لیجنڈ فلم رائٹر ڈائریکٹر پروڈیوسر
علی سفیان آفاقی کے اعزاز میں الحمراء کلچرل کمپلیکس لاہور میں تقریب
پاکستان کی فلم انڈسٹری کے سنہری دور کا جب ہم تذکرہ کرتے ہیں تو ماضی کی ان یادگار فلموں کے نام سامنے آجاتے ہیں جنہوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا۔
ان مشہور فلموں کی کامیابی کے پس پردہ عمدہ کہانی، بہترین ڈائریکشن، خوبصورت اداکاری ، جدوجہد اور محنت شامل تھی۔ اس دور میں اچھی اور معیاری فلمیں بنانے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ڈائریکٹرز ،پروڈیوسرز کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے ادارے کی فلم باکس آفس پر کامیابی حاصل کرے اور اسے لوگ جوق در جوق دیکھنے آئیں۔
یہ اسی صورت ممکن ہوتا تھا جب فلم عوام کے معیار پر پوری اترتی ہو۔ فلم انڈسٹری کے ماضی کے اوراق پلٹیں تو ہمارے سامنے ایسے نام آجاتے ہیں کہ جنہوں نے فلم انڈسٹری کو دنیا بھر میں شہرت دی اور ان کا کیا ہوا کام آج بھی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ان میں ایک نام ملک کے ممتاز پروڈیوسر، ڈائریکٹر، رائٹر،مکالمہ نگار، اسکرین پلے رائٹر علی سفیان آفاقی کاہے جنھوں نے 1970ء کی دہائی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ اور یاد گار فلمیں دیں۔ اپنی65سالہ زندگی میں انھوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ ماضی میں بننے والی یہ فلمیں آج بھی مقبولیت کے اعتبار سے سر فہرست ہیں۔
علی سفیان آفاقی کا یہ دور فلم انڈسٹری کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔علی سفیان آفاقی کی بطور مصنف پہلی فلم'' ٹھنڈی سڑک'' تھی جسے شباب کیرانوی نے پروڈیوس کیا تھا۔ 1973ء میں علی سفیان آفاقی نے پہلی فلم ''آس'' کے نام سے بطور فلمساز بنائی جس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کو 8 نگار ایوارڈ دیئے گئے۔،ان کی مشہور فلموں میں آبرو، نمک حرام، جاگیر، اجنبی، آگ اور آنسو، عاشی، عندلیب،دیور بھابی، کنیز، میرا گھر میری جنت،آرپار، تقدیر، شمیم آرا کی فلم پلے بوائے، مس کولمبو، معاملہ گڑ بڑ ہے، فرشتہ، دامن اور چنگاری، کبھی الوداع نہ کہنا، نیا راستہ، مہربانی، الزام، کامیابی، یہ وہ فلمیں ہیں جو علی سفیان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ان میں کچھ فلموں کی انھوں نے کہانیاں لکھیں ،کچھ میں وہ بطور ہدایت کار کام کرتے رہے جبکہ ان میں سے بیشتر فلموں کے مکالمے اور اسکرین پلے بھی ان کے لکھے ہوئے تھے۔
اگر ہم ان فلموں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستان کے اس لیجنڈنے فلم انڈسٹری کو شہرت دلانے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے کس قدر محنت کی ہوگی۔آج پاکستان کی فلم انڈسٹری اگر زوال کا شکار ہے تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے ایسے نایاب ہیروں کو فراموش کردیا ہے۔ جب تک ایسی شخصیات موجود تھیں فلم انڈسٹری اپنے عروج پر نظر آئی۔ اب فلم بین ایسی فلموں کودیکھنے کے لیے ترس گئے ہیں۔کاش ہم اپنے لیجنڈز کو اس طرح فراموش نہ کرتے تو آج فلم انڈسٹری کا دور یاد گار ہوتا۔
گزشتہ دنوں لاہور کے الحمرا ء کمپلیکس میں پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی کراچی نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا جس میں فلم انڈسٹری کی مشہور شخصیات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایسوسی ایشن نے کراچی سے لاہور جاکر ایک شاندار تقریب منعقد کی جس کا لاہور کی فلم انڈسٹری ، صحافیوں نے زبردست خیر مقدم کیا اور اسے ایک اچھی کوشش قرار دیا۔اس موقع پر فنکاروں نے علی سفیان آفاقی کی شخصیت کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
