ہیپی فادرز ڈے…

ابھی ابھی تم میرے کمرے سے نکل کر گئے ہو میرے بیٹے… اس سے قبل شام کو سونے سے پہلے تمہارے بچے مجھے شب بخیر۔۔۔

Shireenhaider65@hotmail.com

KARACHI:
ابھی ابھی تم میرے کمرے سے نکل کر گئے ہو میرے بیٹے... اس سے قبل شام کو سونے سے پہلے تمہارے بچے مجھے شب بخیر کہنے آئے تو ساتھ ہی انھوں نے مجھے ''فادرز ڈے'' کی مبارک باد دی اور وہ دونوں تم پر ناراض تھے کہ آج کے دن تم جلد لوٹ کرآتے اور میرے ساتھ زیادہ وقت گزارتے... میں نے ان کی بات پر ہنس کر انھیں تسلی دی تھی کہ اولاد اور والدین میں محبت کا ایک ایسا اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے کہ ان کے لیے کسی مخصوص دن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر بھی وہ کافی دیر تک جاگ کر انتظار کرتے رہے کہ وہ تمہیں گھر لوٹ کر مجھے ''wish'' کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے، اور یہ بھی جاننے کو بے چین تھے کہ تم آج کے دن مجھے کیا تحفہ دیتے ہو۔

جانے یہ کیا نئے نئے رواج ہمارے معاشرے میں در کر آئے ہیں؟ مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ بچے کل کو تمہیں ''فادرز ڈے'' کے موقع پر ہی ملنے کو آیا کریں گے۔ تمہارے لیے تحفے لایا کریں گے اور تم سے محبت کی تجدید کیا کریں گے... چلو، جب یہی رسم وفا ٹھہرے گی تو کوئی استثنیٰ تو نہ ہو گا۔ میں کئی گھنٹوں سے ہر روز شام کو اس وقت تک جاگتا رہتا ہوں جب تک تم گھر لوٹ کر مجھے اپنی شکل نہ دکھا لو، میر ے پاس بیٹھتے ہو تو میں تمہیں دیکھ کر سکون محسوس کرتا ہوں، اولاد ہر باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ تمہارا ہاتھ تھام کر میں اسے اپنی آنکھوں سے لگاتا ہوں، تمہیں بوسہ دے کر میں تمہاری دن بھر کی تھکن کو اپنے اندر سمیٹنے کو کوشش کرتا ہوں، میرے کمرے میں آ کر تم عادتاً کسی نہ کسی بات پر نکتہ چینی ضرور کرتے ہو، تم مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے ہو، میں دل ہی دل میں ہنس دیتا ہوں، یہی قدرت کا اصول ہے کہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ اپنے ماں باپ کو اپنے بچوں کی طرح سمجھنا شروع کر دیتے ہیں... مجھے خوشی ہوتی ہے کہ تم کسی بہانے سہی مگر کوئی ایسی بات کرتے ہو جو تمہارے چلے جانے کے بعد بھی دیر تک میرے ذہن میں رہتی ہے اور میں اس بات کو یاد کرتے ہوئے تمہاری موجودگی کو اپنے اردگرد محسوس کرتا ہوں۔ مثلاً

...ابا جی اتنا تیل نہ لگایا کریں، سرہانے پیلے کر رکھے ہیں آپ نے!
...کم روشنی میں نہ پڑھا کریں ، نظر کمزور ہو گئی ہے آپ کی!
...دوا احتیاط سے کھولا کریں، فرش پر آپ کی نیند کی گولی گری ہوئی ہے، کسی وقت کوئی بچہ اٹھا کر نہ کھا لے!
...کمرے میں ڈسٹ بن میں نہ تھوکا کریں ابا جی، باتھ روم میں جا کر تھوکا کریں۔
...روز نہایا کریں ابا جی، smell آتی ہے تو بچے بھی کہتے ہیں!

