قوم کے چور

قوم نے نئے حکمرانوں کا بھی زبردست استقبال کیا ہے اور ان سے اپنی تمام امیدیں باندھ لی ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

KARACHI:
ہمارے نئے حکمرانوں نے تخت پرقدم رکھتے ہی اعلان کیا کہ وہ قومی خزانے کے نادہندہ لوگوں سے قرض وصول کریں گے۔

اسی طرح کے کئی اعلانات کر کے گزشتہ کئی حکومتیں رخصت ہو چکی ہیں انھوں نے اعلان تو کر دیا لیکن بعد میں اپنا یہ نیک ارادہ تبدیل کر دیاکیونکہ قرض وصولی کے یہ راستے اپنوں کی طرف بھی جاتے تھے، انھوں نے ماضی کے قرض تو کیا وصول کرنے تھے بلکہ وہ قومی خزانے کے مزید قرض داروں کو پیدا کر کے رخصت ہو گئے۔ پاکستانی قوم جو ہر آنے والے کا اس گمان پر خیر مقدم کرتی ہے کہ شاید یہ وہی حقیقت منتظر ہو جس کا وہ مدت سے انتظار کر رہی ہے۔

قوم نے نئے حکمرانوں کا بھی زبردست استقبال کیا ہے اور ان سے اپنی تمام امیدیں باندھ لی ہیں۔ اس قرض وصولی کے بارے میں ہر روز نئی خبریں گردش میں ہیں وزراء کے نت نئے بیان پڑھنے سننے کو مل رہے ہیں ۔ پاکستان سے لوٹ مار کر کے بیرون ملک جمع کی گئی رقم کی واپسی کے بارے میں دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن ابھی تک یہ دعوے سچ ثابت نہیں ہو سکے اور ملک سے لوٹا گیا پیسہ واپس نہیں آسکا۔

قوم کا مال جس بے دردی کے ساتھ لو ٹا گیا ہے اس کی واپسی کے لیے بھی اسی طرح کی بے دردی اور بے رحمانہ فیصلوں سے قوم کے لٹیروں کو کڑے احتساب سے گزارنے کی ضرورت ہے ایک ایسا احتساب جو کہ سب کے لیے یکساں ہوںاس میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو کوئی معافی نہیں ملنی چاہیے ۔

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو زیادہ پیچھے نہ جائیں صرف گزشتہ دو ادوار حکومت کا حساب کتاب ہی کر لیں اس سے ایک تو قوم کے سامنے دونوں حکومتوں کا موازنہ آجائے گا دوسرے آسانی سے چوروں کا کھوج لگایا جا سکے گا۔کام کا آغاز کرنے کے لیے یہ دونوں ادوار ہی بہت رہیں گے ہاں اگر ملک کو مزید پیسوں کی ضرورت پڑی تو پھر اس سے گزشتہ حکومتوں تک بات جا سکتی ہے لیکن جتنا پیچھے چلے جائیں وہی لوگ شکلیں بدل بدل کر ہمارے سامنے ہوں گے اس لیے ہمیں گزشتہ دو ادوار حکومت پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔ ان برسوں میں قومی دولت کے چوروں کا غلغلہ بڑے زور و شور کے ساتھ بلند ہوا ہے اور صورت حال اپنی انتہا کو بھی انھی دو ادوار میں پہنچی ہے۔

اس سے پہلے ملک مقروض تھا لیکن اب دیوالیہ ہو گیا ہے وہ تو قرض خواہوں کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں کہ وہ پاکستان کو دیوالیہ قرار دینے میں تامل کر رہے ہیں ورنہ عملی صورت حال یہی ہے ۔ ان دونوں ادوار میں جو دھاندلی مچی اور جس کا خوب شہرہ ہے اگر یہ سب درست ہے تو پھر قوم کو ڈھیر ساری وصولی ہو سکتی ہے جس سے فوری ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں ۔ اگر اس مدت میں مکمل احتساب ہو جائے تو پھر بات پیچھے کی طرف بڑھائی جا سکتی ہے ۔


