نئے پاکستان میں لکڑی بھی قوت خرید سے باہر
سمندری حدود کی خلاف ورزی پر ضبط کی گئیں بھارتی کشتیوں کو رجسٹریشن کے بعد فروخت کرنے سے کام ٹھپ پڑگیا
'' نئے پاکستان'' لکڑی کی قیمت بڑھنے سے ماہی گیری کے لیے تیار کی جانے والی کشتیوں کی لاگت میں بھی نمایاں اضافہ ہوگیا ہے۔
دوسری جانب بھارتی ماہی گیروں کی تحویل میں لی جانے والی کشتیوں کو قانونی حیثیت دے کر مقامی سطح پر بڑھتا ہوا استعمال بھی کشتی بنانے والے کاریگروں ،مزدوروں اور ٹھیکیداروں کے روزگار کے لیے خطرہ بن گیا ہے،سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیر لکڑی کی کشتیاں بنانے کے فن کے ماہر ہیں کراچی فش ہاربر پر بھی کشتیاں بنانے کیلیے خصوصی جگہ مخصوص کی گئی ہے جہاں چھوٹی بڑی کشتیوں کے علاوہ کارگو بوٹس بھی تیار کی جاتی ہیں۔
کشتیاں بنانے والوں کا کہنا ہے کہ غیرقانونی طور پر پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہونے والی کشتیاں سرکاری تحویل میں لینے کے بعد مقامی ماہی گیروں کو فروخت کردی جاتی ہیں جنھیں رجسٹرڈ کرکے پاکستان میں ماہی گیری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، بھارت کی کشتیاں کھڑے کھڑے خراب ہوجاتی ہیں جبکہ معیار اور بناوٹ کے لیے لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں اس لیے انھیں مقامی سطح پر مرمت کرکے دوبارہ ماہی گیری کے قابل بنایا جاتا ہے،بھارتی کشتیوں کے استعمال کا رجحان تیزی سے فروغ پارہاہے اور تحویل میں لی گئی سالانہ 100کے لگ بھگ بھارتی کشتیاں پاکستان آرہی ہیں، بھارتی کشتیوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مقامی کاریگروں کو بے روزگاری کا سامنا ہے،تبدیلی صرف اشیا کی قیمتوں میں آئی ہے۔
مہنگائی سے دفم گھٹ رہاہے،کشتی بنانے والے کاریگروں کا کہنا ہے کہ بھارتی کشتیوں کو استعمال کرنے کے بجائے انھیں اسکریپ کرکے لکڑی فروخت کی جائے تو پاکستان میں لکڑی کی طلب پوری کی جاسکتی ہے بالخصوص یہ لکڑی جلانے کے لیے بہترین ہیں اس طرح پاکستان میں ایندھن کے متبادل کے طور پر لکڑی جلانے سے جنگلوں کو پہنچنے والے نقصان کو بھی کم کیا جاسکتا ہے، کراچی فش ہاربر اتھارٹی نے بھی حکام کو بھارتی کشتیوں کو مقامی سمندروں میں ماہی گیری کے لیے استعمال کیے جانے پر کشتیاں بنانے والوں کے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے رجسٹریشن بند کردی تاہم رجسٹریشن بند کیے جانے کے باوجود بھارتی کشتیاں مقامی ماہی گیروں کو فروخت کی جارہی ہیں۔
کشتی سازی کے فن کی ترویج کیلیے حکومتی سطح پر کبھی توجہ نہیں دی گئی
کشتی سازی کے فن کی ترویج کے لیے حکومتی سطح پر کبھی توجہ نہیں دی گئی، کشتی سازی کے لیے سرمائے کا حصول انتہائی دشوار ہے اور بینکوں کی جانب سے مالیاتی سہولت فراہم نہیں کی جاتی، کشتی سازوں کے مطابق کراچی شپ بلڈنگ یارڈ میں بھی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے کشتی ساز کھلے آسمان تلے کشتیاں تیار کرتے ہیں۔
اسی طرح کشتیوں کے انجن بھی کھلے آسمان تلے تیار کیے جاتے ہیں، بوٹ بلڈنگ یارڈ کے راستے کچے اور گندگی سے بھرے ہوئے ہیں صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں اور راستے بھی غیرہموار اور کچے پڑے ہیں۔
