اہل نظر اور پاکستانی بیانیہ
پاکستان کو کرپشن سے پاک ہونا چاہیے، ایسا کرنے والوں کو سزائیں دی جانی ضروری ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب کے اشتراک سے ادارہ ''پاکستانی بیانیہ'' نے پریس کانفرنس کی ۔ شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی کے سابق صدر ڈاکٹر شاداب احسانی، رضوان صدیقی اور ان کے رفقا کار نے اس حوالے سے تقریریں کیں،کلیدی خطبہ ڈاکٹر شاداب احسانی کا تھا، عنوان تھا ''قومی تشخص اور ترقی کے لیے پاکستانی بیانیہ کی اہمیت'' یہ امر خوش آیند ہے کہ اس زوال پذیر معاشرے میں رہنے والوں کو اس بات کا خیال آیا کہ ہم اپنی تہذیب، اقدار اور اپنی شناخت کہاں کھو بیٹھے ہیں اور ہم جہالت کے گہرے اندھیروں میں دن بہ دن گم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری بھی کوئی پہچان اور ثقافت ہے، ہم نے دوسروں کا طرز زندگی آخرکیوں اپنا لیا ہے؟
غیروں کا لباس، رسم و رواج اور اپنے بچوں کو انگریزی پڑھا کر ماڈرن زمانے کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہے ہیں، انجام سے بے خبر ہوکر، تعصب اور نفرت کی فضا کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہیں، اپنا قبلہ الگ کرکے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی ہے اور ان عقائد کو آنکھیں بند کرکے ترویج کر رہے ہیں جن کے عمل سے دوزخ کے حصار میں آگئے ہیں۔ المیہ یہ ہے پاکستانیت رہی اور نہ دین اسلام کے پیروکار رہے، اسلام نے تو تعصب، گروہ بندی اور اقربا پروری کے بتوں کو ڈھا دینے کی تعلیم دی ہے۔
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو امن وآشتی کا راستہ دکھاتا ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ان لوگوں کی سیاہ پرچھائیاں ضرور نظر آئیں گی جو نہ محب وطن تھے اور نہ اسلام کے شیدائی۔ اور آج ان کی غیر انسانی حرکات و سکنات کے باعث وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ان کا دین ودنیا مکمل طور پر برباد ہوگیا ہے اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ پاکستان کا بیانیہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کا بیانیہ ہے۔
اس بیانیے کی روح علامہ اقبال کے خواب سے ہم آہنگ ہے۔ علامہ اقبال کے فرمودات نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا دیا تھا، علامہ اقبال کے تصور پاکستان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قائد اعظم نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالبہ پیش کیا کہ برصغیرکے ان علاقوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں ایک آزاد مملکت قائم کردی جائے تاکہ مسلمان اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت اور روایات کیمطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کریں، علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں فرمایا کہ '' اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو ہمیں ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرنی ہوگی'' ایک موقعے پر قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ''پاکستان کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف انگریزوں کی حکومت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، بلکہ اس سے ہماری مراد اسلامی نظریہ ہے، جس کی حفاظت کرنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے، مسلمان اور ہندوؤں میں صرف مذہب ہی کا فرق نہیں، بلکہ معاشرتی، تہذیبی، تمدنی طور پر بھی یہ دو قومیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔
ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ عطا کرتا ہے، ہم اسی کیمطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، دراصل یہی پاکستان کا بیانیہ ہے، جسے ہم نے بھلا دیا ہے، تہذیب و تمدن، ثقافت اور روایات میں اسلامی رنگ شامل ہونا ناگزیر ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ ریاست عقیدے اور مذہب سے آزاد ہے، بلاتفریق ہر شخص سماجی اور مساوی حقوق کا حق دار ہے۔
پاکستان کو کرپشن سے پاک ہونا چاہیے، ایسا کرنے والوں کو سزائیں دی جانی ضروری ہیں۔ جس وقت ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا ان کے بدن پر پھٹی ہوئی بنیان اور شیروانی زیب تن تھی اور معمولی سی رقم یہ کل اثاثہ تھا۔ اور اب؟ پاکستان کا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ پاکستانی بیانیے کو جو امانت، دیانت، شرافت، مذہب و تہذیب کا ترجمان ہے، زندگی کے ہر شعبے میں عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک بار پھر ہم ایک قوم، ایک وحدت ایک اکائی بن کر ابھریں اس کوشش میں زبانوں کی قید ہر گز نہیں ہے۔
