تیس ہزار پاکستانی سعودی قانون نطاقت کے نرغے میں
’’کر لیں گے، ہو جائے گا، دیکھ لیں گے‘‘ کی روایتی پالیسی ہزاروں محنت کشوں کو واپس وطن لا سکتی ہے
سعودی عرب نے 27 مارچ 2013 کو ملک میں غیر قانونی طریقے سے کام کرنے والے تارکین وطن کے لیے ایک نیا قانون ''NITAQAT'' کے نام سے متعارف کرایا تھا۔
جس کا مقصد سعودی عرب کے دس فی صد مقامی باشندوں کو سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ فراہم کرنا اور ایسے غیر ملکی باشندوں کو ملک سے بے دخل کرنا تھا جو غیر قانونی ملازمتیں کر رہے تھے۔ سعودی حکومت نے غیر ملکی ملازمین کو تین ماہ کی مہلت بھی فراہم کی تاکہ وہ اپنے کاغذات کو درست کروا لیں یا پھر جرمانے اور قید کی سزا کے بغیر پرامن طریقے سے واپس اپنے اپنے ملک چلے جانے کی تیاری مکمل کر لیں ۔ اس دوران سعودی حکومت نے غیر ملکی ملازمین کی واپسی کے لیے انتظامات شروع کر دیے تھے جن کو چند دن پہلے ہی حتمی شکل دی گئی ہے۔
قانون نطاقت کے اعلان کے فوراً بعد جس ملک نے اپنے شہریوں کی مدد کے لیے فوری اور عملی قدم اٹھایا تھا وہ بھارت ہے جب کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جس نے جون کے پہلے ہفتے میں جزوی طور پر سوچ و بچار کے بعد عندیہ یہ دیا ہے کہ اس معاملے کو جلد حل کر لیا جائے گا ۔ دوسری جانب مارچ کے فوراً بعد سعودی دارالحکومت ریاض میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں پاکستانی محنت کشوں کی قطاریں لگ گئی تھیں جو تاحال موجود ہیں لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اِس ضمن میں ابھی تک کوئی بھی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ صرف یہ تسلی سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، اِس لیے پاکستانیوں محنت کشوں کے ساتھ سعودی حکومت ہمدردی کے ساتھ پیش آئے گی جب کہ اِس ضمن میں بھارت کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب سے مسلسل رابطہ رکھا ہوا ہے۔
یہ کام اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کا تھا، اس ادارے کو بیرون ملک پاکستانیوں کو روزگار دلانے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا لیکن یہ ادارہ چند روز پہلے تک سعودی عرب میں مقیم ہزاروں محنت کشوں کی مشکلات سے لاعلم تھا حالاں کہ دو ماہ قبل سعودی حکومت نے تارکین وطن کو تین ماہ کی مہلت دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ شائع ہونے والی خبروں کے مطابق او پی ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر افتخار بابر (جن کو سابق وفاقی وزیر فاروق ستار نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں تعینات کیا تھا) اپنی مسلسل مصروفیات کے باعث ابھی تک اس حوالے سے بیان دینے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔
او پی ایف کے معتبر ذرائع کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ ایم ڈی صاحب نئی حکومت میں اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ جس کی وجہ سے ادارے کے علم میں یہ معاملہ نہیں آ سکا۔ جب میڈیا نے اِس معاملے کو نمایاں کیا تو او پی ایف نے یکم جون کو ریاض میں پاکستانی سفارت خانے کو ایک فیکس ارسال کرکے پہلی بار اِس معاملے کی اصل نوعیت جاننے کی کوشش کی جب کہ یہ معاملہ گزشتہ کئی ماہ سے عالمی ذرائع ابلاغ اور سعودی وزارت داخلہ اور امیگریشن کی ویب سائیٹ پر نمایاں طور پر موجود تھا۔
اب پاکستانی سفارت خانہ کیا جواب دے گا اور یہ او پی ایف کیا حکمت عملی وضع کرے گا، اِس کا علم ابھی تک نہیںہو سکا (3 جون تک) لیکن ایک امر طے ہے کہ اگر اِس معاملے کو احسن طریقے سے نمٹایا نہ جا سکا تو 3 جولائی کے بعد 20 ہزار کے قریب پاکستانی ہنر مند اور محنت کش بے روزگار ہونے کے بعد بے دخلی کی صورت میں پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے، اِس سے غیر ملکی زرمبادلہ چار ارب ڈالر سالانہ میں کمی تو آئے گی ہی لیکن نئی حکومت کے لیے ایک اور سردردی کھڑی ہونے کا قوی امکان ہے۔
سعودی حکومت کے ادارہ شماریات کے مطابق سعودی عرب میں اِس وقت بے روزگاری کی شرح 12 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اِس کو سنگل ڈیجیٹ تک لانے کے لیے سعودی عرب کے مقامی باشندوں کو ملازمتوں میں 10 فی صد کوٹہ دینا لازمی ہو چکا ہے۔ یہ کوٹہ اُسی وقت ممکن ہو گا جب غیر قانونی طور پر سعودی عرب میں مقیم غیر ملکی ملازمین کا انخلاء ہو گا۔ سعودی عرب نے اِس قانون میں مزید لچک دینے اور مقررہ تاریخ میں توسیع دینے سے پہلے ہی انکار کردیا ہے۔
اِس معاملے کو اگر غیر ملکی زرمبادلہ کی پاکستان میں ترسیل کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سعودی عرب دیگر ممالک میں اب بھی سرفہرست ہے جہاں سے پاکستان میں بھاری رقم آ رہی ہے۔ یاد رہے غیر ممالک سے زرمبادلہ کی پاکستان میں ترسیل کے حوالے سے خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب کے بعد امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک کا نمبر بعد میں آتاہے۔
ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں 12 لاکھ کے قریب پاکستانی کام کر رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر کے کاغذات نئے سعودی قانون کی زد میں نہیں آتے لیکن 30 ہزار کے قریب مزدور اور محنت کش ایسے ہیں جو اِس قانون کے نرغے میں ہیں۔ سعودی امیگریشن پالیسی کے تحت بننے والے نئے قانون ''نطاقت'' کے تحت ایسے تمام غیر ملکی ملازمین کو بے دخل کیا جائے گا، جو اپنے ویزے پر تحریر کیے ہوئے کام کے برعکس کام کرتے ہیں، جن کے ویزے کی معیاد ختم ہو چکی ہے یا وہ غیر قانونی طریقے سے سعودی عرب میں داخل ہو کر ''مقیم'' بن گئے ہیں۔
اس پالیسی کے تحت دنیا بھی لاکھوں ملازمین قانون کی گرفت میں آنے والے ہیں، اگر مقررہ مدت سے پہلے ان کی حکومتوں نے ان کی مدد نہ کی تو پھر وہ جرمانے کے ساتھ جیل کی ہوا بھی کھائیں گے۔ ماضی قریب میں نگران وفاقی وزیر جمال کاکا خیل نے بھی اس حوالے سے کوئی کوشش نہیں کی اور نئی حکومت کے لیے یہ معاملہ جوں کا توں چھوڑ دیا تھا حالاں کہ اپریل میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے اِس معاملے پر میڈیا کو آگاہ کر دیا تھا لیکن اِس کے باوجود ''کر لیں گے، ہو جائے گا، دیکھ لیں گے'' کی روایتی پالیسی کے تحت ہی غفلت اور سستی کے مظاہرے ہوتے رہے جن کا خمیازہ بہرحال ہمیں بھگتنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری کے مطابق ''ریاض کے پاکستانی سفارت خانے میں پاکستانی شہریوں کی سہولت کے لیے فوری طور پر ڈیسک بنا دیا گیا ہے، ان پڑھ محنت کش افراد کے لیے ان کی مقامی زبان میں ترجمے کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے، 30 ہزار افراد ایسے ہیں جو پاکستان لیبر ویزے پر سعودی عرب گئے تھے مگر وہاں جا کر انہوں نے ویزے پر لکھے ہوئے کام کے برعکس کام شروع کردیا تھا۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کاموں میں انہیں اجرت زیادہ ملتی تھی، زیادہ کمائی کے لیے متعدد ہنر مندوں نے اپنے آجروں سے رابطہ منقطع کر لیے جو سعودی لیبر لاء کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ قابل سزا جرم ہے، سعودی حکومت نے ایسے غیر ملکی افراد کو 3 جولائی تک مہلت دے دی تھی، امید ہے کہ مقررہ مدت تک معاملات کو بخوبی نمٹا لیا جائے گا''۔ دفتر خارجہ کے مطابق اب تک ہزاروں پاکستانیوں نے سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا ہوا ہے ان افراد کی ہرممکن مدد کی جا رہی ہے، سعودی عرب میں 50 سے زیادہ تجارتی اور دیگر کمپنیوں سے رابطے بھی ہو گئے ہیں۔
تاکہ ہنر مند پاکستانیوں کو ویزے کے مطابق ملازمت مل سکے۔ یہ ادارے ان افراد کے انٹرویو کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سعودی عرب میں متعین سفیر کے سعودی حکام سے رابطے جاری ہیں اور سعودی عرب سے یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان پاکستانیوں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جائے۔ سعودی حکام سے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ سعودیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو قید اور جرمانے کے بغیر واپس جانے دیا جائے، امید ہے کہ سعودی حکام پاکستانیوں سے خصوصی طور پر نرمی اختیار کریں گے اور غلطیوں سے درگزر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی حکومت نے اپنے نئے قانون ''نطاقت'' کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ سعودی عرب کے نئے لیبر لاء سعودی حکومت کی نئی پالیسی کا حصہ ہے، اِس قانون کا ہدف کوئی خاص ملک ہرگز نہیں، اِس قانون کا مقصد صرف یہ ہے کہ حکومت ان افراد کو ان کے اپنے ممالک میں واپس بھجوانا چاہتی ہے جو محنت کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ایسے افراد کو شکنجے میں لانے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جا چکی ہے تاکہ اِس قانون کی روح کے مطابق کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔
نئی لیبر سعودی پالیسی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے مقامی ہنر مندوں کو اپنے ہی ملک میں روزگار فراہم کرنا ہے تاکہ ہنر مند طبقے اور خاص طور پر نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ یاد رہے سعودی عرب نے گزشتہ دو عشروں کے درمیان ملک کے اندر تعلیم اور ہنر مند افراد کی تیاری پر خصوصی توجہ دی تھی جس کے نتیجے میں اب سعودی عرب کے اندر مقامی افراد کی صورت میں ایک نئی ''ورک فورس'' تیار ہو چکی ہے اور اِس ورک فورس میں شامل افراد کو سعودی عرب کوٹہ کے ذریعے ہر طرح کی ملازمتیں دینے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
جس کا مقصد سعودی عرب کے دس فی صد مقامی باشندوں کو سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ فراہم کرنا اور ایسے غیر ملکی باشندوں کو ملک سے بے دخل کرنا تھا جو غیر قانونی ملازمتیں کر رہے تھے۔ سعودی حکومت نے غیر ملکی ملازمین کو تین ماہ کی مہلت بھی فراہم کی تاکہ وہ اپنے کاغذات کو درست کروا لیں یا پھر جرمانے اور قید کی سزا کے بغیر پرامن طریقے سے واپس اپنے اپنے ملک چلے جانے کی تیاری مکمل کر لیں ۔ اس دوران سعودی حکومت نے غیر ملکی ملازمین کی واپسی کے لیے انتظامات شروع کر دیے تھے جن کو چند دن پہلے ہی حتمی شکل دی گئی ہے۔
قانون نطاقت کے اعلان کے فوراً بعد جس ملک نے اپنے شہریوں کی مدد کے لیے فوری اور عملی قدم اٹھایا تھا وہ بھارت ہے جب کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جس نے جون کے پہلے ہفتے میں جزوی طور پر سوچ و بچار کے بعد عندیہ یہ دیا ہے کہ اس معاملے کو جلد حل کر لیا جائے گا ۔ دوسری جانب مارچ کے فوراً بعد سعودی دارالحکومت ریاض میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں پاکستانی محنت کشوں کی قطاریں لگ گئی تھیں جو تاحال موجود ہیں لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اِس ضمن میں ابھی تک کوئی بھی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ صرف یہ تسلی سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، اِس لیے پاکستانیوں محنت کشوں کے ساتھ سعودی حکومت ہمدردی کے ساتھ پیش آئے گی جب کہ اِس ضمن میں بھارت کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب سے مسلسل رابطہ رکھا ہوا ہے۔
یہ کام اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کا تھا، اس ادارے کو بیرون ملک پاکستانیوں کو روزگار دلانے اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا لیکن یہ ادارہ چند روز پہلے تک سعودی عرب میں مقیم ہزاروں محنت کشوں کی مشکلات سے لاعلم تھا حالاں کہ دو ماہ قبل سعودی حکومت نے تارکین وطن کو تین ماہ کی مہلت دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ شائع ہونے والی خبروں کے مطابق او پی ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر افتخار بابر (جن کو سابق وفاقی وزیر فاروق ستار نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں تعینات کیا تھا) اپنی مسلسل مصروفیات کے باعث ابھی تک اس حوالے سے بیان دینے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔
او پی ایف کے معتبر ذرائع کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ ایم ڈی صاحب نئی حکومت میں اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ جس کی وجہ سے ادارے کے علم میں یہ معاملہ نہیں آ سکا۔ جب میڈیا نے اِس معاملے کو نمایاں کیا تو او پی ایف نے یکم جون کو ریاض میں پاکستانی سفارت خانے کو ایک فیکس ارسال کرکے پہلی بار اِس معاملے کی اصل نوعیت جاننے کی کوشش کی جب کہ یہ معاملہ گزشتہ کئی ماہ سے عالمی ذرائع ابلاغ اور سعودی وزارت داخلہ اور امیگریشن کی ویب سائیٹ پر نمایاں طور پر موجود تھا۔
اب پاکستانی سفارت خانہ کیا جواب دے گا اور یہ او پی ایف کیا حکمت عملی وضع کرے گا، اِس کا علم ابھی تک نہیںہو سکا (3 جون تک) لیکن ایک امر طے ہے کہ اگر اِس معاملے کو احسن طریقے سے نمٹایا نہ جا سکا تو 3 جولائی کے بعد 20 ہزار کے قریب پاکستانی ہنر مند اور محنت کش بے روزگار ہونے کے بعد بے دخلی کی صورت میں پاکستان آنا شروع ہو جائیں گے، اِس سے غیر ملکی زرمبادلہ چار ارب ڈالر سالانہ میں کمی تو آئے گی ہی لیکن نئی حکومت کے لیے ایک اور سردردی کھڑی ہونے کا قوی امکان ہے۔
سعودی حکومت کے ادارہ شماریات کے مطابق سعودی عرب میں اِس وقت بے روزگاری کی شرح 12 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اِس کو سنگل ڈیجیٹ تک لانے کے لیے سعودی عرب کے مقامی باشندوں کو ملازمتوں میں 10 فی صد کوٹہ دینا لازمی ہو چکا ہے۔ یہ کوٹہ اُسی وقت ممکن ہو گا جب غیر قانونی طور پر سعودی عرب میں مقیم غیر ملکی ملازمین کا انخلاء ہو گا۔ سعودی عرب نے اِس قانون میں مزید لچک دینے اور مقررہ تاریخ میں توسیع دینے سے پہلے ہی انکار کردیا ہے۔
اِس معاملے کو اگر غیر ملکی زرمبادلہ کی پاکستان میں ترسیل کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سعودی عرب دیگر ممالک میں اب بھی سرفہرست ہے جہاں سے پاکستان میں بھاری رقم آ رہی ہے۔ یاد رہے غیر ممالک سے زرمبادلہ کی پاکستان میں ترسیل کے حوالے سے خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب کے بعد امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ممالک کا نمبر بعد میں آتاہے۔
ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں 12 لاکھ کے قریب پاکستانی کام کر رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر کے کاغذات نئے سعودی قانون کی زد میں نہیں آتے لیکن 30 ہزار کے قریب مزدور اور محنت کش ایسے ہیں جو اِس قانون کے نرغے میں ہیں۔ سعودی امیگریشن پالیسی کے تحت بننے والے نئے قانون ''نطاقت'' کے تحت ایسے تمام غیر ملکی ملازمین کو بے دخل کیا جائے گا، جو اپنے ویزے پر تحریر کیے ہوئے کام کے برعکس کام کرتے ہیں، جن کے ویزے کی معیاد ختم ہو چکی ہے یا وہ غیر قانونی طریقے سے سعودی عرب میں داخل ہو کر ''مقیم'' بن گئے ہیں۔
