چھجو دا چوبارہ
یہاں صرف سڑک پر چلنا اور خریداری کے لیے کسی اسٹور یا مال میں داخل ہونا فری ہے۔
تیرہ اکتوبر کی رات ہیوسٹن شہر سے دو گھنٹے کی مسافت پر Raceway Park میں جشن چراغاں دیکھا تو دو ماہ قبل اٹلانٹا سے بیس میل دور پہاڑی مقام والا رات 8 بجے سے 10 تک منعقد ہونے والا Stony Mountain Park کا لیزر لائٹ شو یاد آگیا۔
یہاں بھی بیس پچیس ہزار افراد پر مشتمل فیملیز وسیع گراسی گرائونڈ میں گھروں سے چادریں تکیے فولڈ ہو جانے والی کرسیاں اور کھانے پینے کا سامان نزدیکی گرائونڈ میں پارک کی ہوئی کاروں میں سے نکال کر ڈیرہ جمانے کے لیے لائی اور وہاں لیٹی یا کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔ Race way Park Show ہر سال 13 اکتوبر کی رات جسے ہمارے میزبان بیٹے کی امریکی فیملی اڑتی لالٹینوں کا شو بھی کہتی ہے ہر سال منعقد ہوتا اور بیس پچیس ہزار لوگوں کو وہاں کھینچ لاتا ہے۔ امریکا میں ہر جگہ ٹکٹ کی خریداری کے بعد کام آگے چلتا اور نمٹتا ہے۔
یہاں صرف سڑک پر چلنا اور خریداری کے لیے کسی اسٹور یا مال میں داخل ہونا Free ہے۔ ریس وے پارک میں داخلے کی فی فرد فیس تیس ڈالر تھی۔ ہر ٹکٹ ہولڈر کو ایک لالٹین لفافہ ملتا تھا جس کے نچلے حصے پر آگ لگانے سے اس کا مخصوص بڑا لفافہ گرم ہوا سے بھر کر اسے اڑا دیتا اور نیچے والی کینڈل جلتی رہتی، جب رات کی تاریکی میں ہزاروں افراد آگ سے نہ جلنے والا یہ لفافہ یعنی لالٹین فضا میں چھوڑتے تو تیز ہوا میں بلندی پر اڑنے والی کاغذی روشن 3x2 فٹ بڑی لالٹینیں آسمان کو روشن سیاروں سے بھر دیتیں۔
امریکا میں ایسے تماشے روز نہیں تو آئے دن ہوتے رہتے ہیں لیکن یہاں جو اسپورٹس اسکولوں میں تعلیم کے علاوہ سننے ہی نہیں دیکھنے میں بھی آئیں۔ ان کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ اکثر غیر امریکی بچوں کی مائیں بچوں کو اسکول چھوڑنے اور پھر لانے بھی جاتی ہیں۔ کبھی کلاسوں اور کبھی اسپورٹس کلاس کے بعد دوسری بار بھی بچے بچی کو لانے جانا پڑتا ہے۔ اکثر اسکولوں میں Soccer، باسکٹ بال، ٹینس فٹبال، والی بال، تیراکی، سوفٹ بال اور بینڈ شو کی کلاسیں بھی ہوتی ہیں، اسکول اسپورٹس ڈے اور انٹر اسکول میچ بھی منعقد ہوتے ہیں، کئی کھیلوں اور میچوں میں بچوں کے والدین مدعو ہوتے ہیں۔ اتفاق سے مجھے بھی دو بار ایسی تقاریب میں جانے کا موقع ملا تو اپنے ملک کے اسکولوں کی یاد آئی جن میں لائبریری اور پلے گرائونڈز کا تو وجود ہی نہیں ہے اور پھر یہ بھی یاد آیا کہ ہمارے والدین نے تو ہمارے اسکول کالج کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔
ان دنوں پاکستان میں دو قسم کے اسکول ہیں گورنمنٹ اسکولز جن کی حالت محکمانہ عدم توجہی کے باعث یتیم خانوں سے بھی بدتر ہے۔ دوسرے پرائیویٹ اسکولز جن میں پڑھنے والے بچوں کی ماہانہ فیس بیس تیس ہزار روپے ہونے کے باوجود ان میں طالبعلموں کے لیے اسپورٹس نام کی سہولت موجود نہیں۔ مجھے اپنے زمانہ کے اسکاچ مشن ہائی اسکول، گورنمنٹ ہائی اسکول اور مرے کالج سیالکوٹ کی یاد آگئی جن کے اپنے اپنے پلے گرائونڈز تھے اور ان میں ہاکی و فٹ بال کے کھیل ہوا کرتے تھے جب کہ گورنمنٹ ہائی اسکول کے قریب کانلے پارک کرکٹ کے میچوں کے لیے مخصوص تھی۔