کشتی سازوں کے مطابق مرچنٹ نیوی کے لیے بڑے جہازوں کے خلاصی اور ملاح تو تیار کیے جاتے ہیں لیکن ماہی گیروں کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے کشتیوں میں جدید سہولتوں کا فقدان ہے اور روایتی کشتیاں تیار کی جارہی ہیں حکومتی سرپرستی اور نجی شعبے کی دلچسپی سے پاکستان میں کشتی سازی کے فن کو ترقی دیکر پاکستان کے لیے کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
سمندر میں خوراک تیزی سے کم ہورہی ہے،حاجی موسیٰ
ماہی گیری کی کشتیاں بنانے والے بوٹ بلڈرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر حاجی موسیٰ نے انکشاف کیا ہے کہ میدانی علاقوں ، برف پوش پہاڑوں اور جنگلات کی طرح سمندر میں بھی موسمیاتی تبدیلی (کلائمنٹ چینج )کے اثرات مرتب ہورہے ہیں، انھوں نے کہا کہ جس طرح میدانی علاقوں اور جنگلات میں بارشوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے براہ راست اثرات سمندروں میں آبی مخلوقات کی افزائش پر بھی مرتب ہورہے ہیں بارشوں کے ساتھ معدنیات اور خوراک سمندر میں گرتی ہے،مچھلیاں گہرے پانیوں سے ساحلوں کے نزدیک کھاڑیوں (کریک ) کا رخ کرتی ہیں جہاں مچھلیاں افزائش پاتی ہیں،بارشیں کم ہونے کی وجہ سے ایک جانب سمندر میں شامل ہونے والی معدنیات اور خوراک میں کمی آتی ہے دوسری جانب آلودہ پانی سمندر میں گرنے سے آبی حیات کو خطرات کا سامنا ہے،حاجی موسیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستانی سمندر میں خوراک تیزی سے کم ہورہی ہے اور مچھلیوں کی افزائش کو بھی خطرات لاحق ہیں ۔
جس کی وجہ سے ماہی گیری میں نمایاں کمی آرہی ہے جس کے اثرات نئی کشتیاں تیار کرانے پر بھی مرتب ہورہے ہیں،پاکستانی ماہی گیروں کو اب زیادہ گہرے پانیوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور حال ہی میں گہرے پانی میں ماہی گیری سے متعلق نئی حکومتی پالیسی آنے کے بعد ماہی گیروں کو خدشات لاحق ہیں اور کشتیاں کنارے کھڑی کردی گئی ہیں، کشتی کی تیاری میں ایک سال کا عرصہ لگتا ہے کشتی کی لاگت کا عرصے اس کے حجم پر منحصر ہے چھوٹی کشتیاں ایک سے دو سال میں مکمل ہوجاتی ہیں کارگو کشتیاں تین چار سال میں مکمل ہوتی ہیں ،زیادہ تر 30فٹ سے 50 فٹ تک کی کشتیاں تیار ہوتی ہیں۔
جن میں انجن، جال اور مکمل تیار حالت تک لانے میں ایک کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے، ٹیک کی لکڑی مہنگی ہونے کے بعد افریقہ سے درآمد شدہ ملنگا نامی لکڑی کا استعمال بڑھ گیا،ڈالر مہنگا ہونے سے درآمدی لکڑی بھی تیس سے پینتیس فیصد تک مہنگی ہوگئی ہے۔
چھوٹی کشتی کی تیاری میں12سے 15افراد کوروزگار ملتا ہے
سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں کشتی سازی کا فن نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں تیار کی جانے والی کشتیاں زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتی ہیں، پاکستانی کاریگر کسی نقشہ یا ڈرائنگ کے بغیر 10فٹ سے 150فٹ طویل حجم کی کشتیاں تیار کرسکتے ہیں، پاکستان میں بنائی جانے والی کشتیاں دبئی اور ایران سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کی بندرگاہوں پر بھی استعمال کی جاتی ہیں،کنٹینرز کے ذریعے تجارتی سامان کی بڑھتی ہوئی نقل و حمل کی وجہ سے کشتیوں کے ذریعے کارگو کی ترسیل بھی 90فیصد تک کم ہوچکی ہے جس سے کشتی سازی کا کام متاثر ہورہا ہے، کشتی سازی کا عمل چار مراحل پر مشتمل ہوتا ہے پہلے مرحلے میں کشتی کے پیندے کا اسٹرکچر رکھاجاتا ہے۔
جس پر پوری کشتی کھڑی کی جاتی ہے بنیادی اسٹرکچر کو کشتی سازوں کی زبان میں ''پٹھان'' کہا جاتا ہے جس پر اندرونی جانب سے پسلیوں کی شکل میں لکڑی کے تختے رکھے جاتے ہیں اس مرحلے کو ''لے '' کہتے ہیں جس کے بعد کشتیوں کے باہری تختوں کو مضبوط کیلوں کے ذریعے ان کی جگہ پر پختہ کیا جاتا ہے اس عمل کو ''ڈاڑھی'' کہا جاتا ہے جس کے بعد کشتی کے عرشے کو مکمل کیا جاتا ہے آخری مرحلے میں انجن نصب کرکے رنگ و روغن کیا جاتا ہے، نئی کشتی کی لکڑی کو خشک کرنے کے لیے کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ کشتی کا وزن کم ہو اور لکڑی میں مضبوطی آسکے، کشتیوں میں کابلی ری کنڈیشن انجن لگائے جاتے ہیں جو اسکریپ کی شکل میں درآمد ہوتا ہے اور مقامی سطح پر از سر نو تیار کیا جاتا ہے انجن کی قیمت پانچ سے دس لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
انجن کے ساتھ کشتیوں کی بھی وقتاً فوقتاً مرمت کی جاتی ہے، نئی کشتی کو پانچ سال تک مرمت کی ضرورت نہیں پڑتی کشتیوں کی مناسب دیکھ بھال کی جائے تو ایک کشتی تیس سے پینتیس سال تک قابل استعمال رہتی ہے، فش ہاربر پر کشتی سازی سے لگ بھگ 10ہزار افراد کو روزگا ر ملتا ہے ایک چھوٹی کشتی کی تیاری میں 12سے 15افراد کوروزگار ملتا ہے۔مزدوروں کو یومیہ 800 سے 1000روپے تک دیہاڑی ملتی ہے کاریگروں کو 1500 روپے تک کی دیہاڑی ملتی ہے۔
دوسری جانب بھارتی ماہی گیروں کی تحویل میں لی جانے والی کشتیوں کو قانونی حیثیت دے کر مقامی سطح پر بڑھتا ہوا استعمال بھی کشتی بنانے والے کاریگروں ،مزدوروں اور ٹھیکیداروں کے روزگار کے لیے خطرہ بن گیا ہے،سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیر لکڑی کی کشتیاں بنانے کے فن کے ماہر ہیں کراچی فش ہاربر پر بھی کشتیاں بنانے کیلیے خصوصی جگہ مخصوص کی گئی ہے جہاں چھوٹی بڑی کشتیوں کے علاوہ کارگو بوٹس بھی تیار کی جاتی ہیں۔
کشتیاں بنانے والوں کا کہنا ہے کہ غیرقانونی طور پر پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہونے والی کشتیاں سرکاری تحویل میں لینے کے بعد مقامی ماہی گیروں کو فروخت کردی جاتی ہیں جنھیں رجسٹرڈ کرکے پاکستان میں ماہی گیری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، بھارت کی کشتیاں کھڑے کھڑے خراب ہوجاتی ہیں جبکہ معیار اور بناوٹ کے لیے لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں اس لیے انھیں مقامی سطح پر مرمت کرکے دوبارہ ماہی گیری کے قابل بنایا جاتا ہے،بھارتی کشتیوں کے استعمال کا رجحان تیزی سے فروغ پارہاہے اور تحویل میں لی گئی سالانہ 100کے لگ بھگ بھارتی کشتیاں پاکستان آرہی ہیں، بھارتی کشتیوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مقامی کاریگروں کو بے روزگاری کا سامنا ہے،تبدیلی صرف اشیا کی قیمتوں میں آئی ہے۔