پاکستان میں ماضی کی فلموں کی نامور اور مقبول ہیروئن اداکارہ زیبا نے کہا ہے کہ فلمی انڈسٹری کی سنہری یادیں آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔ا چھے لوگ انڈسٹری کا سرمایہ ہوا کرتے تھے۔ علی سفیان آفاقی اگر اچھے رائٹر نہ ہوتے تو میں ان کی فلم میں کام کیوں کرتی۔ میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ پاکستان فلم انڈسٹری سے ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ممتاز صحافی اور فلموں کے پروڈیوسر و ہدایت کار علی سفیان آفاق کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں کیا۔
اداکارہ زیبا بیگم نے علی سفیان آفاقی کے حوالے سے ماضی کے دلچسپ واقعات سناتے ہوئے کہا کہ علی سفیان آفاقی عمر کے فرق کے باوجود ان کے ایک اچھے دوست ہیں۔ جب میں 14 سال کی تھی تو جب بھی وہ ایسے ہی تھے، میں جب 60 برس کراس کرچکی ہوں اب بھی وہ ایسے ہی ہیں۔ میری دعا ہے آفاقی سو دو سو سال اور جئیں۔ انھوں نے کہا کہ ہماری فلم انڈسٹری کو کالی بھیڑوں نے خراب کیا ہے۔ زیبا بیگم نے کہا کہ جب ماضی میں ہماری فلمیں چلتی تھیں اس وقت بھی انڈین فلمیں چلتی تھیں لیکن ہماری فلمیں سپر ہٹ ہوا کرتی تھیں۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے تھوڑا ساسبق حاصل کرنا چاہئے۔
اس موقع پر علی سفیان آفاقی نے کہا کہ بلاناغہ 1961ء سے دوائیں کھانے کے باوجود خود کو بوڑھا نہیں سمجھا۔ انھوں نے کہا کہ کسی کو خراج عقیدت پیش کرنے اور عزت دینے کے لئے مرنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ مجھے زندگی میں ہی یہ اعزاز دیا گیا۔ میں اس کے لئے فلم ٹی وی جرنلسٹ کا شکر گزار ہوں۔ علی سفیان آفاقی کا مضمون اطہر جاوید صوفی نے پڑھ کر سنایا۔
سنیئر اداکار حبیب نے علی سفیان آفاقی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ انڈسٹری ضرور پھولے پھلے گی۔ انھوں نے کہا کہ 65 برس گزر گئے لیکن آج تک ہماری پالیسی نہیں بن سکی۔،ممتاز شاعر امجد اسلام امجد نے کہا کہ علی سفیان آفاقی کی فلمیں ایسی تھیں کہ شائقین سینما ہال سے شرمندہ نہیں اٹھتے تھے۔ ان کی تحریریں ادیب کی حیثیت سے کم کم لوگوں کی نظر سے گزری ہیں۔ وہ برجستہ جملے لکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ جس طرح انسان کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ان کا ہی خاصا ہے۔
ممتاز ڈرامہ نگار اور شاعر اصغر ندیم سید نے کہا کہ علی سفیان نے تہذیبی رچاؤ کو پوری طرح سر کیا ہے جس میں صحافی، شاعر، فنکار مل کر بیٹھتے تھے وہی لاہور کی زندہ تاریخ ہے۔ آفاقی نے جوفلمیں لکھیں ان میں تمام اقدار اور زاویئے تھے۔ان کا زمانہ اعلیٰ درجے کی تخلیق کا زمانہ ہے جن بزرگوں نے مجھے شفقت دی ہے ان میں پہلا نام علی سفیان آفاقی کاہے۔ ہدایت کار اور پروڈیوسر سید نور نے کہا کہ آفاقی میرے استاد اور میرے رہنما ہیں۔ یہ کل بھی میرے ہیرو تھے اور آج بھی میرے ہیرو ہیں۔ ان کی کہانیاں اور مکالمے دل کو موہ لینے والے ہوا کرتے تھے۔
ماضی کی معروف اداکارہ نشو بیگم نے کہا کہ علی سفیان آفاقی کا 62 سالہ کنٹری بیوشن قابل قدر ہے۔ وہ آسمان صحافت پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے او ران کی درازی عمر کی دعا کرتی ہوں۔ نشو بیگم نے کہا کہ فلم انڈسٹری کا ریوائیول ضروری ہے۔ اس موقع پر ہدایت کار پروڈیوسر اسلم ڈار نے کہا کہ آفاقی صاحب کے لئے کراچی کے صحافیوں کی جانب سے تقریب قابل تعریف ہے کیونکہ کراچی میں لاشیں گررہی ہیں ایسے میں کراچی کے صحافیوں نے لاہور میں تقریب منعقد کرکے بڑا کام کیا ہے۔
پنجاب فیڈریشن آف کامرس کے نائب صدر اظہر سعید بٹ نے کہا کہ اگر فلم انڈسٹری کے لوگ اختلافات ختم کردیں اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تو ہم ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں ۔پروگرام کی نظامت کے فرائض مصطفی قریشی نے ادا کرتے ہوئے کہا کہ آفاقی نے کئی فلموں کو لکھا اور فلمیں بھی بنائیں جو یادگار ہیں۔کراچی سے آنے والے دوستوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے اہم تقریب منعقد کی کیونکہ آفاقی لاہور کا فخر ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ زیبا بیگم کووزیراعظم کا مشیر برائے ثقافت بنایا جائے۔
پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر اطہر جاوید صوفی نے تمام مہمانوں سے اظہار تشکر کیا۔ انھوں نے ایک قرار داد میں مطالبہ کیا کہ علی سفیان آفاقی کو حکومت پاکستان تمغہ حسن کارکردگی پیش کرے۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدالوسیع قریشی نے کہا کہ ہم لاہور کے علاوہ کراچی میں لیجنڈ صحافیوں کے اعزاز میں تقاریب منعقد کریں گے۔ اس موقع پر علی سفیان آفاقی کو منظوم خراج تحسین معروف شاعر راشد نور نے پیش کیا۔ مقررین میں ایس ایم شاکر، دلجیب مرزا، ادکارہ شیبا بٹ ، پرویز کلیم، عثمان پیرزادہ ، راشد علیم و دیگر نے خطاب کیا۔
تقریب میں فلم ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور نیشنل ہیرو فاؤنڈیشن کی جانب سے فنکاروں میں شیلڈز تقسیم کی گئیں جبکہ عزیز آرٹس سرکل کی جانب سے فنکاروں کو سندھی ٹوپی اور اجرک کے تحائف پیش کئے۔اس موقع پر علی سفیان آفاقی کی اہلیہ اور صاحبزادیاں بھی موجود تھیں۔علی سفیان آفاقی کو اس موقع پر یاد گار شیلڈ پیش کی گئی۔
ان مشہور فلموں کی کامیابی کے پس پردہ عمدہ کہانی، بہترین ڈائریکشن، خوبصورت اداکاری ، جدوجہد اور محنت شامل تھی۔ اس دور میں اچھی اور معیاری فلمیں بنانے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ڈائریکٹرز ،پروڈیوسرز کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے ادارے کی فلم باکس آفس پر کامیابی حاصل کرے اور اسے لوگ جوق در جوق دیکھنے آئیں۔
یہ اسی صورت ممکن ہوتا تھا جب فلم عوام کے معیار پر پوری اترتی ہو۔ فلم انڈسٹری کے ماضی کے اوراق پلٹیں تو ہمارے سامنے ایسے نام آجاتے ہیں کہ جنہوں نے فلم انڈسٹری کو دنیا بھر میں شہرت دی اور ان کا کیا ہوا کام آج بھی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ان میں ایک نام ملک کے ممتاز پروڈیوسر، ڈائریکٹر، رائٹر،مکالمہ نگار، اسکرین پلے رائٹر علی سفیان آفاقی کاہے جنھوں نے 1970ء کی دہائی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کو سپر ہٹ اور یاد گار فلمیں دیں۔ اپنی65سالہ زندگی میں انھوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔ ماضی میں بننے والی یہ فلمیں آج بھی مقبولیت کے اعتبار سے سر فہرست ہیں۔
علی سفیان آفاقی کا یہ دور فلم انڈسٹری کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔علی سفیان آفاقی کی بطور مصنف پہلی فلم'' ٹھنڈی سڑک'' تھی جسے شباب کیرانوی نے پروڈیوس کیا تھا۔ 1973ء میں علی سفیان آفاقی نے پہلی فلم ''آس'' کے نام سے بطور فلمساز بنائی جس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کو 8 نگار ایوارڈ دیئے گئے۔،ان کی مشہور فلموں میں آبرو، نمک حرام، جاگیر، اجنبی، آگ اور آنسو، عاشی، عندلیب،دیور بھابی، کنیز، میرا گھر میری جنت،آرپار، تقدیر، شمیم آرا کی فلم پلے بوائے، مس کولمبو، معاملہ گڑ بڑ ہے، فرشتہ، دامن اور چنگاری، کبھی الوداع نہ کہنا، نیا راستہ، مہربانی، الزام، کامیابی، یہ وہ فلمیں ہیں جو علی سفیان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ان میں کچھ فلموں کی انھوں نے کہانیاں لکھیں ،کچھ میں وہ بطور ہدایت کار کام کرتے رہے جبکہ ان میں سے بیشتر فلموں کے مکالمے اور اسکرین پلے بھی ان کے لکھے ہوئے تھے۔
اگر ہم ان فلموں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستان کے اس لیجنڈنے فلم انڈسٹری کو شہرت دلانے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے کس قدر محنت کی ہوگی۔آج پاکستان کی فلم انڈسٹری اگر زوال کا شکار ہے تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے ایسے نایاب ہیروں کو فراموش کردیا ہے۔ جب تک ایسی شخصیات موجود تھیں فلم انڈسٹری اپنے عروج پر نظر آئی۔ اب فلم بین ایسی فلموں کودیکھنے کے لیے ترس گئے ہیں۔کاش ہم اپنے لیجنڈز کو اس طرح فراموش نہ کرتے تو آج فلم انڈسٹری کا دور یاد گار ہوتا۔
گزشتہ دنوں لاہور کے الحمرا ء کمپلیکس میں پاکستان فلم ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی کراچی نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا جس میں فلم انڈسٹری کی مشہور شخصیات نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایسوسی ایشن نے کراچی سے لاہور جاکر ایک شاندار تقریب منعقد کی جس کا لاہور کی فلم انڈسٹری ، صحافیوں نے زبردست خیر مقدم کیا اور اسے ایک اچھی کوشش قرار دیا۔اس موقع پر فنکاروں نے علی سفیان آفاقی کی شخصیت کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
پاکستان میں ماضی کی فلموں کی نامور اور مقبول ہیروئن اداکارہ زیبا نے کہا ہے کہ فلمی انڈسٹری کی سنہری یادیں آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔ا چھے لوگ انڈسٹری کا سرمایہ ہوا کرتے تھے۔ علی سفیان آفاقی اگر اچھے رائٹر نہ ہوتے تو میں ان کی فلم میں کام کیوں کرتی۔ میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ پاکستان فلم انڈسٹری سے ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ممتاز صحافی اور فلموں کے پروڈیوسر و ہدایت کار علی سفیان آفاق کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں کیا۔
اداکارہ زیبا بیگم نے علی سفیان آفاقی کے حوالے سے ماضی کے دلچسپ واقعات سناتے ہوئے کہا کہ علی سفیان آفاقی عمر کے فرق کے باوجود ان کے ایک اچھے دوست ہیں۔ جب میں 14 سال کی تھی تو جب بھی وہ ایسے ہی تھے، میں جب 60 برس کراس کرچکی ہوں اب بھی وہ ایسے ہی ہیں۔ میری دعا ہے آفاقی سو دو سو سال اور جئیں۔ انھوں نے کہا کہ ہماری فلم انڈسٹری کو کالی بھیڑوں نے خراب کیا ہے۔ زیبا بیگم نے کہا کہ جب ماضی میں ہماری فلمیں چلتی تھیں اس وقت بھی انڈین فلمیں چلتی تھیں لیکن ہماری فلمیں سپر ہٹ ہوا کرتی تھیں۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے تھوڑا ساسبق حاصل کرنا چاہئے۔
اس موقع پر علی سفیان آفاقی نے کہا کہ بلاناغہ 1961ء سے دوائیں کھانے کے باوجود خود کو بوڑھا نہیں سمجھا۔ انھوں نے کہا کہ کسی کو خراج عقیدت پیش کرنے اور عزت دینے کے لئے مرنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ مجھے زندگی میں ہی یہ اعزاز دیا گیا۔ میں اس کے لئے فلم ٹی وی جرنلسٹ کا شکر گزار ہوں۔ علی سفیان آفاقی کا مضمون اطہر جاوید صوفی نے پڑھ کر سنایا۔
سنیئر اداکار حبیب نے علی سفیان آفاقی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ انڈسٹری ضرور پھولے پھلے گی۔ انھوں نے کہا کہ 65 برس گزر گئے لیکن آج تک ہماری پالیسی نہیں بن سکی۔،ممتاز شاعر امجد اسلام امجد نے کہا کہ علی سفیان آفاقی کی فلمیں ایسی تھیں کہ شائقین سینما ہال سے شرمندہ نہیں اٹھتے تھے۔ ان کی تحریریں ادیب کی حیثیت سے کم کم لوگوں کی نظر سے گزری ہیں۔ وہ برجستہ جملے لکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ جس طرح انسان کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ان کا ہی خاصا ہے۔
ممتاز ڈرامہ نگار اور شاعر اصغر ندیم سید نے کہا کہ علی سفیان نے تہذیبی رچاؤ کو پوری طرح سر کیا ہے جس میں صحافی، شاعر، فنکار مل کر بیٹھتے تھے وہی لاہور کی زندہ تاریخ ہے۔ آفاقی نے جوفلمیں لکھیں ان میں تمام اقدار اور زاویئے تھے۔ان کا زمانہ اعلیٰ درجے کی تخلیق کا زمانہ ہے جن بزرگوں نے مجھے شفقت دی ہے ان میں پہلا نام علی سفیان آفاقی کاہے۔ ہدایت کار اور پروڈیوسر سید نور نے کہا کہ آفاقی میرے استاد اور میرے رہنما ہیں۔ یہ کل بھی میرے ہیرو تھے اور آج بھی میرے ہیرو ہیں۔ ان کی کہانیاں اور مکالمے دل کو موہ لینے والے ہوا کرتے تھے۔
ماضی کی معروف اداکارہ نشو بیگم نے کہا کہ علی سفیان آفاقی کا 62 سالہ کنٹری بیوشن قابل قدر ہے۔ وہ آسمان صحافت پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے او ران کی درازی عمر کی دعا کرتی ہوں۔ نشو بیگم نے کہا کہ فلم انڈسٹری کا ریوائیول ضروری ہے۔ اس موقع پر ہدایت کار پروڈیوسر اسلم ڈار نے کہا کہ آفاقی صاحب کے لئے کراچی کے صحافیوں کی جانب سے تقریب قابل تعریف ہے کیونکہ کراچی میں لاشیں گررہی ہیں ایسے میں کراچی کے صحافیوں نے لاہور میں تقریب منعقد کرکے بڑا کام کیا ہے۔
پنجاب فیڈریشن آف کامرس کے نائب صدر اظہر سعید بٹ نے کہا کہ اگر فلم انڈسٹری کے لوگ اختلافات ختم کردیں اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں تو ہم ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں ۔پروگرام کی نظامت کے فرائض مصطفی قریشی نے ادا کرتے ہوئے کہا کہ آفاقی نے کئی فلموں کو لکھا اور فلمیں بھی بنائیں جو یادگار ہیں۔کراچی سے آنے والے دوستوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے اہم تقریب منعقد کی کیونکہ آفاقی لاہور کا فخر ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر حکومت سے مطالبہ کیا کہ زیبا بیگم کووزیراعظم کا مشیر برائے ثقافت بنایا جائے۔
پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر اطہر جاوید صوفی نے تمام مہمانوں سے اظہار تشکر کیا۔ انھوں نے ایک قرار داد میں مطالبہ کیا کہ علی سفیان آفاقی کو حکومت پاکستان تمغہ حسن کارکردگی پیش کرے۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدالوسیع قریشی نے کہا کہ ہم لاہور کے علاوہ کراچی میں لیجنڈ صحافیوں کے اعزاز میں تقاریب منعقد کریں گے۔ اس موقع پر علی سفیان آفاقی کو منظوم خراج تحسین معروف شاعر راشد نور نے پیش کیا۔ مقررین میں ایس ایم شاکر، دلجیب مرزا، ادکارہ شیبا بٹ ، پرویز کلیم، عثمان پیرزادہ ، راشد علیم و دیگر نے خطاب کیا۔
تقریب میں فلم ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور نیشنل ہیرو فاؤنڈیشن کی جانب سے فنکاروں میں شیلڈز تقسیم کی گئیں جبکہ عزیز آرٹس سرکل کی جانب سے فنکاروں کو سندھی ٹوپی اور اجرک کے تحائف پیش کئے۔اس موقع پر علی سفیان آفاقی کی اہلیہ اور صاحبزادیاں بھی موجود تھیں۔علی سفیان آفاقی کو اس موقع پر یاد گار شیلڈ پیش کی گئی۔