امریکا اور کینیڈا کے کئی درجن شہروں میں جانا ہوا جہاں ان میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہر دو قسم کے ممالک سے نقل مکانی کر کے بغرض تعلیم و سکونت آئے لوگ گھومتے پھرتے، کام کرتے، دیکھے جا سکتے ہیں۔ بے شمار لوگ Asylum کی بنیاد پر اور بہت سے Sponsor ہوکر ان دو ملکوں میں شہریت حاصل کر کے آ بسے ہیں، کینیڈا کی پالیسی زیادہ فراخ دلانا ہونے کی وجہ سے وہاں آباد کاروں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ اس ملک کی وسیع زمین اور کم آبادی بھی ہے۔ امریکی پالیسی سخت بھی ہے اور طویل انتظار کرواتی ہے لیکن جو شخص ایک بار کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھ کے Asylum کلیم کر دے، بے دخل کیے جانے کی بجائے کئی قسم کی مراعات کا حقدار ہو جاتا ہے۔ جن میں گزارہ الائونس فری میڈیکل سہولت اور رہنے کی جگہ نہ ہو تو رہائش گاہ مل جاتی ہے۔
اتفاق سے فارن سروس میں آنے کے بعد توقیر حسین کی پہلی پوسٹنگ بھی کینیڈا ہی میں ہوئی تھی اور پھر اس ہمدم دیرینہ کی شادی بھی یہیں ہوئی۔ کئی ممالک میں سفارت کے فرائض انجام دینے کے بعد اب وہ واشنگٹن کی ایک یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے۔
بات ہو رہی تھی Asylum Seekers کی جنھیں ایک کرسچن ملک فراخ دلی سے شہریت دیتا ہے یہاں کئی دیگر ممالک کے علاوہ معقول تعداد میں پاکستانی تارکین وطن ہیں۔ ان تارکین میں سے اکثر صحت کی سلامتی کے باوجود کام نہیں کرتے۔ وظیفوں پر گزر اوقات کرتے ہیں۔ ایک صاحب جعلی ایکسی ڈنٹ کروا کے اسپیشل میڈیکل الائونس لیتے پائے گئے۔ کئی لوگ Bankcrupcy Allowance اور Supplimentary allowance کا بندوبست بھی کرلیتے ہیں۔
کئی گروپوں نے NGOS بناکر ظاہری ویلفیئر کے کام شروع کر رکھے ہیں اور حکومت سے Charity بھی وصول کرتے ہیں لیکن اس تمام کے باوجود یہ لوگ پاکستانی TV چینلز سے جڑے رہتے اور مقامی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ ایک بات البتہ ہر جگہ سننے کو ملی کہ اگر پاکستان میں مذہبی آزادی و رواداری ہو، قانون کی حکمرانی ہو، امن و امان ہو، ذرائع آمدنی وافر ہوں، تعلیم اور صحت حکمرانوں کی ترجیح ہو، عدل و انصاف ہوتا نظر آئے، حقوق العباد پر عملدرآمد ہو رہا ہو، سیاست اور مذہب طاقت و دولت کے حصول کا ذریعہ نہ ہو، حکمران اور عوام کے لیے ایک جیسا قانون ہو تو کوئی پاکستانی بیرون ملک شہریت کا طلبگار نہ ہوگا۔ میرا بھی امریکا وزٹ کا یہ آخری کالم ہے کیونکہ:
نہ بلغ نہ بخارے جو مزہ چھجو دے چوبارے