ڈاکٹر شاداب احسانی نے پاکستان کی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے دلائل پیش کیے اور بیانیے کی تعریف بیرونی ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے بیان کی، انھوں نے کہا کہ بیانیے کا بے دریغ استعمال ہمیں ترقی یافتہ دنیا میں تاریک عہد (Dark Ages) کے بعد نظر آتا ہے۔ واضح بیانیے کے جو شواہد ملتے ہیں وہ قبل مسیح کی چھٹی صدی ہے اور چھٹی صدی قبل از مسیح کو یوں یاد کیا جا رہا ہے کہ یہاں سے حیات اور کائنات کے روابط میں بیانیے کا دخل ہونا شروع ہوا، مسلمان علوم و فنون کے وارث ٹھہرئے اور یوں بیانیے کا عمل ملی تصورات کے زیر اثر ہوتا چلا گیا۔ تاریخ اور سماج سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جن قوموں کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ اس قوم کے لیے تاریک عہد کا دورانیہ بن جاتا ہے۔
اس اعتبار سے تیرہویں صدی تک مسلمانوں کے ملی تصور نے وہ بیانیہ تشکیل دیا کہ جس کے زیر اثر مجموعی دنیا پروان چڑھی۔ بعدازاں پندرہویں صدی کی نشاۃ ثانیہ Renaissance نے پورے یورپ کو بیدار کیا، پھر واسکو ڈی گاما کے ثمرات کے حصول کے لیے، مغرب کی تجارتی کمپنیاں پرتگالی، ولندیزی، فرانسیسی اور ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے نام پر سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان پر غلبے کے حصول میں مصروف ہوگئیں، ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بیرونی زبانوں کے ذریعے اقتدار پر گرفت رکھی گئی جس کی نمایاں مثالیں سنسکرت، فارسی اور انگریزی ہیں یہ تینوں مقامی زبانیں نہیں ہیں۔گوتم کے پیروکار چندرگپت موریہ نے چانکیہ کی دانش کے سہارے متحدہ ہندوستان کا تصور پیش کیا۔
پاکستانی بیانیہ کے ذریعے اس بات کی دعوت فکر دی گئی کہ وہ غوروفکر کریں اور اس کلچر کو فروغ دیں جو اسلامی اور پاکستانی ہو قومی زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور قرآنی تعلیمات سے استفادہ کیا جانا ضروری ہے۔ آج اگر قرآنی علوم سے واقفیت ہوتی تب انارکی، تعصب اور نفرت کی فضا پروان ہرگز نہ چڑھتی۔ دولت کی ہوس اور خود غرضی کے تناظر میں پیدا ہونیوالے خونی واقعات ظہور پذیر نہ ہوتے۔ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں اردو کی قدروقیمت کو بخوبی سمجھا جاتا ہے اور اس کی ترقی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ '' قومی تشخص کے ساتھ جڑا ہوا بیانیہ کسی بھی قوم کو ترقی سے ہم کنار کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، ہم بیرونی زبانوں کے ضمن میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں جب سنسکرت کا بیانیہ مقامی بیانیے سے ہم آہنگ نہ رہا تو وسط ایشیا کے حملہ آوروں کو خاصی سہولت میسر آئی کیونکہ جب قوموں کا بیانیہ مقامی نہیں رہتا تو وہ تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس سے بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھالیتی ہیں۔
ماضی میں یہ طاقتیں ملکوں پر قبضہ کرلیتی تھیں آج معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں پاکستان کے قیام کو 71 برس ہوگئے لیکن تاحال پاکستانی بیانیہ ظہور میں نہ آسکا یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نظام ہوکہ معاشی نظام، سب کچھ تنزل کا شکار ہے۔ کرپشن کی آوازوں سے لے کر ناانصافی، میرٹ کے فقدان کے نعروں کی گونج میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو مزید تقویت مل رہی ہے، جوائنٹ فیملی سسٹم قصہ پارینہ ہوتا جا رہا ہے یہ ماحول اس لیے پیدا ہوا کہ تاحال ہمارا بیانیہ انگریزی کے زیر اثر ہے یقینا ہم ایک تاریک عہد کے باشندے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ بیانیہ کسی قوم کو غلام بناتا ہے اور کسی قوم کو آزاد کرتا ہے مگر قوموں کو یہ آزادی اس وقت میسر آتی کہ جب قوموں کا اپنا بیانیہ ہو، فن لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے وہاں کا تعلیمی نظام اس لیے مثالی ہے کہ وہاں کی ثقافت سے ہم آہنگ بیانیے نے اسے ترقی کی منزلوں تک پہنچایا ہے۔ فن لینڈ میں ایک چھوٹا سا دریا "Nokia" ہے Nokia Mobile اسی دریا کے نام سے۔ اس طرح انھوں نے اپنے تشخص کو برقرار رکھا۔
