نئے گھروں کی خوشخبری

جنگل کے مور کا ناچ دکھانے کے لیے میڈیا کا سہارا استعمال کرنا چاہیے اورآج کل عوام سے رابطے کا سب سے موثر ذریعہ یہی ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

تحریک انصاف کی حکومت نے آغاز میں ہی دو اہم ترین منصوبوں کا آغاز کیا ہے یہ منصوبے غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر اور سرسبز پاکستان کے ہیں لیکن اس کے بارے میں عوامی آگاہی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے سوائے اس کے کہ وزیر اعظم پاکستان نے خود ان منصوبوں کا اعلان کر دیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوامی مفاد کے ان دونوں منصوبوں کی مناسب تشہیر کی جاتی، عوام کو بتایا جاتا کہ یہ منصوبے ان کے مستقبل کے لیے کس قدر اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان منصوبوں کا اعلان تو کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک عوام کو ان کے بارے معلومات نہیں مل سکیں۔ پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے کہ حکومت کو عوام کو اپنے ساتھ رکھنا ہو گا اپنے کاموں سے آگاہ کرنا ہو گا اسی میں حکومت کی کامیابی ہے ورنہ دوسری صورت میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ 'جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا'۔

جنگل کے مور کا ناچ دکھانے کے لیے میڈیا کا سہارا استعمال کرنا چاہیے اور آج کل عوام سے رابطے کا سب سے موثر ذریعہ یہی ہے۔ اب تو ایسا وقت آگیا ہے کہ اگر کوئی مسکرا کر سلام کا جواب بھی دے دے تو اس کا شکریہ ادا کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لوگ اپنے لاتعداد مسائل کے گرداب میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ ہر کوئی حواس باختہ دکھائی دیتا ہے اور لڑنے مارنے کو آتا ہے۔ ایک سے دوسری بات کر دیں تو خیریت نہیں رہتی۔ چھوٹے موٹے جھگڑے عام ہو چکے ہیں عدم برداشت کی وجہ سے انسانی جانیں نہایت ارزاں ہو چکی ہیں۔ ایسے برے اور پریشان کن حالات میں کہیں سے معمول سے اچھی خبر مل جائے تو اس پر دل کھل اٹھتے ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے ملک بھر میں لاکھوں گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ انھوں نے روٹی کپڑا مکان کے مقبول و مشہور نعرے کے آخری حصے کو پکڑ لیا ہے جو کام نسبتاً آسان اور فوری طور پر قابل عمل تھا اس سے آغا ز کا فیصلہ کیا ہے، یہ مکان بے گھر اور غریب لوگوں کو ملیں گے۔ روٹی کپڑا مکان کے نعرے نے ایک زمانے میں دھوم مچا دی تھی اور اس نعرے کو بلند کرنے والوں کو عوام کی زبردست تائید حاصل تھی۔ انسان کی یہ تین بنیادی ضروریات ہیں اور جو کوئی ان کو پورا کرنے کا وعدہ اور اعلان کرے اس سے زیادہ مقبول اورکون ہو سکتا ہے، لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ ان لوگوں کو جب اقتدار ملا تو انھوں نے اس نعرے کی ایسی مٹی پلید کی کہ یہ ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ کل تک جو نعرہ کامیابی کی کلید تھا وہ ایک طعنہ بن گیا۔

گزشتہ الیکشن میں عمران خان نے یہ خوش کن نعرہ لگایا وہ نواز شریف جمع زرداری کمپنی کے شدید رد عمل کے نتیجے میں ایسے ہی نعروں کی گونج میں الیکشن جیت گئے۔ لوگوں نے ان سے وہ تمام امیدیں باندھ لیں جوسابقہ حکمرانوں نے ناکام بنا دیں تھیں۔ ایسی توقعات ایک قدرتی بات تھی اور اس میں کسی کا قصور نہیں تھا، لیکن اس سے پہلے کہ عمران خان سے بھی ایسی تمام امیدیں شرمسار ہو جاتیں انھوں نے کم از کم ایک پرانی امید کو زندہ رکھنے کا بندو بست کر لیا۔ یہ ایک بہت بڑا تعمیراتی منصوبہ ہے اس کے لیے منصوبہ سازی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہر شہر میں حکومت کی بہت زیادہ زمین پڑی ہوئی ہے جو یا تو ویران ہے یا پھر اس پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور ایسی بے ترتیب اور غیر منظور شدہ آبادیاں بن گئی ہیں جو بنیادی ضرورت سے محروم اور بیماریوں کی مراکز ہیں۔


