محکمے کے ملازمین سے کچھ لے دے کر کنڈے حاصل کر لیے ہیں جس کے بقول ان لوگوں کے وہ ماہانہ ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی ادائیگی یقیناً رشوت کے زمرے میں ہی آتی ہے۔ دوسری قسم کے بجلی چور وہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقے میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے تو وہ آس پاس کے علاقوں سے کنڈے لے کر اپنے تئیں وقتی حل تو کر لیتے ہیں مگر ان کی یہ حرکت ان کے علاقے میں نہ صرف لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مزید اضافے کا سبب بنتی ہے بلکہ دیگر تکنیکی خرابیوں جیسے اوور لوڈ کی وجہ سے ٹرانسفارمر پھٹنے اور بجلی کے تار ٹوٹنے جیسے خطرناک حادثوں کا بھی موجب بنتی ہے۔
اب آتے ہیں بجلی چوروں کی تیسری اور آخری قسم کی طرف، یہ وہ لوگ ہیں جن کے کنڈا لگانے کی سب سے بڑی وجہ بجلی کا حد سے زیادہ مہنگا ہونا ہے۔ بجلی چوروں کی اس قسم میں غریب اور متوسط طبقے سے لے کر بعض چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری طبقات بھی شامل ہیں۔ میرے نزدیک کوئی بھی سزا اور کوئی بھی مہم پہلی اور دوسری قسم کے چوروں کو تو بجلی کی چوری سے باز رکھ سکتی ہے مگر بجلی چوروں کی یہ تیسری قسم جس کا حجم بجلی چوری کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے اس وقت تک موجود رہے گی جب تک بجلی ان کی قوت خرید سے باہر رہے گی۔
ایک بات تو طے ہے کہ جب تک صارفین کی طرف سے ادائیگیوں میں بے ضابطگی اور بجلی کی چوری ختم نہیں ہوتی گردشی قرضے کم نہیں ہوں گے اور بجلی کی پیداوار بڑھائی نہیں جا سکے گی۔ اسی طرح جب تک بجلی عوام کے لیے سستی نہیں کر دی جاتی تب تک نادہندگان اور بجلی چوروں کو باقاعدگی سے بِلوں کی ادائیگی اور بجلی کی چوری سے باز رہنے پر مجبور کرنا بھی مشکل ہو گا۔ یعنی بجلی کی قلت اور بجلی کی قیمت کا ایک دوسرے پر باہمی انحصار ہے۔ اب اگر ہمیں اس مسئلے کے دیرپا حل کی طرف بڑھنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے نادہندگان اور بجلی چوروں کو باقاعدگی اور ایمانداری کے ساتھ سے بِلوں کی ادائیگی کرنے والوں کی صف میں لانا ہو گا۔ بجلی چوروں کی یہ تیسری قسم عموماً بل باقاعدگی سے تو ادا کرتی ہے مگر ایمانداری سے نہیں۔ یہ لوگ اپنے AC اور فریج کو چوری کی بجلی پر چلاتے ہیں کیونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ AC اور فریج کا استعمال بغیر کنڈے کے ان کی قوت خرید سے باہر ہے۔
اب آتے ہیں اس تمام صورتحال کے حل کی طرف۔ واجبات کے نادہندہ افراد اور بجلی چوروں کو ایمانداری اور باقاعدگی سے بلوں کی ادائیگی پر صرف ایک طریقے سے راضی کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لیے ایک ایسی جامع پالیسی بنائی جائے جس میں رہائشی صارفین کے لیے اور ان کاروباری صارفین کے لیے جن کا تعلق براہ راست مینوفیکچرنگ سے نہیں، بجلی کے ریٹس مختلف سلیبس میں تقسیم کر کے فکس کر دیے جائیں اور ہر سلیب (Slab) کے ریٹ کا تعین عمارت یا گھر کے خالص رقبے کے تناسب سے یا جگہ کی قیمت کے تناسب سے کیا جائے۔ رہائشی اور کاروباری ریٹس الگ الگ ہوں۔ یقیناً یہ ریٹس ایسے ہوں کہ ایمانداری سے بجلی استعمال کرنے والوں کا بِل واضح طور پر کم ہو جائے۔ مثلاً اگر کسی گھر کا رقبہ 120 مربع گز ہے اور اس کا اوسط ماہانہ بِل 3500 روپے آتا ہے تو اس کے بِل کی رقم ماہانہ 2500 روپے فکس کر کے اسے بجلی کے استعمال کی آزادی دے دی جائے۔
اسی طرح 120 مربع گز رقبے میں رہنے والے تمام صارفین کے لیے یہی ریٹ لاگو ہوں اور رقبے کے لحاظ سے دوسرے سلیبس کے ریٹ بھی متعین کیے جائیں۔ (واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار حتمی نہیں بلکہ محض موقف کی وضاحت کے لیے ہیں) اس کے علاوہ سلیب ریٹس کا تعین جگہ کی قیمت کے تناسب سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ مروجہ طریقہ کار یونٹ کے ریٹ کم کر کے صرف مینوفیکچرنگ سے براہ راست وابستہ صارفین کے لیے باقی رکھا جائے۔ پھر اگر اس پالیسی پہ کوئی احتجاج سامنے آتا ہے تو وہ یقیناً ان لوگوں کی طرف سے ہو گا جنھیں بجلی چوری کی عادت پڑ چکی ہے۔ اس قدم سے عوام کو یہ فائدہ حاصل ہو گا کہ وہ بجلی کی قیمتوں سے متعلق اک غیر یقینی اور خوف کی صورتحال سے نکل کر ذہنی سکون کے ساتھ بجلی سے ملنے والی تمام سہولتوں سے استفادہ کر سکیں گے۔ حکومت اور بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو یقیناً فوری طور پر بجلی کی طلب میں اضافے کا سامنا تو ہو گا مگر فوائد بے شمار اور دیرپا ہوں گے۔ مثلاً پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ بجلی چوری بالکل ختم ہو کر صارفین کے لیے ایک غیر ضروری عمل بن جائے گا اور تقریباً تمام لوگ ہی دہندگان کے دائرے میں آ جائیں گے جس سے یقیناً واجبات کی وصولیوں میں نمایاں اضافہ ہو گا۔
بجلی چوری کے تدارک کے لیے کسی اشتہاری مہم یا زائد عملے کی ضرورت ختم ہو جائے گی، جس سے ایک بڑی رقم بچائی جا سکے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ بِل کے ریٹ فکس ہونے کی وجہ سے میٹرز لگانے کی ضرورت ختم ہو جائے گی اور ہر مہینے میٹر ریڈنگ حاصل کر کے بِلوں کی تیاری تک کا ایک لمبا عمل مختصر اور آسان ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ مستقبل میں بجلی کی طلب، رسد اور قیمتوں کے تعین سے متعلق پالیسی سازی کا عمل بھی آسان اور بڑی حد تک عام آدمی کے لیے واضح ہو جائے گا۔ اس پالیسی کا مثبت اثر بحیثیت مجموعی ہماری معیشت پر تو پڑے گا ہی مگر بالخصوص ہماری الیکٹرانک صنعت کی ترقی کے امکانات بہت روشن ہو جائیں گے، سرمایہ کاری بھی نمایاں طور پر بڑھے گی اور اگر حکومت نے الیکٹرانک کے شعبہ میں SMEs یعنی Small & Medium Enterprises کی حوصلہ افزائی کی تو کوئی بعید نہیں کہ الیکٹرانک صنعت پاکستان کی برآمدات میں بھی ایک مثبت اضافہ ثابت ہو۔
میں نے ایک معزز اینکر کو ٹی وی پہ یہاں تک کہتے سنا کہ بجلی چوروں کو پھانسی دیدینی چاہیے۔ ایسے بیانات سن کر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ سیاستدانوں پر تو امارت کا الزام ہے ہی مگر اب ماشاء اﷲ ہمارا دانشور طبقہ بھی اس قدر متمول ہو گیا ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ اب ان میں سے کچھ لوگ عوامی نفسیات اور عوام کے حقیقی مسائل سمجھنے سے ہی قاصر ہیں تو شاید یہ بات پوری طرح غلط نہ ہو۔ بے شک بجلی کی چوری ایک بڑا جرم ہے اور اس جرم کی سخت سے سخت سزا نہ صرف متعین ہونی چاہیے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی یقینی بنانا چاہیے۔ اس بارے میں کوئی بھی حتمی اور شدید رائے قائم کرنے سے پہلے حکمرانوں کو اپنے عوام کی نفسیات کو سمجھنا ہو گا وگرنہ انتہائی اقدام اور کڑی سے کڑی سزائیں بھی اس مسئلے کا حل ثابت نہیں ہو سکیں گی، بلکہ شاید عوام میں بے بسی اور غصہ مزید بڑھانے کا موجب بنیں گی۔