اس پالیسی کے تحت دنیا بھی لاکھوں ملازمین قانون کی گرفت میں آنے والے ہیں، اگر مقررہ مدت سے پہلے ان کی حکومتوں نے ان کی مدد نہ کی تو پھر وہ جرمانے کے ساتھ جیل کی ہوا بھی کھائیں گے۔ ماضی قریب میں نگران وفاقی وزیر جمال کاکا خیل نے بھی اس حوالے سے کوئی کوشش نہیں کی اور نئی حکومت کے لیے یہ معاملہ جوں کا توں چھوڑ دیا تھا حالاں کہ اپریل میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے اِس معاملے پر میڈیا کو آگاہ کر دیا تھا لیکن اِس کے باوجود ''کر لیں گے، ہو جائے گا، دیکھ لیں گے'' کی روایتی پالیسی کے تحت ہی غفلت اور سستی کے مظاہرے ہوتے رہے جن کا خمیازہ بہرحال ہمیں بھگتنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری کے مطابق ''ریاض کے پاکستانی سفارت خانے میں پاکستانی شہریوں کی سہولت کے لیے فوری طور پر ڈیسک بنا دیا گیا ہے، ان پڑھ محنت کش افراد کے لیے ان کی مقامی زبان میں ترجمے کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے، 30 ہزار افراد ایسے ہیں جو پاکستان لیبر ویزے پر سعودی عرب گئے تھے مگر وہاں جا کر انہوں نے ویزے پر لکھے ہوئے کام کے برعکس کام شروع کردیا تھا۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کاموں میں انہیں اجرت زیادہ ملتی تھی، زیادہ کمائی کے لیے متعدد ہنر مندوں نے اپنے آجروں سے رابطہ منقطع کر لیے جو سعودی لیبر لاء کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ قابل سزا جرم ہے، سعودی حکومت نے ایسے غیر ملکی افراد کو 3 جولائی تک مہلت دے دی تھی، امید ہے کہ مقررہ مدت تک معاملات کو بخوبی نمٹا لیا جائے گا''۔ دفتر خارجہ کے مطابق اب تک ہزاروں پاکستانیوں نے سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا ہوا ہے ان افراد کی ہرممکن مدد کی جا رہی ہے، سعودی عرب میں 50 سے زیادہ تجارتی اور دیگر کمپنیوں سے رابطے بھی ہو گئے ہیں۔
تاکہ ہنر مند پاکستانیوں کو ویزے کے مطابق ملازمت مل سکے۔ یہ ادارے ان افراد کے انٹرویو کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سعودی عرب میں متعین سفیر کے سعودی حکام سے رابطے جاری ہیں اور سعودی عرب سے یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان پاکستانیوں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جائے۔ سعودی حکام سے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ سعودیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو قید اور جرمانے کے بغیر واپس جانے دیا جائے، امید ہے کہ سعودی حکام پاکستانیوں سے خصوصی طور پر نرمی اختیار کریں گے اور غلطیوں سے درگزر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی حکومت نے اپنے نئے قانون ''نطاقت'' کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ سعودی عرب کے نئے لیبر لاء سعودی حکومت کی نئی پالیسی کا حصہ ہے، اِس قانون کا ہدف کوئی خاص ملک ہرگز نہیں، اِس قانون کا مقصد صرف یہ ہے کہ حکومت ان افراد کو ان کے اپنے ممالک میں واپس بھجوانا چاہتی ہے جو محنت کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ایسے افراد کو شکنجے میں لانے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جا چکی ہے تاکہ اِس قانون کی روح کے مطابق کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔
نئی لیبر سعودی پالیسی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے مقامی ہنر مندوں کو اپنے ہی ملک میں روزگار فراہم کرنا ہے تاکہ ہنر مند طبقے اور خاص طور پر نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ یاد رہے سعودی عرب نے گزشتہ دو عشروں کے درمیان ملک کے اندر تعلیم اور ہنر مند افراد کی تیاری پر خصوصی توجہ دی تھی جس کے نتیجے میں اب سعودی عرب کے اندر مقامی افراد کی صورت میں ایک نئی ''ورک فورس'' تیار ہو چکی ہے اور اِس ورک فورس میں شامل افراد کو سعودی عرب کوٹہ کے ذریعے ہر طرح کی ملازمتیں دینے کا عزم کیے ہوئے ہے۔