یادِ رفتگاں نثار محمد خان
نثار محمد خان کی زندگی محنت اور بے لوث خدمت کی روشن مثال ہے۔ وہ واقعی ایک با کمال شخصیت کے مالک تھے۔
بجھ رہے ہیں محبتوں کے چراغ
رفتہ رفتہ بچھڑ رہے ہیں دوست
گزشتہ 7 ستمبر کو پشتو زبان کے ایک معروف لکھاری وعظیم پروڈیوسر اور ریڈیو پاکستان کے ہمارے دیرینہ رفیق کار نثار محمد خان اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ کر ملکِ عدم روانہ ہوگئے۔(انا ﷲ وانا الیہ راجعون) اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین!) حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ نثار محمد کا تعلق اس مردم خیز خطے سے ہے جس نے خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا جیسے عظیم شعرا اور بڑے بڑے نامی گرامی فنکار اور اداکار پیدا کیے۔ ان کا جنم جنوری 1942 میں شاہ منصورکے گاؤں میں ہوا۔
نثار محمدخان کی ابتدائی تعلیم ان کے ضلع میں ہی تکمیل پذیر ہوئی جس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مردان سے گریجویشن کیا۔ انھوں نے 1960 میں ریڈیو پاکستان،کراچی سے پشتو نیوز ریڈرکی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا اور ترقی کی مختلف منازل کامیابی سے طے کرتے ہوئے اسٹیشن ڈائریکٹرکے منصب تک پہنچے۔ ریڈیو پاکستان میں خدمات انجام دینے کے دوران انھوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور پشاور یونیورسٹی سے پشتو زبان میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔
نثار محمد خان محض ایک لکھاری اور پروڈیوسر ہی نہیں بلکہ بہت بڑے اداکار اور محقق بھی تھے۔ انھوں نے ہر حیثیت سے پشتو زبان کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، جنھیں رہتی دنیا تک کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی ثقافت سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کے لیے انھوں نے پوری زندگی ایک مشن کے طور پر کام کیا۔ ایسے وقت میں جب ریڈیوکو انٹرٹینمنٹ اور اطلاعات کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا تھا انھوں نے پشتو زبان کے بے شمار ڈرامے تحریر بھی کیے اور پروڈیوسر بھی بن گئے جن میں ''چخا'' بمعنی چیخ اور ''زہ سوک یم'' بمعنی ''میں کون ہوں'' خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ڈرامہ سے ان کی گہری دلچسپی کی بنا پر ہی انھیں 1973 میں ریڈیو پاکستان پشاورکے ڈرامہ سیکشن کے سربراہ بنادیا گیا۔ اس کے بعد حکومت نے انھیں ڈرامے کی صنف کا جدید مطالعہ کرنے کی غرض سے ہالینڈ بھیج دیا۔
چونکہ پشتو زبان سے گہرا قلبی لگاؤ نثار محمد خان کی گھٹی اور خمیر میں شامل تھا اس لیے بھلا یہ کسے ممکن تھا کہ وہ موسیقی کے حوالے سے بھی اپنی مادری زبان کی خدمت سے غافل رہ جاتے۔ چنانچہ انھوں نے پشتو موسیقی کے فروغ میں بھی اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ان کے پیش کیے ہوئے پشتو موسیقی کے ہر پروگرام کو سامعین کی جانب سے سندِ مقبولیت حاصل ہوئی۔
