اپنا ذخیرہ الفاظ بڑھایے
مطالعے کی اہمیت سے انکار تو کوئی بھی نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں اس کا خاصا فقدان پایا جاتا ہے۔
مطالعے کی اہمیت سے انکار تو کوئی بھی نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں اس کا خاصا فقدان پایا جاتا ہے۔ کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں لیکن ان کے لیے یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ردی میں اضافہ ہورہا ہے۔ مطالعے اور معلومات کی کمی کے باوجود ایسے ایسے قلم کار سامنے آرہے ہیں جو ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے کالم کی اطلاع دیتے ہیں لیکن معلومات کا یہ عالم ہے کہ محاورے اور کہاوت کو ایک ہی کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے قلم کے علاوہ دیگر سہاروں کی وجہ سے فوراً مشہور ہونے کا فن جانتے ہیں، انھیں چاہیے کہ مطالعے کو اس حد تک اپنی عادت ضرور بنالیں کہ کوئی فتویٰ صادر کرتے وقت کم ازکم کسی پڑھے لکھے آدمی سے رائے ضرور لے لیں تاکہ بھرم قائم رہے۔
محاورے اور کہاوت ہی کو لے لیجیے۔ محاورے کو ہم ''روزمرہ'' کے مماثل تو قرار دے سکتے ہیں لیکن وہ کہاوت کے مماثل نہیں ہے۔ اب میں آپ کو اس کا فرق مثالیں دے کر سمجھاتی ہوں۔ جیسے تین پانچ کرنا، چار چاند لگانا، زندہ درگور ہونا، آنکھیں دکھانا، نو دو گیارہ ہونا، زخموں پر نمک چھڑکنا، یہ سب محاورے ہیں، جب کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا، طویلے کی بلا بندر کے سر،اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت اور گرگ باراں دیدہ۔۔۔۔ وغیرہ یہ سب کہاوتیں ہیں، جنھیں ضرب المثل بھی کہا جاتا ہے۔ فرق ان دونوں میں یہ ہے کہ محاورہ یا روزمرہ وہ مخصوص کلمات ہیں جو عموماً بولنے والوں کی زبان پر چڑھے ہوتے ہیں اور لغوی معنی سے علیحدہ اور متجاوز ہوتے ہیں۔ اہل زبان انھیں جن معنوں میں استعمال کرتے ہیں وہی مستند سمجھے جاتے ہیں اور ان میں ردوبدل ممکن نہیں مثلاً تین پانچ کرنا کی جگہ پانچ سات کرنا نہیں کہہ سکتے یا نو دو گیارہ کی جگہ سات نو بارہ کہنا ممکن نہیں، محاورہ زبان کی فصاحت اور بلاغت کو بڑھاتا ہے۔
جہاں تک کہاوت کا تعلق ہے تو وہ محاورے سے یوں الگ ہے کہ کہاوت کے پیچھے کوئی نہ کوئی واقعہ، کہانی یا قصہ ہوتا ہے۔ اوپر جو مثالیں کہاوت کے ضمن میں دی گئی ہیں ان سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکایت ہے۔ محاورہ اور کہاوت عبارت کو بامعنی اور بلیغ بناتی ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اردو زبان کی جو مٹی پلید ہورہی ہے وہ بے حد تشویش ناک رویہ ہے۔ پروگراموں کے دوران چلتے ہوئے Tickers میں ایسی ایسی فاش غلطیاں املا کی ہوتی ہیں کہ سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ پروگرام کا انچارج بھی واجبی سی معلومات رکھتا ہے اور غلطی کو سدھارنے کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ پہلے ایک پی ٹی وی تھا، لیکن اس کی بنیادوں میں زیڈ اے بخاری، اسلم اظہر، قریش پور، عبید اﷲ بیگ اور افتخار عارف جیسے قابل لوگوں کی محنت شامل تھی جو نہ کوئی لفظ غلط لکھا ہوا جانے دیتے تھے اور نہ ہی غلط تلفظ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے لیکن نجی چینلز کی بھرمار سے تلفظ اور املا ایک غیر ضروری چیز قرار پایا۔ رہی سہی کسر ''بریکنگ نیوز'' نے پوری کردی اور ایسی ایسی فاش غلطیاں ہونے لگیں جن کا تصور ہی مضحکہ خیز ہے۔
سب سے پہلے ہم پرنٹ میڈیا کی چند سامنے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا چاہیں گے۔ اردو میں دو متضاد الفاظ ہیں، ایک ''اعلیٰ'' جس کے معنی ہیں اونچا، بلند۔ اور دوسرا لفظ ہے ''سطحی'' یعنی نچلا، غیر معیاری، رذیل، کم ہمت۔۔۔۔۔ ان دونوں لفظوں کو ملاکر سرخیاں یوں بنائی جارہی ہیں۔۔۔۔ پچھلے دنوں ایک ''اعلیٰ سطحی'' اجلاس منعقد ہوا۔۔۔۔۔ اجلاس میں ''اعلیٰ سطحی'' طور پر کئی امور طے کیے گئے۔ ''اعلیٰ سطحی'' کی ترکیب قواعد زبان کے اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ اسے یوں ہونا چاہیے کہ۔۔۔۔ گزشتہ دنوں ایک ''اعلیٰ سطح'' کے اجلاس میں پانی و بجلی کے مسائل پر پیش رفت ہوئی۔ ''اعلیٰ سطحی'' والی سرخی دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ کیا کاپی جڑنے کے بعد صفحات کے انچارج اور ایڈیٹر کی نظروں سے نہیں گزرتی ہوگی۔
اسی طرح کافی عرصے سے رپورٹر حضرات ایک نئی ترکیب ''آئے روز'' کی استعمال کر رہے ہیں جوکہ سراسر غلط ہے۔ صحیح ترکیب ہے ''آئے دن''۔ ''آئے'' اور ''دن'' دونوں ماخذ کے اعتبار سے ''ہندی'' ہیں جب کہ ''روز'' فارسی ہے۔ لہٰذا دو مختلف زبانوں کے لفظوں کو ملاکر ترکیب نہیں بنائی جاتی۔ ''آئے دن'' ویسے بھی بامحاورہ ہے۔۔۔۔۔ اسی طرح ٹیلی ویژن اور اخبارات نے نہ جانے کیوں ''عوام'' کو مونث بنادیا ہے۔ بڑے بڑے کالم نویس اور تجزیہ نگار بھی عوام کو تسلسل کے ساتھ مونث بنا رہے ہیں اور انھیں اس پر ندامت بھی نہیں۔۔۔۔ کیونکہ ان کا مطالعہ محدود ہے۔۔۔۔ علم سے دور ہیں، لغت کبھی دیکھتے نہیں ہیں۔ اس لیے ببانگ دہل غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے کیونکہ ندامت اور شرمندگی بھی اہل علم اور کثیر المطالعہ لوگوں کا وصف ہے۔
اسی طرح کچھ اور بالکل سامنے کی غلطیوں کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ مثلاً ''برا منانا'' غلط ہے، اصل لفظ ہے ''برا ماننا''۔۔۔۔ کالم نویس، ڈرامہ نگار اور اینکر پرسن ایک لفظ استعمال کرتے ہیں ''سمجھ نہیں آئی'' جوکہ بالکل غلط ہے، درست یوں ہے ''میری سمجھ میں نہیں آیا'' یا ''یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی''۔۔۔۔ اسی طرح ایک اور لفظ ہے جو عام طور پر غلط استعمال ہوتا ہے وہ ہے ''روح رواں'' درست یوں ہے ''روح و رواں''۔۔۔۔اسی طرح ''دل کرتا ہے'' نہایت احمقانہ جملہ ہے، صحیح یوں ہے کہ ''دل چاہتا ہے''۔ ان کے علاوہ آئے دن ایسے ایسے غلط الفاط پرنٹ میڈیا میں استعمال کیے جارہے ہیں جن کا احاطہ کرنا ایک کالم میں ممکن نہیں۔
