نایاب جانوروں اور پرندوں کی خرید و فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ

برفانی ریچھ، مارخور، تیندوے اور کچھوؤں کی کئی اقسام کی پاکستان میں تعداد گنی چنی رہ گئی ہے

پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے نایاب جنگلی جانوروں اور ان کے اعضاء کی تجارت کی جارہی ہے فوٹو: فائل

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے سوشل میڈیا کے ذریعے نایاب جانوروں ، پرندوں اوران کے اعضا کی خریدوفروخت کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر نعیم بھٹی نے بتایا کہ محکمے نے سوشل میڈیا کے ذریعے نایاب جانوروں اور پرندوں کی خرید و فروخت کا غیرقانونی کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے، یہ کمیٹی ناصرف خود ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرتی ہے بلکہ ایف آئی اے کو بھی کارروائی کے لئے درخواست بھیجی جاتی ہے، نایاب جانوروں کی خرید و فروخت کے کیلئے غیر قانونی تاجر سوشل میڈیا سائٹ فیس بک کے پیجز اور گروپس کا استعمال کرتے ہیں۔نایاب جانور جس میں پینگولین ، کچھوئے ، باز، تلور ، نایاب چھپلکی اور معدومی سے دوچار جانور غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر برآمد کیے جاتے ہیں۔


پاکستان میں جنگی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ادارے ڈبلیوڈبلیوایف کی طرف سے ایسے جانوروں اور پرندوں کی فہرست بھی جاری کی جاچکی ہے جن کی بقا خطرات سے دوچار ہے ان میں برفانی ریچھ، مارخور، تیندوا، تازہ پانی اور سمندری پانی کے کچھوؤں کی کئی اقسام شامل ہیں، جن کی پاکستان میں تعداد گنی چنی رہ گئی ہے، اسی طرح دریائے سندھ میں پائی جانے والی ڈولفن یا بھلن اوریمک، چیونٹیوں اور ضرر رساں چھوٹے کیڑوں کو کھانے والے انڈین پنگولین بھی انتہائی کم ہو گئے، پاکستان میں گدھ کی نسل بھی 90 فیصد تک معدوم ہوچکی ہے جس سے ایکوسسٹم کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

وزارت ماحولیات تبدیلی کے حکام کہنا ہے کہ جانوروں کی اسمگلنگ کی روک تھام اور جنگلات میں انسانی عمل دخل کے باعث پیدا ہونے والے تناؤ کو روکنے کیلئے وزارت ماحولیاتِ تبدیلی نے پاکستان کی پہلی وائلڈ لائف پالیسی بنائی جاچکی ہے ، وزارت کی جانب سے خطرناک جانوروں کی غیر قانونی تجارت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے جنگلی جانور اور ان کے اعضاء کی تجارت کی جارہی ہے، نئی پالیسی میں تجویز دی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر جنگلی جانوروں کی خرید فروخت کی روک تھام کیلئے خصوصی سیل بنایا جائے جو نہ صرف سوشل میڈیا پر نظر رکھے بلکہ ہر لمحہ اس غیر قانونی اقدام کی تحقیقات کرے۔
Load Next Story