تاہم ان کا پروڈیوس کیا ہوا ریڈیو پاکستان کا پشتو میوزک کا پروگرام ''یؤزلِ بیا پادے لاڑ راشا'' بمعنی اس جگہ ایک بار پھر آئیں'' ان کے پیش کیے ہوئے تمام پروگراموں میں عوامی مقبولیت کے لحاظ سے سر فہرست ہے۔ اس یادگار پروگرام کے تذکرے آج بھی پشتو موسیقی کے شائقین کی زبانی آج بھی سنے جاسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موسیقی وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں انگریزی کے مایہ ناز شاعر بی بی شیلی کی انتہائی مختصر لیکن نہایت پر اثر نظم یاد آرہی ہے جس کا خوبصورت عنوان "Music When Soft Voices Die" پشتو موسیقی کی خدمات کے حوالے سے بھی نثار محمد خان کا نام ہمیشہ امر رہے گا۔ انھوں نے نہ صرف پشتو موسیقی کو چار چاند لگائے بلکہ کئی ایسے گلوکار بھی متعارف کرائے جن کی صلاحیتوں کا لوہا عوام الناس ہمیشہ سے مانتے آئے ہیں اور آیندہ بھی مانتے رہیںگے ان نامور گلوکاراؤں اور گلو کاروں میں معشوق سلطان، فضلِ ربی، گلنار بیگم، ہدایت اﷲ، گل مینا، احمد خان، کشور سلطان، نوید خان اور نگار سلطان کے نام خاص طور پر قابل ذکر اور جانے پہچانے ہیں۔ ان گلوکاروں کی مقبولیت میں نثار محمد خان کا بہت بڑا ہاتھ ہے چونکہ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان پشاور میں ریکارڈنگ کی مطلوبہ سہولیات دستیاب نہیں تھیں جس وجہ سے نثار محمد خان کو ان گلوکاروںکے لیے ریڈیو پاکستان لاہور کے سینٹرل پروڈکشن یونٹ (سی پی یو) میں ریکارڈنگ کا خصوصی بندوبست کروانا پڑتا تھا جو کوئی آسان کام نہ تھا۔
یہ کام دقت طلب بھی تھا اور وقت طلب بھی لیکن پشتو موسیقی کے متوالے اور رکھوالے کی حیثیت سے نثار محمد خان نے یہ تمام پاپڑ ہنسی خوشی سے بیلے۔ ہم چونکہ ایک زمانہ میں ریڈیو پاکستان کے سینٹرل پروڈکشن یونٹ (سی پی یو) کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں نہ صرف اس کی کارکردگی کا ذاتی تجربہ ہے بلکہ اس کی غیر معمولی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ اس شعبے کے پاس آوازوں کا ایک انمول خزانہ ہے جو نہ صرف ریڈیو پاکستان کے لیے بلکہ وطن عزیز پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے باعث افتخار ہے۔ مگر افسوس کہ ارباب بست و کشاد کو اس خزانے کی اہمیت و افادیت تو کجا ریڈیو پاکستان جیسے منفرد ادارہ کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ نہیں ہے جو نہ صرف ایک تاریخ ساز ادارہ ہے بلکہ ہماری نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا محافظ اور ہماری سلامتی و ترقی اور قومی یکجہتی کا بھی امین ہے۔
نثار محمد خان نے ریڈیو پاکستان پشاور میں خدمات انجام دیتے ہوئے 1000 سے بھی زیادہ مدھر گانے پروڈیوس کیے جوکہ ایک بہت بڑی تعداد اور قابل ستائش کاوش ہے۔ مگر نام و نمود سے بے نیاز یہ عظیم براڈ کاسٹر صلہ اور ستائش کی خواہش اور تمنا سے بالکل نا آشنا تھا۔ اسے تو بس اپنے کام سے کام تھا۔ ایسے نابغۂ روزگار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
نثار محمد خان موسیقی کے محض ایک پروڈیوسر ہی نہیں بلکہ بذات خود بھی ایک ماہر ستار نواز تھے۔ اس کے علاوہ انھیں موسیقی کے دیگر آلات اور سُرتال سے بھی گہری واقفیت تھی۔ اگر آپ ریڈیو پاکستان پشاور کی میوزک لائبریری کا دورہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ نثار محمد خان کی خدمات کیا ہیں اور ان کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے تین مختلف زبانوں میں تین خوبصورت کتابیں بھی تحریر کیں جن میں ایک کتاب انگریزی، دوسری پشتو اور تیسری قومی زبان اردو میں ہے۔