زبانیں تہذیب و تمدن اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ ہر زبان کی اپنی قواعد ہوتی ہے۔ جس سے کسی طور پر روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ زبان اور بولی میں فرق یہ ہے کہ زبان کا اپنا رسم الخط ہوتا ہے جب کہ بولی کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ہوتا۔ وہ کسی دوسری زبان کے رسم الخط کو اختیار کرتی ہے۔ تمام پڑھے لکھے لوگ زبان کی قواعد کا خیال رکھتے ہیں۔ البتہ کم علم لوگ یا وہ جن کا مطالعہ سطحی ہے وہ زبان کی باریکیوں اور اس کی صحت کا بالکل خیال نہیں رکھتے اور اگر انھیں ٹوکا جائے یا ان کی غلطی کا احساس دلایا جائے تو وہ شکر گزار ہونے کے بجائے اپنی جہالت چھپانے کے لیے غصے سے لال پیلے ہوجاتے ہیں۔ اہل علم و دانش ہمیشہ سیکھنے کی منزل میں رہتے ہیں۔ جب کہ نااہل اور سطحی قابلیت کے لوگ غلطی کو طرہ امتیاز سمجھتے ہیں کہ اسی طرح ان کی جہالت چھپ سکتی ہے۔ لکھنے لکھانے والے لوگوں کو زبان کی باریکیوں کا احساس ہونا چاہیے۔ مجھے بہت حیرت ہوتی ہے جب اخبارات کے صفحہ اول پر غلطیوں سے بھرپور شاہکار ''سرخیوں'' کی صورت میں نظر آتے ہیں دراصل ''بریکنگ نیوز'' کے چکر میں نہ زبان کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ قواعد کا، نہ مذکر اور مونث کا اور نہ ہی متضاد الفاظ کا۔ پڑھنے والے سر پیٹتے ہیں اور نئی نسل انہی غلط الفاظ و تراکیب کو صحیح سمجھ کر استعمال کرتی ہے۔ پہلے کبھی اخبارات میں ہر صفحے کے انچارج اور کاتب کے پاس لغت ہوا کرتی تھی، لیکن کمپیوٹر کی کمپوزنگ نے صرف کی بورڈ پر انگلیاں چلانی تو سکھادیں، لیکن زبان سے ناواقفیت نے وہ گل کھلانے شروع کردیے کہ دل برداشتہ کو ''دلبرداشتہ'' بنادیا اور دونوں لفظوں میں معنی کا جو فرق ہے اسے کم علمی اور جہالت کھا گئی۔۔۔۔ناطقہ سربہ گریباں ہے۔۔۔۔؟
محاورے اور کہاوت ہی کو لے لیجیے۔ محاورے کو ہم ''روزمرہ'' کے مماثل تو قرار دے سکتے ہیں لیکن وہ کہاوت کے مماثل نہیں ہے۔ اب میں آپ کو اس کا فرق مثالیں دے کر سمجھاتی ہوں۔ جیسے تین پانچ کرنا، چار چاند لگانا، زندہ درگور ہونا، آنکھیں دکھانا، نو دو گیارہ ہونا، زخموں پر نمک چھڑکنا، یہ سب محاورے ہیں، جب کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا، طویلے کی بلا بندر کے سر،اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت اور گرگ باراں دیدہ۔۔۔۔ وغیرہ یہ سب کہاوتیں ہیں، جنھیں ضرب المثل بھی کہا جاتا ہے۔ فرق ان دونوں میں یہ ہے کہ محاورہ یا روزمرہ وہ مخصوص کلمات ہیں جو عموماً بولنے والوں کی زبان پر چڑھے ہوتے ہیں اور لغوی معنی سے علیحدہ اور متجاوز ہوتے ہیں۔ اہل زبان انھیں جن معنوں میں استعمال کرتے ہیں وہی مستند سمجھے جاتے ہیں اور ان میں ردوبدل ممکن نہیں مثلاً تین پانچ کرنا کی جگہ پانچ سات کرنا نہیں کہہ سکتے یا نو دو گیارہ کی جگہ سات نو بارہ کہنا ممکن نہیں، محاورہ زبان کی فصاحت اور بلاغت کو بڑھاتا ہے۔
جہاں تک کہاوت کا تعلق ہے تو وہ محاورے سے یوں الگ ہے کہ کہاوت کے پیچھے کوئی نہ کوئی واقعہ، کہانی یا قصہ ہوتا ہے۔ اوپر جو مثالیں کہاوت کے ضمن میں دی گئی ہیں ان سب کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکایت ہے۔ محاورہ اور کہاوت عبارت کو بامعنی اور بلیغ بناتی ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اردو زبان کی جو مٹی پلید ہورہی ہے وہ بے حد تشویش ناک رویہ ہے۔ پروگراموں کے دوران چلتے ہوئے Tickers میں ایسی ایسی فاش غلطیاں املا کی ہوتی ہیں کہ سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ پروگرام کا انچارج بھی واجبی سی معلومات رکھتا ہے اور غلطی کو سدھارنے کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ پہلے ایک پی ٹی وی تھا، لیکن اس کی بنیادوں میں زیڈ اے بخاری، اسلم اظہر، قریش پور، عبید اﷲ بیگ اور افتخار عارف جیسے قابل لوگوں کی محنت شامل تھی جو نہ کوئی لفظ غلط لکھا ہوا جانے دیتے تھے اور نہ ہی غلط تلفظ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے لیکن نجی چینلز کی بھرمار سے تلفظ اور املا ایک غیر ضروری چیز قرار پایا۔ رہی سہی کسر ''بریکنگ نیوز'' نے پوری کردی اور ایسی ایسی فاش غلطیاں ہونے لگیں جن کا تصور ہی مضحکہ خیز ہے۔
سب سے پہلے ہم پرنٹ میڈیا کی چند سامنے کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا چاہیں گے۔ اردو میں دو متضاد الفاظ ہیں، ایک ''اعلیٰ'' جس کے معنی ہیں اونچا، بلند۔ اور دوسرا لفظ ہے ''سطحی'' یعنی نچلا، غیر معیاری، رذیل، کم ہمت۔۔۔۔۔ ان دونوں لفظوں کو ملاکر سرخیاں یوں بنائی جارہی ہیں۔۔۔۔ پچھلے دنوں ایک ''اعلیٰ سطحی'' اجلاس منعقد ہوا۔۔۔۔۔ اجلاس میں ''اعلیٰ سطحی'' طور پر کئی امور طے کیے گئے۔ ''اعلیٰ سطحی'' کی ترکیب قواعد زبان کے اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ اسے یوں ہونا چاہیے کہ۔۔۔۔ گزشتہ دنوں ایک ''اعلیٰ سطح'' کے اجلاس میں پانی و بجلی کے مسائل پر پیش رفت ہوئی۔ ''اعلیٰ سطحی'' والی سرخی دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ کیا کاپی جڑنے کے بعد صفحات کے انچارج اور ایڈیٹر کی نظروں سے نہیں گزرتی ہوگی۔
اسی طرح کافی عرصے سے رپورٹر حضرات ایک نئی ترکیب ''آئے روز'' کی استعمال کر رہے ہیں جوکہ سراسر غلط ہے۔ صحیح ترکیب ہے ''آئے دن''۔ ''آئے'' اور ''دن'' دونوں ماخذ کے اعتبار سے ''ہندی'' ہیں جب کہ ''روز'' فارسی ہے۔ لہٰذا دو مختلف زبانوں کے لفظوں کو ملاکر ترکیب نہیں بنائی جاتی۔ ''آئے دن'' ویسے بھی بامحاورہ ہے۔۔۔۔۔ اسی طرح ٹیلی ویژن اور اخبارات نے نہ جانے کیوں ''عوام'' کو مونث بنادیا ہے۔ بڑے بڑے کالم نویس اور تجزیہ نگار بھی عوام کو تسلسل کے ساتھ مونث بنا رہے ہیں اور انھیں اس پر ندامت بھی نہیں۔۔۔۔ کیونکہ ان کا مطالعہ محدود ہے۔۔۔۔ علم سے دور ہیں، لغت کبھی دیکھتے نہیں ہیں۔ اس لیے ببانگ دہل غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے کیونکہ ندامت اور شرمندگی بھی اہل علم اور کثیر المطالعہ لوگوں کا وصف ہے۔