...اپنا وقت عبادت میں گزارا کریں ابا جی، ضروری نہیں کہ ہر آئے گئے کے پاس آپ جا کر بیٹھ جائیں، اب ہم ہیں نہ سب کو ملنے جلنے کے لیے!
...ملازموں کو ڈانٹا نہ کریں، بھاگ جائیں تو کام کون کرے گا آپ کے اور ہمارے؟

تمہاری یہی اور ایسی کئی باتیں میرے پاس تمہاری یادوں کے طور پر جمع ہیں اور ان کے ذریعے میں اکثر ماضی میں چلا جاتا ہوں، جب تم بچے تھے، معصوم تھے، بے بس تھے، بیمار تھے...ہاتھ کانپتے ہیں بیٹا تو کبھی دوا گر جاتی ہے، نظر کی کمزوری کے باعث نظر نہیں آتی ورنہ اٹھا دوں... آرتھرائٹس کی وجہ سے ہڈیاں اور جوڑ دکھتے ہیں اس لیے نہانا میرے لیے اپنی تکلیف میں اضافے کا خود باعث بنتا ہے، ٹانگوں میں کہاں سکت ہے بیٹا کہ ہر بار بلغم تھوکنے کو باتھ روم جاؤں، ملازم کواس لیے ڈانٹتا ہوں کہ کئی کئی دن میرا ڈسٹ بن تک میرے کمرے سے نہیں اٹھاتا، بو اسی کی وجہ سے ہوتی ہے جو تمہارے بچے میرے کمرے میں آکر اپنی ناک بند کرتے پھرتے ہیں اور ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہیں، جو وہ سمجھتے ہیں کہ میں نہیں دیکھتا۔ ان کے چند منٹ کے لیے میرے کمرے میں آنے پر (جو وہ تمہارے کہنے پر آتے ہیں) تمہاری بیوی ناک بھوں چڑھاتی ہے اور فوراً انھیں پکارتی ہے۔

سر میں تیل اس لیے لگاتا ہوں کہ دوائیں کھا کھا کر خشکی ہو گئی ہے، سر میں خارش ہونا شروع ہو جاتی ہے... کم روشنی میں کیوں پڑھتا ہوں، خود سے پوچھا کبھی تم نے... ایک بلب میرے کمرے میں اس سے زیادہ کیا روشنی دے گا، میرے کمرے کی ٹیوب لائٹ گزشتہ ایک سال سے خراب ہے، ملازموں کو بھی علم ہے اور تم بھی دیکھ کر مجھے ہی پیار بھری ڈانٹ دیتے ہو، کبھی یہ سوئچ آن کر کے دیکھو تو تمہیں اندازہ ہو کہ میں اس سے زیادہ روشنی کہاں سے لاؤں، آئے گئے سے اس لیے ملنے چلا آتا ہوں کہ اپنے کمرے کی تنہائی بعض دفعہ کاٹنے لگتی ہے، عموماً تو کمرے میں ہی پڑا رہتا ہوں۔