ان کی انگریزی کتاب کا عنوان ہے Exploring Melody اس کتاب میں ماضی کے لوک گلوکاروں اور گزشتہ صدی کے دوران برصغیر میں مقبول آلاتِ موسیقی کا احوال پیش کیا گیا ہے۔ ان کی دوسری کتاب بھی موسیقی ہی کے بارے میں ہے۔ پشتو زبان میں لکھی گئی ۔ اس کتاب کا عنوان ہے ''اسپِن تمبل'' اس کتاب میں بھی موسیقی اورگلوکاروں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تیسری کتاب اردو زبان میں ہے، جس کا عنوان ''آغوش کوثر'' ہے جس میں اسلام کے اولین ترین مؤذن حضرت بلالؓ سے قلبی عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے۔
نثار محمد خان نے فلم کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے پشتو زبان کی 52 فلموں کے اسکرپٹ تحریرکرکے اپنی قلمکاری کا لوہا منوالیا۔ ان میں فلم ''خانہ بدوش'' اور ''ٹوپک زمہ قانون'' خاص طور پر قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ انھوں نے چند پشتو فلموں میں اداکاری بھی کی۔ فلم ''مفرور'' میں انھوں نے سائیڈ ہیروکا رول ادا کیا جب کہ ایک اور فلم میں وہ پولیس انسپکٹر بن کر جلوہ گر ہوئے۔
1990 کے اختتام پر وہ ترقی پاکر اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے اور پھر اس کے بعد 2001 میں ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے ریٹائر ہوگئے۔ اس کے بعد وہ پاکستان فلم سنسر بورڈ کے ساتھ 2003 تک وابستہ رہے ۔ انھوں نے تھیلیسیمیا پروجیکٹ پر بھی بہت اہم کام کیا جس کی خدمات کے اعتراف میں کے پی کے کی حکومت نے انھیں دو مرتبہ ایوارڈ سے بھی نوازا۔نومبر2008 میں ان کی کاوشوں سے پختون ثقافت کے فروغ کے لیے صوبائی ڈائریکٹوریٹ آف کلچر معرضِ وجود میں آئے۔
نثار محمد خان کی زندگی محنت اور بے لوث خدمت کی روشن مثال ہے۔ وہ واقعی ایک با کمال شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بے حد مرنجان مرنج اور نہایت سادہ اور ملنسار انسان تھے وہ یاروں کے یار اوردکھیوں کے غم خوار تھے۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوگا۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
رفتہ رفتہ بچھڑ رہے ہیں دوست
گزشتہ 7 ستمبر کو پشتو زبان کے ایک معروف لکھاری وعظیم پروڈیوسر اور ریڈیو پاکستان کے ہمارے دیرینہ رفیق کار نثار محمد خان اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ کر ملکِ عدم روانہ ہوگئے۔(انا ﷲ وانا الیہ راجعون) اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین!) حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ نثار محمد کا تعلق اس مردم خیز خطے سے ہے جس نے خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا جیسے عظیم شعرا اور بڑے بڑے نامی گرامی فنکار اور اداکار پیدا کیے۔ ان کا جنم جنوری 1942 میں شاہ منصورکے گاؤں میں ہوا۔
نثار محمدخان کی ابتدائی تعلیم ان کے ضلع میں ہی تکمیل پذیر ہوئی جس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مردان سے گریجویشن کیا۔ انھوں نے 1960 میں ریڈیو پاکستان،کراچی سے پشتو نیوز ریڈرکی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا اور ترقی کی مختلف منازل کامیابی سے طے کرتے ہوئے اسٹیشن ڈائریکٹرکے منصب تک پہنچے۔ ریڈیو پاکستان میں خدمات انجام دینے کے دوران انھوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور پشاور یونیورسٹی سے پشتو زبان میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔
نثار محمد خان محض ایک لکھاری اور پروڈیوسر ہی نہیں بلکہ بہت بڑے اداکار اور محقق بھی تھے۔ انھوں نے ہر حیثیت سے پشتو زبان کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، جنھیں رہتی دنیا تک کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی ثقافت سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کے لیے انھوں نے پوری زندگی ایک مشن کے طور پر کام کیا۔ ایسے وقت میں جب ریڈیوکو انٹرٹینمنٹ اور اطلاعات کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا تھا انھوں نے پشتو زبان کے بے شمار ڈرامے تحریر بھی کیے اور پروڈیوسر بھی بن گئے جن میں ''چخا'' بمعنی چیخ اور ''زہ سوک یم'' بمعنی ''میں کون ہوں'' خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ڈرامہ سے ان کی گہری دلچسپی کی بنا پر ہی انھیں 1973 میں ریڈیو پاکستان پشاورکے ڈرامہ سیکشن کے سربراہ بنادیا گیا۔ اس کے بعد حکومت نے انھیں ڈرامے کی صنف کا جدید مطالعہ کرنے کی غرض سے ہالینڈ بھیج دیا۔
چونکہ پشتو زبان سے گہرا قلبی لگاؤ نثار محمد خان کی گھٹی اور خمیر میں شامل تھا اس لیے بھلا یہ کسے ممکن تھا کہ وہ موسیقی کے حوالے سے بھی اپنی مادری زبان کی خدمت سے غافل رہ جاتے۔ چنانچہ انھوں نے پشتو موسیقی کے فروغ میں بھی اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ان کے پیش کیے ہوئے پشتو موسیقی کے ہر پروگرام کو سامعین کی جانب سے سندِ مقبولیت حاصل ہوئی۔
تاہم ان کا پروڈیوس کیا ہوا ریڈیو پاکستان کا پشتو میوزک کا پروگرام ''یؤزلِ بیا پادے لاڑ راشا'' بمعنی اس جگہ ایک بار پھر آئیں'' ان کے پیش کیے ہوئے تمام پروگراموں میں عوامی مقبولیت کے لحاظ سے سر فہرست ہے۔ اس یادگار پروگرام کے تذکرے آج بھی پشتو موسیقی کے شائقین کی زبانی آج بھی سنے جاسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موسیقی وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں انگریزی کے مایہ ناز شاعر بی بی شیلی کی انتہائی مختصر لیکن نہایت پر اثر نظم یاد آرہی ہے جس کا خوبصورت عنوان "Music When Soft Voices Die" پشتو موسیقی کی خدمات کے حوالے سے بھی نثار محمد خان کا نام ہمیشہ امر رہے گا۔ انھوں نے نہ صرف پشتو موسیقی کو چار چاند لگائے بلکہ کئی ایسے گلوکار بھی متعارف کرائے جن کی صلاحیتوں کا لوہا عوام الناس ہمیشہ سے مانتے آئے ہیں اور آیندہ بھی مانتے رہیںگے ان نامور گلوکاراؤں اور گلو کاروں میں معشوق سلطان، فضلِ ربی، گلنار بیگم، ہدایت اﷲ، گل مینا، احمد خان، کشور سلطان، نوید خان اور نگار سلطان کے نام خاص طور پر قابل ذکر اور جانے پہچانے ہیں۔ ان گلوکاروں کی مقبولیت میں نثار محمد خان کا بہت بڑا ہاتھ ہے چونکہ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان پشاور میں ریکارڈنگ کی مطلوبہ سہولیات دستیاب نہیں تھیں جس وجہ سے نثار محمد خان کو ان گلوکاروںکے لیے ریڈیو پاکستان لاہور کے سینٹرل پروڈکشن یونٹ (سی پی یو) میں ریکارڈنگ کا خصوصی بندوبست کروانا پڑتا تھا جو کوئی آسان کام نہ تھا۔
یہ کام دقت طلب بھی تھا اور وقت طلب بھی لیکن پشتو موسیقی کے متوالے اور رکھوالے کی حیثیت سے نثار محمد خان نے یہ تمام پاپڑ ہنسی خوشی سے بیلے۔ ہم چونکہ ایک زمانہ میں ریڈیو پاکستان کے سینٹرل پروڈکشن یونٹ (سی پی یو) کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں نہ صرف اس کی کارکردگی کا ذاتی تجربہ ہے بلکہ اس کی غیر معمولی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ اس شعبے کے پاس آوازوں کا ایک انمول خزانہ ہے جو نہ صرف ریڈیو پاکستان کے لیے بلکہ وطن عزیز پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے باعث افتخار ہے۔ مگر افسوس کہ ارباب بست و کشاد کو اس خزانے کی اہمیت و افادیت تو کجا ریڈیو پاکستان جیسے منفرد ادارہ کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ نہیں ہے جو نہ صرف ایک تاریخ ساز ادارہ ہے بلکہ ہماری نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا محافظ اور ہماری سلامتی و ترقی اور قومی یکجہتی کا بھی امین ہے۔