زبانوں کے حوالے سے رضوان صدیقی نے کہا کہ بلوچ، پختون اور سندھی بچے کو اردو کی نسبت انگریزی پڑھنا دشوار ہے، سرکاری سطح پر 14 اگست 23 مارچ اور دیگر خاص ایام میں تقریبات ہوتی ہیں، ان میں چاروں صوبوں کا کلچر پیش کیا جاتا ہے ان چاروں صوبوں کا کلچر ہی پاکستان کا کلچر ہے، ہم نے اسی لیے اس کا موضوع بیانیہ رکھا ہے، چاروں صوبوں کی ثقافت، ادب، معیشت، تہذیب، روایات، اخلاقیات یہ سب پاکستان کا بیانیہ بنتا ہے اور قائد اعظم کی بھی یہی تعلیم تھی کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کی ترقی کے لیے یکساں اقدامات کیے جائیں ۔
غیروں کا لباس، رسم و رواج اور اپنے بچوں کو انگریزی پڑھا کر ماڈرن زمانے کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہے ہیں، انجام سے بے خبر ہوکر، تعصب اور نفرت کی فضا کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہیں، اپنا قبلہ الگ کرکے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی ہے اور ان عقائد کو آنکھیں بند کرکے ترویج کر رہے ہیں جن کے عمل سے دوزخ کے حصار میں آگئے ہیں۔ المیہ یہ ہے پاکستانیت رہی اور نہ دین اسلام کے پیروکار رہے، اسلام نے تو تعصب، گروہ بندی اور اقربا پروری کے بتوں کو ڈھا دینے کی تعلیم دی ہے۔
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو امن وآشتی کا راستہ دکھاتا ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ان لوگوں کی سیاہ پرچھائیاں ضرور نظر آئیں گی جو نہ محب وطن تھے اور نہ اسلام کے شیدائی۔ اور آج ان کی غیر انسانی حرکات و سکنات کے باعث وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ان کا دین ودنیا مکمل طور پر برباد ہوگیا ہے اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ پاکستان کا بیانیہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کا بیانیہ ہے۔
اس بیانیے کی روح علامہ اقبال کے خواب سے ہم آہنگ ہے۔ علامہ اقبال کے فرمودات نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا دیا تھا، علامہ اقبال کے تصور پاکستان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قائد اعظم نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالبہ پیش کیا کہ برصغیرکے ان علاقوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں ایک آزاد مملکت قائم کردی جائے تاکہ مسلمان اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت اور روایات کیمطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کریں، علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں فرمایا کہ '' اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو ہمیں ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرنی ہوگی'' ایک موقعے پر قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ''پاکستان کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف انگریزوں کی حکومت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، بلکہ اس سے ہماری مراد اسلامی نظریہ ہے، جس کی حفاظت کرنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے، مسلمان اور ہندوؤں میں صرف مذہب ہی کا فرق نہیں، بلکہ معاشرتی، تہذیبی، تمدنی طور پر بھی یہ دو قومیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔
ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ عطا کرتا ہے، ہم اسی کیمطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، دراصل یہی پاکستان کا بیانیہ ہے، جسے ہم نے بھلا دیا ہے، تہذیب و تمدن، ثقافت اور روایات میں اسلامی رنگ شامل ہونا ناگزیر ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ ریاست عقیدے اور مذہب سے آزاد ہے، بلاتفریق ہر شخص سماجی اور مساوی حقوق کا حق دار ہے۔
پاکستان کو کرپشن سے پاک ہونا چاہیے، ایسا کرنے والوں کو سزائیں دی جانی ضروری ہیں۔ جس وقت ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا ان کے بدن پر پھٹی ہوئی بنیان اور شیروانی زیب تن تھی اور معمولی سی رقم یہ کل اثاثہ تھا۔ اور اب؟ پاکستان کا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ پاکستانی بیانیے کو جو امانت، دیانت، شرافت، مذہب و تہذیب کا ترجمان ہے، زندگی کے ہر شعبے میں عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک بار پھر ہم ایک قوم، ایک وحدت ایک اکائی بن کر ابھریں اس کوشش میں زبانوں کی قید ہر گز نہیں ہے۔
ڈاکٹر شاداب احسانی نے پاکستان کی تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے دلائل پیش کیے اور بیانیے کی تعریف بیرونی ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے بیان کی، انھوں نے کہا کہ بیانیے کا بے دریغ استعمال ہمیں ترقی یافتہ دنیا میں تاریک عہد (Dark Ages) کے بعد نظر آتا ہے۔ واضح بیانیے کے جو شواہد ملتے ہیں وہ قبل مسیح کی چھٹی صدی ہے اور چھٹی صدی قبل از مسیح کو یوں یاد کیا جا رہا ہے کہ یہاں سے حیات اور کائنات کے روابط میں بیانیے کا دخل ہونا شروع ہوا، مسلمان علوم و فنون کے وارث ٹھہرئے اور یوں بیانیے کا عمل ملی تصورات کے زیر اثر ہوتا چلا گیا۔ تاریخ اور سماج سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جن قوموں کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ اس قوم کے لیے تاریک عہد کا دورانیہ بن جاتا ہے۔
اس اعتبار سے تیرہویں صدی تک مسلمانوں کے ملی تصور نے وہ بیانیہ تشکیل دیا کہ جس کے زیر اثر مجموعی دنیا پروان چڑھی۔ بعدازاں پندرہویں صدی کی نشاۃ ثانیہ Renaissance نے پورے یورپ کو بیدار کیا، پھر واسکو ڈی گاما کے ثمرات کے حصول کے لیے، مغرب کی تجارتی کمپنیاں پرتگالی، ولندیزی، فرانسیسی اور ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے نام پر سونے کی چڑیا یعنی ہندوستان پر غلبے کے حصول میں مصروف ہوگئیں، ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بیرونی زبانوں کے ذریعے اقتدار پر گرفت رکھی گئی جس کی نمایاں مثالیں سنسکرت، فارسی اور انگریزی ہیں یہ تینوں مقامی زبانیں نہیں ہیں۔گوتم کے پیروکار چندرگپت موریہ نے چانکیہ کی دانش کے سہارے متحدہ ہندوستان کا تصور پیش کیا۔
پاکستانی بیانیہ کے ذریعے اس بات کی دعوت فکر دی گئی کہ وہ غوروفکر کریں اور اس کلچر کو فروغ دیں جو اسلامی اور پاکستانی ہو قومی زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور قرآنی تعلیمات سے استفادہ کیا جانا ضروری ہے۔ آج اگر قرآنی علوم سے واقفیت ہوتی تب انارکی، تعصب اور نفرت کی فضا پروان ہرگز نہ چڑھتی۔ دولت کی ہوس اور خود غرضی کے تناظر میں پیدا ہونیوالے خونی واقعات ظہور پذیر نہ ہوتے۔ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں اردو کی قدروقیمت کو بخوبی سمجھا جاتا ہے اور اس کی ترقی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ '' قومی تشخص کے ساتھ جڑا ہوا بیانیہ کسی بھی قوم کو ترقی سے ہم کنار کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، ہم بیرونی زبانوں کے ضمن میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں جب سنسکرت کا بیانیہ مقامی بیانیے سے ہم آہنگ نہ رہا تو وسط ایشیا کے حملہ آوروں کو خاصی سہولت میسر آئی کیونکہ جب قوموں کا بیانیہ مقامی نہیں رہتا تو وہ تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس سے بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھالیتی ہیں۔
ماضی میں یہ طاقتیں ملکوں پر قبضہ کرلیتی تھیں آج معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں پاکستان کے قیام کو 71 برس ہوگئے لیکن تاحال پاکستانی بیانیہ ظہور میں نہ آسکا یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نظام ہوکہ معاشی نظام، سب کچھ تنزل کا شکار ہے۔ کرپشن کی آوازوں سے لے کر ناانصافی، میرٹ کے فقدان کے نعروں کی گونج میں تقسیم در تقسیم کے عمل کو مزید تقویت مل رہی ہے، جوائنٹ فیملی سسٹم قصہ پارینہ ہوتا جا رہا ہے یہ ماحول اس لیے پیدا ہوا کہ تاحال ہمارا بیانیہ انگریزی کے زیر اثر ہے یقینا ہم ایک تاریک عہد کے باشندے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ بیانیہ کسی قوم کو غلام بناتا ہے اور کسی قوم کو آزاد کرتا ہے مگر قوموں کو یہ آزادی اس وقت میسر آتی کہ جب قوموں کا اپنا بیانیہ ہو، فن لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے وہاں کا تعلیمی نظام اس لیے مثالی ہے کہ وہاں کی ثقافت سے ہم آہنگ بیانیے نے اسے ترقی کی منزلوں تک پہنچایا ہے۔ فن لینڈ میں ایک چھوٹا سا دریا "Nokia" ہے Nokia Mobile اسی دریا کے نام سے۔ اس طرح انھوں نے اپنے تشخص کو برقرار رکھا۔
زبانوں کے حوالے سے رضوان صدیقی نے کہا کہ بلوچ، پختون اور سندھی بچے کو اردو کی نسبت انگریزی پڑھنا دشوار ہے، سرکاری سطح پر 14 اگست 23 مارچ اور دیگر خاص ایام میں تقریبات ہوتی ہیں، ان میں چاروں صوبوں کا کلچر پیش کیا جاتا ہے ان چاروں صوبوں کا کلچر ہی پاکستان کا کلچر ہے، ہم نے اسی لیے اس کا موضوع بیانیہ رکھا ہے، چاروں صوبوں کی ثقافت، ادب، معیشت، تہذیب، روایات، اخلاقیات یہ سب پاکستان کا بیانیہ بنتا ہے اور قائد اعظم کی بھی یہی تعلیم تھی کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کی ترقی کے لیے یکساں اقدامات کیے جائیں ۔