مہنگائی سے دفم گھٹ رہاہے،کشتی بنانے والے کاریگروں کا کہنا ہے کہ بھارتی کشتیوں کو استعمال کرنے کے بجائے انھیں اسکریپ کرکے لکڑی فروخت کی جائے تو پاکستان میں لکڑی کی طلب پوری کی جاسکتی ہے بالخصوص یہ لکڑی جلانے کے لیے بہترین ہیں اس طرح پاکستان میں ایندھن کے متبادل کے طور پر لکڑی جلانے سے جنگلوں کو پہنچنے والے نقصان کو بھی کم کیا جاسکتا ہے، کراچی فش ہاربر اتھارٹی نے بھی حکام کو بھارتی کشتیوں کو مقامی سمندروں میں ماہی گیری کے لیے استعمال کیے جانے پر کشتیاں بنانے والوں کے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے رجسٹریشن بند کردی تاہم رجسٹریشن بند کیے جانے کے باوجود بھارتی کشتیاں مقامی ماہی گیروں کو فروخت کی جارہی ہیں۔
کشتی سازی کے فن کی ترویج کیلیے حکومتی سطح پر کبھی توجہ نہیں دی گئی
کشتی سازی کے فن کی ترویج کے لیے حکومتی سطح پر کبھی توجہ نہیں دی گئی، کشتی سازی کے لیے سرمائے کا حصول انتہائی دشوار ہے اور بینکوں کی جانب سے مالیاتی سہولت فراہم نہیں کی جاتی، کشتی سازوں کے مطابق کراچی شپ بلڈنگ یارڈ میں بھی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے کشتی ساز کھلے آسمان تلے کشتیاں تیار کرتے ہیں۔
اسی طرح کشتیوں کے انجن بھی کھلے آسمان تلے تیار کیے جاتے ہیں، بوٹ بلڈنگ یارڈ کے راستے کچے اور گندگی سے بھرے ہوئے ہیں صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں اور راستے بھی غیرہموار اور کچے پڑے ہیں۔
کشتی سازوں کے مطابق مرچنٹ نیوی کے لیے بڑے جہازوں کے خلاصی اور ملاح تو تیار کیے جاتے ہیں لیکن ماہی گیروں کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے کشتیوں میں جدید سہولتوں کا فقدان ہے اور روایتی کشتیاں تیار کی جارہی ہیں حکومتی سرپرستی اور نجی شعبے کی دلچسپی سے پاکستان میں کشتی سازی کے فن کو ترقی دیکر پاکستان کے لیے کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
سمندر میں خوراک تیزی سے کم ہورہی ہے،حاجی موسیٰ
ماہی گیری کی کشتیاں بنانے والے بوٹ بلڈرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر حاجی موسیٰ نے انکشاف کیا ہے کہ میدانی علاقوں ، برف پوش پہاڑوں اور جنگلات کی طرح سمندر میں بھی موسمیاتی تبدیلی (کلائمنٹ چینج )کے اثرات مرتب ہورہے ہیں، انھوں نے کہا کہ جس طرح میدانی علاقوں اور جنگلات میں بارشوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے براہ راست اثرات سمندروں میں آبی مخلوقات کی افزائش پر بھی مرتب ہورہے ہیں بارشوں کے ساتھ معدنیات اور خوراک سمندر میں گرتی ہے،مچھلیاں گہرے پانیوں سے ساحلوں کے نزدیک کھاڑیوں (کریک ) کا رخ کرتی ہیں جہاں مچھلیاں افزائش پاتی ہیں،بارشیں کم ہونے کی وجہ سے ایک جانب سمندر میں شامل ہونے والی معدنیات اور خوراک میں کمی آتی ہے دوسری جانب آلودہ پانی سمندر میں گرنے سے آبی حیات کو خطرات کا سامنا ہے،حاجی موسیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستانی سمندر میں خوراک تیزی سے کم ہورہی ہے اور مچھلیوں کی افزائش کو بھی خطرات لاحق ہیں ۔