ہوا کے دوش پر آسمان کی وسعتوں میں تیرتی ہوئی قندیلیں عجیب نظارہ پیش کرتی ہیں جو دیکھنے والے کی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔ اس قسم کا منظر ایک زمانے میں ہمارے یہاں بسنت کی رات کو آسمان پر نظر آتا تھا۔
یہاں بھی بیس پچیس ہزار افراد پر مشتمل فیملیز وسیع گراسی گرائونڈ میں گھروں سے چادریں تکیے فولڈ ہو جانے والی کرسیاں اور کھانے پینے کا سامان نزدیکی گرائونڈ میں پارک کی ہوئی کاروں میں سے نکال کر ڈیرہ جمانے کے لیے لائی اور وہاں لیٹی یا کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔ Race way Park Show ہر سال 13 اکتوبر کی رات جسے ہمارے میزبان بیٹے کی امریکی فیملی اڑتی لالٹینوں کا شو بھی کہتی ہے ہر سال منعقد ہوتا اور بیس پچیس ہزار لوگوں کو وہاں کھینچ لاتا ہے۔ امریکا میں ہر جگہ ٹکٹ کی خریداری کے بعد کام آگے چلتا اور نمٹتا ہے۔
یہاں صرف سڑک پر چلنا اور خریداری کے لیے کسی اسٹور یا مال میں داخل ہونا Free ہے۔ ریس وے پارک میں داخلے کی فی فرد فیس تیس ڈالر تھی۔ ہر ٹکٹ ہولڈر کو ایک لالٹین لفافہ ملتا تھا جس کے نچلے حصے پر آگ لگانے سے اس کا مخصوص بڑا لفافہ گرم ہوا سے بھر کر اسے اڑا دیتا اور نیچے والی کینڈل جلتی رہتی، جب رات کی تاریکی میں ہزاروں افراد آگ سے نہ جلنے والا یہ لفافہ یعنی لالٹین فضا میں چھوڑتے تو تیز ہوا میں بلندی پر اڑنے والی کاغذی روشن 3x2 فٹ بڑی لالٹینیں آسمان کو روشن سیاروں سے بھر دیتیں۔
امریکا میں ایسے تماشے روز نہیں تو آئے دن ہوتے رہتے ہیں لیکن یہاں جو اسپورٹس اسکولوں میں تعلیم کے علاوہ سننے ہی نہیں دیکھنے میں بھی آئیں۔ ان کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ اکثر غیر امریکی بچوں کی مائیں بچوں کو اسکول چھوڑنے اور پھر لانے بھی جاتی ہیں۔ کبھی کلاسوں اور کبھی اسپورٹس کلاس کے بعد دوسری بار بھی بچے بچی کو لانے جانا پڑتا ہے۔ اکثر اسکولوں میں Soccer، باسکٹ بال، ٹینس فٹبال، والی بال، تیراکی، سوفٹ بال اور بینڈ شو کی کلاسیں بھی ہوتی ہیں، اسکول اسپورٹس ڈے اور انٹر اسکول میچ بھی منعقد ہوتے ہیں، کئی کھیلوں اور میچوں میں بچوں کے والدین مدعو ہوتے ہیں۔ اتفاق سے مجھے بھی دو بار ایسی تقاریب میں جانے کا موقع ملا تو اپنے ملک کے اسکولوں کی یاد آئی جن میں لائبریری اور پلے گرائونڈز کا تو وجود ہی نہیں ہے اور پھر یہ بھی یاد آیا کہ ہمارے والدین نے تو ہمارے اسکول کالج کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔
ان دنوں پاکستان میں دو قسم کے اسکول ہیں گورنمنٹ اسکولز جن کی حالت محکمانہ عدم توجہی کے باعث یتیم خانوں سے بھی بدتر ہے۔ دوسرے پرائیویٹ اسکولز جن میں پڑھنے والے بچوں کی ماہانہ فیس بیس تیس ہزار روپے ہونے کے باوجود ان میں طالبعلموں کے لیے اسپورٹس نام کی سہولت موجود نہیں۔ مجھے اپنے زمانہ کے اسکاچ مشن ہائی اسکول، گورنمنٹ ہائی اسکول اور مرے کالج سیالکوٹ کی یاد آگئی جن کے اپنے اپنے پلے گرائونڈز تھے اور ان میں ہاکی و فٹ بال کے کھیل ہوا کرتے تھے جب کہ گورنمنٹ ہائی اسکول کے قریب کانلے پارک کرکٹ کے میچوں کے لیے مخصوص تھی۔