نثار محمد خان نے ریڈیو پاکستان پشاور میں خدمات انجام دیتے ہوئے 1000 سے بھی زیادہ مدھر گانے پروڈیوس کیے جوکہ ایک بہت بڑی تعداد اور قابل ستائش کاوش ہے۔ مگر نام و نمود سے بے نیاز یہ عظیم براڈ کاسٹر صلہ اور ستائش کی خواہش اور تمنا سے بالکل نا آشنا تھا۔ اسے تو بس اپنے کام سے کام تھا۔ ایسے نابغۂ روزگار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
نثار محمد خان موسیقی کے محض ایک پروڈیوسر ہی نہیں بلکہ بذات خود بھی ایک ماہر ستار نواز تھے۔ اس کے علاوہ انھیں موسیقی کے دیگر آلات اور سُرتال سے بھی گہری واقفیت تھی۔ اگر آپ ریڈیو پاکستان پشاور کی میوزک لائبریری کا دورہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ نثار محمد خان کی خدمات کیا ہیں اور ان کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے تین مختلف زبانوں میں تین خوبصورت کتابیں بھی تحریر کیں جن میں ایک کتاب انگریزی، دوسری پشتو اور تیسری قومی زبان اردو میں ہے۔
ان کی انگریزی کتاب کا عنوان ہے Exploring Melody اس کتاب میں ماضی کے لوک گلوکاروں اور گزشتہ صدی کے دوران برصغیر میں مقبول آلاتِ موسیقی کا احوال پیش کیا گیا ہے۔ ان کی دوسری کتاب بھی موسیقی ہی کے بارے میں ہے۔ پشتو زبان میں لکھی گئی ۔ اس کتاب کا عنوان ہے ''اسپِن تمبل'' اس کتاب میں بھی موسیقی اورگلوکاروں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تیسری کتاب اردو زبان میں ہے، جس کا عنوان ''آغوش کوثر'' ہے جس میں اسلام کے اولین ترین مؤذن حضرت بلالؓ سے قلبی عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے۔
نثار محمد خان نے فلم کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے پشتو زبان کی 52 فلموں کے اسکرپٹ تحریرکرکے اپنی قلمکاری کا لوہا منوالیا۔ ان میں فلم ''خانہ بدوش'' اور ''ٹوپک زمہ قانون'' خاص طور پر قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ انھوں نے چند پشتو فلموں میں اداکاری بھی کی۔ فلم ''مفرور'' میں انھوں نے سائیڈ ہیروکا رول ادا کیا جب کہ ایک اور فلم میں وہ پولیس انسپکٹر بن کر جلوہ گر ہوئے۔
1990 کے اختتام پر وہ ترقی پاکر اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے اور پھر اس کے بعد 2001 میں ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے ریٹائر ہوگئے۔ اس کے بعد وہ پاکستان فلم سنسر بورڈ کے ساتھ 2003 تک وابستہ رہے ۔ انھوں نے تھیلیسیمیا پروجیکٹ پر بھی بہت اہم کام کیا جس کی خدمات کے اعتراف میں کے پی کے کی حکومت نے انھیں دو مرتبہ ایوارڈ سے بھی نوازا۔نومبر2008 میں ان کی کاوشوں سے پختون ثقافت کے فروغ کے لیے صوبائی ڈائریکٹوریٹ آف کلچر معرضِ وجود میں آئے۔
نثار محمد خان کی زندگی محنت اور بے لوث خدمت کی روشن مثال ہے۔ وہ واقعی ایک با کمال شخصیت کے مالک تھے۔ وہ بے حد مرنجان مرنج اور نہایت سادہ اور ملنسار انسان تھے وہ یاروں کے یار اوردکھیوں کے غم خوار تھے۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ کبھی پر نہیں ہوگا۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے