کیا ہُوا تُرکی میں
پارک پر شاپنگ سینٹر کی تعمیر کا معاملہ حکومت کے مخالفین کو راس آگیا
یہ استنبول کا مرکزی علاقہ ہے جہاں ہر وقت لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔
یہاں ایک چھوٹا سا پارک ہے۔ دیکھنے میں یہ کوئی امریکی یا یورپی معیار کا نہیں، بس ایک عام سا پارک ہے۔ اس میں بہت سارے درخت ہیں۔ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے بینچز اور اردگرد کچھ فوارے بھی لگے ہوئے ہیں۔ اب سے کچھ دن پہلے تک یہاں کے مقامی لوگ اس پارک کو گزرگاہ کے طور پر استعمال کر تے تھے، یا پھر کبھی کوئی مسافر بس کا انتظار کرنے یہاں پہنچ جاتا تھا۔ مقامی لوگ گرمیوں میں یہاں سستانے یا پھر شور شرابے سے تنگ ہو کر کچھ دیر کے لیے یہاں آ جایا کر تے، قہوہ پیتے، گپیں لگاتے، جیسا کہ اکثر پارکوں میں ہوتا ہے۔
لیکن پچھلا ایک ہفتہ اس پارک پر بہت بھاری گزرا ہے۔ تقسیم اسکوائر کا یہ چھوٹا سا ''غازی پارک'' سات دن تک عالمی میڈیا پر فلیش پوائنٹ بنا رہا۔ ویب سائٹس ہوں یا ٹی وی، اخبارات ہوں یا رسائل ہر دوسری خبر اس پارک سے متعلق تھی۔ چوں کہ یہ پارک تقسیم اسکوائر سے منسلک ہے، اس لیے اس کا پورا نام ''تقسیم غازی پارک'' ہے، لیکن اب غازی پارک ہی زبانِ زد عام ہے۔ حکومت کی جانب سے اس پارک کی جگہ شاپنگ سینٹر اور سلطنت عثمانیہ کے دور کی بیرکس بنائے جانے کے فیصلے پر عوام سراپا احتجاج تھے۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں 4 افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی اور متعدد گرفتار ہوئے۔
عمومی طور پر کسی بھی ملک میں اس طرح کے بڑے مظاہرے تب دیکھنے میں آتے ہیں، جب ملک افراتفری کا شکار ہوں، عوام حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہوں۔ منہگائی، بیروزگاری اور لاقانونیت کا دور دورہ ہو اور حکم رانوں سے عوام کو بہتری کی کوئی امید نظر نہ آ رہی ہو تو بالاخر صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور عوامی طوفان تخت و تاج بہا کر لے جاتا ہے۔ ماضی قریب میں اس طرح کی مثال عرب اسپرنگ کی صورت میں سامنے آئی جب تیس تیس برسوں تک مطلق العنان حکومتیں عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بنیں اور اُنہیں عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے، لیکن ترکی میں جاری حالیہ مظاہروں کی بظاہر ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔
ترکی میں گذشتہ 10برسوں سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی یا اے کے پارٹی) برسر اقتدار ہے اور ملک کے انتظامی سربراہ یعنی وزیراعظم رجب طیب اردگان ہیں۔ یہ پارٹی 2002ء میں پہلی مرتبہ 34 فی صد ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں آئی اور اپنی بہترین کارکردگی کی بنا پر ہر مرتبہ اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا رہا اور اس وقت بھی مسلسل تیسری مرتبہ جیت کر یہ پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ ایوان میں موجود ہے۔
اردگان حکومت کے 10 سالہ دور میں ترک 'لیرا' کی قدر اور فی کس آمدنی میں زبردست اضافہ ہوا۔ شرح سود میں نمایاں کمی ہوئی۔ سیاحت کو فروغ ملا۔ دنیا ترکی کی طرف لپکنے لگی اور کئی برسوں بعد اس سال یعنی2013ء میں یہ آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی نکل آئے گا۔ ترکی کی اس برق رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا 2020ء میں ترکی کو اولمپکس کی میزبانی دی جائے یا نہیں۔ طیب اردگان کی حکومت دن رات ایک کیے ہوئے ہے کہ کسی طرح اولمپکس کی میزبانی اُن کے ملک کو مل جائے۔
اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں بڑی تیزی سے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ استنبول شہر اس وقت ''کنسٹرکشن سائٹ'' کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ترکوں کے یورپی یونین میں شمولیت کے دیرینہ مطالبے کی تکمیل کی کوششوں میں بھی گذشتہ برسوں میں تیزی آئی ہے۔ طیب اردگان نے اپنی انتظامی صلاحیتوںکا نہ صرف دنیا بھر میں لوہا منوایا ہے بلکہ پاکستان میں تو انھیں باقاعدہ رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پورا منظر ہی بدلتا دکھائی دیا۔ مظاہرے بڑھتے اور بس بڑھتے ہی چلے گئے اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کچھ حلقے استنبول کے تقسیم اسکوائر پر مظاہرین کی موجودگی کو مصر کے ''التحریر اسکوائر'' سے تشبیہ دینے لگے، جہاں عوامی مظاہروں کے باعث 30 برسوں تک مصر پر حکم رانی کرنے والے صدر حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ مظاہرے گذشتہ کئی برسوں کے دوران ملک کے سب سے بڑے اور مُنظّم حکومت مخالف مظاہرے تھے۔ ان مظاہروں کا آغاز جمعہ 31 مئی کو اُس وقت ہوا جب مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ''تقسیم غازی پارک'' کی جگہ پر سلطنت عثمانیہ دور کے بیرکس اور شاپنگ سینٹر بنانے کے منصوبے کے خلاف اکٹھے ہوئے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ''غازی پارک'' استنبول میں موجود چند سرسبز مقامات میں سے ایک ہے اور حکومت اس کے تحفظ کے لیے ان کی اپیلوں پر غور نہیں کر رہی۔
یہ احتجاج بالکل پُرامن تھا لیکن اس میں شدت اُس وقت آئی جب پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ کی گئی۔ پولیس کے اس رویے کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا مچ گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے۔ بعدازاں اپوزیشن جماعت جمہورت خلق پارٹی، کمال ازم کے حامی، بائیں بازو کی تنظیمیں اور ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ''کیسک'' بھی ان مظاہروں میں شامل ہوگئیں۔
ان مظاہروں کے حوالے سے دو متضاد آراء سامنے آئیں۔ ایک طرف وہ حلقے تھے جو ان مظاہروں کو ترکی میں اسلامائزیشن کے خلاف مظاہرے قرار دیتے رہے۔ اس طبقے نے تقسیم اسکوائر کو تحریر اسکوائر کے طور پر پیش کیا۔ یہ لوگ ترکی کی موجودہ حکومت کو اسلامی جمہوریہ کے بجائے آمریت قرار دیتے ہیں۔
وہ وزیرِاعظم طیب اردگان کی حکومت پر مطلق العنانیت کا الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سیکولر ریاست پر قدامت پسند اسلامی اقدار نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں حکومت کی جانب سے اُٹھائے گئے بعض اقدامات جن میں شراب کی خریداری پر پابندیوں کا بل، مرد اور عورتوں کی سر عام قربت پر پابندی اور وزیر عظم اردگان کی جانب سے تُرک خواتین کو کم از کم تین بچے پیدا کرنے کی ہدایت جیسے اقدامات کی وجہ سے ترکی کے کئی حلقے موجودہ حکومت سے نالاں تھے اور ایک لاوا اُن کے اندر اُبل رہا تھا۔ اُن کے نزدیک حالیہ احتجاجی مظاہرے اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ واضح رہے کہ موجودہ برسر اقتدار ''اے کے پارٹی'' کی جڑیں اسلام میں ہیں، جب کہ وزیر اعظم اردگان ترکی کو ایک سیکولر ریاست ہی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف اردگان حکومت کے حامی اس موقف کو مسترد کر تے ہوئے اسے اپوزیشن کی شرارت قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اپوزیشن گزشتہ 10برسوں سے اقتدار سے محروم ہے اور آئندہ بھی اس کے برسر اقتدار آنے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے اور عوام کو گم راہ کر رہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے یہ مظاہرے ابتدائی طور پر ماحولیات سے متعلق تھے۔ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ یہ پارک شاپنگ سینٹر بنے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر مظاہرین کے ہاتھوں میں جو بینرز تھے اُن میں کہیں بھی یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ حکومت کو برطرف کیا جائے۔
اُن کے نعرے کچھ یوں تھے۔ ''درختوں کو زندہ رہنے دیں، جنہیں حکومت قتل کر رہی ہے۔'' ، '' غازی ہمارا ہے، استنبول ہمارا ہے۔'' ، ''خبردار! ہاتھ مت لگانا میرے آشیانے کو، میرے اسکوائر کو، میرے درختوں کو، میرے پانی کو، میری مٹی کو، میرے گھر کو، میرے اناج کو، میرے جنگلوں کو، میرے گاؤں کو، میرے شہر کو، میرے باغ کو۔'' اردگان حکومت کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ترکی میں کوئی ''تحریر اسکوائر'' نہیں بن رہا۔ یہاں ویسے ہی لوگوں کا ہجوم رہتا ہے، جب کہ مظاہرین کی تعداد بہت کم ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج پولیس کی نا اہلی اور پُرامن مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کا ردعمل تھا، لیکن بعد میں اسے اپوزیشن، کمال ازم کے حامیوں اور بائیں بازو کی تنظیموں نے ہائی جیک کرلیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اردگان کی جانب سے پولیس کے رویے کی تحقیقات کے بعد احتجاج کا کوئی جواز نہیں تھا، لیکن چوں کہ موجودہ حکومت کی عوامی پذیرائی مخالفین کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، علاوہ ازیں سیاسی طور پر بھی اپوزیشن کی قوت بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے، اس لیے وہ کافی عرصے سے اس تاک میں ہیں کہ کوئی موقع اُن کے ہاتھ آئے جسے بنیاد بناکر وہ موجودہ حکومت کے خلاف اپنا غصہ اُتار سکیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب یہ احتجاج ماحولیات سے ہٹ کر سیاسی شکل اختیار کر چکا ہے اور کئی حلقوں نے خود کو ان مظاہروں سے الگ کر لیا ہے۔
ابتدائی طور پر اردگان حکومت نے ان مظاہروں کا کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا۔ اگرچہ اُنہوں نے پولیس کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کی مذمت کی اور نائب وزیر اعظم کی جانب سے تحقیقات کی بات بھی سامنے آئی، لیکن حکومت ان مظاہروں سے خوف زدہ دکھائی نہیں دی۔ وزیراعظم کی جانب سے جاری ابتدائی بیان میں اُنہوں نے ہر صورت منصوبہ جاری رکھنے کا اعلان کیا اور تین دن بعد جب مظاہرے اپنے عروج پر تھے وہ شمالی افریقہ کے سرکاری دورے پر روانہ ہوگئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پارک کی ایسی کیا اہمیت ہے کہ حکومت ہر صورت اس کی جگہ شاپنگ سینٹر اور سلطنت عثمانیہ کی دور کی بیرکس بنانے پر بضد ہے۔ اس حوالے سے پھر دو متضاد آراء سامنے آئیں۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ تقسیم اسکوائر پر جس سر سبز علاقے کی جگہ شاپنگ سینٹر بنایا جا رہا ہے، استنبول میں اس طرح کے مقامات کی شدید کمی ہے۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ وزیر اعظم اس منصوبے پر اتنا اصرار اس لیے کر رہے ہیں کیوں یہ اُن کے استنبول میں تعمیر و ترقی کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے اور یہ سلسلہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے علاوہ ایک اور ثقافتی مرکز جو تقسیم اسکوائر ہی میں ہے، وہ بھی اس کی زد میں آئے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اردگان اس منصوبے پر اتنا اصرار اس لیے بھی کر رہے ہیں کیوں کہ اُن کے اس کمپنی سے معاہدے ہیں اور جو کمپنی اس منصوبے کو چلا رہی ہے، اس کے مالکان اردگان کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ اُن کے بقول اس پارک کی صرف ثقافتی اور تاریخی ہی نہیں بلکہ سیاسی اہمیت بھی ہے۔ لوگ تقسیم اسکوائر اور غازی پارک میں جمع ہو کر مظاہرے کیا کر تے تھے لیکن حکومت نے گذشتہ برس یہاں مظاہرے کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ دوسری طرف اردگان حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے ترکی کو جو اعلیٰ مقام دلایا ہے وہ مخالفین سے ہضم نہیں ہو رہا اور وہ خواہ مخواہ حکومتی اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں تاکہ کسی طرح سے یہ حکومت ناکام ہو۔
وزیراعظم اردگان ہفتے کے روز مراکش کا دورہ مختصر کرکے جب وطن پہنچے تو اُن کے ہزاروں حامیوں نے اُن کا استقبال کیا۔ مظاہرین سے خطاب میں وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے مظاہروں کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ دریں اثناء یورپی یونین کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کی مذمت کی گئی، جس کے جواب میں وزیر اعظم ارگان نے یورپی یونین پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام عاید کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ماضی میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس مظاہرین کے ساتھ اس سے بھی زیادہ بُری طرح پیش آئی تھی۔'' اس سے قبل طیب اردگان نے سوشل میڈیا پر بھی شدید تنقید کر تے ہوئے اسے '' آفت'' قرار دیا تھا۔
وزیر اعظم اردگان کی وطن واپسی اور ان کے شان دار استقبال نے مخالفین کو تھوڑا بہت پسپا کر دیا ہے۔ مظاہرے تھم گئے ہیں اور غازی پارک اور تقسیم اسکوائر پر زندگی پہلے کی طرح معمول پر آگئی ہے لیکن کیا یہ مظاہرے واقعی تھم گئے ہیں، کیا یہ پھر سر نہیں اُٹھائیں گے؟ ان سوالوں کا جواب تو وقت ہی دے گا البتہ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اردگان حکومت کو گذشتہ 10برسوں میں پہلی مرتبہ ترک عوام کی طرف سے ایک بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بات کا اعتراف خود وزیراعظم اردگان نے اپنی حالیہ تقریر میں بھی کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ،''میں صرف پچاس فی صد کا وزیر اعظم ہوں، یہ درست نہیں ہے کہ ہم مشرق سے مغرب تک سات کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔''
گذشتہ 10برسوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سے قبل بھی اردگان حکومت کو داخلی اور خارجی سطح پر بڑے بڑے چیلینجز کا سامنا رہا، جن میں سیاسی حوالے سے ترکی کی مضبوط اپوزیشن سے نمٹنے کے علاوہ طاقت ور فوج کا سیاست میں اثر ورسوخ کم کرنا بھی شامل تھا، جس پر بڑی حد تک موجودہ حکومت قابو پاچکی ہے۔ علاوہ ازیں 2010ء میں اسرائیلی بحریہ کی جانب سے فریڈم فلوٹیلا پر حملے نے بھی ترک حکومت کو بہت بڑے منجدھار میں دھکیل دیا تھا جس کا حکومت نے بڑی جاں فشانی سے مقابلہ کیا۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان تمام مقابلوں میں ترک عوام حکومت کی پُشت پر کھڑی تھی ۔ حکومت وہی بہتر ہوتی ہے جو ملک کے تمام طبقات کی جائز خواہشات کا احترام کرے اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرے جو عوام کی اُمنگوں کے منافی ہو۔ دیکھا جانا چاہیے کہ کیا واقعی غازی پارک کے مظاہرین سے نمٹنے میں پولیس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو حکومت جلد از جلد ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے تاکہ جن لوگوں کی سُبکی ہوئی ہے اُنہیں انصاف مہیا ہو۔ اُمید کی جاتی ہے کہ ماضی میں جس طرح اردگان حکومت بڑے بڑے چیلینجز کا بڑی خوش اسلوبی سے مقابلہ کرنے میں کام یاب ہوئی ہے، حالیہ بحران کا بھی کوئی بہتر حل نکال لے گی۔
یہاں ایک چھوٹا سا پارک ہے۔ دیکھنے میں یہ کوئی امریکی یا یورپی معیار کا نہیں، بس ایک عام سا پارک ہے۔ اس میں بہت سارے درخت ہیں۔ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے بینچز اور اردگرد کچھ فوارے بھی لگے ہوئے ہیں۔ اب سے کچھ دن پہلے تک یہاں کے مقامی لوگ اس پارک کو گزرگاہ کے طور پر استعمال کر تے تھے، یا پھر کبھی کوئی مسافر بس کا انتظار کرنے یہاں پہنچ جاتا تھا۔ مقامی لوگ گرمیوں میں یہاں سستانے یا پھر شور شرابے سے تنگ ہو کر کچھ دیر کے لیے یہاں آ جایا کر تے، قہوہ پیتے، گپیں لگاتے، جیسا کہ اکثر پارکوں میں ہوتا ہے۔
لیکن پچھلا ایک ہفتہ اس پارک پر بہت بھاری گزرا ہے۔ تقسیم اسکوائر کا یہ چھوٹا سا ''غازی پارک'' سات دن تک عالمی میڈیا پر فلیش پوائنٹ بنا رہا۔ ویب سائٹس ہوں یا ٹی وی، اخبارات ہوں یا رسائل ہر دوسری خبر اس پارک سے متعلق تھی۔ چوں کہ یہ پارک تقسیم اسکوائر سے منسلک ہے، اس لیے اس کا پورا نام ''تقسیم غازی پارک'' ہے، لیکن اب غازی پارک ہی زبانِ زد عام ہے۔ حکومت کی جانب سے اس پارک کی جگہ شاپنگ سینٹر اور سلطنت عثمانیہ کے دور کی بیرکس بنائے جانے کے فیصلے پر عوام سراپا احتجاج تھے۔ ایک ہفتے تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں 4 افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی اور متعدد گرفتار ہوئے۔
عمومی طور پر کسی بھی ملک میں اس طرح کے بڑے مظاہرے تب دیکھنے میں آتے ہیں، جب ملک افراتفری کا شکار ہوں، عوام حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہوں۔ منہگائی، بیروزگاری اور لاقانونیت کا دور دورہ ہو اور حکم رانوں سے عوام کو بہتری کی کوئی امید نظر نہ آ رہی ہو تو بالاخر صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور عوامی طوفان تخت و تاج بہا کر لے جاتا ہے۔ ماضی قریب میں اس طرح کی مثال عرب اسپرنگ کی صورت میں سامنے آئی جب تیس تیس برسوں تک مطلق العنان حکومتیں عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بنیں اور اُنہیں عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے، لیکن ترکی میں جاری حالیہ مظاہروں کی بظاہر ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔
ترکی میں گذشتہ 10برسوں سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی یا اے کے پارٹی) برسر اقتدار ہے اور ملک کے انتظامی سربراہ یعنی وزیراعظم رجب طیب اردگان ہیں۔ یہ پارٹی 2002ء میں پہلی مرتبہ 34 فی صد ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں آئی اور اپنی بہترین کارکردگی کی بنا پر ہر مرتبہ اس کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا رہا اور اس وقت بھی مسلسل تیسری مرتبہ جیت کر یہ پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ ایوان میں موجود ہے۔
اردگان حکومت کے 10 سالہ دور میں ترک 'لیرا' کی قدر اور فی کس آمدنی میں زبردست اضافہ ہوا۔ شرح سود میں نمایاں کمی ہوئی۔ سیاحت کو فروغ ملا۔ دنیا ترکی کی طرف لپکنے لگی اور کئی برسوں بعد اس سال یعنی2013ء میں یہ آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی نکل آئے گا۔ ترکی کی اس برق رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا 2020ء میں ترکی کو اولمپکس کی میزبانی دی جائے یا نہیں۔ طیب اردگان کی حکومت دن رات ایک کیے ہوئے ہے کہ کسی طرح اولمپکس کی میزبانی اُن کے ملک کو مل جائے۔
اس مقصد کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں بڑی تیزی سے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ استنبول شہر اس وقت ''کنسٹرکشن سائٹ'' کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ترکوں کے یورپی یونین میں شمولیت کے دیرینہ مطالبے کی تکمیل کی کوششوں میں بھی گذشتہ برسوں میں تیزی آئی ہے۔ طیب اردگان نے اپنی انتظامی صلاحیتوںکا نہ صرف دنیا بھر میں لوہا منوایا ہے بلکہ پاکستان میں تو انھیں باقاعدہ رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پورا منظر ہی بدلتا دکھائی دیا۔ مظاہرے بڑھتے اور بس بڑھتے ہی چلے گئے اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کچھ حلقے استنبول کے تقسیم اسکوائر پر مظاہرین کی موجودگی کو مصر کے ''التحریر اسکوائر'' سے تشبیہ دینے لگے، جہاں عوامی مظاہروں کے باعث 30 برسوں تک مصر پر حکم رانی کرنے والے صدر حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ مظاہرے گذشتہ کئی برسوں کے دوران ملک کے سب سے بڑے اور مُنظّم حکومت مخالف مظاہرے تھے۔ ان مظاہروں کا آغاز جمعہ 31 مئی کو اُس وقت ہوا جب مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ''تقسیم غازی پارک'' کی جگہ پر سلطنت عثمانیہ دور کے بیرکس اور شاپنگ سینٹر بنانے کے منصوبے کے خلاف اکٹھے ہوئے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ''غازی پارک'' استنبول میں موجود چند سرسبز مقامات میں سے ایک ہے اور حکومت اس کے تحفظ کے لیے ان کی اپیلوں پر غور نہیں کر رہی۔
یہ احتجاج بالکل پُرامن تھا لیکن اس میں شدت اُس وقت آئی جب پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ کی گئی۔ پولیس کے اس رویے کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا مچ گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے۔ بعدازاں اپوزیشن جماعت جمہورت خلق پارٹی، کمال ازم کے حامی، بائیں بازو کی تنظیمیں اور ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ''کیسک'' بھی ان مظاہروں میں شامل ہوگئیں۔
ان مظاہروں کے حوالے سے دو متضاد آراء سامنے آئیں۔ ایک طرف وہ حلقے تھے جو ان مظاہروں کو ترکی میں اسلامائزیشن کے خلاف مظاہرے قرار دیتے رہے۔ اس طبقے نے تقسیم اسکوائر کو تحریر اسکوائر کے طور پر پیش کیا۔ یہ لوگ ترکی کی موجودہ حکومت کو اسلامی جمہوریہ کے بجائے آمریت قرار دیتے ہیں۔
وہ وزیرِاعظم طیب اردگان کی حکومت پر مطلق العنانیت کا الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سیکولر ریاست پر قدامت پسند اسلامی اقدار نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں حکومت کی جانب سے اُٹھائے گئے بعض اقدامات جن میں شراب کی خریداری پر پابندیوں کا بل، مرد اور عورتوں کی سر عام قربت پر پابندی اور وزیر عظم اردگان کی جانب سے تُرک خواتین کو کم از کم تین بچے پیدا کرنے کی ہدایت جیسے اقدامات کی وجہ سے ترکی کے کئی حلقے موجودہ حکومت سے نالاں تھے اور ایک لاوا اُن کے اندر اُبل رہا تھا۔ اُن کے نزدیک حالیہ احتجاجی مظاہرے اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ واضح رہے کہ موجودہ برسر اقتدار ''اے کے پارٹی'' کی جڑیں اسلام میں ہیں، جب کہ وزیر اعظم اردگان ترکی کو ایک سیکولر ریاست ہی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف اردگان حکومت کے حامی اس موقف کو مسترد کر تے ہوئے اسے اپوزیشن کی شرارت قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اپوزیشن گزشتہ 10برسوں سے اقتدار سے محروم ہے اور آئندہ بھی اس کے برسر اقتدار آنے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی ہے اور عوام کو گم راہ کر رہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے یہ مظاہرے ابتدائی طور پر ماحولیات سے متعلق تھے۔ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ یہ پارک شاپنگ سینٹر بنے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر مظاہرین کے ہاتھوں میں جو بینرز تھے اُن میں کہیں بھی یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ حکومت کو برطرف کیا جائے۔