تعمیرات کا سب سے مہنگا حصہ زمین ہے وہ حکومت کی اپنی ہے۔ گزشتہ حکومت کی غیر دوستانہ سرمایہ کار پالیسیوں کی بدولت بینکوں کے پاس ڈھیروں روپیہ جمع ہو چکا ہے کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے بینکوں کو صحیح سرمایہ کاری کا موقع نہیں مل رہا۔ بینک کوئی کاروباری ادارہ نہیں ہوتے وہ اپنے پاس جمع ہونے والی عوام کی رقوم کو اچھے اور کامیاب منصوبوں میں سود پر لگاتے ہیں اور ان سے نفع حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ بینکوں کے لیے بھی ایک نادر موقع ہے کہ وہ اس منصوبے میں سرمایہ کاری کریں اور مکانوں کو رہن رکھ کر نفع حاصل کریں اور قسطوں کی صورت میں منافع کے ساتھ اپنی رقم وصول کریں۔

اس وسیع منصوبے پر ملک بھر میں عمل درآمد کے لیے نیک نیت اور محنتی افراد کی ڈیوٹی لگانی ہو گی۔ ان مکانوںکی تعمیر میں لاکھوں لوگ کام کریں گے اور تعمیراتی صنعتیں ایک بار پھر زندہ ہو جائیں گی۔ ان صنعتوں کے چل جانے سے جن لوگوں کو روزگار ملے گا وہ الگ ہیں اور اس طرح کساد بازاری اور بیروزگاری میں زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ مدد ضرور ملے گی اور پھر جن بے گھر لوگوں کو معیاری مگر سستا ترین گھر ملے گا اس خوشی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس تمام منصوبے پر سرمایہ کاری اور تعمیر میں استعمال ہونے والا سامان سب کا سب ملکی ہے۔ اس میں خطرہ صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بات کا پتہ کیسے چلایا جائے کہ جو کوئی درخواست دے رہا ہے وہ واقعی مستحق ہے، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی سیٹھ ان گھروں کا سارے کا سارا بلاک خریدنے کے لیے جعلی نام پیش کر دے، اپنے ملک میں بے نامی کے بہت کام ہوتے ہیں۔

کوئی ایک گھر اصل قیمت سے بھی دگنی تگنی قیمت پر آسانی سے فروخت کیا جا سکتا ہے جس مکان میں زمین کی قیمت شامل نہ ہو اور اس کی تعمیر بھی پرچون نہیں تھوک میں خریدے گئے سستے مال سے ہو وہ کتنا سستا ہو گا اور اس طرح عام بازار میںکتنا مہنگا بکے گا۔ اس سارے عمل کو شفاف بنانے کے لیے کسی ایسے ادارے کی خدمات حاصل کی جائیں جو اس بات کو یقینی بنا سکے کہ درخواست دہندہ واقعی مستحق ہے اور اگر مکان کی الاٹمنٹ کے بعد بھی کوئی جعل سازی ثابت ہو جائے تو اسے ضبط کر لیا جائے۔ اس تما م منصوبے میں اگر کہیں بد عنوانی ہو گی تو صرف اسی میں ہو گی۔

میں نے ایک صاحب سے اس متوقع بدعنوانی کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ ہم نے شروع سے آخر تک یہ پورا منصوبہ یہ فرض کر کے بنایا ہے کہ سب چور ہیں اور ہم نے ان کی چوری سے بچنا ہے۔ لیکن میں نے دل میں کہا کہ ہم پاکستانی اس ہنر میں جس مقام تک پہنچ گئے ہیں اس سے محفوظ رہنا بے حد مشکل ہے۔ لیکن پھر سوچا کہ ان کو پکڑنے والے بھی تو پاکستانی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران اس بات سے بھی ہوشیار ہیں کہ ان گھروں کی تعمیر میں کوئی ہیرا پھیری نہ ہو، ان کے پیش رو حکمران اسی قسم کے کیس کو بھگت رہے ہیں۔

بہرحال ملک بھر کے بے گھروں کی ایک بھاری تعداد کو مکان ملنے کی امید پیدا ہو چکی ہے۔ لاکھوں لوگوں کو خوشخبری سنا دی گئی ہے اور یہ خوشخبری حقیقت کا روپ دھارنے جا رہی ہے۔
Load Next Story