سب سے پہلے ہمیں ان عوامل پر غور کرنا ہو گا جن کی وجہ سے ایک عام آدمی باوجود ایک موثر انتباہی مہم کے جو ایک عرصہ تک پرِنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جاری رہی، بجلی کی چوری کی طرف راغب ہوتا ہے۔ ایک مختصر جائزے کے مطابق عموماً بجلی چوروں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم تو کچھ ایسے علاقوں کے لوگ ہیں جہاں ابھی تک بجلی پہنچائی نہیں گئی اور ان لوگوں نے بجلی کے محکمے کے ملازمین سے کچھ لے دے کر کنڈے حاصل کر لیے ہیں جس کے بقول ان لوگوں کے وہ ماہانہ ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی ادائیگی یقیناً رشوت کے زمرے میں ہی آتی ہے۔ دوسری قسم کے بجلی چور وہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے علاقے میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے تو وہ آس پاس کے علاقوں سے کنڈے لے کر اپنے تئیں وقتی حل تو کر لیتے ہیں مگر ان کی یہ حرکت ان کے علاقے میں نہ صرف لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مزید اضافے کا سبب بنتی ہے بلکہ دیگر تکنیکی خرابیوں جیسے اوور لوڈ کی وجہ سے ٹرانسفارمر پھٹنے اور بجلی کے تار ٹوٹنے جیسے خطرناک حادثوں کا بھی موجب بنتی ہے۔
اب آتے ہیں بجلی چوروں کی تیسری اور آخری قسم کی طرف، یہ وہ لوگ ہیں جن کے کنڈا لگانے کی سب سے بڑی وجہ بجلی کا حد سے زیادہ مہنگا ہونا ہے۔ بجلی چوروں کی اس قسم میں غریب اور متوسط طبقے سے لے کر بعض چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری طبقات بھی شامل ہیں۔ میرے نزدیک کوئی بھی سزا اور کوئی بھی مہم پہلی اور دوسری قسم کے چوروں کو تو بجلی کی چوری سے باز رکھ سکتی ہے مگر بجلی چوروں کی یہ تیسری قسم جس کا حجم بجلی چوری کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے اس وقت تک موجود رہے گی جب تک بجلی ان کی قوت خرید سے باہر رہے گی۔
ایک بات تو طے ہے کہ جب تک صارفین کی طرف سے ادائیگیوں میں بے ضابطگی اور بجلی کی چوری ختم نہیں ہوتی گردشی قرضے کم نہیں ہوں گے اور بجلی کی پیداوار بڑھائی نہیں جا سکے گی۔ اسی طرح جب تک بجلی عوام کے لیے سستی نہیں کر دی جاتی تب تک نادہندگان اور بجلی چوروں کو باقاعدگی سے بِلوں کی ادائیگی اور بجلی کی چوری سے باز رہنے پر مجبور کرنا بھی مشکل ہو گا۔ یعنی بجلی کی قلت اور بجلی کی قیمت کا ایک دوسرے پر باہمی انحصار ہے۔ اب اگر ہمیں اس مسئلے کے دیرپا حل کی طرف بڑھنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے نادہندگان اور بجلی چوروں کو باقاعدگی اور ایمانداری کے ساتھ سے بِلوں کی ادائیگی کرنے والوں کی صف میں لانا ہو گا۔ بجلی چوروں کی یہ تیسری قسم عموماً بل باقاعدگی سے تو ادا کرتی ہے مگر ایمانداری سے نہیں۔ یہ لوگ اپنے AC اور فریج کو چوری کی بجلی پر چلاتے ہیں کیونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ AC اور فریج کا استعمال بغیر کنڈے کے ان کی قوت خرید سے باہر ہے۔
اب آتے ہیں اس تمام صورتحال کے حل کی طرف۔ واجبات کے نادہندہ افراد اور بجلی چوروں کو ایمانداری اور باقاعدگی سے بلوں کی ادائیگی پر صرف ایک طریقے سے راضی کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ بجلی کی قیمتوں کا تعین کرنے کے لیے ایک ایسی جامع پالیسی بنائی جائے جس میں رہائشی صارفین کے لیے اور ان کاروباری صارفین کے لیے جن کا تعلق براہ راست مینوفیکچرنگ سے نہیں، بجلی کے ریٹس مختلف سلیبس میں تقسیم کر کے فکس کر دیے جائیں اور ہر سلیب (Slab) کے ریٹ کا تعین عمارت یا گھر کے خالص رقبے کے تناسب سے یا جگہ کی قیمت کے تناسب سے کیا جائے۔ رہائشی اور کاروباری ریٹس الگ الگ ہوں۔ یقیناً یہ ریٹس ایسے ہوں کہ ایمانداری سے بجلی استعمال کرنے والوں کا بِل واضح طور پر کم ہو جائے۔ مثلاً اگر کسی گھر کا رقبہ 120 مربع گز ہے اور اس کا اوسط ماہانہ بِل 3500 روپے آتا ہے تو اس کے بِل کی رقم ماہانہ 2500 روپے فکس کر کے اسے بجلی کے استعمال کی آزادی دے دی جائے۔
اسی طرح 120 مربع گز رقبے میں رہنے والے تمام صارفین کے لیے یہی ریٹ لاگو ہوں اور رقبے کے لحاظ سے دوسرے سلیبس کے ریٹ بھی متعین کیے جائیں۔ (واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار حتمی نہیں بلکہ محض موقف کی وضاحت کے لیے ہیں) اس کے علاوہ سلیب ریٹس کا تعین جگہ کی قیمت کے تناسب سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ مروجہ طریقہ کار یونٹ کے ریٹ کم کر کے صرف مینوفیکچرنگ سے براہ راست وابستہ صارفین کے لیے باقی رکھا جائے۔ پھر اگر اس پالیسی پہ کوئی احتجاج سامنے آتا ہے تو وہ یقیناً ان لوگوں کی طرف سے ہو گا جنھیں بجلی چوری کی عادت پڑ چکی ہے۔ اس قدم سے عوام کو یہ فائدہ حاصل ہو گا کہ وہ بجلی کی قیمتوں سے متعلق اک غیر یقینی اور خوف کی صورتحال سے نکل کر ذہنی سکون کے ساتھ بجلی سے ملنے والی تمام سہولتوں سے استفادہ کر سکیں گے۔ حکومت اور بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو یقیناً فوری طور پر بجلی کی طلب میں اضافے کا سامنا تو ہو گا مگر فوائد بے شمار اور دیرپا ہوں گے۔ مثلاً پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ بجلی چوری بالکل ختم ہو کر صارفین کے لیے ایک غیر ضروری عمل بن جائے گا اور تقریباً تمام لوگ ہی دہندگان کے دائرے میں آ جائیں گے جس سے یقیناً واجبات کی وصولیوں میں نمایاں اضافہ ہو گا۔
بجلی چوری کے تدارک کے لیے کسی اشتہاری مہم یا زائد عملے کی ضرورت ختم ہو جائے گی، جس سے ایک بڑی رقم بچائی جا سکے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ بِل کے ریٹ فکس ہونے کی وجہ سے میٹرز لگانے کی ضرورت ختم ہو جائے گی اور ہر مہینے میٹر ریڈنگ حاصل کر کے بِلوں کی تیاری تک کا ایک لمبا عمل مختصر اور آسان ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ مستقبل میں بجلی کی طلب، رسد اور قیمتوں کے تعین سے متعلق پالیسی سازی کا عمل بھی آسان اور بڑی حد تک عام آدمی کے لیے واضح ہو جائے گا۔ اس پالیسی کا مثبت اثر بحیثیت مجموعی ہماری معیشت پر تو پڑے گا ہی مگر بالخصوص ہماری الیکٹرانک صنعت کی ترقی کے امکانات بہت روشن ہو جائیں گے، سرمایہ کاری بھی نمایاں طور پر بڑھے گی اور اگر حکومت نے الیکٹرانک کے شعبہ میں SMEs یعنی Small & Medium Enterprises کی حوصلہ افزائی کی تو کوئی بعید نہیں کہ الیکٹرانک صنعت پاکستان کی برآمدات میں بھی ایک مثبت اضافہ ثابت ہو۔