اسی طرح کچھ اور بالکل سامنے کی غلطیوں کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ مثلاً ''برا منانا'' غلط ہے، اصل لفظ ہے ''برا ماننا''۔۔۔۔ کالم نویس، ڈرامہ نگار اور اینکر پرسن ایک لفظ استعمال کرتے ہیں ''سمجھ نہیں آئی'' جوکہ بالکل غلط ہے، درست یوں ہے ''میری سمجھ میں نہیں آیا'' یا ''یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی''۔۔۔۔ اسی طرح ایک اور لفظ ہے جو عام طور پر غلط استعمال ہوتا ہے وہ ہے ''روح رواں'' درست یوں ہے ''روح و رواں''۔۔۔۔اسی طرح ''دل کرتا ہے'' نہایت احمقانہ جملہ ہے، صحیح یوں ہے کہ ''دل چاہتا ہے''۔ ان کے علاوہ آئے دن ایسے ایسے غلط الفاط پرنٹ میڈیا میں استعمال کیے جارہے ہیں جن کا احاطہ کرنا ایک کالم میں ممکن نہیں۔
زبانیں تہذیب و تمدن اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ ہر زبان کی اپنی قواعد ہوتی ہے۔ جس سے کسی طور پر روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ زبان اور بولی میں فرق یہ ہے کہ زبان کا اپنا رسم الخط ہوتا ہے جب کہ بولی کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ہوتا۔ وہ کسی دوسری زبان کے رسم الخط کو اختیار کرتی ہے۔ تمام پڑھے لکھے لوگ زبان کی قواعد کا خیال رکھتے ہیں۔ البتہ کم علم لوگ یا وہ جن کا مطالعہ سطحی ہے وہ زبان کی باریکیوں اور اس کی صحت کا بالکل خیال نہیں رکھتے اور اگر انھیں ٹوکا جائے یا ان کی غلطی کا احساس دلایا جائے تو وہ شکر گزار ہونے کے بجائے اپنی جہالت چھپانے کے لیے غصے سے لال پیلے ہوجاتے ہیں۔ اہل علم و دانش ہمیشہ سیکھنے کی منزل میں رہتے ہیں۔ جب کہ نااہل اور سطحی قابلیت کے لوگ غلطی کو طرہ امتیاز سمجھتے ہیں کہ اسی طرح ان کی جہالت چھپ سکتی ہے۔ لکھنے لکھانے والے لوگوں کو زبان کی باریکیوں کا احساس ہونا چاہیے۔ مجھے بہت حیرت ہوتی ہے جب اخبارات کے صفحہ اول پر غلطیوں سے بھرپور شاہکار ''سرخیوں'' کی صورت میں نظر آتے ہیں دراصل ''بریکنگ نیوز'' کے چکر میں نہ زبان کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ قواعد کا، نہ مذکر اور مونث کا اور نہ ہی متضاد الفاظ کا۔ پڑھنے والے سر پیٹتے ہیں اور نئی نسل انہی غلط الفاظ و تراکیب کو صحیح سمجھ کر استعمال کرتی ہے۔ پہلے کبھی اخبارات میں ہر صفحے کے انچارج اور کاتب کے پاس لغت ہوا کرتی تھی، لیکن کمپیوٹر کی کمپوزنگ نے صرف کی بورڈ پر انگلیاں چلانی تو سکھادیں، لیکن زبان سے ناواقفیت نے وہ گل کھلانے شروع کردیے کہ دل برداشتہ کو ''دلبرداشتہ'' بنادیا اور دونوں لفظوں میں معنی کا جو فرق ہے اسے کم علمی اور جہالت کھا گئی۔۔۔۔ناطقہ سربہ گریباں ہے۔۔۔۔؟