عباس کو عباس ہی رہنے دیں
عباس جیسے کرکٹرز کی مدد سے ہم دوبارہ اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں
PESHAWAR:
''عباس میں محمد آصف کی جھلک نظر آتی ہے''
''عباس جلد نمبر ون بولربن جائے گا''
''عباس سارے بولنگ ریکارڈز توڑ سکتا ہے''
شاندار کارکردگی کے بعد پیسر کے حوالے سے ایسی باتیں آپ لوگ بھی سن ہی رہے ہوں گے، واقعی آسٹریلیا کیخلاف انھوں نے جو بولنگ کی اس کے بعد تعریف تو بنتی ہی ہے، مگرمیری سب سے یہی درخواست ہے کہ عباس کو عباس ہی رہنے دیں،ان کو ابھی سے آسمان کی بلندیوں پر نہ چڑھائیں کہ پھر مسائل کا سامنا کرنا پڑے، ہمارے سامنے کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جب کھلاڑیوں نے کیریئر کا بہترین آغاز کیا اور پھر زوال کا شکار ہو گئے۔
ہمیں عباس کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دینا، جب کوئی اچھا پرفارم کرے تو تعریفیں تو سب ہی کرتے ہیں، ورنہ بولنگ تو میرحمزہ نے بھی بہتر کی اس کا تو ایسا کوئی موازنہ نہیں ہو رہا، بلاشبہ عباس ان دنوں شاندار بولنگ کر رہے ہیں، رفتار سے زیادہ ان کا انحصار لائن و لینتھ و سوئنگ پر ہوتا ہے، آسٹریلوی ٹیم نے انھیں آسان سمجھتے ہوئے ساری توجہ یاسر شاہ پر دی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، عباس کے کیریئر کا ابھی آغاز ہوا اور انھیں بہت آگے جانا ہے، اس کیلیے ضروری ہے کہ انھیں کھیل پر توجہ دینے دی جائے، ویسے اب تک میں نے جو اندازہ لگایا وہ یہی ہے کہ کامیابیاں ملنے کے باوجود عباس کے قدم زمین پر ہی ہیں، وہ خود بھی ایک انٹرویو میں کہہ چکے کہ کامیابیوں کو ذہن پر سوار نہیں کریں گے، اب انھیں اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔
عباس کے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ رواں برس کا دورۂ برطانیہ ثابت ہوا جب انھوں نے آئرلینڈ کی بیٹنگ لائن تہس نہس کرتے ہوئے میچ میں 9 وکٹیں اڑا دیں، پھر انگلینڈ کیخلاف لارڈز میں 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان کی تاریخی فتح میں اہم کردار ادا کیا، میچ کے بعد مجھے ان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا تب یہی اندازہ لگایا کہ وہ سادہ شخصیت کے مالک ہیں، ان کی زندگی نوجوانوں کیلیے ایک مثال ہے کہ کس طرح چمڑے کی فیکڑی میں ملازمت کے باوجود اپنے خواب پورے کیے، عباس اب تک 10 ٹیسٹ میں 59 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں، کسی اور پاکستانی پیسر نے یہ کارنامہ انجام نہیں دیا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں ہماری مجموعی کارکردگی اچھی نہیں، اس کا ثبوت رینکنگ میں ساتویں پوزیشن ہے، عباس جیسے کرکٹرز کی مدد سے ہم دوبارہ اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں، یہ سوچیں کہ جو بولر یو اے ای میں ایسی بولنگ کر سکتا ہے، وہ جنوبی افریقہ جیسے ملک میں کیا کچھ کر دکھانے کا اہل ہوگا، بس بورڈ کو ان کے احتیاط سے استعمال کا پلان بنانا ہوگا، ہمارے ملک میں پلیئرز کو ٹی ٹوئنٹی کی کارکردگی پر ٹیسٹ کھلا دیا جاتا ہے، اب عباس کو کہیں ٹیسٹ کی کارکردگی پر ٹی ٹوئنٹی نہیں کھلا دیجیے گا۔
آج کل ایک ٹرینڈ چل رہا ہے کہ جو بھی کھلاڑی اچھا کھیلے پی ایس ایل فرنچائزز کریڈٹ لینے سامنے آ جاتی ہیں حالانکہ وہ بیچارہ کئی برس سسٹم میں دھکے کھا کر اس مقام تک پہنچا ہوتا ہے، شکر ہے عباس نے کسی کو یہ موقع نہیں دیا، یہ درست ہے کہ دیگر کرکٹرز کی طرح انھیں بھی پیسہ کمانے کا حق حاصل ہے، لہذا پی سی بی کو ان کا خیال رکھنا اور اگر کہیں مالی نقصان ہو تو اس کا ازالہ کرنا ہو گا، اب اچھی کارکردگی کے بعد ان کا نام بن رہا ہے تو یقیناً ڈیمانڈ بھی بڑھے گی، یہ حکام کاکام ہے کہ انھیں زیادہ کرکٹ کھیل کر ضائع ہونے سے بچائیں۔