''آج تو بچے سو ہی نہیں رہے تھے، کہہ رہے تھے کہ ''فادرزڈے'' ہے، میں نے ہنس کر تمہیں بتایا، ''وہ جاگ رہے تھے اور دیکھنا چاہ رہے تھے کہ تم مجھے کیسے وش کرتے ہو اور میرے لیے کیا تحفہ لاتے ہو!'' تم نے میری بات سنی ان سنی کر دی تھی۔ میں نے تمہارا چہرہ دیکھا...''ہاں ہاں... وہ لوگ سو گئے مگر انھوں نے میرے لیے پھول منگوا رکھے تھے، ابھی ان کی ماں نے دئیے ہیں مجھے...'' میں نے عجیب انداز میں سوچا... ان کی ماں انھیں تمہارے لیے پھول منگوا کر دے سکتی ہے تو میں بھی تو ایک باپ ہوں، اس کے لیے بھی اور اس کے بچوں کے باپ کا باپ، مجھے بھی وہ ان کے ہاتھوں سے پھول دلواسکتی تھی یا اپنی طرف سے دے سکتی تھی، کیا میں حسد محسوس کر رہا تھا، میں نے سوچا، نہیں نہیں... اچھا ہے کہ تمہارے بیوی اور بچے تم سے محبت کرتے اور اس کا اظہار کرتے ہیں، مجھے دلی خوشی محسوس ہوئی۔مگر جاتے جاتے... ایک لمحے میں تم نے آج ایک ایسی بات کی ہے جس نے میرے وجود کی گہرائیوں میں زخم لگا دئے ہیں... میں ماضی میں چلا گیا ہوں، میں ہر اس گزرے وقت کو یاد کر رہا ہوں جس میں، میں اور تم ایک مضبوط رشتے کی ڈور میں بندھے تھے، میں نے تم سے غیر مشروط محبت کی ہے، جس طرح تم اپنی اولاد سے کرتے ہو، محبت ایک دریا ہے اور ہر دریا نشیب کی طرف بہتا ہے میرے بیٹے... میرے لیے وہ لمحہ زندگی کا بہترین لمحہ تھا جب میں تمہارا باپ بنا تھا، میں ہر ایک کو فخر سے بتاتا تھا کہ تم میرے بیٹے ہو۔ ہم میاں بیوی نے تمہاری عمر کے پہلے دو سال تمہاری خاطر راتوں کو جاگ جاگ کر گزارے، تم ہماری گود میں ہر حاجت سے فارغ ہو جاتے تو بھی ہمیں بدبو محسوس نہ ہوتی، تمہیں قے آتی تو ہم اسے اپنے ہاتھوں سے سمیٹتے، تمہاری ہر خواہش اور ضرورت ہمیں تمہارے مانگنے سے پہلے علم ہوتی اور ہم اسے پورا کرتے تھے۔مجھے یاد ہے وہ وقت جب تم ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے اور ہماری ساری امیدیں دم توڑ گئی تھیں، تمہارے خون کا گروپ ایسا تھا کہ عام طور پر میسر نہ تھا، میں نے کئی بار تمہارے لیے اپنا خون دیا، اس مقدار سے زیادہ جتنا کہ عام آدمی دے سکتا ہے... تمہاری بیماری بڑھ گئی... ہماری امیدوں کی شمعیں ٹمٹمانے لگیں، ہم نے ہر در کھٹکھٹایا... تم ہماری ساری دولت تھے میرے بیٹے اور ہم نے تمہاری زندگی بچانے کے لیے اپنا سب کچھ وقف کر دیا تھا۔ آج تمہیں اپنے سامنے دیکھتا ہوں تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ تم سلامت ہو، یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اللہ تمہیں ہمیشہ سلامت رکھے، تمہاری ماں یہ سب کچھ دیکھنے کو اس دنیا میں نہیں ہے... اس بات پر بھی آج اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ وہ یہ سب دیکھنے اور سننے کے لیے زندہ نہیں ہے جو تم نے آج کہا ہے...''کیا کرتے ہیں ابا جی آپ؟ دھیان کہاں ہوتا ہے آپ کا؟ آنکھوں کے قطروں کی بوتل کھلی چھوڑ رکھی ہے آپ نے اور وہ نیچے گری پڑی ہے...

ساری دوا ضائع ہو چکی ہے... سات سو روپے کی یہ ننھی سی دوا کی بوتل آتی ہے ابا جی جس میں مشکل سے پنتیس قطرے ہوتے ہیں، ایک ایک قطرہ بیس روپے کا ابا جی اور آپ نے پوری بوتل ضائع کر دی!'' تم نے دوا کی خالی بوتل کو اٹھا کر اس ڈسٹ بن میں پھینک دیا جس کی پچھلے چار دن سے تمہارے ملازم نے صفائی نہیں کی، تم کہہ کر چلے گئے، شکر ہے کہ تم چلے گئے اور تم نے مڑ کر نہیں دیکھا، ورنہ جس باپ کو تم نے عمر بھر پریشان نہیں دیکھا، اس کی آنکھوں سے چھلکتے آنسو نہیں بلکہ ٹپکتا ہوا لہو دیکھ کر تم حیران رہ جاتے، جو تم رکتے تو میں تم سے یہ نہ پوچھ لیتا کہ کیا قیمت ہے لہو کے ہر اس قطرے کی جو میں نے تمہاری جان بچانے کو دیا تھا، اور اس گودے کی جو تمہاری ہڈیوں میں ہے...اچھا ہوا کہ تم رکے نہیں... ایک باپ کا بھرم بھی رہ گیا اور اس دکھ کی تصویر تمہارے ذہن پر نقش نہ ہوئی جو فادرز ڈے کے اس تحفے پر تمہارے باپ کو محسوس ہوا ہے، سب اچھا ہو گیا، اللہ سب کچھ اچھا کرے تمہارے ساتھ بھی، تم بھی باپ بن چکے ہو، فادرز ڈے تمہیں بھی مبارک ہو اور میری دعا ہے کہ تمہیں عمر بھر اپنی اولاد سے اس دن پر اچھے تحفے ہی ملیں... سوتا ہوں میرے بیٹے، تم سلامت رہو ہزار برس اور ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار...
Load Next Story