جس کی وجہ سے ماہی گیری میں نمایاں کمی آرہی ہے جس کے اثرات نئی کشتیاں تیار کرانے پر بھی مرتب ہورہے ہیں،پاکستانی ماہی گیروں کو اب زیادہ گہرے پانیوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور حال ہی میں گہرے پانی میں ماہی گیری سے متعلق نئی حکومتی پالیسی آنے کے بعد ماہی گیروں کو خدشات لاحق ہیں اور کشتیاں کنارے کھڑی کردی گئی ہیں، کشتی کی تیاری میں ایک سال کا عرصہ لگتا ہے کشتی کی لاگت کا عرصے اس کے حجم پر منحصر ہے چھوٹی کشتیاں ایک سے دو سال میں مکمل ہوجاتی ہیں کارگو کشتیاں تین چار سال میں مکمل ہوتی ہیں ،زیادہ تر 30فٹ سے 50 فٹ تک کی کشتیاں تیار ہوتی ہیں۔
جن میں انجن، جال اور مکمل تیار حالت تک لانے میں ایک کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے، ٹیک کی لکڑی مہنگی ہونے کے بعد افریقہ سے درآمد شدہ ملنگا نامی لکڑی کا استعمال بڑھ گیا،ڈالر مہنگا ہونے سے درآمدی لکڑی بھی تیس سے پینتیس فیصد تک مہنگی ہوگئی ہے۔
چھوٹی کشتی کی تیاری میں12سے 15افراد کوروزگار ملتا ہے
سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں کشتی سازی کا فن نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں تیار کی جانے والی کشتیاں زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتی ہیں، پاکستانی کاریگر کسی نقشہ یا ڈرائنگ کے بغیر 10فٹ سے 150فٹ طویل حجم کی کشتیاں تیار کرسکتے ہیں، پاکستان میں بنائی جانے والی کشتیاں دبئی اور ایران سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کی بندرگاہوں پر بھی استعمال کی جاتی ہیں،کنٹینرز کے ذریعے تجارتی سامان کی بڑھتی ہوئی نقل و حمل کی وجہ سے کشتیوں کے ذریعے کارگو کی ترسیل بھی 90فیصد تک کم ہوچکی ہے جس سے کشتی سازی کا کام متاثر ہورہا ہے، کشتی سازی کا عمل چار مراحل پر مشتمل ہوتا ہے پہلے مرحلے میں کشتی کے پیندے کا اسٹرکچر رکھاجاتا ہے۔
جس پر پوری کشتی کھڑی کی جاتی ہے بنیادی اسٹرکچر کو کشتی سازوں کی زبان میں ''پٹھان'' کہا جاتا ہے جس پر اندرونی جانب سے پسلیوں کی شکل میں لکڑی کے تختے رکھے جاتے ہیں اس مرحلے کو ''لے '' کہتے ہیں جس کے بعد کشتیوں کے باہری تختوں کو مضبوط کیلوں کے ذریعے ان کی جگہ پر پختہ کیا جاتا ہے اس عمل کو ''ڈاڑھی'' کہا جاتا ہے جس کے بعد کشتی کے عرشے کو مکمل کیا جاتا ہے آخری مرحلے میں انجن نصب کرکے رنگ و روغن کیا جاتا ہے، نئی کشتی کی لکڑی کو خشک کرنے کے لیے کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ کشتی کا وزن کم ہو اور لکڑی میں مضبوطی آسکے، کشتیوں میں کابلی ری کنڈیشن انجن لگائے جاتے ہیں جو اسکریپ کی شکل میں درآمد ہوتا ہے اور مقامی سطح پر از سر نو تیار کیا جاتا ہے انجن کی قیمت پانچ سے دس لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
انجن کے ساتھ کشتیوں کی بھی وقتاً فوقتاً مرمت کی جاتی ہے، نئی کشتی کو پانچ سال تک مرمت کی ضرورت نہیں پڑتی کشتیوں کی مناسب دیکھ بھال کی جائے تو ایک کشتی تیس سے پینتیس سال تک قابل استعمال رہتی ہے، فش ہاربر پر کشتی سازی سے لگ بھگ 10ہزار افراد کو روزگا ر ملتا ہے ایک چھوٹی کشتی کی تیاری میں 12سے 15افراد کوروزگار ملتا ہے۔مزدوروں کو یومیہ 800 سے 1000روپے تک دیہاڑی ملتی ہے کاریگروں کو 1500 روپے تک کی دیہاڑی ملتی ہے۔