اُن کے نعرے کچھ یوں تھے۔ ''درختوں کو زندہ رہنے دیں، جنہیں حکومت قتل کر رہی ہے۔'' ، '' غازی ہمارا ہے، استنبول ہمارا ہے۔'' ، ''خبردار! ہاتھ مت لگانا میرے آشیانے کو، میرے اسکوائر کو، میرے درختوں کو، میرے پانی کو، میری مٹی کو، میرے گھر کو، میرے اناج کو، میرے جنگلوں کو، میرے گاؤں کو، میرے شہر کو، میرے باغ کو۔'' اردگان حکومت کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ترکی میں کوئی ''تحریر اسکوائر'' نہیں بن رہا۔ یہاں ویسے ہی لوگوں کا ہجوم رہتا ہے، جب کہ مظاہرین کی تعداد بہت کم ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج پولیس کی نا اہلی اور پُرامن مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کا ردعمل تھا، لیکن بعد میں اسے اپوزیشن، کمال ازم کے حامیوں اور بائیں بازو کی تنظیموں نے ہائی جیک کرلیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم اردگان کی جانب سے پولیس کے رویے کی تحقیقات کے بعد احتجاج کا کوئی جواز نہیں تھا، لیکن چوں کہ موجودہ حکومت کی عوامی پذیرائی مخالفین کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، علاوہ ازیں سیاسی طور پر بھی اپوزیشن کی قوت بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے، اس لیے وہ کافی عرصے سے اس تاک میں ہیں کہ کوئی موقع اُن کے ہاتھ آئے جسے بنیاد بناکر وہ موجودہ حکومت کے خلاف اپنا غصہ اُتار سکیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب یہ احتجاج ماحولیات سے ہٹ کر سیاسی شکل اختیار کر چکا ہے اور کئی حلقوں نے خود کو ان مظاہروں سے الگ کر لیا ہے۔
ابتدائی طور پر اردگان حکومت نے ان مظاہروں کا کوئی خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا۔ اگرچہ اُنہوں نے پولیس کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کی مذمت کی اور نائب وزیر اعظم کی جانب سے تحقیقات کی بات بھی سامنے آئی، لیکن حکومت ان مظاہروں سے خوف زدہ دکھائی نہیں دی۔ وزیراعظم کی جانب سے جاری ابتدائی بیان میں اُنہوں نے ہر صورت منصوبہ جاری رکھنے کا اعلان کیا اور تین دن بعد جب مظاہرے اپنے عروج پر تھے وہ شمالی افریقہ کے سرکاری دورے پر روانہ ہوگئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس پارک کی ایسی کیا اہمیت ہے کہ حکومت ہر صورت اس کی جگہ شاپنگ سینٹر اور سلطنت عثمانیہ کی دور کی بیرکس بنانے پر بضد ہے۔ اس حوالے سے پھر دو متضاد آراء سامنے آئیں۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ تقسیم اسکوائر پر جس سر سبز علاقے کی جگہ شاپنگ سینٹر بنایا جا رہا ہے، استنبول میں اس طرح کے مقامات کی شدید کمی ہے۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ وزیر اعظم اس منصوبے پر اتنا اصرار اس لیے کر رہے ہیں کیوں یہ اُن کے استنبول میں تعمیر و ترقی کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے اور یہ سلسلہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے علاوہ ایک اور ثقافتی مرکز جو تقسیم اسکوائر ہی میں ہے، وہ بھی اس کی زد میں آئے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اردگان اس منصوبے پر اتنا اصرار اس لیے بھی کر رہے ہیں کیوں کہ اُن کے اس کمپنی سے معاہدے ہیں اور جو کمپنی اس منصوبے کو چلا رہی ہے، اس کے مالکان اردگان کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ اُن کے بقول اس پارک کی صرف ثقافتی اور تاریخی ہی نہیں بلکہ سیاسی اہمیت بھی ہے۔ لوگ تقسیم اسکوائر اور غازی پارک میں جمع ہو کر مظاہرے کیا کر تے تھے لیکن حکومت نے گذشتہ برس یہاں مظاہرے کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ دوسری طرف اردگان حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے ترکی کو جو اعلیٰ مقام دلایا ہے وہ مخالفین سے ہضم نہیں ہو رہا اور وہ خواہ مخواہ حکومتی اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں تاکہ کسی طرح سے یہ حکومت ناکام ہو۔
وزیراعظم اردگان ہفتے کے روز مراکش کا دورہ مختصر کرکے جب وطن پہنچے تو اُن کے ہزاروں حامیوں نے اُن کا استقبال کیا۔ مظاہرین سے خطاب میں وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے مظاہروں کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ دریں اثناء یورپی یونین کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کی مذمت کی گئی، جس کے جواب میں وزیر اعظم ارگان نے یورپی یونین پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام عاید کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ماضی میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس مظاہرین کے ساتھ اس سے بھی زیادہ بُری طرح پیش آئی تھی۔'' اس سے قبل طیب اردگان نے سوشل میڈیا پر بھی شدید تنقید کر تے ہوئے اسے '' آفت'' قرار دیا تھا۔
وزیر اعظم اردگان کی وطن واپسی اور ان کے شان دار استقبال نے مخالفین کو تھوڑا بہت پسپا کر دیا ہے۔ مظاہرے تھم گئے ہیں اور غازی پارک اور تقسیم اسکوائر پر زندگی پہلے کی طرح معمول پر آگئی ہے لیکن کیا یہ مظاہرے واقعی تھم گئے ہیں، کیا یہ پھر سر نہیں اُٹھائیں گے؟ ان سوالوں کا جواب تو وقت ہی دے گا البتہ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اردگان حکومت کو گذشتہ 10برسوں میں پہلی مرتبہ ترک عوام کی طرف سے ایک بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بات کا اعتراف خود وزیراعظم اردگان نے اپنی حالیہ تقریر میں بھی کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ،''میں صرف پچاس فی صد کا وزیر اعظم ہوں، یہ درست نہیں ہے کہ ہم مشرق سے مغرب تک سات کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔''
گذشتہ 10برسوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سے قبل بھی اردگان حکومت کو داخلی اور خارجی سطح پر بڑے بڑے چیلینجز کا سامنا رہا، جن میں سیاسی حوالے سے ترکی کی مضبوط اپوزیشن سے نمٹنے کے علاوہ طاقت ور فوج کا سیاست میں اثر ورسوخ کم کرنا بھی شامل تھا، جس پر بڑی حد تک موجودہ حکومت قابو پاچکی ہے۔ علاوہ ازیں 2010ء میں اسرائیلی بحریہ کی جانب سے فریڈم فلوٹیلا پر حملے نے بھی ترک حکومت کو بہت بڑے منجدھار میں دھکیل دیا تھا جس کا حکومت نے بڑی جاں فشانی سے مقابلہ کیا۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان تمام مقابلوں میں ترک عوام حکومت کی پُشت پر کھڑی تھی ۔ حکومت وہی بہتر ہوتی ہے جو ملک کے تمام طبقات کی جائز خواہشات کا احترام کرے اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرے جو عوام کی اُمنگوں کے منافی ہو۔ دیکھا جانا چاہیے کہ کیا واقعی غازی پارک کے مظاہرین سے نمٹنے میں پولیس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو حکومت جلد از جلد ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے تاکہ جن لوگوں کی سُبکی ہوئی ہے اُنہیں انصاف مہیا ہو۔ اُمید کی جاتی ہے کہ ماضی میں جس طرح اردگان حکومت بڑے بڑے چیلینجز کا بڑی خوش اسلوبی سے مقابلہ کرنے میں کام یاب ہوئی ہے، حالیہ بحران کا بھی کوئی بہتر حل نکال لے گی۔