امریکا اور کینیڈا کے کئی درجن شہروں میں جانا ہوا جہاں ان میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہر دو قسم کے ممالک سے نقل مکانی کر کے بغرض تعلیم و سکونت آئے لوگ گھومتے پھرتے، کام کرتے، دیکھے جا سکتے ہیں۔ بے شمار لوگ Asylum کی بنیاد پر اور بہت سے Sponsor ہوکر ان دو ملکوں میں شہریت حاصل کر کے آ بسے ہیں، کینیڈا کی پالیسی زیادہ فراخ دلانا ہونے کی وجہ سے وہاں آباد کاروں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ اس ملک کی وسیع زمین اور کم آبادی بھی ہے۔ امریکی پالیسی سخت بھی ہے اور طویل انتظار کرواتی ہے لیکن جو شخص ایک بار کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھ کے Asylum کلیم کر دے، بے دخل کیے جانے کی بجائے کئی قسم کی مراعات کا حقدار ہو جاتا ہے۔ جن میں گزارہ الائونس فری میڈیکل سہولت اور رہنے کی جگہ نہ ہو تو رہائش گاہ مل جاتی ہے۔
اتفاق سے فارن سروس میں آنے کے بعد توقیر حسین کی پہلی پوسٹنگ بھی کینیڈا ہی میں ہوئی تھی اور پھر اس ہمدم دیرینہ کی شادی بھی یہیں ہوئی۔ کئی ممالک میں سفارت کے فرائض انجام دینے کے بعد اب وہ واشنگٹن کی ایک یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے۔
بات ہو رہی تھی Asylum Seekers کی جنھیں ایک کرسچن ملک فراخ دلی سے شہریت دیتا ہے یہاں کئی دیگر ممالک کے علاوہ معقول تعداد میں پاکستانی تارکین وطن ہیں۔ ان تارکین میں سے اکثر صحت کی سلامتی کے باوجود کام نہیں کرتے۔ وظیفوں پر گزر اوقات کرتے ہیں۔ ایک صاحب جعلی ایکسی ڈنٹ کروا کے اسپیشل میڈیکل الائونس لیتے پائے گئے۔ کئی لوگ Bankcrupcy Allowance اور Supplimentary allowance کا بندوبست بھی کرلیتے ہیں۔
کئی گروپوں نے NGOS بناکر ظاہری ویلفیئر کے کام شروع کر رکھے ہیں اور حکومت سے Charity بھی وصول کرتے ہیں لیکن اس تمام کے باوجود یہ لوگ پاکستانی TV چینلز سے جڑے رہتے اور مقامی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ ایک بات البتہ ہر جگہ سننے کو ملی کہ اگر پاکستان میں مذہبی آزادی و رواداری ہو، قانون کی حکمرانی ہو، امن و امان ہو، ذرائع آمدنی وافر ہوں، تعلیم اور صحت حکمرانوں کی ترجیح ہو، عدل و انصاف ہوتا نظر آئے، حقوق العباد پر عملدرآمد ہو رہا ہو، سیاست اور مذہب طاقت و دولت کے حصول کا ذریعہ نہ ہو، حکمران اور عوام کے لیے ایک جیسا قانون ہو تو کوئی پاکستانی بیرون ملک شہریت کا طلبگار نہ ہوگا۔ میرا بھی امریکا وزٹ کا یہ آخری کالم ہے کیونکہ:
نہ بلغ نہ بخارے جو مزہ چھجو دے چوبارے
ہوا کے دوش پر آسمان کی وسعتوں میں تیرتی ہوئی قندیلیں عجیب نظارہ پیش کرتی ہیں جو دیکھنے والے کی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔ اس قسم کا منظر ایک زمانے میں ہمارے یہاں بسنت کی رات کو آسمان پر نظر آتا تھا۔