حکومت نے فی الحال بڑے چوروں کو پکڑنے کے لیے نیب کے ساتھ اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے ۔ قرضوں کی وصولی کے ضمن میں ایک بہت ہی ضروری گزارش ہے کہ قرضے کی رقم کا تعین کر کے وصولی کا سلسلہ اوپر سے شروع کیا جائے کروڑوں اربوں والوں کو پہلے پکڑا جائے اور پھر نیچے کی طرف توجہ کی جائے ۔

ہوتا یہ ہے اور ایسا کئی بار ہوا ہے کہ جب وصولی کا کام شروع ہوتا ہے تو عام یعنی چھوٹے قرض خواہوںکو آسانی کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے ۔پٹواریوں کے لیے ان سے وصولی بہت آسان ہوتی ہے کمزور اور بے اثرلوگ فوراً قابو میں آجاتے ہیں اور وہ اپنے اثاثے بیچ کر قرض ادا کر دیتے ہیںلیکن بڑے قرضوں والے اول تو پکڑ میں ہی نہیں آتے اگر آبھی جائیں تو کبھی کسی عدالت سے حکم امتناعی لے آتے ہیں کبھی بینکوں سے قرضے ری شیڈول کرا لیتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے حیلے سے بچ نکلتے ہیں ۔

ماہرین وصولیات بہتر سمجھتے ہیں لیکن ایک رقم مقرر کر دی جائے اور اس سے اوپر کی رقم کے مقروضوں سے وصولی شروع کی جائے۔ وصولی بھی زیادہ ہو گی اور چھوٹے لوگ جب بڑوں کو قابو آتا میں دیکھیں گے تو وہ خود بخود کسی مقررہ وقت تک قرضوں کی ادائیگی کا بندوبست کر لیں گے کیونکہ انھیں یقین ہو گا کہ جب بڑے لوگوں کو معاف نہیں کیا گیا تو ان کی کیا حیثیت ہے ۔

چھوٹے بے اثر لوگوں سے وصولی چونکہ آسان ہوتی ہے اور ان کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے اس لیے کار کردگی دکھانے میں آسانی ہوتی ہے اور بڑی اچھی رپورٹ بنتی ہے لیکن رقم شاید اتنی بھی نہ ہو جتنی کسی ایک موٹی آسامی سے وصول ہو سکتی ہے۔ حکمران اگر افسرشاہی سے پوچھیں گے تو وہ چھوٹے لوگوں کو سامنے رکھیں گے اور کام نیچے سے شروع کرنے کا مشورہ دیں گے کیونکہ ان کے لیے آسانی اسی میں ہو گی۔

جن لوگوں نے روپوں میں بینکوں سے قرضہ لیا ہے اور وہ ملک کے اندر موجود ہیں ان سے وصولی کے امکانات تو موجود ہیں لیکن جن بڑے لوگوں نے کمیشن وغیرہ کی رقم بیرونی ملکوں میں جمع کرادی ہے ان سے وصولی کیسے ہو گی یہ سب سے مشکل کام اور بہت بڑا سوال ہے ۔پہلے تو یہ ثابت کرنا یا معلوم کرنا ہو گا کہ کس نے کتنی رقم وصول کی ہے اس کے بعد اس سے وصولی کی نوبت آئے گی ۔

یہاں سرکاری گواہ سب سے اہم سمجھا جائے گا جو یہ بتائے گا اور ثبوت دے گا کہ کس نے کتنا کمیشن کھایا ہے کیونکہ ایسی رقوم کی رسیدیںیا مصدقہ ریکارڈ نہیں ہوتا۔ معلومات حاصل کرنے کے دوسر ے ذرایع بھی ہیں اور معیار زندگی اور اس طرح کی دوسری واقعاتی شہادتیں بھی مدد کریں گی۔ بہر حال حکومتوں کے پاس بے شمار طریقے ہوتے ہیں اگر نیت صاف ہو گی جو بظاہر لگتا ہے تو پھر بہت کچھ وصول ہو جائے گا۔
Load Next Story