البتہ ورلڈکپ سے قبل ون ڈے میں انھیں آزمانا اچھا رہے گا، میگا ایونٹ انگلش کنڈیشنز میں ہونا ہے جہاں عباس پہلے ہی اپنی ڈھاک بٹھا چکے، لیسٹر شائر کیلیے کاؤنٹی چیمپئن شپ میں بھی انھوں نے بہترین پرفارم کیا تھا، وہیں سے ان کی صلاحیتیں نکھریں مگر ظاہر ہے انھیں بولنگ کوچ اظہر محمود کو بھی کریڈٹ دینا ہے، پاکستان میں اگر کوچز کی پلیئرز تعریف نہ کریں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں، البتہ اگر وہ اتنے کارآمد ہوتے تو وہاب ریاض سے بھی اچھا پرفارم کرا لیتے، بات وہی ہے ٹیم جیتے اور بولرز اچھا پرفارم کریں تو کوچز آگے آگے ہوتے ہیں، ہارے تو سب چھپ جاتے ہیں۔
ہمیں عباس کو کم اورکوالٹی کرکٹ کھلانا ہوگی تاکہ وہ انجریز سے بچے رہیں اور توانائیاں بھی محفوظ رہیں، ماضی میں ہمیں فاسٹ بولرز میچز جتواتے تھے بعد میں اس شعبے میں کوالٹی کا فقدان آیا، اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ 12برس بعد اب کسی پاکستانی پیسر نے میچ میں دس وکٹیں لی ہیں، آخری بار یہ کارنامہ محمد آصف نے انجام دیا تھا، میرحمزہ میں بھی صلاحیت نظر آتی ہے، انھیں بھی گروم کریں، اسپنر یاسر شاہ تو پہلے ہی خود کو میچ ونر ثابت کر چکے، اب بلال آصف کی صورت میں ایک اور اچھا اضافہ ہوا ہے، اگر ان سب بولرز نے اسی طرح اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھا تو ہماری ٹیم پھر سے ایک دن ٹیسٹ میں نمبر ون بن سکتی ہے، ایسا بہت جلدی تو نہیں ہوگا تاہم مستقبل میں ممکن ضرور ہے۔
''عباس میں محمد آصف کی جھلک نظر آتی ہے''
''عباس جلد نمبر ون بولربن جائے گا''
''عباس سارے بولنگ ریکارڈز توڑ سکتا ہے''
شاندار کارکردگی کے بعد پیسر کے حوالے سے ایسی باتیں آپ لوگ بھی سن ہی رہے ہوں گے، واقعی آسٹریلیا کیخلاف انھوں نے جو بولنگ کی اس کے بعد تعریف تو بنتی ہی ہے، مگرمیری سب سے یہی درخواست ہے کہ عباس کو عباس ہی رہنے دیں،ان کو ابھی سے آسمان کی بلندیوں پر نہ چڑھائیں کہ پھر مسائل کا سامنا کرنا پڑے، ہمارے سامنے کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جب کھلاڑیوں نے کیریئر کا بہترین آغاز کیا اور پھر زوال کا شکار ہو گئے۔
ہمیں عباس کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دینا، جب کوئی اچھا پرفارم کرے تو تعریفیں تو سب ہی کرتے ہیں، ورنہ بولنگ تو میرحمزہ نے بھی بہتر کی اس کا تو ایسا کوئی موازنہ نہیں ہو رہا، بلاشبہ عباس ان دنوں شاندار بولنگ کر رہے ہیں، رفتار سے زیادہ ان کا انحصار لائن و لینتھ و سوئنگ پر ہوتا ہے، آسٹریلوی ٹیم نے انھیں آسان سمجھتے ہوئے ساری توجہ یاسر شاہ پر دی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا، عباس کے کیریئر کا ابھی آغاز ہوا اور انھیں بہت آگے جانا ہے، اس کیلیے ضروری ہے کہ انھیں کھیل پر توجہ دینے دی جائے، ویسے اب تک میں نے جو اندازہ لگایا وہ یہی ہے کہ کامیابیاں ملنے کے باوجود عباس کے قدم زمین پر ہی ہیں، وہ خود بھی ایک انٹرویو میں کہہ چکے کہ کامیابیوں کو ذہن پر سوار نہیں کریں گے، اب انھیں اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔
عباس کے کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ رواں برس کا دورۂ برطانیہ ثابت ہوا جب انھوں نے آئرلینڈ کی بیٹنگ لائن تہس نہس کرتے ہوئے میچ میں 9 وکٹیں اڑا دیں، پھر انگلینڈ کیخلاف لارڈز میں 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے پاکستان کی تاریخی فتح میں اہم کردار ادا کیا، میچ کے بعد مجھے ان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا تب یہی اندازہ لگایا کہ وہ سادہ شخصیت کے مالک ہیں، ان کی زندگی نوجوانوں کیلیے ایک مثال ہے کہ کس طرح چمڑے کی فیکڑی میں ملازمت کے باوجود اپنے خواب پورے کیے، عباس اب تک 10 ٹیسٹ میں 59 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں، کسی اور پاکستانی پیسر نے یہ کارنامہ انجام نہیں دیا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں ہماری مجموعی کارکردگی اچھی نہیں، اس کا ثبوت رینکنگ میں ساتویں پوزیشن ہے، عباس جیسے کرکٹرز کی مدد سے ہم دوبارہ اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں، یہ سوچیں کہ جو بولر یو اے ای میں ایسی بولنگ کر سکتا ہے، وہ جنوبی افریقہ جیسے ملک میں کیا کچھ کر دکھانے کا اہل ہوگا، بس بورڈ کو ان کے احتیاط سے استعمال کا پلان بنانا ہوگا، ہمارے ملک میں پلیئرز کو ٹی ٹوئنٹی کی کارکردگی پر ٹیسٹ کھلا دیا جاتا ہے، اب عباس کو کہیں ٹیسٹ کی کارکردگی پر ٹی ٹوئنٹی نہیں کھلا دیجیے گا۔
آج کل ایک ٹرینڈ چل رہا ہے کہ جو بھی کھلاڑی اچھا کھیلے پی ایس ایل فرنچائزز کریڈٹ لینے سامنے آ جاتی ہیں حالانکہ وہ بیچارہ کئی برس سسٹم میں دھکے کھا کر اس مقام تک پہنچا ہوتا ہے، شکر ہے عباس نے کسی کو یہ موقع نہیں دیا، یہ درست ہے کہ دیگر کرکٹرز کی طرح انھیں بھی پیسہ کمانے کا حق حاصل ہے، لہذا پی سی بی کو ان کا خیال رکھنا اور اگر کہیں مالی نقصان ہو تو اس کا ازالہ کرنا ہو گا، اب اچھی کارکردگی کے بعد ان کا نام بن رہا ہے تو یقیناً ڈیمانڈ بھی بڑھے گی، یہ حکام کاکام ہے کہ انھیں زیادہ کرکٹ کھیل کر ضائع ہونے سے بچائیں۔
البتہ ورلڈکپ سے قبل ون ڈے میں انھیں آزمانا اچھا رہے گا، میگا ایونٹ انگلش کنڈیشنز میں ہونا ہے جہاں عباس پہلے ہی اپنی ڈھاک بٹھا چکے، لیسٹر شائر کیلیے کاؤنٹی چیمپئن شپ میں بھی انھوں نے بہترین پرفارم کیا تھا، وہیں سے ان کی صلاحیتیں نکھریں مگر ظاہر ہے انھیں بولنگ کوچ اظہر محمود کو بھی کریڈٹ دینا ہے، پاکستان میں اگر کوچز کی پلیئرز تعریف نہ کریں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں، البتہ اگر وہ اتنے کارآمد ہوتے تو وہاب ریاض سے بھی اچھا پرفارم کرا لیتے، بات وہی ہے ٹیم جیتے اور بولرز اچھا پرفارم کریں تو کوچز آگے آگے ہوتے ہیں، ہارے تو سب چھپ جاتے ہیں۔
ہمیں عباس کو کم اورکوالٹی کرکٹ کھلانا ہوگی تاکہ وہ انجریز سے بچے رہیں اور توانائیاں بھی محفوظ رہیں، ماضی میں ہمیں فاسٹ بولرز میچز جتواتے تھے بعد میں اس شعبے میں کوالٹی کا فقدان آیا، اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ 12برس بعد اب کسی پاکستانی پیسر نے میچ میں دس وکٹیں لی ہیں، آخری بار یہ کارنامہ محمد آصف نے انجام دیا تھا، میرحمزہ میں بھی صلاحیت نظر آتی ہے، انھیں بھی گروم کریں، اسپنر یاسر شاہ تو پہلے ہی خود کو میچ ونر ثابت کر چکے، اب بلال آصف کی صورت میں ایک اور اچھا اضافہ ہوا ہے، اگر ان سب بولرز نے اسی طرح اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھا تو ہماری ٹیم پھر سے ایک دن ٹیسٹ میں نمبر ون بن سکتی ہے، ایسا بہت جلدی تو نہیں ہوگا تاہم مستقبل میں ممکن ضرور ہے۔